1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

غزل

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از رشید حسرت, ‏21 جون 2021۔

  1. رشید حسرت
    آف لائن

    رشید حسرت ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2020
    پیغامات:
    46
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    ملک کا جھنڈا:
    غزل (بنا کے رکھا ہے)

    بنا کے رکھا ہے ذہنی مرِیض ہم کو تو
    نہیں ہے زِیست بھی ہرگز عزِیز ہم کو تو

    وہ اور تھے کہ جِنہیں دوستی کا پاس رہا
    گُماں میں ڈال دے چھوٹی سی چِیز ہم کو تو

    کہاں کے مِیر ہیں، پُوچھو فقِیر لوگوں سے
    نہِیں ہے ڈھب کی میسّر قمِیض ہم کو تو

    بڑوں سے دِل سے عقِیدت ہے پیار چھوٹوں سے
    خیال کرتے ہو جو بد تمِیز ہم کو تو

    کِسی کے درد کے سانچے میں ڈھل کے دیکھا ہے
    پڑے وہ زخم (کہ بس الحفِیظ) ہم کو تو

    نہ راز، راز کو رکھا، نہ بھید پوشِیدہ
    خیال پِھر بھی کریں سب رمِیز ہم کو تو

    رکھو جو درد تو، آہیں بھی اور کُچھ آنسو
    رشیدؔ چاہئیں کُچھ خواب نِیز ہم کو تو

    رشِید حسرتؔ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں