1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عمران حکومت کیلئے شہباز شریف خطرہ ہیں یا نظریہ ضرورت؟ ..عبدالکریم

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏29 مئی 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    عمران حکومت کیلئے شہباز شریف خطرہ ہیں یا نظریہ ضرورت؟ ..عبدالکریم

    عمران خان کی حکومت کے لیے شہباز شریف خطرہ ہیں یا نظریہ ضرورت؟یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر زبان پر ہے لیکن کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ شہباز شریف، عمران خان کے لیے خطرہ نہیں ہیں کیونکہ شہباز شریف نون لیگ کے لیے قابل بھروسہ نہیں ہیں۔ نون لیگ اصل میں شہباز شریف کو وزیراعلٰی پنجاب کے روپ میں برداشت کر سکتی ہے لیکن وزیراعظم پاکستان کے روپ میں نون لیگ کی اکثریت برداشت نہیں کر سکتی کیونکہ نون لیگ کی اکثریت وزیراعظم کے لیے صرف اور صرف نواز شریف صاحب کو ہی پسند کرتی ہے۔
    نون لیگ نواز شریف صاحب ہیں ،نواز شریف کی سوچ ن لیگ کی سوچ ہے۔ نواز شریف جو پسند کرتے ہیں وہی ن لیگ کی اکثریت پسند کرتی ہے۔ نواز شریف مریم نواز کے علاوہ کسی کو اپنی فیملی میں سے وزیراعظم بننا پسند نہیں کرتے۔ ظاہر ہے نون لیگ کو پاکستان میں بالخصوص پنجاب میں ووٹ نواز شریف کی وجہ سے ملتا ہے اس لیے نواز شریف صاحب جس کو وزیراعظم کے طور پر لائیں گے ن لیگ کاووٹ صرف اور صرف اس کو ہی پڑے گا۔ نواز شریف اس حق میں بھی نہیں ہیں کہ اس حکومت کافوری طور پر خاتمہ ہو، وہ چاہتے ہیں یہ حکومت اپنا وقت پورا کرے اور عمران خان سیاسی شہید نہ ہوں اور لوگ عمران خان کو اچھی طرح پرکھ لیں کیونکہ جس طرح سے موجودہ حالات ہیں جس طرح مہنگائی اور حکومتی نالائقی سے عوام تنگ ہے ،مہنگائی کی وجہ سے عوام کا ہر طبقہ پریشان ہے تو اس طرح کے حالات نون لیگ کے حق میں جا رہے ہیں ۔
    جس طرح لوگ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت، نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی نالائقی کی وجہ سے آئی ہے بالکل اسی طرح اب اگلی حکومت جس کسی کی بھی ہوگی وہ موجودہ حکومت کی مہنگائی اور بری معاشی پالیسیوں کے وجہ سے نون لیگ کے حق میں ہوگی ۔لیکن شہباز شریف عمران خان کے لیے خطرہ اس لیے نہیں ہیں جس طرح عمران خان کو عمران خان سے ان کی غلط معاشی پالیسیوں کی وجہ سے خطرہ ہے بالکل اسی طرح شہباز شریف کو شہباز شریف کی مفاہمت کی سیاست سے خطرہ ہے کیونکہ شہباز شریف کا نظریہ سیاست نون لیگ کی اکثریت کےنظریہ سے بالکل مختلف ہے ۔
    موجودہ حالات میں نون لیگ کا نظریہ نواز شریف کا نظریہ ہے جو کہ مریم نواز لے کر چل رہی تھیں، یعنی ووٹ کو عزت دو ،اداروں کے ساتھ ٹکراؤ،نواز شریف ایک نظریہ ہے یہ نون لیگ کا نظریہ ہے۔ نون لیگ سمجھتی ہے کہ اس کی اکثریت اس نظریے کے ساتھ ہے اور ن لیگ کا ووٹر بھی اس نظریے کے ساتھ کھڑا ہے ۔اگر نواز شریف صاحب خود شہباز شریف کے لیےاس نظریے سے ہٹ جائیں جو کہ مشکل عمل ہے اور نواز شریف صاحب اپنے ووٹر کو بھی کہیں کہ شہباز شریف کو فالو کریں اور نواز شریف صاحب ملک سے باہر بیٹھے رہیں، ان حالات میں عوام کو قائل کرنا ایک مشکل عمل ہے ۔
    جہاں تک شہباز شریف کی بات ہے،یہ سب باتیں ان کے بس سے باہر ہیں۔ شہباز شریف کا نظریہ نواز شریف کے نظریے سے مختلف ہے یعنی شہباز شریف ن لیگ سے مختلف سوچ رکھتے ہیں ۔شہباز شریف کی سوچ ہے مفاہمت کی سیاست ہو،اداروں کے ساتھ بنا کر رکھنا،نظریہ ضرورت کے ساتھ خود کو ڈھال لینا ہے اور ن لیگ کا ووٹر ان سب باتوں کو پسند نہیں کرتا ۔ نون لیگ کا ووٹر نواز شریف کو اپنا لیڈر مانتا ہے ،جو بندہ نواز شریف کے نظریے سے ہٹ کر ن لیگ میں سیاست کرتا ہے تو اس کے لیے ن لیگ کی اکثریت میں جگہ نہیں ہے۔اس لیے شہباز شریف صاحب چاہ کے بھی ووٹ حاصل نہیں کر سکیں گے جس کی وجہ سےن لیگ کا ووٹ بنک تقسیم ہو گا جس کا فائدہ تحریک انصاف کو ہو گا۔ اتنے برے معاشی حالات کے باجود بھی تحریک انصاف اس ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔ اس لیے آپ کہہ سکتے ہیں عمران خان کو شہباز شریف سے کوئی خطرہ نہیں ہے ۔
    نون لیگ اندرونی انتشار کا شکار ہے، ن لیگ میں دو نظریات کی جنگ ہے ۔جب سے شہباز شریف صاحب باہر آئے ہیں تب سے مریم نواز خاموش ہیں ۔شہباز شریف کے باہر آنے سے نواز شریف کا نظریہ کہیں پیچھے چلا گیا ہے۔ اب ہر طرف شہباز شریف کی جے جے ہو رہی ہے۔ شہباز شریف صاحب مختلف لوگوں سے ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں اور پی ڈی ایم میں دوبارہ جان ڈالنے میں متحرک ہیں ۔اس کے لیے شہباز شریف صاحب نے ایک خصوصی عشایے کا اہتمام بھی کیا جس میں بلاول بھٹو کو مدعو کرنے کے لیے دعوت نامہ بھیجاہے لیکن بلاول بھٹو خود تو نہیں آسکے اپنا ایک وفد بھیجا ہے۔شہباز شریف صاحب مولانا فضل الرحمان اور پیپلز پارٹی کے درمیان اختلافات کو بھی ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔پی ڈی ایم نون لیگ کے لیے نظریہ ضرورت ہے ۔یہ جو نظریہ ضرورت ہے یہ موجودہ پاکستانی سیاست کا مرکزی نقطہ ہے۔پاکستانی سیاست کے زیادہ تر سیاستدان نظریہ ضرورت کو پسند کرتے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کہیں شہباز شریف بھی اس ملک کے لیے نظریہ ضرورت تو نہیں ہیں؟ ۔
    پاکستان میں سیاست ایک بے رحم کھیل ہے اور سیاست میں کوئی نظریہ نہیں ہوتا، نظریہ ضرورت ہی سب کا نظریہ ہوتا ہے ۔وقت کے ساتھ ساتھ نظریات بدلتے رہتے ہیں ،اقتدار کی بھوک ہی نظریات ہیں ۔ہر جگہ مافیاز کا راج ہے۔پٹرول مافیا،آٹا مافیا ،چینی مافیا ،لینڈ مافیا،جس ادارے میں جائیں آپ کو ایک مافیا کا سامنا کرنا پڑے گا ۔یہی مافیاز اداروں کو چلنے ہی نہیں دیتے ۔ یہاں ہر حکومت آتے ہی مافیاز کی زد میں آجاتی ہے، ان مافیاز کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ کوئی حکومت ان کو ہاتھ نہیں ڈال سکتی ۔موجودہ حکومت کو دیکھ لیں جب سے یہ حکومت آئی ہے مجال ہے مافیاز نے کام کرنے دیا ہو ،عمران خان کی حکومت ان مافیاز کے آگے بے بس نظر آئی ہے۔
    آپ ان مافیاز کا ندازہ اس بات سے لگائیں کہ ایک چینی سکینڈل آیا ،حکومت نے تحقیات کرائیں جس میں حکومت کے اپنے لوگوں کے نام بھی آئے جیسے جہانگیر خان ترین، خسرو بختیار وغیرہ۔ جیسے ہی ایف آئی اے نے تحقیقات کیں جس کے نتیجے میں جہانگیر خان ترین اور اس کی فیملی پر ایف آئی آر ہوئیں تو حکومت میں سے ایک جہانگیر خان ترین گروپ نکل آیااور افواہیں آنا شروع ہو گئیں کہ اب حکومت جانے والی ہے یا بزدار جائیں گے یا عمران خان جائیں گے کیونکہ جہانگیر ترین کے ساتھ پارٹی کے کچھ ایم این ایز اور کچھ ایم پی ایز کھڑے ہوگئے کہ جہانگیر ترین کے ساتھ حکومت نا انصافی کر رہی ہے اور حکومت میں حکومت کے خلاف ایک پریشر گروپ بن گیا اس پریشر گروپ کا نام ہم خیال گروپ رکھا گیا۔یہ لوگ تحریک انصاف میں ہونے کے باجود تحریک انصاف کے نظریے کے خلاف ہیں وہ اس لیے کہ عمران خان کی ساری سیاست مافیاز کے خلاف لڑنا اور احتساب کی سیاست ہےاگر عمران خان اپنے لوگوں کو این آر او دیتے ہیں تو پھر تحریک ا نصاف کا نظریہ اوریک طرفہ احتساب کا نعرہ مخالفین کے ساتھ سیاسی انتقام کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا اورعمران خان کی ساری سیاست ایک تماشا بن کر رہ جائے گی۔
    عمران خان کے مخالفین اسکا سیاسی فائدہ اٹھائیں گے ۔عمران خان کا سپوٹر بھی مایوس ہوگاجس کا عمران خان کو بہت بڑا سیاسی نقصان ہوگا۔عمران خان بھی نواز شریف اور زرداری کی طرح نظریہ ضرورت کی سیاسی صف میں شامل ہو جائیں گے ۔
    اندازہ تو یہی ہے کہ عمران خان ہم خیال گروپ کے پریشر میں نہیں آئیں گے ،وہ صرف اور صرف بجٹ کا انتظار کر رہے ہیں ،جیسے ہی بجٹ منظور ہوگا عمران خان صاحب احتساب کے عمل کو مزید تیز کریں گےاور مافیاز کے آگے بالکل نہیں جھکیں گے، ان سب کے خلاف ایکشن لیں گے اور اپنی حکومت کے جانے کی بھی فکر نہیں کریں گے۔ عمران خان صاحب نے کہا ہے کہ اگر کسی کو میری حکومت کا خاتمہ کرنے کا شوق ہے تو وہ یہ شوق بھی پورا کر لے ۔سمجھنے والے سمجھ جائیں گے کہ یہ کس طرف اشارہ ہے۔ عمران خان صاحب کو پتہ ہے اگر انہوں نے کسی کو این آر او دے دیا تو یہ ان کے لیے سیاسی موت ہوگی ،تو عمران خان صاحب کسی کو این آر او د ے کر سیاسی خود کشی نہیں کریں گے۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں