1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عیدقربان۔ یہ دوراپنےبراھیم کی تلاش میں ہے

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از عقرب, ‏14 نومبر 2009۔

  1. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
    عید الاضحی کا پیغام

    ڈاکٹرغلام نبی فلاحی​


    آج سے تقریبا ساڑھے چار ہزار برس قبل موجودہ عراق کے علاقہ میں ایک شہنشاہیت قائم تھی ۔ بادشاہ اپنے آپ کو سورج دیوتا کی اولاد قرار دیتا تھا۔ مذہبی طور پر ستاروں ، چاند، سورج اور پتھروں سے تراشیدہ بتوں کی پوجا ہوتی تھی۔ شاندار بت خانے قائم تھے۔ پجاریوں کے خاندان کے افراد مذہبی مراسم اداکرتے تھے اور انہیں دربار میں خاص امتیاز حاصل تھا۔ سلطنت کا سیاسی،سماجی اور مذہبی و معاشی نظام مشرکانہ تہذیب و تمدن کے زیرسایہ مضبوط و مستحکم تھا۔ شہنشاہ نمرود چونکہ بزعم خویش کوسورج دیوتا کی اولاد سمجھتا تھا لہٰذا اس کے احکامات کو مذہبی تقدس کا درجہ حاصل تھا، عوام الناس بادشاہ کے خلاف زبان سے تو دو رکی بات ر دل سے بھی کوئی چیز سوچنا شدید جرم تصور کرتے تھے ۔اس ماحول نے بادشاہ کو مطلق العنان حکمران بنادیا تھا، کسی بغاوت ، نافرمانی اور خلاف ورزی کا تصور بھی عام انسانوں کے لیے محال تھا۔

    اس عظیم سلطنت کے مذہبی سربراہ آزر کے گھر، ایک بچہ نے جنم لیا، جوانی کی عمر کو پہنچا تو پورے ماحول کو مختلف اشیا کی پوجا کرتے ہوئے دیکھا، مختلف معبودوں کی پوجانے اس کے دل میں سوال پیدا کیا کہ (معبود حقیقی) کون ہے ؟ کیا وہ ایک ہے؟ اس کے دل نے جواب دیا کہ ایک ہی ہونا چاہے،کئی معبود نہیں ہوسکتے، اب سوچنا تنہا معبود کون ہوسکتا ہے؟ معبود حقیقی کی تلاش میں اسے اپنے ماحول سے کوئی رہنمائی نہ مل سکی تو ان کی بے چینی میں مزید اضافہ ہوگیا۔

    ایک روزکائنات پر غور کرتے کرتے رات ہوئی شب کے پرسکون سناٹے میں گہری تاریکی پھیلی ہوئی تھی۔ ابراہیم نے سوچا یہ میرا رب ہے؟لیکن جب وہ غائب ہوگیا تو کہا غائب ہونے والا خدا نہیں ہوسکتا، بھرچاند نکلا اس کی خوبصورتی اور روشنی دیکھ کر ابراہیم نے کہا یہ میرا رب ہے؟ مگر وہ بھی غائب ہوگیا تو اس نے کہا کہ میرا رب اگر میری رہنمائی نہ کرے گا تو میں گمراہوں میں سے ہوں گا، پھر جب دیکھا روشن اور دمکتا سورج تو کہا کہ ہاں یہ سب سے بڑا رب ہے لیکن جب وہ بھی غائب ہوگیا تو اپنی قوم کو مخاطب کرکے کہا کہ میں غروب ہوجانے والے تمہارے خداؤں سے بیزار ہوں اور یہی سے انہیں خدا کی معرفت نصیب ہوئی اور انہوں نے کہا کہ اس کائنات کا ایک اور صرف ایک خدا ہے۔رب العالمین اور اس کی ذات ، صفات، اختیارات اور حقوق میں کوئی شریک نہیں ہے۔ کائنات کا وسیع ، منظم اور مستحکم نظام اور اس کے متوازن انتظامات خدائے واحد کے وجود کی روشن دلیل ہیں۔

    معرفت کی اس روشن لہر نے حضرت ابراہیم ؑکی خموش شخصیت میں ایک انقلابی طوفان برپا کردیا۔ اب زندگی کا مشن خدا کے بندوں کو خدا سے آشنا کرنا اور ذات باری تعالی سے روشناس کروانا ہوگیا۔ حضرت ابراہیم ایک داعی اور مبلغ اور خدا کے پیغمبر ہوگئے۔ اپنے والد محترم سے کہا ابا جان ، کیا ہیں یہ مورتیاں جو تم نے گھڑ لی ہیں، جن کو تم نے اپنا معبود بنا رکھا ہے ، جن کی ڈنڈوت کرتے ہو؟ میں دیکھتا ہوں آپ اور آپ کی قوم صریح گمراہی میں مبتلا ہیں (القران) کیا تم اپنی تراشی ہوئی چیزوں کو پوجتے ہو۔(القران)

    ایک بار اپنے باپ سے کہا ابا جان شیطان کی پرستش نہ کیجئے بلا شبہ شیطان تو رحمان کا نافرمان ہے۔

    ابا جان میرے پاس ایک ایسا علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا۔ پس میری پیروی کیجئے ،میں آپ کو بتاؤں گا کہ سیدھا راستہ کونسا ہے ۔(الانبیا)

    اس حمیت بھری التجا کے نتیجے میں جو جواب ملا، وہ یہ تھا۔

    اے ابراہیم ! کیا تم میرے معبودوں سے روگردانی کررہے ہو؟ اگر تم باز نہ آئے تو میں تمہیں سنگسار کروں گا، اور اس وقت فوراً گھر سے نکل جاؤ۔(الانبیاء)

    گھر سے نکل جانے کے بعد اب دوسرا مرحلہ عوام الناس کو معرفت خدواندی سے واقف کرانا تھا۔ شرک ، خوف اور توہم پرستی کو جنم دیتا ہے، بتوں کے تقدس کو دل سے نکالنے کے لیے حضرت ابراہیم ؑنے ایک انوکھی تدبیر کی، ایک روز جب تمام بستی والے گاؤں سے باہر میلہ میں گئے، تب بت خانہ میں جاکر تمام بتوں کو توڑ ڈالا اور ہتھوڑا بڑے بت کے پاس رکھ دیا اور اسے کوئی نقصان نہ پہنچایا۔ لوگ میلہ سے لوٹے تو بتوں کا حال دیکھ کر سمجھ گئے کہ یہ ابراہیم کی حرکت ہوگی۔ بلاکر پوچھا تو آپ نے کہا کہ ہتھوڑا بڑے بت کی گردن میں پڑا ہے ،اُن سے پوچھو یہ درگت کس نے کی ہے؟ سب نے متفقہ طور پر کہا : ابراہیم تم جانتے ہو یہ بول نہیں سکتے؟ حضرت ابراہیم ؑ نے فوراً اپنی بات پیش کردی ؟ آہ! میری قوم کے لوگو ! تم ان معبودوں کو پوجتے ہوحو نہ نفع پہنچاسکتے ہیں نہ نقصان۔تف تم پر تمہارے معبودوں پرجنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو۔ کیا تم عقل سے بالکل کام نہیں لیتے۔ حضرت ابراہیم کی بات ان کے دلوں کو لگی اور وہ ان کی دلیل سے متاثر ہوئے لیکن جابرانہ شاہی نظام کے کارندوں نے کہا کہ انہیں سزا ملنی چاہیے اور اسے دربار میں لے چلو۔ بادشاہ جو خدائی کا دعویدار تھا،اس نے پوچھا تمہارا رب کون ہے؟ آپ نے کہا وہ جو زندگی اور موت بخشتا ہے۔ اس نے دوقیدیوں کو بلا کر ایک کو قتل کردیا اور دوسرے کو آزاد کرکے کہا یہ تو میں بھی کرتا ہوں۔ حضرت ابراہیم ؑنے کہا میرا رب سورج مشرق سے نکال کر مغرب میں غروب کرتا ہے ۔ تم اس کے برعکس کرکے دکھادو۔ یہ سن کر وہ منکرہکا بکا اورششدر ہوکررہ گیا اور مشتعل ہوکر کہا ،اسے آگ میں ڈال دو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو،حضرت ابراہیم کو بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈال دیا گیالیکن آگ اللہ کے حکم سے ٹھنڈی ہوگئی۔

    حضرت ابراہیم نے وطن کو خیر باد کہا، اور مسافرت کی زندگی اختیار کی۔ اردن، مصر اور حجاز میں گھوم گھوم کر دعوت حق پہنچاتے رہے۔ عمر زیادہ ہوئی تو اللہ سے دعا کی رب العزت صالح وارث عطا فر تاکہ دعوت کا یہ مشن جاری و ساری رہے۔ اللہ تعالی نے صالح اولاد سے نوازا، حضرت اسماعیل ؑ پیدا ہوئے ۔ تمناؤں کے بعد ہونے والی اولاد کے لیے حکم ہوا کہ انہیں بلد امین (مکہ میں چھوڑدو)۔اللہ کی مرضی اور حکم کی تعمیل میں ریگستانی علاقہ میں شیر خوار بچہ کو ماں کے پاس چھوڑ دیاجانے لگے تو اہلیہ نے پوچھا ، کس کے حکم سے ؟کہا اللہ کے حکم سے، فرمایا ٹھیک ہے۔

    اللہ اپنے منتخب اور برگزیدہ بندووں کی خوب آزمائش کرتا ہے اس امتحان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دیکھیں بندہ اپنے پروردگار سے کتنی محبت کرتا ہے، کتنا گہرا تعلق اور وابستگی ہے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم ؑنے محبوب حقیقی کی خاطر گھر کو خیرباد کہا، اعزہ و اقربا سے قطع تعلق کیا، وطن کو الوداع کہا، مسافرت کی زندگی اختیار کی اور اب محض خدا کے حکم کی تعمیل میں شیر خوار بچہ اور اہلیہ محترمہ کو دور دراز کے غیر آباد علاقہ میں چھوڑ دیا۔ یہ مقام مکہ مکرمہ کہلاتا ہے جہاں کعبتہ اللہ ہے۔ جہاں ساری دنیا کے بندگان خدا حج کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔شیر خوار اسماعیل ؑدورڑنے پھرنے کی عمر کو پہنچے تو بوڑھا باپ انہیں دیکھ رہا ہے اور جی خوش رہا ہورہا ہے ۔خدا کی محبت کے بالمقابل ایک محبت غالب آرہی ہے جس کے پیچھے آرزؤں ، تمناؤں اور مستقبل کی خوشگوار امیدیں وابستہ ہیں۔ حکم ہوا اپنی عزیزترین چیز اللہ کے راستہ میں قربان کردو۔

    باپ نے اکلوتے جوان بیٹے سے اپنے خواب کا تذکرہ کیا، بیٹے نے کہا ابو جان آپ حکم الٰہی کی تکمیل کیجئے ۔باپ نے جوان بیٹے کو منہ کے بل لٹا کر گردن پر تیز چھری پھیردی۔ عرش تھرا اُٹھا۔ آسمان سے آواز آئی ،اے ابراہیم تم نے خواب سچ کردکھایا اور اسماعیل علیہ السلام ؑ کی جگہ جنت کا دُنبہ قربان ہوا۔ عید الاضحی اسی قربانی کی یادگار ہے جو ساری دنیا کے مسلمان مناتے ہیں اور علامت کے طور پر جانوروں کی قربانی کرکے اس بات کا عملی اقرار کرتے ہیں کہ ہم بھی اللہ کے راستے میں آج جس طرح جانورقربان کررہے ہیں، وقت آیا اور خدا نے امتحان لینا چاہا تو اسی طرح اپنی جان اور عزیز ترین متاع راہ خدا میں قربان کردیں گے۔

    حضرت ابراہیم ؑ کی قربانی کی یاد سے ہماری روحانی اقدار کو فروغ ملتا ہے، عشق الٰہی کا جذبہ پروان چڑھتا ہے اور اللہ کی راہ میں اپنی جان قربان کردینے کا جذبہ موجود اور مستحکم ہوتا ہے۔ باری تعالی کی اطاعت اور فرما برداری اور اس کے نام پر مرمٹنا اور اس کے احکام کو سچے دل سے بجا لانا عبادت کی بلند ترین منزل میں شمار ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑکی انقلابی اور جدجہد سے پر زندگی درحقیقت اپنی علامتی زبان کے ذر یعہ استعمار و شیطان کے خلاف مقابلے کا درس دیتی ہے ۔

    مجموعی طور پر یہ زندگی خدا کی جانب انسان کا سفر ہے اور یہ رہنمائی کرتی ہے کہ بندہ کو چاہیے کہ اپنے آپ میں یہ آمادگی پیدا کرے کہ اگر راہ حق کا تقاضا ہو توگھر بار اور تجارت کو چھوڑ کر محبوب کی جانب ہجرت کرے، مادی زندگی کی دلچسپیاں، لذتیں اور خوبصورتی کوئی کشش نہ رکھے اور ایک زیادہ طاقتور کشش اور عشق اس کو خدا کی جانب کھینچتا چلا جائے اور اپنی نفسانی خواہشات پر قابو پاکر ورغلانے والے شیطان پر کامیابی حاصل کرے ،نیز اپنی انقلابی دعوت توحید کے ذریعہ بلاخوف و جھجک وقت کے استعمار کو دعوت حق پیش کرے۔

    آج لاکھوں اور کروڑوں مسلمان عالم اسلام کے کونے کونے سے حضرت ابراہیم ؑکی آواز پر لبیک کہتے ہوئے سرزمین حرم میں جمع ہوتے ہیں جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ مسلمان ایک جسد واحد ہیں یہ ایک ایسی وحدت ہے، جس کو توڑا نہیں جاسکتا ہے ۔سرزمین حرم پر مسلمانان عالم کا یہ انٹرنیشنل بھائی چار ہ درحقیقت اسلامی اخوت کا عالمی مظاہرہ ہے جہاں عربی و عجمی، امیر و غریب ، بادشاہ اور غلام، کالے اور گورے سب ایک جیسے لباس میں ملبوس اپنے رب کے حضور میں نہایت انکساری کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں۔وہ اس بات کا عملی اظہار ہے کہایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر۔

    آج جب ہم اپنے اردگرد حالا ت پر نظر دوڑاتے ہیں تو محسوس ہوتاہے کہ تمام باطل قوتیں ایک بار پھر امت کے خلاف جمع ہورہی ہیں وہ مسلمانوں کو یکجا یا متحد نہیں دیکھنا چاہتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کریں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت طیبہ سے اپنی زندگیوں کو منور کرنے کی ہرممکن کوشش کریں کیونکہ انکی سراپازندگی باطل قوتوں کے خلاف ایک عظیم داستان جدو جہد سے عبارت ہے ۔



    عالمی اخبار کا شکریہ
     
  2. زرداری
    آف لائن

    زرداری ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اکتوبر 2008
    پیغامات:
    263
    موصول پسندیدگیاں:
    12
    مسٹر عقرب ۔ گڈ جاب ۔ مابدلوت کو یہ باتیں‌پسند آئی۔
     
  3. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    عقرب بھائی بہت اچھا مضمون ہے شکریہ
     
  4. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    عقرب ایک سنجیدہ مضمون کی شئیرنگ پہ آپ کا بے حد شکریہ
     
  5. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    عقرب بھائی مضمون شیئر کرنے کا شکریہ :a180:
     
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    عقرب بھائی ۔ جزاک اللہ ۔
    خوبصورت مضمون ہے۔
     
  7. زیغم
    آف لائن

    زیغم ممبر

    شمولیت:
    ‏16 ستمبر 2008
    پیغامات:
    81
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جواب: عیدقربان۔ یہ دوراپنےبراھیم کی تلاش میں ہے

    جزاک اللہ عقرب بھائی۔۔۔
     
  8. عارف عارف
    آف لائن

    عارف عارف ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2010
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    جواب: عیدقربان۔ یہ دوراپنےبراھیم کی تلاش میں ہے


    السلام علیکم
    بہت اچھی شئیرنگ ہے
    اتنی اچھی شئیرنگ کے لیئے بہت شکریہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں