1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

غیر مسلموں سے سماجی تعلقات ۔۔۔۔ مفتی تنظیم عالم قاسمی

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏23 مئی 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    غیر مسلموں سے سماجی تعلقات ۔۔۔۔ مفتی تنظیم عالم قاسمی

    ضرورتمندوں اور محتاجوں کی ضرورت پوری کرنا اجر و ثواب کا موجب ہے ، محتاج شخص مسلمان ہو یا غیر مسلم رشتہ دار ہو یا غیر رشتہ دار ، ہر ایک پر خرچ کرنے کا جذبہ نیک اورباعث اجر ہے
    اسلام اپنے متبعین کو بلند اخلاق اور اعلیٰ ظرفی کی تعلیم دیتا ہے ۔ اسلامی شریعت یہ نہیں چاہتی کہ بد اخلاقی اور نامناسب زبان استعمال کی جائے یا کسی بھی معاملے میں تنگ ذہنی برتی جائے چنانچہ اسلام نے مسلمانوں کو باہمی اخلاقیات کی جو تعلیم اور ہدایات دی ہیں ، ان کا راست مصداق تو مسلمان ہیں ، تاہم غیر مسلم بھی اس میں شامل ہیں ، جیسے اسلام میں پڑوسیوں کی بڑی اہمیت بتائی گئی ہے ـ۔ان کے ساتھ حسن سلوک ، حسن اخلاق کی تعلیم دی ہے اور ان کو اپنے شر سے حفاظت کی ہدایت دی ہے ۔ اس میں مسلم اور غیر مسلم دونوں داخل ہیں ، یعنی جس طرح مسلمان پڑوسی کو تکلیف سے محفوظ رکھا جائے گا اور اسے خوشی و راحت میں شامل کیا جائے گا ، اسی طرح غیر مسلم پڑوسی کا بھی حق ہے کہ اسے امن فراہم کیا جائے اور حسن سلوک کا معاملہ کیا جائے۔صحابۂ کرام ؓنے اس پر سختی سے عمل کیا ۔
    حضرت عبد اﷲ بن عمر ؓ نے ایک بار ایک بکری ذبح کرائی ، غلام کو ہدایت کی کہ وہ سب سے پہلے پڑوسی کو گوشت پہنچائے۔ ایک شخص نے کہا :حضور ! وہ تو یہودی ہے ، آپ ؓنے فرمایا یہودی ہے تو کیا ہوا ، یہ کہہ کر رسول اکرم کا ارشاد نقل فرمایا کہ جبرئیل نے مجھے اس قدر اور مسلسل وصیت کی کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ وہ پڑوسیوں کو وراثت میں حصہ دار بنادیںگے( ابوداؤ ، کتاب الادب )۔
    قرآن میں’’ پہلو کے ساتھی‘‘ کو بھی پڑوسی بتایا گیا ہے جس کو ’’الصاحب بالجنب‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔اس سے مراد ہم نشیں دوست بھی ہے ، اور ایسا شخص بھی جس سے کہیں کسی وقت آدمی کا ساتھ ہوجائے ، جیسے بازار جاتے آتے ہوئے کارخانہ یا دوکان اور فیکٹری میں کام کرتے ہوئے یاکسی اور طرح ایک دوسرے کی صحبت حاصل ہو وہاں بھی حکم دیا گیا ہے کہ نیک برتاؤ کرے اور تکلیف نہ دے۔ اس میں بھی مسلم اور غیر مسلم کی کوئی قید نہیں ۔ ایسے ہی پڑوسی کی جتنی بھی صورتیں ہوسکتی ہیں ، سب میں مسلمان کے ساتھ غیر مسلم بھی داخل ہیں ۔
    سماجی زندگی میں تحائف اور ہدایا کے لین دین کی بڑی اہمیت ہے۔اس سے دوستی بڑھتی ہے ، باہمی فاصلے کم ہوتے ہیں اور دلوں سے تکلیف و رنج کے آثار دور ہوتے ہیں ، اس راز کو بیان کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
    تہادوا تحابوا۔
    ’’تحائف کا لین دین کرو محبت میں اضافہ ہوگا ۔‘‘
    یہ حکم بھی عام ہے ، اس سے غیر مسلم خارج نہیں بلکہ ان سے بھی تحائف کا تبادلہ کیا جانا چاہئے ، احادیث میں غیر مسلموں کو تحفے دینے اور ان کے تحفے قبول کرنے کا ثبوت موجود ہے ۔سماج میں خوشگوار زندگی گزارنے کے لئے مہمانوں کی آمد و رفت اور دعوت کھانے اور قبول کرنے کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو دعوت دے تو اسے قبول کرنا پسندیدہ ہے۔ بلا وجہ اسے رد کرنے سے شریعت نے منع کیا ہے۔اسی طرح غیر مسلم کے ساتھ بھی جائز مقاصد کے لئے کھانا پینا مباح ہے۔ وقت ضرورت اسے دعوت دی جاسکتی ہے اور اس کی دعوت قبول کی جاسکتی ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کی دعوت قبول فرمائی ہے اور آپ ؐ نے غیر مسلموں کے کھانے پینے کا بھی اہتمام فرمایا ہے ، چنانچہ قبیلۂ ثقیف کے وفد کو جو ابھی اسلام نہیں لایا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں ٹھہرایا ، حضرت خالد بن سعید آپ کے حکم سے اس کے کھانے پینے کا نظم فرماتے تھے ( ابن ہشام)۔
    اگر کوئی شخص بیمار ہوجائے تو اس کی عیادت اور مزاج پرسی کی تعلیم دی گئی ہے ، اس سے ہمدردی کا اظہار اور مریض سے یگانگت ہوتی ہے ، اس کے بڑے فضائل آئے ہیں۔مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم کی عیادت کا بھی یہی حکم ہے ۔ حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ ایک یہودی لڑکا رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا ، وہ بیمار ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی عیادت کے لئے تشریف لئے گئے ( صحیح بخاری )۔
    ضرورت مندوں اور محتاجوں پر خرچ کرنا ، ان کی ضرورت پوری کرنا ، بڑے اجر و ثواب کا موجب ہے ، اس میں عقیدہ اور دین و مذہب کا فرق نہیں رکھا گیا ہے ، محتاج شخص مسلمان ہو یا غیر مسلم ، مشرک ہو یا اہل کتاب ، رشتہ دار ہو یا غیر رشتہ دار ، ہر ایک پر خرچ کرنے کا جذبہ نیک اورباعث اجر ہے ، ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
    ’ تمام اہل مذاہب پر صدقہ و خیرات کرو ‘‘( ابن ابی شیبہ)۔
    اس میں انسانیت کا احترام ہے ، اس لئے کہ بھوک و پیاس ہر ایک کو لگتی ہے ، غیر مسلم بھی اﷲ کے بندے اور مخلوق ہیں ، ان کے ساتھ ہمدردی کی جانی چاہئے ، بحیثیت انسان وہ بھی ہمارے حسن اخلاق اور رحم دلی کے مستحق ہیں ۔
    قیدیوں کے ساتھ ظلم و ستم کا عام رجحان ہے۔ وہ چونکہ کمزور اور ناتواں بن کر ماتحتی میں آتے ہیں ، اس لئے ان کے ساتھ نازیبا سلوک کیا جاتا ہے ، اسلام نے اسے سختی سے منع کیا ہے ۔ سورۂ دھر آیت8 میں مسکینوں اور یتیموں کے ساتھ قیدیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی ہدایت دی گئی ہے، عہد نبوی ؐمیں قیدی صرف غیر مسلم ہوا کرتے تھے ، اس لئے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قیدی خواہ غیر مسلم ہو ، اس کے ساتھ بہتر سلوک کیا جائے گا ۔
    صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے قیدیوں کے ساتھ جو حسن سلوک کیا ، تاریخ اس کی مثال پیش نہیں کرسکتی ۔جنگ بدر میں جب 70 قیدی ہاتھ میں آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف صحابۂ کرام کے درمیان ان کو دیکھ بھال کے لئے تقسیم کیا اور بہتر سلوک کی ہدایت دی تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کے ساتھ حیرت انگیز حسن سلوک کا معاملہ کیا ، خود بھوکے رہے یا روکھا سوکھا کھایا مگر انھیں اچھا کھلایا پلایا ، ان کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر مقدم رکھا ، خود تکلیف اُٹھاکر اپنے قیدیوں کو راحت پہنچائی جبکہ وہ حالت جنگ تھی اور ان ہی کفار کے ہاتھوں یہ ستائے گئے تھے یہاں تک ان کے مظالم کے سبب صحابۂ کرا م کو اپنا وطن چھوڑ دینا پڑا ، ان سب کے باوجود غیر مسلموں کے ساتھ یہ رواداری اور بہتر سلوک سارے مسلمانوں کے لئے ایک آئیڈیل ہے ، جس کے نقش قدم پر چلنا ہمارا نصب العین ہونا چاہئے ۔
    دوسروں کے لئے دُعاء قلبی سخاوت اور وسعت ِ ذہنی کی مثال اور آئینہ ہے ، اس میں اظہار ہمدردی اور خیر خواہی بھی ہے کہ دوسروں کے لئے ایک شخص وہی چاہتا ہے جو اپنے لئے چاہتا ہے ۔اسلام نے دوسروں کی ترقی ، راحت اور خوشحالی کی تمنا کرنے کی ہدایت دی ہے ، یہ مسلمانوں کے لئے بھی ہے اور غیر مسلم کے لئے بھی۔حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے پینے کی کوئی چیز طلب کی، اس نے وہ پیش کی تو آپ انے اسے دُعاء دی کہ اﷲ تعالیٰ تمہیں حسین و جمیل رکھے چنانچہ مرتے وقت تک اس کے بال سیاہ رہے (مصنف عبد الرزاق) ۔
    تاہم بہتر یہ ہے کہ پہلے غیر مسلموں کی ہدایت کے لئے دُعاء کی جائے ، یہی اصل ہمدردی اور خیر خواہی ہے ، اس لئے کہ اس سے وہ ہمیشہ کے عذاب سے محفوظ رہیں گے ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اکثر ہدایت کی دُعاء فرماتے تھے ۔
    شریعت نے عدل و انصاف کی بہت سخت تاکید کی ہے بلکہ یہ اسلام کا امتیازی وصف ہے کہ انسان کسی بھی حال میں ہو وہ عدل و انصاف کو ترک نہ کرے ۔ اسلام اپنے متبعین کو ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی فرد یا گروہ پر دست تعدی دراز کریں ، چاہے اس سے کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں اور اس نے کتنی ہی زیادتی کیوں نہ کی ہواس لئے کہ عدل سے کام نہ لینا ظلم ہے اور ظلم کبھی اﷲ تعالیٰ کو برداشت نہیں،خواہ وہ کسی جانور کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مظلوم کی بددُعاء سے بچنے کی تاکید کی ہے ، جس میں مسلم اور غیر مسلم دونوں داخل ہیں ۔حضرت عبید اﷲ بن فاروق رضی اللہ عنہ نے2 کافروں کو اس شبہ میں قتل کردیا کہ وہ قتل عمر میں شریک تھے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مسند خلافت پر پہنچے تو انھوں نے مہاجرین و انصار سے رائے لی ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فتویٰ دیاکہ عبید اللہ بن فاروق کی گردن اڑا دی جائے مہاجرین نے بالاتفاق کہاکہ عمر کے بیٹے کو قتل کردینا چاہئے۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنے پاس سے خون بہا ادا کرکے معاملہ رفع دفع کردیا ( اسلامی رواداری)۔
    غیر مسلموں کے حق میں صحابۂ کرا م رضی اللہ عنہ نے عدل و انصاف کا جو نمونہ پیش کیا ہے۔ اقوام عالم میں اس کی مثال نہیں ملتی ، مسلمان اپنی زندگی میں اگر یہ کردار شامل کرلیں تو سماج میں پائے جانے والے اختلافات بڑی حد تک ختم ہوسکتے ہیں ۔
     
  2. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    مسجد ایک مقدس جگہ ہے ، اس کو پاک رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ، وہاں مسلمان عبادت کرتے ہیں ، اس لئے ہر طرح کی آلودگی ، بچوں کی آمد و رفت ، شور و شرابہ ، ناپاک لوگوں کے داخلے سے حفاظت ایمان کا حصہ ہے ، اس کے باوجود غیر مسلم اقوام کے مسجد میں داخلہ اور قیام کا ثبوت ملتا ہے۔ وفد ثقیف جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے مسجد میں خیمہ لگوایا تاکہ وہ مسلمانوں کو نماز پڑھتے دیکھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں مسجد میں ٹھہرا رہے ہیں جبکہ وہ مشرک ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    زمین نجس نہیں ہوتی ، نجس تو ابن آدم ہوتا ہے ( نصب الرایہ )۔
    غیر مسلم کو عقیدے کے اعتبار سے قرآن نے ناپاک کہا ہے تاہم جسمانی اعتبار سے اگر وہ پاک صاف رہیں تو مسجد میں داخلے کی ممانعت نہیں ہوگی ، بالخصوص اس نیت سے کہ مسلمانوں کے طریقۂ عبادت ، ان کی اجتماعیت اور سیرت و اخلاق کو دیکھ کر ان کے دل نرم پڑیں اور اسلام کی طرف وہ مائل ہوں جیساکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف وفود اور اشخاص کو مسجد میں قیام کی اجازت اسی مقصد کے تحت دی تھی ۔
    خوشی اور غم خواہ غیر مسلم کو ہی کیوں حاصل نہ ہو ، وہ انسان ہیں ، اس لئے ان کی خوشی اور غم میں شمولیت حدود میں رہتے ہوئے جائز ہے۔جنازہ تصور و خیال کو آخرت کی طرف لے جاتا ہے اور انسان کو چونکا دیتا ہے ، اس لئے کہیں سے کوئی جنازہ گزرے تو انسان کو کھڑا ہوجانا چاہئے ، اگر یہ جنازہ غیر مسلم کا بھی ہو تو بھی یہی حکم ہے ، ایک مرتبہ ایک یہودی کا جنازہ گزرا تو رسول اکرم کھڑے ہوگئے۔ صحابہ نے عرض کیا یہ تو یہودی کا جنازہ ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آخر وہ بھی تو انسان تھا ’’ إن فیہ لنفساً‘‘( بخاری ، بحوالہ مشکاۃ)۔
    یعنی ہم نے انسانیت کا احترام کیا ہے اور انسان ہونے میں تمام نوع بنی آدم یکساں ہیں ۔
    موت ایک خوفناک حادثہ ہے ۔یہ حادثہ مسلمانوں کو ہوتو وہ یقینا لمحۂ فکر ہے لیکن غیر مسلم کے گھر میں بھی یہ حادثہ پیش آئے تو اس کی بھی تعزیت کی جانی چاہئے اور انسانی ہمدردی کا اظہار کیاجانا چاہئے ، یہ ایک سماجی تقاضا ہے اور عین اسلام کی تعلیم پر عمل ہے ۔
    امام ابویوسف رحمہ اللہؒ کا بیان ہے کہ حضرت حسن بصری کے پاس ایک نصرانی آتا اور آپ کی مجلس میں بیٹھا کرتا تھا ۔جب اس کا انتقال ہوا تو انھوں نے اس کے بھائی سے تعزیت کی اور فرمایا : تم پر جو مصیبت آئی ہے ، اﷲ تعالیٰ تمہیں اس کا وہ ثواب عطا کرے جو تمہارے ہم مذہب لوگوں کو عطا کرتا ہے ، موت کو ہم سب کے لئے برکت کا باعث بنائے اور وہ ایک خیر ہو جس کا ہم انتظار کریں ، جو مصیبت آئی ہے ، اس پر صبر کا دامن نہ چھوڑو ( غیر مسلموں سے تعلقات) ۔
    کاروبار ، خرید و فروخت ، لین دین انسانی زندگی کا لازمی جزو ہیں۔ یہ چیزیں جس طرح مسلمانوں کے ساتھ درست ہیں اسی طرح غیر مسلم افراد کے ساتھ بھی جائز ہیں ، غیر مسلم طبقے سے تجارتی تعلقات شرعی حدود میں رہتے ہوئے کئے جاسکتے ہیں۔
    ً خلاصہ یہ ہے کہ انسانیت میں ساری ا قوام شامل ہیں ، جہاں انسانیت کی بات آئے گی وہاں ان کے ساتھ ہمدردی ، خیر خواہی روا داری وغیرہ میں کوئی کوتاہی نہیں کی جائے گی ، اچھے اخلاق کے ذریعہ ہم ایک اچھا انسان ہونے کا ثبوت دیں گے تاکہ اسلام کی اچھی تصویر ان کے ذہن میں بیٹھے اور کم از کم اسلام اور مسلمانوں کے تئیں نرم گوشہ ان کے دل میں پیدا ہو۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں