1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عمر خیام کی سر گزشت ... افسر آذر

Discussion in 'اردو ادب' started by intelligent086, Mar 22, 2021.

  1. intelligent086
    Offline

    intelligent086 ممبر

    Joined:
    Apr 28, 2013
    Messages:
    7,273
    Likes Received:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    عمر خیام کی سر گزشت ... افسر آذر

    عمر خیام سلجوقی عہد کا نامور سائنسد ان اور شاعر تھا، اس عہد کے مسلمانوں میں خود نوشت یا زندگی صفحہ قرطاس پر اتارنے کی زیادہ روایت نہ تھی اس لئے تاریخ عمر خیام کے بارے میں یقین اور وثوق سے کچھ نہیں بتاتی، وہ بادشاہ ملک شاہ کے دور میں شاہی ہیئت دان تھا، ہم اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ جن رباعیات کے بارے میں خیال ہے کہ وہ عمر خیام کی ہیں، ان میں سے بیشتر اسی نے کہی ہیں ۔ الجبرا پر اس نے جو کام کیا ہے، اس سے ہم سب واقف ہیں،اقلیدس پر اس کی تقریظ بھی اہل علم کے سامنے ہے، تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ سلجوقی حکمران ملک شاہ اس کی بہت عزت کرتا تھا۔ جبکہ امام غزالیؒ سے اس کے اختلافات تھے۔ مندرجہ بالا حقائق کے بعد دیگر باتوں کے بارے میں بس روایات ہی ملتی ہیں۔ ان روایات کا آغاز نظامی کی بیان کردہ حکایات سے ہوتا ہے، جبکہ اختتام18ویں صدی کے اواخر میں لکھے گئے ایک مختصر تبصرے سے ہوتا ہے۔جس میں کہا گیا ہے کہ
    ''عمر خیام ایک فلسفی تھا جو خوشیوں کوترستا رہا۔ وہ یونانی علوم کاحامی اور بو علی سینا کی تعلیمات کا پیروکار تھا۔ وہ اپنے عہد کا سب سے بڑا آزاد خیال مفکر تھا۔ وہ انتھک کام کرتا تھا۔ بہت اکھڑ مزاج ہونے کے ساتھ ساتھ سخت طبیعت کا مالک تھا۔ حافظہ بلا کا تھا، ایک مرتبہ اس نے ایک کتاب کو سات مرتبہ پڑھنے کے بعد لفظ بہ لفظ نقل کر دیا تھا‘‘۔
    دیگر تبصروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بحث مباحثوں سے حتیٰ الا مکان گریز کرتا تھا، لیکن علم اور باتوں میں روانی اس قدر تھی کی جب بولنے لگتا تو بولتا ہی چلا جاتا تھا۔ہم عصر سائنس دان اور محقق اس کی بڑی عزت و توقیر کیا کرتے تھے۔ اسے آتا دیکھ کر لوگ احتراماََ راستے سے ہٹ جایا کرتے تھے۔بعض حلقے ناپسندکرتے تھے ۔ مخالفین اس کی نگرانی اور جاسوسی بھی کراتے تھے۔ بعض جان کے درپے تھے۔کہا جاتا ہے کہ اس نے کبھی شادی نہیں کی اسی لئے کوئی اولاد بھی نہ تھی۔
    ان روایات کی روشنی میں ہم یہ نتیجہ بھی اخذ کر سکتے ہیں کہ عمر خیام کبھی اپنے عہد کی سیاست میں ملوث نہیں ہوا، وہ اگرچہ کئی مرتبہ بادشاہ ملک شاہ کے ساتھ مختلف علاقوں کے سفر پر بھی گیا لیکن وہ معزی جیسا چرب زبان اور درباری نہ تھا۔ ان روایات میں عمر خیام ایک ایسا تنہائی پسند شخص نظر آتا ہے جو اپنی دنیا میں مگن تھا۔ اسے قدامت پرستی پر مبنی نظریات قبول نہ تھے۔ وہ دقیانوسی باتوں کو سختی سے مسترد کرتا تھا۔ تاہم وہ مختلف علوم میں بو علی سینا کا پیرو کارتھا۔ بو علی سینا کی وفات عمر خیام کی پیدائش سے پہلے ہو گئی تھی ، اس نے بو علی سینا کے شاگردوں سے ریاضی، ہیئت اور فلسفہ سیکھا تھا ۔ ان شاگردوں میں ابوالحسن زنہاری کا نام سر فہرست ہے۔ اسی بناء پر عمر خیام اپنی تصانیف میں بو علی سینا کو ''معلمی‘‘ ( میرا استاد ) کہہ کر یاد کرتا ہے۔ ریاضی اور ہیئت کے علاوہ عمر خیام طب، فلسفہ، قانون اور تاریخ کے علوم کا ماہر بھی تھا لیکن وہ زود نویس نہیں تھا۔
    عمر خیام نسلاََ عرب تھا۔ اس کا اظہار اس کے اپنے نام کے علاوہ والد کے نام سے بھی ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں، ابتدائی تعلیم جس انداز میں حاصل کی، اس سے عربی النسل ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ مزید یہ کہ اس کے کردار اور مزاج کی بعض خصوصیات عربی النسل ہونے کی دلیل ہیں جن میں کچھ دیگر باتوں کے علاوہ گفتگو میں اختصار بھی شامل ہے۔ کام کو انجام تک پہنچانے کے لئے ضبط و تحمل اور رباعیات میں بے باکانہ لہجہ اور سادگی ...یہ وہ خصوصیات ہیں جو عرب میں پائی جاتی ہیں ۔ ممکن ہے کہ اس کے والد عرب ہوں۔
    عمر خیام الجبرا میں خود کو ابوالفتح بن ابراہیم الخیامی کہتا ہے، اور اپنے اشعار میں خیام تخلص استعمال کرتا ہے۔ وہ ایران کے صوبہ خراسان کے شہر نیشا پور یا اس کے نواح کا رہنے والا تھا ۔ تاریخ سن پیدائش کے بارے میں کچھ نہیں بتاتی۔ بعض مصنفین کے اندازوں کے مطابق سن پیدائش 1039ء اور بعض کے خیال میں 1052ء ہے۔ ہیرالڈ لیمب نے سن پیدائش 1052 ء کے لگ بھگ قرار دیا ہے۔ تاریخ سے البتہ یہ ثابت ہوتاہے کہ وہ 1074ء میں ایک ریاضی دان کی حیثیت سے معروف ہو چکا تھا۔ اس کی وفات غالباََ 1123ء میں ہوئی۔ بعض مصنفین کا خیال ہے کہ اس کا سن وفات 1131ء یا 1132ء ہے۔
    عمر خیام کی کہانی ہیرالڈ لیمب کی کتاب سے ماخوذ ہے۔ اس کتاب کو لیمب نے نہ تو تاریخ قرار دیا ہے اور نہ ہی تاریخی ناول ،بلکہ اسے ''حیات عمر خیام ‘‘ لکھاہے۔

     

Share This Page