1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

غیرمسلموں کی تہذیب اوراس کے اثرات

Discussion in 'تعلیماتِ قرآن و حدیث' started by مفتی ناصرمظاہری, Feb 6, 2013.

  1. ہندوستان کے مشترکہ کلچر کی نشوو نمامیں تین قسم کے رویے نظر آتے ہیں ایک رویہ اس طبقہ کا ہے جو بالکل الگ تھلک رہنا چاہتا ہے دوسرا طبقہ مخصوص حدود میں میل ملاپ چاہتا ہے اورتیسرا طبقہ ہر قسم کی پابندیوںسے بے نیازہوکر اورٹوٹ کر ملنے پرآمادہ رہتا ہے ،میرے پیش نظر اس مضمون میں آخرالذکردو طبقوںکا رویہ رہے گا کیونکہ پہلے طبقہ کی حالت تو یہ ہے کہ وہ ہر قیمت پر اپنے آپ کو الگ رکھنا چاہتا ہے چاہے اس کوشش میں صورت حال مضحکہ خیزہی کیوں نہ ہوجائے چنانچہ ہندؤں میں چھوت چھات اورمسلمانوں میں مشابہت سے بچنے کا جذبہ اکثر ایسی ہی صورت پیدا کردیتا ہے ،شیخ محمد عبد اللہ وزیر اعلیٰ کشمیرراوی ہیںکہ قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی دو قوموںکی تھیوری کے جوازمیں ان کے سامنے یہ قصہ بیان کیا کہ ایک دفعہ غالباً پنڈت مدن موہن مالوی سے ایسے وقت ملنے آئے جب کہ قائد اعظم کھانا کھانے بیٹھ رہے تھے انہوں نے پنڈت جی کو میز پر ہی بلالیااورچونکہ میز پر کچھ سبزیاںبھی موجود تھیں،پنڈت جی کو کھانے میں شریک ہونے کی دعوت دی ،پنڈت جی نے کہا کہ مجھے آپ کے ساتھ بیٹھ کر سبزی کا کھانا کھانے میںکوئی ترددنہیںلیکن میز پوش اورنیچے سے قالین ہٹوادیںکیونکہ ہمارے نزدیک چھوت کپڑے کے ذریعہ لگتی ہے ،آپ کی چھوت میز پوش اورقالین کے ذریعہ سفر کرتی ہوئی مجھ تک آسکتی ہے ۔
    دومشہور مسلمان عالموںکا قصہ ہے کہ ان پرکچھ ایسی افتاد پڑی کہ میز کرسی پرکھانا کھانے کے لئے مجبور ہوگئے بیٹھنے کو میز کرسی پر بیٹھ گئے مگر آنکھوںہی آنکھوںمیں سوال وجواب ہونے لگے اورایک دوسرے سے گویا یہ کہا جانے لگاکہ میز کرسی پر تو کرسٹان کھانے کھاتے ہیں ہم بھی میز پر کھائیں گے تو ان کی مشابہت ہوجائے گی ۔ آخرایک مولانا کویہ ترکیب سوجھی کہ کرسی پر معمول کے مطابق پیرلٹکاکرنہ بیٹھیںبلکہ اکڑوںیا آلتی پالتی مار کربیٹھ جائیں،ہر چند کہ یہ صورت مضحکہ خیزہوگی لیکن کرسٹانوں کی مشابہت سے تو بچ جائیں گے ۔
    دوسرے طبقے کے پیش نظر ہمیشہ اسلام کا یہ اصول رہتا ہے کہ بنیادجواز ہے اورناجائز صرف وہی چیزیں ہیں جن کی صاف طورپرنشان دہی کردی گئی ہواورجن سے روک دیا گیا ہوچنانچہ یہ لوگ غیر عرب ممالک کے ان تمام علوم وفنون اوررسم ورواج کو اپنانے میںہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے جو اسلام کے بنیادی اصولوںسے نہیں ٹکراتے ۔
    تیسرا رویہ اس طبقہ کا ہے جو نیا نیا مسلمان کیا جاتا ہے اورجائز ناجائز کی بحث سے الگ اپنے قدیم رسم ورواج کو یکسر چھوڑنے کے لئے آمادہ نہیں ہوتا ،ہندوستان کے بت پرست عربوںکی طرح صرف روٹی ،بیٹے اورجنگ جیتنے کے لئے دیوی دیوتاؤںکو نہیں پوجتے تھے ،ان کے ہاں دنیا اورآخرت کے بارے میںباقاعدہ ایک فلسفہ تھا اوراپنے عقیدے میں وہ اتنے راسخ تھے کہ حضرت امیر خسروؒ ان کی مثال دے کر مسلمانوں کو شرم دلاتے تھے کہ یہ لوگ بیجان پتھروںسے ایسی عقیدت رکھتے ہیں کہ تم اپنے حی اورقیوم اللہ کی عبادت میں ان کی شیفتگی اوروارفتگی کونہیں پہنچتے ،بے شمار رسوم ان ہندوؤںکے مزاج کا حصہ ہیں اورمسلمان ہونے کے بعدبھی وہ ان رسوم کو آسانی سے ترک نہیں کر سکتے ان میں سے اکثر رسوم مشرکانہ ہیں اوراسلام کے بنیادی اصولوںسے ٹکراتی ہیں اس لئے اس عجیب صورت حال کا سامنا اورسانپ کی موت اورمکڑی کا سامان اس طرح کیا گیا کہ خفیف سے ردو بدل اورناموں کی تبدیلی ملے خود ان مشرکانہ رسوم کو مشرف بہ اسلام کرنے کی کوشش ہوئی مثلاً بچوں کی سلامتی اوردوسری مرادوںکے لئے دیوی دیوتاؤںکے سامنے منت کے دئے جلاتے ہیں یہ کام چھوڑا نہیں گیا بس جگہ بدل دی ،مندر کے بجائے مسجد اوردرگاہ میںاس مقصدسے چراغ روشن کئے جاے لگے ، میرے علم میں نہیں ہے کہ مسجداورچراغ کا یہ مصرف ہندوستان کے علاوہ کسی اورمسلمان ملک میں بھی ہو۔
    حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء نے ایک برہمن کا قصہ بیان کیا ہے جس کا سارامال اسباب حاکم نے ضبط کرلیا تھا اوروہ بالکل کنگال ہوگیا تھا مگر پھر بھی خوش تھا اورمگن تھا اورسب سے کہتا تھا کہ دولت چلی گئی توکیا ہو ا ، میرا جنیئوتو میرے پاس ہے !ایسے لوگ جب مسلمان ہوتے تھے تو جنیئوکا تصورکسی طرح ان کے ذہن سے نہیں نکلتا تھا اس کا علاج مبلغین نے یہ کیا کہ ان کے گلے میں سبز رنگ کا ایک ڈوراڈالا اورکہا کہ یہ حضرت خواجہ صاحب اجمیری کی بدھی ہے ۔یہ بدّھی اب کئی رنگوںکی ہوگئی ہے اوراس کو کلاوہ کہنے لگے ہیں فاتحہ کی شیرینی کے ساتھ کچے سوت کے یہ لال پیلے دھاگے بھی رکھے جاتے ہیں اورفاتحہ کے بعد ان کو بطور تعویذگلے میںڈال لیا جاتا ہے ۔
    برکت اورصحت وسلامتی کے لئے بچے بوڑھے ،ا نہیں مستقل نہیں پہنا جاتا ،کچھ دن کے بعداتار دیتے ہیں اوردریا ،تالاب یا کنویں میں ڈال دیتے ہیں اوراسے کلاوے کو ٹھنڈاکرنا کہتے ہیں ۔
    قدیم ہندوستان میں جب کہ راستے غیر محفوظ اورسفر دشوار تھا ،کوئی شخص تیرتھ کی یاتراکاارادہ کرتا تو بطورنشانی ایک چھڑی میںکپڑالپیٹ کرہاتھ میں لے لیتا ،یہ چھڑی یاترا کی علامت ہوتی تھی اوراسے دیکھ کر یاترا کا ارادہ رکھنے والے دوسرے لوگ بھی ساتھ ہوجاتے تھے اورایک بڑا قافلہ بن جاتا تھا اس طرح متعدد چھڑیاںکسی اہم مقام پر جمع ہوجایا کرتی تھیںاورچھڑیوںکے یہ قافلے مل کر ایک ساتھ سفر کرتے تھے ،راستے بھر ان مذہبی زائرین کی آؤبھگت ہوتی تھی اور چو ر ڈاکو بھی ان کااحترام کرتے تھے اورراستہ چھوڑدیتے تھے ،ہندوستان کے نو مسلمو ںنے اس رسم کو حضرت خواجہ صاحب اجمیری ؒ اوردوسرے بزرگوںکے عرس میں شرکت کیلئے اپنا لیا، گاؤں گاؤںسے چھڑیاں چلتیں اورزیارت کو پہنچتیں،اجمیرجانے والی چھڑیاںٹھیک ۱۷؍جمادی الثانی کو دہلی آجاتی ہیں اور حضرت خواجہ صاحب اجمیری ؒ کے جانشین حضرت خواجہ قطب صاحب ؒ کے مزار پر مہر ولی پر چھڑیوںکامیلہ لگتاہے اورپتوں کے دَونوںمیں زردہ رکھ کر نیا زدلائی جاتی ہے اور اس چھوٹے سے دَونے کو’’ خواجہ دیگ‘‘کہتے ہیں،دوسرے دن سبز رنگ کے ایک بڑے اسلامی جھنڈے کی قیادت میںیہ قافلہ جسے ’’خواجہ کی مہندی ‘‘کہتے ہیں،اجمیر شریف روانہ ہوتا ہے اورعرس سے پہلے وہاںپہنچ جاتا ہے راستے بھر اس قافلہ کی خاطر تواضع ہوتی ہے ، جھنڈے کے نیچے گیت گائے جاتے ہیں جنہیں’’خواجہ کے سوپے‘‘کہتے ہیں۔ریل،موٹراورہوائی جہازکے اس نئے زمانہ میں بھی یہ رسم قائم ہے اورایک چھوٹاسا قافلہ فقراء کے ساتھ آج بھی پیدل اجمیر جاتا ہے ۔
    کعبے کا طواف عربوںکی بہت پرانی رسم تھی جو بت پرستی کے عہدمیں بھی جاری رہی ۔قرآن نے مسلمانوں کو اس کی اجازت دے دی تھی ۔کعبے کے غسل کوبھی روکا نہیںگیا،اسلام جزیرہ نمائے عرب سے نکل کر دوسرے ملکوںمیں پہنچاتو وہاں طواف اورغسل کی قسم کی کوئی رسم غالباً موجود نہیں تھی اس لئے وہاںکے نو مسلموںنے اس کو اپنی دیسی رسم نہیںبنایااورطواف وغسل کعبے تک محدود رہا لیکن ہندوستان میں مندر کی پرکرمااورمورتی کو اشنان کرانے کا رواج تھا ،یہاںکے نو مسلموںسے مندر اورمورتیاںچھوٹیںلیکن یہ رسم نہیں چھوٹی ۔بزرگوںکی قبروںکوگلاب کیوڑے سے غسل دینا اوران کا طواف کرنا اورصندل وپھول چڑھانارواج پاگیا ،دکن کی درگاہوںمیں تو عرس کی خاص رسم ہی صندل مالی کی ہوتی ہے اوراس صندل کا جلوس نکالا جاتا ہے اورمزار پر چڑھا ہوا صندل بطورتبرک استعمال ہوتا ہے لفظ صندل کے محلول میں رنگ کر کپڑے کی ایک پٹی بطورتبرک زائرین کے سرپر باندھی جاتی تھی اب اس نے باقاعدہ دستاربندی کی صورت اختیار کرلی ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مندر میںتبرک کے جو ٹیکے اورقشقے لگائے جاتے تھے اس کا بدل یہ صندل کی پٹی تھی ۔
    محرم کی عزاداری میںتعزیوںکے جلوس کا جو طریقہ ہے وہ ہندوستانی ہے ،ہندوستان میںتقسیم کار کے لئے پیشہ وروںکی بہت سی برادریاںوجود میں آئی تھیں۔ان میں سے ہر پیشے سے متعلق فنکاروںنے یہ تعزیہ بنانے میں اپنی مخصوص مہارت کی نمائش کی ۔مثلاًروئی کا تعزیہ ،موم کا تعزیہ ،ٹین کا تعزیہ ،ہرے جو اوررائی کا تعزیہ ،مٹی کا تعزیہ ،مختلف پیشوںسے متعلق صناعی کے مظاہر ے ہوتے ہیں ۔
    ہندوستان میں رائج رسوم کا اتنا اثر مسلمانوں کے ذہنوںپر رہاکہ انہوں نے اپنے بعض تاریخی واقعات کوبھی ان رسوم کی روشنی میں دیکھا ،چنانچہ جب کربلا کا حال بیان کیا گیا اورمرثیے لکھے گئے تو ہندوستانی رسوم مثلاً مہندی کی رسم کا بھی تذکرہ آیا ،حالانکہ یہ رسم عربوں میں نہیں اوراہل بیت میں تو یقینانہ ہو گی ،میر انیس وغیرہ کے مراثی میں تمام مناظراورجذبات ہندوستانی ہیں۔
    ہندولڑکی کا حصہ چونکہ باپ کی متروکہ جائیدادمیں نہ تھا اس لئے ماں باپ بھائی اوردیگررشتہ دارمختلف بہانوںسے اس کی تلافی کرتے رہتے تھے ،تیگ کی رسم بھی غالباً لڑکیوںکو نوازنے اوران کو رقم دینے کے لئے ایجاد ہوئی تھی بی بی کی صحنک نے بھی مسلمانوںمیں کچھ اسی طرح کی حیثیت اختیارکر لی ۔یعنی ہر تیج تیوہارکے موقع پر میکے سے لڑکی کے ہاں فاتحہ اورنیازکا کچا سامان بہت بڑی تعدادمیں سیدھے کے نام سے بھیجا جاتا ہے یہ سامان مختلف قسم کا ہوتا ہے اورفاتحہ کی ضروریات سے یقینابہت زیادہ ہوتا ہے اورایک طرح سے یہ لڑکی کی امداد تیج تیوہارپر ہوتی ہے ۔
    شعبان کی پندرھویںتاریخ مسلمانوںمیں عبادت اورقبرستان کی زیارت کے لئے مخصوص تھی ،کچھ اس طرح کا تصوربھی تھا کہ مردو ںکی روحیںاس روز اپنے ورثاء اورگھروالوںکی طرف متوجہ ہوتی ہیں۔قرآن خوانی اورخیر خیرات کے ذریعہ مُردوںکو ایصال ثواب کا دستورتھا ۔
    خوشی اورایصالِ ثواب کے اسلامی تصورکا ملاپ یہاں کناگت کی ہندو رسم سے ہوا اورشب برات نے ایک تیوہارکا روپ دھارکرکر عجیب عجیب طرح کے خیالات اوررسوم کو جنم دیا،مکانات لیپے پوتے جانے لگے ،آتش بازیاں چھوٹنے لگیںاورخوشی کے ساتھ یہ وہم بھی اس میں شامل ہوگیا کہ آتش بازی کے بغیرمردوںکی روحیں واپس نہیںجائیں گی وغیرہ ۔اس موقع پر قدیم زمانے میںجو تُک بندیاںکی جاتی تھیںان سے کچھ اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستانی ماحول نے شب برأت کوکیارنگ دے دیا تھا۔مثلاً ایک تُک بندی ہے ۔
    آئی شب برأت ………بہو ساس سے لڑی ………ساس بہوسے لڑی………… … کوئی لیپے ہے کوئی پوتے ہے کوئی کمہارکے کھڑی ………کمہار رے کمہارمجھے ہنڈیا دے بڑی …… آئیں گے میرے مُردے چھوڑیں گے پھول جھڑی ‘‘۔
    جاگیر داری عہد میں مسلمانوں کا ایک طبقہ ایسا تھا جس کے پاس بے محنت کا پیسہ اورفالتووقت بہت تھا ، وقت گذاری کے لئے جہاں گنجفہ،شطرنج ،چوسراورپچیسی جیسے گھریلوکھیل تھے ،وہاں نت نئی رسوم بھی ایجاد کی جاتی تھیں، ہندوستان چونکہ ہمیشہ سے رسوم کا گہوارہ رہا ہے اس لئے مسلمان امراء اورجاگیرداران بنی بنائی ایجاد شدہ رسوم کو فوراً اپنالیتے تھے ،بعض اوقات سماجی دباؤاورفضاء وماحول سے متاثرہوکربھی انہیں اختیار کیا جاتا ،مثلاً مردے کے اورسوئم چالیسویںوغیرہ کے موقع پر پوری برادری کو کھانا کھلانا اورروٹی دینا…یا جس طرح پنڈت کو دچھنا دی جاتی ہے اسی طرح مرنے والے کی طرف سے پیر یا مسجدکے مولوی کو جوڑااوررقم دینا ۔
    مقامی توہمات کے زیر اثرچیچک اوردوسری وباؤںکے وقت مسلمان بھی اپنے دروازوں پر آم کے پتے لٹکاتے تھے اورٹونے ٹوٹکے کرتے تھے ۔ایک زمانے میں ستیلا دیوی کی پوجا میں مسلمان عورتوںکی ڈھکی چھپی شرکت اپنے ہندو پڑوسیوںکے ساتھ اس طرح ہونے لگی تھی کہ حضرت مرزا مظہر جان جانا ں کو اس کے خلاف مہم چلانی پڑی تھی ،مسلمان عورتیں چیچک کی بیماری کو ماتا کہنے لگی تھیںجو ستیلا دیوی کی خو شامد کا ایک طریقہ تھا ، بچوں کے سرپر چوٹیاں رکھنا ایک خاص مدت کے بعدان کو منڈانا آج تک مروج ہے آخری دور کے مغل شہزادوںمیں سے جو تخت کے امید وار ہوسکتے تھے وہ ملکی رواج کے احترام میں ختنہ نہیں کراتے تھے ۔
    ہولی ،دسہرہ ،خالص ہندوتیوہارہیں ،اکبرکے زمانہ میں ان کامحل میں رواج ہوااورپھر رعیت نے بھی کثیر تعدادمیں اسے بلا تکلف اختیار کرلیا اورجنہوں نے اختیار نہیں کیا ان کے یہاں ان کی تمثیلیںاورکہاوتیںاس طرح لٹریچراورگفتگوکے تانے بانے بن گئیںکہ بالکل مسلمانوں کی چیزیںمعلوم ہونے لگیں،خالص نعت کے شعروںمیں’’بانسری‘‘کا ذکر آیا، ہولی کے گیت قوالی میں گائے جانے لگے ۔
    آؤ رے چشتیو، ہولی کھیلو
    خواجہ پیا مورے آنگن آئے
    تیس چالیس برس پہلے تک دہلی کے مسلمانوں میں یہ رسم تھی کہ یوپی خاص کر لکھنؤکی طرف بھی اس کا رواج تھا کہ دسہرے سے دس دن پہلے محلے اورگاؤں کے ہر یجن مٹی کا ایک چھوٹاسا پتلا بناتے تھے اوراسے تین لکڑیوںکے اسٹینڈپر کھڑا کرکے ’’ٹیسو‘‘نام دھرتے تھے ،یہ ٹیسوروزانہ دس دن تک شام کے وقت مسلمان گھروں میں جاتا تھا اوراس کے سامنے گیت گائے جاتے تھے اورتُک بندیاں ہوتی تھیں۔یہ تک بندیاں اور گیت عام طورپرمذہبی نہیں ہوتے تھے اس لئے ثقہ لوگ بھی ان پر اعتراض نہیں کرتے تھے بلکہ کسی مجبوری سے ٹیسووالے ناز کرجاتے تھے اوردوسرے دن شکایت اورتقاضاہوتا تھا ،ٹیسوکے سامنے لحن سے پڑھی جانے والی تک بندیوںمیں تاریخ ،جغرافیہ ،مقامی سیاست ،سب کچھ زیر بحث آتا تھا اورمخالف دھڑے گاؤں کے ایک دوسرے کی ہجو ان تک بندیوںمیں کراتے تھے ،۱۸۵۸ئ؁ کے حالات بھی عرصے تک ان میں بیان کئے جاتے رہے ،مثلاً ایک تک بندی تھی۔
    پنجاب سے آئے پانچ سوار
    جیٹھ مہینہ دن اتوار
    پانچوں نے آکر کیا جو غل……جا پہنچے جمنا کے پل ……جمنا کے پل پر بٹی تھی روٹی …… واںکے لٹ گئے سارے دھوبی ……دھوبی لٹے توسچی جان ……چوک میں لٹ گئیں چار دوکان …… دوکان لٹی تو مچی دہائی ……خیر صاحب سیٹن پرآئی ……سیٹن نے تو یہی کہی ……میرے بس کی نا رہی … کالے نے بولی بولی……سیٹن کے ماروگولی ……گولی لگتے ہی ہوگیا لیٹ ……سیٹن کی میم کا پھوڑدو پیٹ……پیٹ پھوٹتے ہی پکڑی چھاتی ……سب دنیا مطلب کی بانسی……۔
    ٹیسوکے گیت دسہرے کے موقع پر لڑکے بالے گاتے ہیں ان کے ساتھ جھانجی والیں آتی ہیں جھانجی مٹی کی ہانڈی ہوتی تھی جس میںبہت سے چھیدکرکے اندردیا جلایاجاتا تھااوراسے سر پر رکھ کر رقص کیا جاتا تھا ،کمال یہ ہوتا تھا کہ انتہائی تیز رقص کے باوجوددِیا بجھنے نہ پائے ۔ہانڈی کے سوراخوںمیں سے دئے کی روشنی بھلی معلوم ہوتی تھی ۔جھانجیاںدس روز تک لڑکیاںلے کرآتی تھیںاورزنانے میں دعائیہ گیت گاتی تھیں۔
    بسنت کا موسمی تیوہارہندوستان کے مسلمانوںمیں آج بھی بڑے جوش وخروش کے ساتھ منایا جاتا ہے اورروایت ہے کہ اس کی ابتداء اس طرح ہوئی تھی کہ سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ اپنے چہیتے اورجوان صالح بھانجے کی ناوقت موت کے بعد بہت رنجیدہ رہا کرتے تھے حضرت امیر خسروؒ نے ان کا دل بہلانے اورخوش کرنے کی یہ ترکیب نکالی کہ بسنت کے دن سرسوںکے پھول لیکرآئے اورپیر ومرشدکے قدموںمیں رکھ کر جھومنے لگے اوربولے ؎
    عرب یار توری بسنت منائی
    ہندواپنے بت پر پھول چڑھانے جارہے ہیں ،میں اپنے صنم کی نذرکرنے کے لئے پھول لایا ہوںاورپھریہ شعر گانے لگے ؎
    اشک ریز آمدند ابر و بہار
    ساقیا گل بریزد بادہ بہار
    اس دن سے آج تک ہندوستان کی چشتی درگاہوںمیں یہ رواج ہے کہ بسنت کے دن ہندؤںکے ساتھ مسلمان بھی بسنتی کپڑے پہنتے ہیںیا کم از کم ایک بسنتی رنگ کا رومال ضرورپاس رکھتے ہیں اورسرسوںکے پھول ہاتھوںمیں لئے گاتے بجاتے ،جلوس کی شکل میں بزرگوںکے مزارات پر جاتے ہیں اورپھول چڑھانے کے بعدوہاںقوالی ہوتی ہے ،بہت سے شعراء نے اس موقع پر گانے کے لئے شعر کہے ہیں،حضرت امیر خسروؒ کے علاوہ حضرت شاہ نیاز ؒ بریلوی اوربہادر شاہ ظفرکی کہی ہوئی بسنت کی چیزیںخاص طورپر مقبول ہیں۔
    دو تہذیبوںکے ملنے سے ہندوستان میں ایک دلچسپ صور ت حال ہے ایک طرف بعض ہندوبزرگوںکو نئی نسل سے شکایت پیدا ہوتی ہے اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ؎
    رام جی نے بیٹا دیا وہ بھی مسلمان کا
    پوری کچوری کھاتا نئیں ہے ٹکڑا مانگے نان کا
    اوردوسری طرف مسلمان ،نان چھوڑکرپوری کچوری کی ورائٹی سے اپنے دسترخوان سجارہے ہیں،شمالی ہندوستان خاص کردہلی کے مسلمان گھروں میںعید کے دن خستہ کچوریاںبھی اتنی ہی ضروری اوراہم سمجھی جاتی ہیں جتنی سوئیاںاورشیرخرماء دسترخوان پر الگ الگ پلیٹوںمیں کھانا بھی مسلمانوں کو شاید ہندوستان ہی کی دین ہے یہاں تو الگ الگ کھانے کی ضرورت اونچ نیچ اورچھوت چھات کے تصورسے تھی لیکن مسلمانوںنے اسے ایک نفاست کے طورپراپنایا۔ایک بزرگ فرمایا کرتے تھے کہ قرآن نے ہمیں کھلی چھٹی دے دی ہے …… چاہے الگ کھائیں،چاہے مل کر کھائیں۔اگر سالن سوکھا ہو تو مل کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن شوربے دار سالن میںسب کاایک ساتھ انگلیاںڈالنا کراہت پیدا کرتا ہے ۔
    عربوں میں نمک کو ابوالفتح یعنی ابتداء اورپہل کرنے والی چیز اورلوٹے اورطشت کو ابوالیاس کہتے تھے یعنی یہ مایوسی کی علامت ہے اس کے بعد کھانے کی کوئی چیزنہیں لائی جائے گی ،حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ؒ فرمایا کرتے تھے کہ ہم ہندوستانیوںکا ابوالیاس پان ہے کہ اس کو سب سے آخر میںپیش کرتے ہیں،مسلمانوں نے پان سے متعلق ہندوستانی رسموںکو جس بڑے پیمانے پر اختیار کیا غالباً کسی رسم کے سلسلہ میں یہ کیفیت نہیں رہی ، دکن میں آج بھی یہ طریقہ ہے کہ مہمان کوآتے ہی پان نہیں دیا جاتا کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بس ! مہمان نوازی تمام ہوئی ۔اب آپ تشریف لے جاسکتے ہیںحضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منیری ؒ مرید ہونے کی نیت سے حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے پاس آئے تھے لیکن حضرت نے ان کے لئے فوراً پان منگوایااوراس سے شیخ منیریؒ نے یہ نتیجہ نکالاکہ حضرت نے میری بیعت قبول نہیں کی اوررخصت کا حکم دے دیا۔
    بیڑا اٹھانے ،کل کے لئے پان بنانے اوراپنی یاد دلانے کی کہاوتیںاورلگاوٹیںمسلمانوں کی تہذیب اورلٹریچرکی جان ہیں،شادی غمی ہرموقع پر پان کا استعمال ہوتا ہے ،شادی بیاہ کے موقع پر دو گھرانوںمیں جولین دین ہوتا ہے وہ پان کے بغیرمکمل نہیں سمجھاجاتا،رشتہ مانگنے جاتے ہیںتو مٹھائی کے ساتھ پان ضرور ہوتے ہیںاوراگر سامنے والے نے پان رکھ لئے تو یہ امیدافزاء علامت ہوتی ہے ،نو مولودکو دیکھنے جاتے ہیں تب بھی پان لیجاتے ہیں،قبرستان سے گھرواپس آتے ہیںتب بھی اکثرجگہ میت کا وارث پان ہاتھ میں لے کر اپنی چوکھٹ پر قدم رکھتا ہے کہ یہ آبادی اورہر ے بھرے رہنے کی نشانی سمجھاجاتا ہے ۔
    ایام غراء میں بہت سے لوگ پان چھوڑدیتے ہیں اورپان کی طلب دھنئے کی بھنی ہوئی گری ،خربوزے کے بیجوںاورکترے ہوئے کھوپرے سے تیار کردہ کوٹے سے پوری کرتے ہیں۔سچ پوچھئے تو پان نے ہندوستانی مسلمانوں میں ایک طرح کا تقدس حاصل کرلیا ہے اوریہ برگ سبزتحفہ ٔ درویش بن گیا ہے ،سماع کی محفلوںمیں کھانا پینا معیوب سمجھاجاتا ہے لیکن کلے میں گلوری دبی ہوئی ہو تو زیادہ اعتراض نہیں ہوتا ۔نئے لوگوں میںبیڑی سگریٹ پان ہی کا قائم مقام ہیں لیکن بزرگوںکے سامنے بیڑی سگریٹ پینا برا سمجھاجاتاہے۔ہمارے علماء کرام میں پان مقبول نہ ہوتا تو تمباکوبھی ان کے منھ نہ چڑھتا ۔
    لباس میں دھوتی یا تہ بندکا رواج ہندوستان کے طول وعرض میں ہے اورہر مذہب کے ماننے والوں میں ہے بالکل شمال اوربالکل جنوب میں اس کو باندھنے کی وضع کم وبیش دیسی ہی ہے جیسی دوسرے اسلامی ممالک میںپائی جاتی ہے ،لیکن ان ممالک میںشلواراورپاجامے اورنیچی قباؤںکا رواج بھی ہے اورتہ بندگھریلوسہولت کا لباس زیادہ تر ہے اس لئے اس کو باندھنے کی وضع بھی ایسی ہے کہ صرف فرصت میں مفید ہوسکتی ہے ،بھاگ دوڑ کی زندگی میں سارے کام اس سے سہولت کے ساتھ نہیں ہوسکتے اس لئے ہندوستان کے ان علاقوںکے مسلمانو ں نے جہاں شلوارپاجامے کا رواج نہیں تھا ،دھوتی بالکل ہندوانی وضع پر باندھی کیونکہ اس سے کام کاج میں آسانی ہوتی تھی ،خاص کر قدیم زمانے میں گھوڑے کی سواری اورموجودہ دور میں سائیکل کی سواری میں سہولت رہتی ہے ، ساڑھی کا رواج بھی خالص ہندوستانی لباس ہے ۔
    عجیب بات ہے کہ آج کل جب کہ قومی دھارے کا بہت شور ہے ،گنگا الٹی بہنے لگی ہے اورمسلمانوںکی اکثریت ہندوستانی رسم ورواج سے چونکتی ہے اورپرہیزکی مہم بھی کچھ عرصہ سے چل رہی ہے حالانکہ اس زمانہ میں جب کہ مسلمان جزوکل کے مختار تھے ،یکجہتی کا عمل بڑی تیزی سے جاری تھا ،مسلمان عورتوں نے اسلامی قمری مہینوںکے عربی نام تک بدل دئے تھے اوراپنی سہولت اورآسانی کے لئے صفر کانام تیرہ تیری ،ربیع الاول کا نام بارہ وفات ،ربیع الثانی کا نام میراں جی ،جمادی الاول کا مدار،جمادی الثانی کا خواجہ معین الدین ،شعبان کا شب برأت ، شوال کا عید،ذی قعدہ کا خالی اورذی الحجہ کا بقرعیدرکھ لیا تھا اورآج بھی عورتوںمیں یہی نام مقبول ہیں اورزبانوںپر چڑھے ہوئے ہیں ،محرم،رجب اوررمضان کے نام بدلنے کی ضرورت اس لئے نہ سمجھی گئی کہ ان مہینوں میں جو رسوم ہوتی ہیں ان کی نمائندگی بڑی حد تک ان ناموں سے ہوجاتی ہے ۔
    قدیم زمانے میں پڑھے لکھے امراء کے طبقے اوراہل علم دیندارلوگوں میں بھی امیرچھجواوربی بی رانی پسندیدہ نام تھے اب اس طرح کے نام دیہاتی اوران پڑھ دین سے کم واقف مسلمانوںکا حصہ رہ گئے ہیں ،پہلے مسجدوںکی تعمیر میںہندو کاریگروںکو اپنے فن کے مظاہرے کی پوری اجازت دی جاتی تھی اور بعض اوقات اس سے آسائش اورضرورت میں خلل پڑتا تھا ۔جیسے کہ احمدآبادکی جامع مسجدکہ اس میں ہندوطرز کے ستون اس طرح قائم کئے گئے ہیںکہ صف بندی اورستون کے سامنے سجدہ کرنے میں سخت دشواری ہوتی ہے لیکن اسے گوارا کیا جاتا تھا بعض مسجدوںکے کتبے عربی فارسی کے بجائے سنسکرت اوردیگر مقامی زبانوںمیں لکھے جاتے تھے ،برہان پور کی عالیشان جامع مسجد کے سنسکرت کتبے اس کا ایک خوبصورت نمونہ ہیں ۔
    مسجدوں کے تین گنبدجہا ں حسن توازن کا نمونہ پیش کرتے ہیںاوردرمیان کے گنبدکی پیل روکتے ہیںوہیں ترشول اورمندروںکی تین مروجہ گمٹیوںکو بھی یاددلاتے ہیں مسلم عمارتوںمیں کنگورے دار محراب بھی ہندوستانی اثرات کے تحت وجود میں آئی ۔
    سلطان محمد غوری کے زمانے کے بعض سکے ایسے دریافت ہوئے ہیں جن پر عبارت ہندی میںہے اورمزیداری یہ کہ سلطان کے ساتھ پر تھوی راج کا نام بھی درج ہے یہ سکے غالباً دو جنگوںکے درمیان کے زمانہ میں ڈھالے گئے ہوںگے ۔
    شادی غمی کی رسموںمیں سے چند نمایاںرسمیںیہ ہیں کہ ہندؤںمیں تیسرے دن مرگھٹ سے راکھ اورہڈیاںچنی جاتی ہیںاورانہیںپھول چنناکہتے ہیں،مسلمانوںمیں سوئم کی فاتحہ اورقرآن خوانی بھی پھول سے موسوم ہوئی خان آرزونے کہا تھا ؎
    رکھے سیپارۂ گل کھول کے عندلیبوںکے
    چمن میں آج گویا پھول ہیں تیرے شہیدوں کے
    اس دن پھولوںکی چادر اورصندل زعفران وغیرہ سے مرکب خوشبوقبر پر بھیجنا ضروری قرارپایا،تیجے کے روز فاتحہ کے بعد پھولوںسے بھری رکابی اورصندل زعفران کی خوشبوکا پیالہ مجلس کے تمام شرکاء کے سامنے لایاجاتا ہے اورہر شخص ایک ایک پھول قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌپڑھ کر خوشبو کے پیالے میں ڈال دیتا ہے اوریہ خوشبو پھولوںکے ساتھ قبر کی مٹی میںسرہانے کے رخ دفن کردی جاتی ہے ۔
    لڑکے کے بالغ ہونے کے بعد مونچھوںکو صندل لگانا اورمونچھوںکے کونڈے کرنا، ایام حمل میں ہونے والی ماںکی گود ترکاری اورمیوؤںسے بھرنا ،بچے کی پیدائش کے بعد زچہ گیر یاںگانا جن میں زیادہ تر کرشن جی کے جنم کی مناسبت کے گیت ہوتے ہیں،زچگی کے چھ دن بعد چھٹی چھوچھک کی رسم کرنا جس میں زچہ بچہ غسل کرتے ہیںاورلڑکی کے میکے سے بچے کیلئے اورسمدھیانے والوںکیلئے تحائف آتے ہیں،سب ہندوستانی رسمیںہیں ۔
    شادی بیاہ کی تمام رسمیںہندوستانی اثر سے بھری پڑی ہیںاوریہ اتنی کثرت سے ہیں اورہندوستان کے علاقے علاقے میں ان کے اندراتنا تنوع ہے کہ اس کے تذکرے کے لئے شایدایک علیحدہ مضمون یا علیحدہ کتاب کی ضرورت ہواس لئے ان کی طرف صرف اشارہ کرنا کافی ہوگا ،اسلام میں تو منادی صرف ایجاب وقبول ہے باقی جو کچھ ہے سب عجمی،خاص کر ہندوستانی ہے ،شادی سے پہلے منگنی،پھر بیاہ مانگنا، مائیوںبٹھانا،ابٹن کھیلنا، برات کوروک کرنیگ مانگنا،شادی کے بعد چوتھی چالے کی رسمیںاول سے آخرتک ہندوستانی ہیں اور مسلمانوں میں عام طورپرمروج ہوگئی ہیں ۔
    حیدرآبادکے امراء میں تو وہ شادی شادی نہ سمجھی جاتی تھی جس کی رسمیںایک ماہ تک نہ ہوتی رہتی تھیںاوراس طرح کے چونچلے بکثرت ہوتے تھے کہ پیغام کے ساتھ دل پکاکربھیجاجاتاتھا اوراس کے جواب میںاگرقبول پک کر آتی تھی تو رشتہ منظور سمجھا جاتا تھا ،مہر اورطلاق کے اسلامی قانون کی بے حرمتی اس طرح ہوتی تھی کہ مہر میں ایک بڑی رقم کے ساتھ مچھرکی تولہ بھر چربی بھی لکھی جاتی تھی کہ نہ تو من تیل ہو اورنہ رادھاناچے ،نہ یہ رقم اورمچھر کی چربی فراہم ہونہ دل پھینک شوہربیوی کو طلاق دینے کی ہمت کرے لیکن ان میںسے اکثررسمیںمعاشی دباؤاوراصلاحی تحریکوںکے زیراثررفتہ رفتہ ختم ہورہی ہیں اوردم توڑرہی ہیںاورزندہ رہنے کے آثاربس اسلام کے سادہ رسم ورواج ہی کے نظر آتے ہیں ۔
     
  2. امجدبلال احمد
    Offline

    امجدبلال احمد ممبر

    جواب: غیرمسلموں کی تہذیب اوراس کے اثرات

    ماشا ءاللہ بہت اچھی کاوش ہے:29-1:
     
  3. bilal260
    Offline

    bilal260 ممبر

    جواب: غیرمسلموں کی تہذیب اوراس کے اثرات

    انتہائی محنت اور عرق ریزی سے تحقیق کی ہے شکریہ معلومات دینے کا۔
     
  4. محبوب خان
    Offline

    محبوب خان ناظم Staff Member

    جواب: غیرمسلموں کی تہذیب اوراس کے اثرات

    بہت ہی زبردست تحریر اور خوبصورت جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
     

Share This Page