1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عوام بھی ٹھیک نہیں ملے؟ ۔۔۔۔۔ طارق حبیب

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏4 اپریل 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    عوام بھی ٹھیک نہیں ملے؟ ۔۔۔۔۔ طارق حبیب

    ''عوام لاپروائی کر رہے ہیں، کورونا ایس او پیز پر عمل نہیں ہو رہا، صورتحال سنگین ہو سکتی ہے‘‘۔ یہ وہ بیانات ہیں جو آج کل تواتر کے ساتھ حکومتی حلقوں کی جانب سے سننے میں آ رہے ہیں۔ صبح اٹھ کر سوشل میڈیا پر نظر ڈالیں تو یہی پیغامات ملتے ہیں، ٹی وی سکرینوں پر دیکھیں تو عوام ہی لفظی گولہ باری کا نشانہ بن رہے ہوتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سارا قصور غیر سنجیدہ عوام کا ہی ہے جنہیں اپنی جان کی پروا نہیں۔ حکمران بے چارے تو دن رات اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔
    حکومتی شاندار کارکردگی بس بیانات میں ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اگر زمینی حقائق پر غور کرنا شروع کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ایک فیصد عوام بھی حکومتی حمایت میں نہیں ہیں۔ حکومت اس مسئلے کا حل یہ نکالتی ہے کہ سارا ملبہ عوام پر گرا کر اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کرتی ہے۔ جب کورونا کی پہلی لہر آئی تو حکومت نے جو ہدایات جاری کیں‘ عوام کی بڑی تعداد کی جانب سے ان پر عمل کیا گیا، بعد ازاں حکومتی ڈھیل نے عوام کو لاپروا بنا دیا۔ ویسے تو حکمران چاہتے ہیں کہ لوگ من و عن ان کے ہر حکم کی تعمیل کریں مگر اس کے لیے غور کرنا ہوگا کہ ہمارے ملک میں خواندگی کی شرح کیا ہے اور عوام میں کورونا کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔ خیر! حکومت نے عوام سے گھروں میں رہنے کے لیے لاک ڈائون، سمارٹ لاک ڈائون اور مائیکرو لاک ڈائون کا سہارا لیا تو عوام گھروں میں مقید ہو گئے۔ اسی دوران دہاڑی دار طبقہ روزگار نہ ہونے کی وجہ سے دو وقت کی روٹی کا محتاج ہوگیا اور حکومتی نااہلی کے باعث اشیائے خور ونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ جب سکول بند کیے گئے تو یہی عوام تھے جنہوں نے اپنے بچوں کو گھروں پر بٹھا لیا۔ اس موقع پر چاہیے تو یہ تھا کہ حکومت سکولوں کو بھی ہدایات جاری کرتی کہ بچوں سے مکمل فیسیں نہ لی جائیں، کوئی شیڈول بنا کر دیا جاتا اور تعلیمی اداروں کو اس پر عمل کرنے کا پابند کیا جاتا، آن لائن کلاسز کے لیے ہر علاقے میں انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرنے کے اقدامات کیے جاتے تاکہ بچوں کا تعلیمی حرج کم سے کم ہو مگر ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ سکولوں نے اپنی مکمل فیسیں وصول کی، آن لائن کلاسز کے نام پر بچوں سے مذاق کیا گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے 60 فیصد حصے میں انٹرنیٹ کی سہولت سرے سے موجود ہی نہیں اور جہاں انٹرنیت موجود تھا وہاں سپیڈ ایسی نہیں تھی کہ آن لائن کلاسز کا انعقاد ممکن ہو سکتا۔ صحت کی سہولتوں کا حال بھی کچھ ایسا ہی رہا۔ حکومتی پالیسیوں نے متوسط طبقے کو مفلوک حال بنا دیا، ایسے میں غریب اگر مزدوری کے لیے گھر سے نہ نکلے تو بھی مرتا اور نکلتا تو بھی موت نظر آتی تھی، سو اس نے باہر نکلنے کا فیصلہ کیا کیونکہ اسے حکومت سے کوئی امید نہیں تھی۔
    حکومت و عوام میں معاملات دو طرفہ ہوتے ہیں۔ اگر لوگوں کو یقین ہو کہ حکومت ان کے مسائل کو حل کرے گی تو وہ حکومتی ہدایات پر عمل بھی کرتے۔ کورونا کی پہلی اور دوسری لہر کے دوران اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کا چارٹ بنا کر انہیں حل کرنے کے بجائے‘ اپنی حکمت عملی کی کامیابی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا رہا۔ یہ شور و غوغا ابھی جاری تھا کہ کورونا کی تیسری لہر نے ملک کے مختلف حصوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس تیسری لہر کے پھیلائو کے ذمہ دار مکمل طور پر عوام نہیں تھے، حکومت بھی برابر قصوروار تھی۔ کورونا کی تیسری لہر کو ''یو کے ویریئنٹ‘‘ کہا جا رہا ہے یعنی برطانیہ سے آنے والے مسافروں کے ذریعے یہ وبا پاکستان میں پھیلی ہے۔ اب ماہرین یہ بتا رہے ہیں کہ یہ صرف یو کے ویریئنٹ نہیں ہے بلکہ 13مختلف ویریئنٹ ہیں۔ ہوا کچھ یوں کہ جب ہمارے حکمران کورونا کو شکست دینے کے حوالے سے اپنی کامیابی کے ڈھول پیٹ رہے تھے عین اسی وقت دنیا میں سفری پابندیاں نرم کر دی گئی تھیں۔ اس نرمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دنیا بھر میں پھنسے لوگوں نے اپنے اپنے ملکوں کا رخ کیا۔ جب ہمارے حکمران کورونا کو شکست دینے کی ''پاوری‘‘ کرنے میں مصروف تھے‘ عین اسی وقت دنیا کے دیگر ممالک اپنے داخلی راستوں پر باہر سے آنے والے مسافروں کی سکریننگ میں مشغول تھے۔ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ چند ماہ کے دوران ساڑھے تین لاکھ پاکستانی مختلف ممالک سے اپنے وطن پہنچے ہیں۔ ان مسافروں کی سکریننگ کے لیے کوئی موثر انتظام نہیں کیا گیا۔ یہ افراد بڑے شہروں سے سفر کرتے ہوئے اپنے آبائی علاقوں میں گئے اور عام افراد میں گھل مل گئے۔ اس وقت تک کسی حکومتی ذمہ دار کو یہ خیال نہیں آیا کہ اس انتظامی غفلت کے نتائج کس قدر ہولناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ آج صورت حال یہ ہے کہ پنجاب و خیبر پختونخوا کے اکثر شہر کورونا کی لپیٹ میں آ چکے ہیں، اب حکومت ان حالات کا ذمہ دار عوام کو قرار دے رہی ہے۔ کورونا کی تیسری لہر کے خطرناک حد تک پھیلائوکی وجہ اپنی نااہلی کے بجائے کورونا کا یوکے ویریئنٹ ہونا بتایا جا رہا ہے مگر یہ حقیقت نہیں بتائی جا رہی کہ جس برطانیہ سے اس کورونا کا تعلق ہے اور جہاں جنوری میں روزانہ پچاس سے ساٹھ ہزار کیسز رپورٹ ہو رہے تھے‘ وہاں حکومت نے بہترین اقدامات کے ذریعے اس خطرناک لہر کا پھیلائو بڑی حد تک کنٹرول کر لیا ہے اور گزشتہ 24 گھنٹوں میں اب وہاں صرف چار ہزار کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
    باشعور قومیں سخت حالات سے گزر کر مستقبل کی منصوبہ بندی کرتی ہیں۔ جب کورونا کی پہلی اور دوسری لہر اپنے اختتام کو پہنچی تو دنیا کے تمام ممالک اپنے عوام کو اس وبا سے بچائو کی ویکسین فراہم کرنے کے لیے سرگرم ہو گئے۔ صرف ہمارے حکمران تھے جو محض باتیں بنا رہے تھے۔ عوامی و سماجی حلقوں کی جانب سے جب حکمرانوں کو باور کرایا جا رہا تھا کہ کورونا ویکسین کے حصول کی کوششیں تیز کی جائیں اس وقت حکومت منتظر تھی کہ عالمی ادارۂ صحت، ترقی یافتہ ممالک یا دوست ممالک کچھ امداد کریں۔ وہ ''چائنہ و چیریٹی‘‘ سے امید لگائے بیٹھے تھے۔ کبھی اعلان کیا جاتا کہ فلاں ملک سے ویکسین آ رہی ہے اور کبھی فلاں ملک سے ویکسین پہنچنے کی نوید سنائی جاتی۔ مگر ہوا کیا؟ اللہ بھلا کرے چین کا کہ اس کی بدولت ہمیں ساڑھے بارہ لاکھ ویکسین ڈوز نصیب ہوئیں۔ ان میں سے دس لاکھ ہیلتھ ورکرز کو لگائی گئیں جبکہ باقی ویکسین کے لیے بزرگ افراد کو رجسٹرڈ ہونے کے لیے کہا گیا۔ مفت آئے اس مال کو بھی بدانتظامی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ حال یہ رہا کہ یہ ویکسین بھی پوری طرح استعمال نہیں ہو سکی۔ ایک جائزے کے مطابق 49 فیصد پاکستانی ویکسین لگوانے کے حق میں ہی نہیں اور ابھی تک حکومت نے کوئی ایسی کوشش بھی نہیں کی کہ ویکسین کے حوالے سے عوام میں شعور اجاگر کرنے کی کوئی مہم چلائی جائے۔ حکومتی شخصیات نے اپنے اہل خانہ اور دوست احباب کو کورونا ویکسین لگوائی، پھر اس کی تشہیر سوشل میڈیا پر کر کے ثابت کیا کہ وہ اپنے ہی بنائے ہوئے قواعد کو خاطر میں نہیں لاتے۔ سو جیسے عوام‘ ویسے حکمران۔
    جب ساری دنیا اپنے شہریوں کے لیے ویکسین کا بندوبست کر رہی تھی‘ ہمارے حکمران مفت ویکسین کی تلاش میں تھے۔ انتظار کے باوجود کچھ ہاتھ نہ آیا تو خیال آیا کہ اب کچھ خریداری کرتے ہیں۔ چین کی دو کمپنیوں سائنوفارم اور کین سائنو کو 7 ملین ڈوز کا آڈر دیا گیا تو ان کمپنیوں کی جانب سے جواب ملا کہ آپ تاخیر سے آئے ہیں اور دنیا بھر سے ڈیمانڈ بہت بڑھ چکی ہے ،اس لیے آپ کو صرف 10 لاکھ 60 ہزار ڈوز فراہم کی جا سکتی ہیں۔ (جاری)

     
  2. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    عوام بھی ٹھیک نہیں ملے؟… (2) ۔۔

    یہ بھی ہوا کہ بروقت فیصلے کرنے کی اہلیت نہ ہونے کی وجہ سے جس طرح گندم اور چینی دگنی قیمت پر برآمد کی گئی اسی طرح ان چینی کمپنیوں کے ساتھ بھی سودا دگنی قیمت پر کرنا پڑا کیونکہ جب قیمتیں کم تھیں اُس وقت ہم مفت کی ویکسین کا انتظار کر رہے تھے۔ حکمرانوں کی نااہلی کی داستان یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتی‘ گلوبل الائنس فار ویکسین اینڈ ایمونائزیشن (گاوی) کے تحت مارچ میں بھارت کی تیار کردہ Oxford-AstraZeneca نامی ویکسین کی ساڑھے چار کروڑ ڈوزز پاکستان کو ملنی تھیں۔ ان ڈوزز کی پاکستان آمد کی خبریں ایسے سنائی جارہی تھیں جیسے ہمالیہ سر کرلیا گیا ہو ‘مگر یہاں بھی کام اُلٹا ہوگیا۔ کورونا کی تیسری لہر نے جب تباہی پھیلائی تو بھارت بھی بری طرح متاثر ہوا۔ انڈیا سیرم انسٹی ٹیوٹ نے فوری طور پر پیغام بھجوا دیا کہ ہم سب سے پہلے بھارتی شہریوں کو ویکسین فراہم کریں گے اس کے بعد کسی کی ویکسین فراہم کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے‘ اس لیے پاکستان کم ازکم مئی تک تو ویکسین بھول جائے۔ حکمرانوں نے اس سے بھی سبق نہ سیکھا‘ نجی دواساز کمپنیاں ویکسین کی فراہمی کے لیے میدان میں اتریںتو حکومت نے اپنی اہلیت کے مطابق ان کے ساتھ بھی ویکسین کے نرخوں کے حوالے سے تنازع پیدا کرلیا۔ یہ موجودہ حکومت ہی ہے جو ایسے ہنگامی حالات میں بھی مسائل کو حل کرنے کے بجائے تنازعات کو جنم دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ روسی ویکسین سپوتنک کی دو خوراکوں کی قیمت 8449اور چینی کمپنی کین سائنو کے ایک انجکشن کی سیل پرائس 4225مقرر کی۔ اس تنازعے کے بعد نجی دوا ساز کمپنیاں خاموش ہوگئیں۔
    اب جب حکمرانوں نے دیکھا کہ کہیں سے بھی ویکسین نہیں مل رہی‘ مارکیٹ میں شارٹ ہوگئی ہے تو ان کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ حکومتی اتحادی چودھری پرویز الٰہی بھی بول اُٹھے کہ کہاں ہے کورونا کی ویکسین؟ حکومت کو اور تو کچھ نہ سوجھا فوری طور پر اپنے سر سے بلا ٹالنے کے لیے نیا ہدایت نامہ جاری کیا گیا کہ صوبے اپنے طور پر ویکسین کا انتظام کرسکتے ہیں اور اس کے لیے انہیں کسی این او سی کی ضرورت نہیں ہے۔یہ حکومتی ہدایت سندھ اور وفاق کی ہم آہنگی کی اعلیٰ مثال نہیںبلکہ وفاقی حکومت کی نااہلی کا نمونہ ہے۔ یہ ہدایت نامہ اس وقت جاری کیا گیا جب بہت دیر ہوچکی تھی۔
    اب کورونا کی تیسری لہر آئی ہے تو حکمران خوابِ غفلت سے بیدار ہوئے ہیں۔ عوام سے احتیاط کے متقاضی ہیں۔حکومت کو چاہئے تو یہ تھا کہ جب عوام پہلی اور دوسری لہر کے بعد کسی حد تک احتیاطی تدابیر اختیار کیے ہوئے تھے تو ان ایس او پیز کو جاری رکھتی۔ اپنی کامیابی کے شادیانے بجانے کے بجائے عوام کو ماسک کو کم از کم اپنے لباس کا حصہ بنا لینے کی ترغیب دیتی۔ کاروباری طبقے کو جن پابندیوں کا عادی بنایا گیا تھا اس میں معمولی نرمی دے دی جاتی مگر اسے ختم نہ کیا جاتا۔عوام کو یہ باور کرایا جاتا کہ خطرہ موجود ہے اور ہمیں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا۔ اسد عمر صاحب جو اَب فرمارہے ہیں کہ کورونا میں تشویشناک پھیلائو کا سبب عوام کی لاپروائی اور غیر محتاط رویہ ہے‘ وہ اُس وقت کہاں تھے جب حکومتی اجلاس اور نجی محافل میں وزراء بغیر ماسک کے شرکت کررہے تھے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ گورنر سندھ عمران اسماعیل صاحب جو کورونا سے نجات پانے کے بعد اسلام آباد میں اپنے جنم دن کی مختصر پارٹی رکھتے ہیں اور اس میں شریک وزراء بغیر ماسک کے نظر آتے ہیں تو کیسے عوام کو قائل کیا جاسکتا ہے کہ کورونا سے بچنے کے لیے ماسک پہنیں۔ وفاقی وزراء بغیر ماسک کے پریس کانفرنسز کرتے دکھائی دیتے ہیں تو وہ کیسے لوگوں کو قائل کریں گے کہ کورونا خطرناک وبا ہے۔ وزیراعظم احتیاطی تدابیر اختیار کیے بغیر قرنطینہ میں ہی اجلاس کرلیتے ہیں۔ صدر مملکت عارف علوی اور وزیردفاع پرویز خٹک بھی کورونا کا شکار ہوکر سوشل میڈیا کے ذریعے دعائے صحت کی اپیل کرتے پائے گئے۔ اللہ اِن سمیت تمام مریضوں کو شفا دے۔ کوئی ان رہنمائوں سے پوچھے کہ جن محافل میں آپ نے شرکت کی کیا ان محافل کے شرکا کا کورونا ٹیسٹ کرایا گیا ہے؟جب حکومتی نمائندے بغیر ماسک اور ایس او پیز کی دھجیاں اڑاتے نظر آئیں گے تو عوام کو کیسے سمجھائیں گے کہ وبا سے نمٹنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔
    کورونا کی تیسری لہر کے اثرات ظاہر ہونے کے ساتھ ہی سندھ حکومت کی جانب سے بہتر اقدامات کئے گئے تھے‘اسی لیے دیگر صوبوں کی نسبت کورونا کی تیسری لہر سے متاثر ہونے والوں کی تعدادبھی کم ہے۔ صوبائی حکومت نے بیرون ملک سے آنے والوں کی سکریننگ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور برطانیہ سے آنے والے مسافروں کی سکریننگ کے دوران جن 73مسافروں میں کورونا کی تشخیص ہوئی انہیں قرنطینہ میں بھیج دیا گیا۔ سندھ میں گرمی کی شدت میں اضافے کے ساتھ ہی ایس او پیز پر عمل درآمد بھی جاری رکھا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ رہا کہ جب پنجاب میں کورونا کے ایکٹو کیسزکی تعداد 30 ہزار516 تک پہنچ چکی ہے اس وقت سندھ میں ایکٹو کیسز کی تعداد 5ہزار 227ہے۔
    صورتحال اب یہ ہے کہ کورونا کی تیسری لہر خطرناک شکل اختیار کرگئی ہے۔ یہ وبا اب صرف بڑوں کو ہی نہیں بچوں کو بھی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ ملک بھر میں دس ہزار سے زائد بچے متاثر ہوچکے ہیں۔ سات دن کے بچے سے لے کر ایک سال تک کے سینکڑوں بچے نازک حالت میں ہیں۔ یہ وبا اس تیزی سے پھیل رہی ہے کہ ہسپتالوں میں جگہ ختم ہو گئی ہے۔ یہ بات تو طشت از بام تھی ہی کہ پاکستان کا صحت کا ڈھانچہ کسی وبا کا متحمل نہیں ہوسکتا۔اسلام آباد کے دوسرے بڑے سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹرز سمیت 152نرسیں اور طبی عملہ قرنطینہ میں ہے۔ لاہور کے سروسز ہسپتال میں بھی 110ڈاکٹر اور طبی عملہ کورونا کا شکار ہوچکاہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ وباکس تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ہسپتالوں میں گنجائش ختم ہوتی جارہی ہے۔ جو مریض لائے جارہے ہیں ان میں اکثر نازک حالت میں ہوتے ہیں‘ انہیں آکسیجن اور دوسری ہنگامی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان مریضوں کو طبی امداد فراہم کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے‘ حکومت جو اقدامات آج کر رہی ہے اسے چاہیے تھا کہ تقریباً ڈیڑھ ماہ پہلے متحرک ہوتی ‘ یوں یہ نوبت نہ آتی۔
    طبی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ کورونا کی تیسری لہر کے بعد چوتھی اور پانچویں لہر بھی آئے گی۔ اگر ایس او پیز کو مستقل نہ کیا گیا اور حکومت نے غیر سنجیدہ رویہ ختم کرکے بے لچک انداز نہ اپنایا تو اس وبا کو قابو کرنا ناممکن ہوجائے گا۔ اب دوسروں پر الزام دھرنے سے کام نہیں چلے گا‘ اس بار اپنی انتظامی نااہلی کا الزام جب اپوزیشن جماعتوں پر نہیں ڈالا جاسکتا تھا تو عوام پر ڈالنا شروع کردیا۔ حکمران اپنے گریبان میں بھی جھانک لیںاور یہ ثابت کرنا چھوڑ دیں کہ انہیں تو عوام بھی ٹھیک نہیں ملے۔ دوسری طرف عوام کو بھی چاہئے کہ زندگی خدا کی عطاکردہ امانت ہے‘ اس کا خیال رکھیں۔ احتیاط کا دامن چھوڑ کر ہم غفلت کے مرتکب ہورہے ہیں۔ گزشتہ برس کی اذیت کو یاد رکھیں اورایسے حالات نہ پیدا ہونے دیں کہ دوبارہ مکمل لاک ڈائون کی جانب جانا پڑے۔ کسی بھی لاک ڈائون کی صورت میں پہنچنے والے معاشی دھچکے سے سنبھلنا مشکل ہوجاتا ہے۔ خدا نہ کرے کہ دنیا تو اس وبا سے نمٹ لے مگر ہم پولیو کی طرح اس وبا میں گھرا رہ جانے والا آخری ملک ثابت ہوں اور ہمیں دوسرے ملکوں کے سفر کے لیے سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت پیش آئے۔ حکومت انتظامی ذمہ داریاں ادا کرے اور عوام احتیاط کریں اس سے پہلے کے بہت دیر ہوجائے۔ (ختم)
     

اس صفحے کو مشتہر کریں