1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

علی عمران کی پسندیدہ شاعری

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از علی عمران, ‏4 مارچ 2009۔

  1. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    جیسا کہ سب دوستوں نے اپنی اپنی پسندیدہ شاعری کا ایک ایک دھاگہ بنایا ہوا ہے تو میں نے سوچا میں کیوں پیچھے رہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :hasna: اس دھاگے میں میں اپنی پسندیدہ شاعری لکھوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    ہر قدم پر ابتداء کو انتہا کرتے ہوئے
    چل رہا ہوں منزلوں کو راستہ کرتے ہوئے
    درد کے احساس کو حد سے سوا کرتے ہوئے
    ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا دل حوصلہ کرتے ہوئے
    بجھ گیا وہ ظلمتوں کی انتہا کرتے ہوئے
    ہو گیا تنہا مجھے بے آسرا کرتے ہوئے
    سانس کیوں لینے نہیں دیتا ہے یہ ماضی کا بوجھ
    دم نکل جاتا ہے کفارہ ادا کرتے ہوئے
    تو نے بھی رستے میں چھوڑا مجھ کو اوروں کی طرح
    میں بھی کیوں رکتا تیرے حق میں دعا کرتے ہوئے
    یہ چراغ آخرشب جلد ہی بجھنے کو ہے
    آؤ اس کی لو میں جل جائیں وفا کرتے ہوئے
    آؤ اک دوجے سے مل کر زخم دھو ڈالیں سبھی
    اپنی ہی آنکھوں کے پانی کو دوا کرتے ہوئے
    مانگتے ہو مجھ سے اب بھی میری چاہت کا ثبوت
    جی اٹھا تھا میں کبھی خود کو فنا کرتے ہوئے
    کس قدر سفاک ہوتا ہے دلوں کا احتساب
    کانپ کانپ اٹھتا ہوں اب کوئی خطا کرتے ہوئے
    جی اٹھی میرے بدن کی روشنی سے کائنات
    جل رہا ہوں دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے
     
  2. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ٹوٹے اک خواب تو آنکھیں نہیں پھوڑا کرتے
    جینے والے کبھی جینا نہیں چھوڑا کرتے
    تم نے کوشش کبھی کی ہی نہیں اے مظلومو
    آگ ہو جاتے تو آہن کو بھی موڑا کرتے
    وار ہم کرتے ہیں دشمن پہ سدا جاں لیوا
    ہم کبھی شیر کو زخمی نہیں چھوڑا کرتے
    کب تلک پیاس لیے بھٹکو گے دریا دریا
    پھاوڑا لے کے زمیں کیوں نہیں کوڑا کرتے
    اپنی آنکھوں میں ہم آنسو نہیں آنے دیتے
    اپنے دل کا کبھی بھانڈا نہیں پھوڑا کرتے
    یہ الگ بات کہ ہم پھولوں پہ چلتے ہیں سدا
    وقت پڑ جائے تو پتھر بھی ہیں توڑا کرتے
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نہ اس کی یاد جاتی ہے نا اس کا غم نکلتا ہے
    کچھ ایسی دل کی حالت ہے کہ میرا دم نکلتا ہے
    اچھل کر ہم سری کی کوشش کرتے ہیں وہ لیکن
    ہمارے قد سے انکا قد ہمیشہ کم نکلتا ہے
    یہاں چہرے ہیں یاروں کے مگر دل دشمنوں کے ہیں
    یہاں امرت کے پیالے سے بھی اکثر سم نکلتا ہے
    تیری چارہ گری کی،چارہ گر! حاجت نہیں ہم کو
    ہمارے زخم سے ہی زخم کا مرہم نکلتا ہے
    بدن پہ گھاؤ جتنے تھے وہ سارے بھر گئے لیکن
    جو دل کے زخم ہیں ان سے لہو پیہم نکلتا ہے
    یہ میزائل کی دنیا ہے!نہ دنگل ہے نہ رن کوئی
    لڑائی ہو تو اب گھر سے کہاں رستم نکلتا ہے
    حسیں چہروں کی محفل میں دل اپنا لے کے مت جاؤ
    چمکتی دھوپ میں لے کر کوئی شبنم نکلتا ہے؟
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    سفر میں آتے ہیں مجھ کو نظر در و دیوار
    ہیں میرے ساتھ میرے ہم سفر درو دیوار
    کسی بھی چھت کو بلندی کبھی نہیں ملتی
    انہیں بٹھاتے نہ سر پر اگر در و دیوار
    کسی کسی کو ہی آتا ہے گھر بنانے کا فن
    بنا تو لیتا ہے ہر اک بشر در و دیوار
    جنوں میں اور خرد میں عجب کشاکش ہے
    طویل راہ ادھر ہے،ادھر در و دیوار
    ہیں ہجرتیں ہی مقدر تو مڑ کے کیوں دیکھوں
    کہیں نہ کر دیں میری آنکھ تر در و دیوار
    یہ کم نہیں ہے کہ ہم خواب میں بناتے ہیں
    بنا سکے نہ زمیں پر اگر در و دیوار
    ہمارے عزمِ سفر کو ضعیف کرتے ہیں
    گھٹائیں،میل کے پتھر،شجر،درو دیوار
    میں اس مکان کے اندر بھی جا چکا ہوں کمال
    حسیں نہیں ہیں مکیں، جس قدر در و دیوار
     
  3. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    جو بے رخی ہے بجا نہیں،یہ ادائیں کیوں؟یہ غرور کیا؟
    یہ گریز کس لئے اس قدر،یہ خفا خفا سے حضور کیا؟
    تجھے یاد کرنا مذاق تھا،تجھے بھول جانا عذاب ہے
    یہ سزا ہے جرمِ فراق کی،میرے حافظے کا قصور کیا
    تیرے ساتھ ہے جو تیری انا،میرے ساتھ میرا نصیب ہے
    مجھے تجھ سے کیسی شکائیتں،تجھے خود پہ اتنا غرور کیا!
    کوئی خواب تھا کہ سراب تھا،جو گزر گیا،سو گزر گیا
    یہ بصیرتوں کا قصور کیوں،یہ بصارتوں کا فتور کیا
    یہ تمہارا چہرہ کتاب ہے،اسے پڑھ رہا ہوں ورق ورق
    ذرا بات سادہ لکھا کرو،یہ محاوروں کی سطور کیا
    دلِ خود پسند صدا نہ دے کہ یہ اک صداؤں کا دشت ہے
    کہیں کھو گئے ہیں جو بھیڑ میں،ہمیں ڈھونڈنا ہے ضرور کیا؟
    سبھی پھول تیرے نصیب میں،سبھی خار میرے حساب میں
    یہ جزا سزا کا طلسم ہے،میرا تیرا اس میں قصور کیا
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ہلکی ہلکی دھوپ میں یا پھر چھاؤں میں
    یا دیکھا تھا اس کو تیز ہواؤں میں
    یا کوئی زنجیر پڑی تھی پاؤں میں
    یا جادو تھا اس کی شوخ اداؤں میں
    جانے اس کی زلفوں کا افسانہ تھا
    یا میں اس کی آنکھوں کا دیوانہ تھا
    شاید اس کی آنکھیں باتیں کرتی تھیں
    یا شاید باتیں کرنے سے ڈرتی تھیں
    نقش مناسب تھے اس کے،رنگت گوری
    مجھ کو دیکھا کرتی تھی چوری چوری
    نوکیلی پلکوں کے پہرے میں آنکھیں
    جیسے پھول کھلے ہوتے ہیں کانٹوں میں
    سرخ لبوں پر اس کے رقص شرارت کا
    چہرے پر ہلکا سا عکس شرارت کا
    دور سے آنے والی وہ آہٹ اس کی
    میری قربت میں وہ گھبراہٹ اس کی
    میں نے چاہا کب تھا اس کو،یاد نہیں!
    شاید میرے دل میں وہ آباد نہیں
    اس کی باتوں کا ہر لفظ پرایا تھا
    پھر بھی میں نے اس کو خوب ستایا تھا
    آج نشہ سا ہم دونوں پر طاری ہے
    شاید کچھ پا لینے کی سرشاری ہے
    دیکھ رہا ہوں آج اسے جو آخری بار
    پہلی بار مجھے اس پر آیا ہے پیار
     
  4. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    :salam:

    علی عمران اچھی شیئرنگ ہے :dilphool:
     
  5. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    :a180: :a180: :a180: :a180:

    یہ دھاگہ نہیں جناب، بلکہ ریشم کی محبت بھری مضبوط ڈوری ہے ،جس کے ایک سرے پر ہم اور دوسرے سرے پر آپ کی شاعری ہے ،
    آپ تو" رگِ گُل سے بلبل کو باندھنے" میں بہت تیز ہیں ، آپ کی شاعری بھی ماشاءاللہ بہت چنی ہوئی ہے ، بہت خوب ،
    یہاں آپ اپنی پسند کی ساری شاعری لکھیں ، تاکہ ہم استفادہ کر سکیں ۔


    ََََََََََََََََََََََََََِِِِِِِِِِِّّّّّّّّّّّّّّّّأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأأ

    جو بے رخی ہے بجا نہیں،یہ ادائیں کیوں؟یہ غرور کیا؟
    یہ گریز کس لئے اس قدر،یہ خفا خفا سے حضور کیا؟
    تجھے یاد کرنا مذاق تھا،تجھے بھول جانا عذاب ہے
    یہ سزا ہے جرمِ فراق کی،میرے حافظے کا قصور کیا

    ؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔ
    بہت ہی خوب جناب،شکریہ ،

    آپ سب کا مخلص: بےباک :dilphool: :dilphool: :dilphool: :dilphool:
     
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔
    آپ کا انتخاب آپکی طرح بہت عمدہ ہے۔ :mashallah:

    کیا ہی خوب ہو اگر(ممکن ہوتو) آپ شاعر کا نام بھی آخر میں لکھتے جائیں ۔ تاکہ خالقِ تخلیق سے بھی تعارف ہوتا جائے۔

    شکریہ
     
  7. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    آپ سب کا پسند کرنے کا شکریہ

    نعیم جی انشاء اللہ ایسا ہی ہو گا جہاں ممکن ہوا شاعر کا نام ضرور لکھوں گا۔جہاں معلوم نہ ہوا وہاں میں مجبور ہوں۔شکریہ توجہ دلوانے کا۔
    کاغذوں پہ لکھ دیا ہر ایک لمحے کا عذاب
    اپنے ماتھے کی لکیریں، اپنی آنکھوں کے سراب
    ہر گزرتا پل مجھے ڈستا ہے ناگن کی طرح
    کوئی وحشت کی کہانی ہے کہ یادوں کی کتاب
    مصلحت نے عشق سادہ کو معمہ کر دیا
    اس کا اک واضح اشارہ، میرا پیچیدہ جواب
    میرے رہبر نے میرا نشہ بڑھانے کے لیے
    پھر پلائی ہے مجھے جی بھر کے لفظوں کی شراب
    یاد کر لیں گے تیری قربت کے ہم احسان بھی
    پہلے ہو جائے ذرا فرقت کی شاموں کا حساب
    کچھ نہیں ہو گا تمہاری بے سبب تکرار سے
    کب تلک کہتے رہو گے احتساب و احتساب
    کوئی مجھ کو بھی سکھا دے آسماں چھونے کا فن
    سوچتا ہوں فرش پر کیسے اتاروں آفتاب
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    مجھے یاد ہے آج تک وہ سفر
    سفر تھا اگرچہ بہت مختصر
    ذرا دور جانا تھا مجھ کو، مگر
    یہ خواہش تھی چلتا رہوں عمر بھر
    رہی تھی نہ کچھ مجھ کو منزل کی آس
    وہ جب آ کے بیٹھا ذرا میرے پاس
    میرا دل عجب کیف سے بھر گیا
    میں رکتی ہوئی سانس سے ڈر گیا
    نظر بھر کے جب اس نے دیکھا مجھے
    نشے کے سنمدر میں پھینکا مجھے
    عجب بے خودی تھی، عجب اضطراب
    میں سمجھا، ملے گا مجھے کچھ جواب
    میں اپنی ہر اک بات کو بھول کر
    بڑے غور سے اس کو تکنے لگا
    میرا دم اسی دم اٹکنے لگا
    وہ زلفیں تھیں یا کوئی زنجیر تھی
    وہ میری غزل تھی کہ تصویر تھی
    غزل اس کے چہرے پہ لہرا گئی
    تو چاروں طرف رنگ بکھرا گئی
    وہ موسم سہانا، وہ آنکھوں کی جھیل
    وہ کانوں کی لو میں ستارہ سی کیل
    وہ ہونٹوں سے کچھ دور پیارا سا تل
    وہ چہرے پہ گھبراہٹیں مستقل
    وہ آنکھوں کی جھیلوں میں روشن کنول
    وہ بالوں کا جھٹکا، وہ گردن کا بل
    وہ اس کے لبوں کا خفی ارتعاش
    وہ نادیدہ ہاتھوں کی نازک تراش
    میرے دل سے بس یہ نکلتا تھا “کاش!
    اسے ہو میری ہی نظر کی تلاش
    میرا سایہ اس کے خیالوں پہ ہو
    تو رنگِ حیاء اس کے گالوں پہ ہوں“
    وہ معصوم صورت، وہ کھلتا سا رنگ
    جسے دیکھ کر بج اٹھے جلترنگ
    نہ وہ اجنبی تھا، نہ تھا میرے سنگ
    میں قسمت سے کر بھی نہ سکتا تھا جنگ
    وہ کچھ دور جا کر جدا ہو گیا
    یہ کیا ہو رہا تھا، یہ کیا ہو گیا!
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    تجھ کو بھی دعوے ہیں کتنے ہی اپنی درویشی کے
    مجھ کو بھی دعوے ہیں کتنے اپنی خاک نشینی کے
    تجھ کو بھی یہ فکر کہ دنیا میں تجھ کو آرام نہیں
    مجھ کو بھی یہ زعم کہ مجھ کو دنیا سے کچھ کام نہیں
    تو بھی چاند ستاروں میں کچھ ڈھونڈ رہا ہے برسوں سے
    میں بھی ریت کے ذروں میں کچھ کھوج رہا ہوں صدیوں سے
    تیرا دل بھی آوازوں کی قید سے نکلا جاتا ہے
    میرا دل بھی اکثر گونجتے لفظوں سے گھبراتا ہے
    تیرے اندر کوئی باہر والے سے کتراتا ہے
    میرے اندر بھی کوئی آئینے سے شرماتا ہے
    تیرا دل بھی اپنی سچی باتوں کا انکاری ہے
    میرا دل بھی جھوٹے سچے جذبوں کا بیوپاری ہے
    میں بھی اپنے شوقِ نمو میں خود کو چھپائے پھرتا ہوں
    تیری طرح میں چہرے پر تصویر سجائے پھرتا ہوں
    میں نے ان چلتے پھرتے چہروں میں تجھ کو پایا ہے
    تو شاید کچھ اور نہیں ہے بلکہ میرا سایہ ہے
    فیصل عظیم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
  8. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    خواب کے قیدی رہے تو کچھ نظر آتا نہ تھا
    جب چلے تو جنگلوں میں راستہ بنتا گیا

    تہمتیں تو خیر قسمت تھیں مگر اس ہجر میں
    پہلے آنکھیں بجھ گیئں اور اب چہرہ گیا

    ہم وہ محرومِ سفر ہیں دشتِ خواہش میں جنہیں
    اک حصارِ درو دیوار میں رکھا گیا

    بر ملا سچ کی جہاں تلقین کی جاتی رہی
    پھر وہاں جو لوگ سچے تھے انہیں روکا گیا

    ہم وہ بے منزل مسافر ہیں جنہیں ہر حال میں
    ہم سفر رکھا گیا اور بے نوا رکھا گیا

    کھا گیا شوقِ زورِ بزم آرائی اسے
    صاحبِ فہم و فراست تھا مگر تنہا گیا
    ...........................کبھی ہم بھیگتے ہیں چاہتوں کی تیز بارش میں
    کبھی برسوں نہیں ملتے کسی ہلکی سی رنجش میں

    تمہی میں دیوتاں کی کوئی خو بو نہ تھی ورنہ
    کمی کوئی نہیں تھی میرے اندازِ پرستش میں

    یہ سوچ لو پھر اور بھی تنہا نہ ہو جانا
    اسے چھونے کی خواہش میں اسے پانے کی خواہش میں

    بہت سے زخم ہیں دل میں مگر اِک زخم ایسا ہے
    جو جل اٹھتا ہے راتوں میں جو لو دیتا ہے بارش میں
    ................................ سبھی جذبے بدلتے جا رہے ہیں
    کہ جیسے خواب مرتے جا رہے ہیں

    کوئی دن کے لیئے دل کے مکیں کو
    نظر انداز کرتے جا رہے ہیں

    جو دل کا حال ہے دل جانتا ہے
    بظاہر تو سنبھلتے جا رہے ہیں

    چلے تو ہیں تمہارے شہر سے ہم
    کفِ افسوس ملتے جا رہے ہیں

    کبھی جن میں غرور ِ تازگی تھا
    وہ خد و خال ڈھلتے جا رہے ہیں

    (معلوم نہیں)
     
  9. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    علی عمران بھائ بہت خوب :a180: :dilphool:
     
  10. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    بہت عمدہ شاعری ہے۔ عمران بھائی۔


    (ایک مشورہ ہے کہ اگر آپ تین تین غزلیں ایک ہی پوسٹ میں‌لکھنے کی بجائے ایک ایک غزل کر کے لکھ دیا کریں تو زیادہ خوبصورت لگیں گی)
     
  11. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    بہت خوب ،
    :a180: :a180: :a180: :a165: :dilphool: ،یہ مال کہاں چھپا کر رکھا تھا،
     
  12. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    واہ ۔ بہت خوب۔ سادہ انداز میں دل کا حال خوب بیان کیا ہے۔ :a180:
     
  13. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    شکریہ شکریہ حسن بھائی :happy:
     
  14. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    بہت بہت شکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں تو جگہ زیادہ نہ گھرے اس لیے ایسا کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔خیر آپ کا مشورہ مان لیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیونکہ اس میں خرچہ نہیں آتا اور فری کا کام کرنے کا اپنا ہی مزہ ہے خاص کر مجھ جیسے گریب بندے کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :201:
     
  15. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    بہت بہت شکریہ چھوٹے بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ تو مال ایسے کہ رہے ہیں جیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آہوووووووووو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خیر یہ مال لوٹا نہیں گیا۔۔۔۔۔اور نہ یہ بیرونِ ملک کسی اکاؤنٹ میں منتقل ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔یہ عوام کا مال ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سب لکھ دوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا
     
  16. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    بہت بہت شکریہ نعیم جی آپ کا حسنِ نظر کہ میری پسند کو پسند کیا۔۔۔۔۔۔ :happy:
     
  17. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    صنم ایسے اچھے بھی آئیں گے دن
    نہ پاؤں میں فرقت کی زنجیر ہو گی
    محبت کے جذبوں پہ اس سلطنت میں
    کسی بھی طرح کی نہ تعزیر ہو گی
    نہ وحشت کا سامان سپنے بنیں گے
    سرابوں میں پنہاں نہ تعبیر ہو گی
    اداسی کے میلوں کا دل چاک ہو گا
    تو قسمت میں غم کی نہ تحریر ہو گی
    نزاکت سے بھرپور جذبات سارے
    ہوا کی نہ ٹھوکر سے ٹوٹا کریں گے
    پشیماں پشیماں اکیلے اکیلے
    ہمہ وقت عاشق نہ گھوما کریں گے
    کبھی مہ وشوں کے لطیف آنسوؤں سے
    شبِ غم کے آنچل نہ بھیگا کریں گے
    جدائی کے لمحے مہینوں سے بڑھ کے
    ریاضت نہ قرنوں کی مانگا کریں گے
    صنم ایسے اچھے بھی دن آئیں گے سب
    مگر سوچتا ہوں وہ دن آئیں گے کب

    عتیق الرحمن صفی
     
  18. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    نہیں ایسا ہر گز کہ گھائل نہیں ہوں
    دکھوں کی نمائش کا قائل نہیں ہوں
    ارے تم مجھے اس طرح تو نہ دیکھو
    محبت کا مارا ہوں سائل نہیں ہوں
    یہ کم گوئی تو میری عادت ہے جاناں
    میں بے اعتنائی پہ مائل نہیں ہوں
    اگر چاہتے ہو تو جھومر بنا لو
    یہ دل کہ رہا ہے میں پائل نہیں ہوں
    تمہاری محبت کا داعی ہوں لیکن
    تمہارے ارادوں میں حائل نہیں ہوں
    کہاں تک ستم اس جہاں کے سہوں گا
    میں انساں ہوں پتھر کی ٹائل نہیں ہوں

    عتیق الرحمن صفی
     
  19. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    دلِ مضطرب ذرا ہوش کر
    تو شعور کو بھلا کس لیے
    تلے پاؤں ہے یوں مسل رہا
    کڑے وقت میں تو یہ بارہا
    تیری مشکلات کا حل رہا
    تو یہ کس طرف بھلا چل پڑا
    بڑا دکھ بھرا ہے یہ راستہ
    یہاں رنج کا، یہاں درد کا
    کبھی ختم ہو گا نہ سلسلہ
    میری بات سن تو یہ چھوڑ ضد
    ابھی لوٹ جا ابھی لوٹ جا

    عتیق الرحمن صفی
     
  20. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    سوکھے پیڑ سے ٹیک لگائے پہروں بیٹھا رہتا ہوں
    بانہوں میں چہرے کو چھپائے پہروں بیٹھا رہتا ہوں
    جانے کب وہ آجائے اس آس پہ اکثر راتوں کو
    آنکھیں دروازے پہ جمائے پہروں بیٹھا رہتا ہوں
    کاش وہی کچھ دکھ سکھ بانٹے بس اس آس میں اکثر میں
    ہاتھوں میں تصویر اٹھائے پہروں بیٹھا رہتا ہوں
    اس کی تحریروں کے روشن لفظوں کی تاثیر ہے یہ
    دنیا کے سب درد بھلائے پہروں بیٹھا رہتا ہوں
    جسم و جاں میں پچھلی رت جب محشر برپا کرتی ہے
    دل کو یادوں میں سلگائے پہروں بیٹھا رہتا ہوں
    یہ تو طے ہے جانے والے کم ہی لوٹ کے آتے ہیں
    پھر بھی میں اک آس لگائے پہروں بیٹھا رہتا ہوں
    آج صفی ہمدرد نہ کوئی درد کی ایسی شدت میں
    آج اسے پھر دل میں بسائے پہروں بیٹھا رہتا ہوں

    عتیق الرحمن صفی
     
  21. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    کبھی چاندنی بن کے
    آنکھوں کے درپن میں
    اتری ہو ایسے
    اندھیروں میں مجھ کو
    ہر اک عکس نور و تجلی کی صورت
    فروزاں لگا تو
    کبھی بے بسی سے
    الجھتے ہوئے ذہن کی سوچ کو یوں
    توانائی بخشی
    کہ جذبوں میں اس وقت
    سورج سے بھی بڑھ کے
    مجھ کو تمازت سی محسوس ہوئی
    مگر آج مجھ کو
    تمہارے ہی غم نے
    تمہاری ہی سوچوں نے الجھا دیا ہے
    تمہاری ہی خاطر
    میں دور آ کے تجھ سے
    تو آہوں کے جنگل کا قیدی ہوا ہوں
    یہ لگتا ہے مجھ کو میں زندہ نہیں ہوں
    کہ جاں زندگی کے
    عذابوں میں شام و سحر کھو چکا ہوں
    میں بیتے سمے کے وہ مضبوط لمحے
    سبھی یاد کر کے
    بہت رو چکا ہوں
    بہت رو چکا ہوں

    عتیق الرحمن صفی
     
  22. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    [quote="اس کی تحریروں کے روشن لفظوں کی تاثیر ہے یہ
    دنیا کے سب درد بھلائے پہروں بیٹھا رہتا ہوں
    جسم و جاں میں پچھلی رت جب محشر برپا کرتی ہے
    دل کو یادوں میں سلگائے پہروں بیٹھا رہتا ہوں
    یہ تو طے ہے جانے والے کم ہی لوٹ کے آتے ہیں
    پھر بھی میں اک آس لگائے پہروں بیٹھا رہتا ہوں
    آج صفی ہمدرد نہ کوئی درد کی ایسی شدت میں
    آج اسے پھر دل میں بسائے پہروں بیٹھا رہتا ہوں

    [/quote]​


    بہت خوب علی عمران بھائی۔۔۔۔۔۔ :dilphool: :dilphool:
     
  23. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    علی عمران بھائی ۔ آپ کا حسن ِ انتخاب قابلِ صد ستائش ہے۔ :mashallah:
     
  24. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    میرے شہر کے کچے ذہنو
    شاید تم کچھ بھول رہے ہو
    یاد نہیں کیا، شہر ہمارا
    روشنیوں کا گہوارہ تھا
    علم ہماری جب طاقت تھی
    پیار ہمارا جب شیوہ تھا
    خاک نشیں ہم پہلے بھی تھے
    لیکن اب تو خاک ہوئے ہیں
    پہلے بھی شکوے تھے ہم کو
    پر اب تو نمناک ہوئے ہیں
    پہلے خالی جیب کا ڈر تھا
    آج گریباں چاک ہوئے ہیں
    پہلے بات کیا کرتے تھے
    آج تو ہم سفاک ہوئے ہیں
    اپنے ہاتھوں ضرب لگی ہے
    زخموں سے خود چور ہوئے ہیں
    جہل کا پیچھا کرتے کرتے
    علم سے آخر دور ہوئے ہیں
    خوبی تھی برداشت ہماری
    نفرت پر معمور ہوئے ہیں
    اپنی ہی تہذیب سے آخر
    اپنا رشتہ ٹوٹ گیا ہے
    ہم جو قیادت کرتے تھے کل
    وہ منصب بھی چھوٹ گیا ہے
    اب تو شرم سے سر جھکتا ہے
    تم کس بات پہ جھوم رہے ہو
    جو تم کو اس موڑ پہ لایا
    ہاتھ اسی کے چوم رہے ہو
    میرے شہر کے کچے ذہنو
    کس محور پر گھوم رہے ہو
    یاد نہیں کیا، شہر ہمارا
    روشنیوں کا گہوارہ تھا

    فیصل عظیم
     
  25. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    اچھا کلام ھے عمران جی :a180:
     
  26. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    جو پلٹی تو چہرہ نما ہو گئی
    تھی کیا بات اور کیا سے کیا ہو گئی
    ادھوری تھی سو خود سزا ہو گئی
    کہ محفل کی محفل خفا ہو گئی
    نہ میں نے کہا اس کا دامن ہے صاف
    نہ مجھ کو معافی سے کچھ اختلاف
    وہ کوئی نبی ہے نہ قرآن ہے
    فرشتہ نہیں ہے وہ انسان ہے
    مگر اس کو پھر بھی سراہا گیا
    خطا کی مگر پھر بھی چاہا گیا
    اندھیرے سے آخر نکالی گئی؟
    ہماری بھی عزت بچا لی گئی؟
    مگر ایک جانب وہ بہروپئے
    نشے میں بہکتے ہیں جو بن پئے
    نہیں ملک و ملت کی عزت کا پاس
    اتاریں گے کیا قوم کا وہ لباس؟
    کہاں اور عزت اچھالیں گے وہ؟
    جنازے ہمارے نکالیں گے وہ؟
    لگاتے ہیں سڑکوں پہ وہ کس کے دام؟
    انہیں ہے بس اپنی سیاست سے کام
    مگر “ایک“ کردار بے جوڑ ہے
    کہ یہ تو کہانی کا اک موڑ ہے
    ابھی اس سے آگے بھی جائیں گے ہم
    بہت راہ پیچیدہ پائیں گے ہم
    یہ مانا کہ نیت بہت نیک ہے
    مگر مسئلہ تو فقط“ایک“ ہے
    کہ دشمن نئے کچھ بنا لے گا“ایک“
    کہاں تک وطن کو سنبھالے گا “ایک“
    کہ طوفان آگے کئی آئیں گے
    تو کیا ہم بھی اس رو میں بہہ جائیں گے؟
    حقائق بدلتی ہیں قسمیں کہیں؟
    کہ یہ“فردِ واحد“ کے بس میں نہیں
    محبت وطن سے کریں تو ضرور
    مگر میری اک التجا ہے حضور
    سیاست نہیں آپ کا مشغلہ
    یہ ہے کام جن کا، انہی کو بھلا
    نکل آئیں آخر کو ہم شان سے
    کہ گزریں کبھی ہم جو بحران سے
    یہ سمجھیں، نہیں ہے“اکیلے“ کا کام
    ہمیں چاہیے اک مکمل نظام
    کسی کو چڑھایا، اتارا کبھی
    نظاموں کو دیجے سہارا کبھی
    خدارا! ہمیں گھر بسانا ہے یہ
    کہ آدھی صدی کا فسانا ہے یہ

    فیصل عظیم
     
  27. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    زبردست بہت خوب :a180:

    خوب کلام ھے بہت خوب

    نہیں ملک و ملت کی عزت کا پاس
    اتاریں گے کیا قوم کا وہ لباس؟
    کہاں اور عزت اچھالیں گے وہ؟
    جنازے ہمارے نکالیں گے وہ؟
    لگاتے ہیں سڑکوں پہ وہ کس کے دام؟
    انہیں ہے بس اپنی سیاست سے کام



    بہت اچھے
     
  28. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    علی عمران بھائ بہت اچھی شیئرنگ ہے :a180: :a165: :dilphool:
     
  29. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    بہت زبردست ،
    :a180: :a165: :a165: :a165:
     
  30. عدنان بوبی
    آف لائن

    عدنان بوبی ممبر

    شمولیت:
    ‏1 فروری 2009
    پیغامات:
    1,777
    موصول پسندیدگیاں:
    30
    ملک کا جھنڈا:

    ماں
    موت کی آغوش میں جب تھک کر سو جاتی ہے ماں!
    تب کہیں جا کر تھوڑا سکون پاتی ہے ماں!

    روح کے رشتوں کی یہ گہرائیاں تو دیکھیے
    چوٹ لگتی ہے ہمیں ور چِلاتی ہے ماں!

    پیار کہتے ہیں کسے اور مامتا کیا چیز ہے؟
    کوئ اُن بچوں سے پوچھے جن کی مر جاتی ہے ماں!

    زندگانی کے سفر میں گردشوں کی دھوپ میں
    جب کوئ سایہ نہیں ملتا تو یاد آتی ہے ماں!

    کب ضرورت ہو میری بچوں کو، اتنا سوچ کر
    جاگتی رہتی ہیں آنکھیں اور سو جاتی ہے ماں!

    بھوک سے مجبور ہو کر مہمانوں کے سامنے
    مانگتے ہیں جب بچے روٹی تو شرماتی ہے ماں!

    لوٹ کر سفر سے جب بھی گھر واپس آتے ہیں ہم
    ڈال کر بانہیں گلے میں سر کو سہلاتی ہے ماں!

    ایسا لگتا ہے جیسے آ گئے فردوس میں
    کھینچ کر جب بانہوں میں سینے سے لپٹاتی ہے ماں!

    دیر ہو جاتی ہے اکثر گھر آنے میں جب کبھی
    ریت پر ہو مچھلی جیسے ایسے گھبرا جاتی ہے ماں!

    شکر ہو ہی نہیں سکتا کبھی اس کا ادا
    مرتے مرتے بھی دعا جینے کی دئیے جاتی ہے ماں!
     

اس صفحے کو مشتہر کریں