1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

علامہ اقبال کا تصور جمہوریت ۔ قیوم نظامی

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏22 اپریل 2014۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    علامہ اقبال کا تصور جمہوریت
    کالم نگار | قیوم نظامی
    21 اپریل 2014

    [​IMG]

    آج مصور پاکستان علامہ اقبال کا یوم وفات ہے وہ جسمانی طور پر ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں مگر ان کا فکر و فلسفہ آج بھی زندہ و تابندہ ہے اور ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ اقبال نے 1928ء میں اپنے تاریخی خطبات کے ذریعے اسلام کے سیاسی نظام کے بارے میں جو بحث کی تھی مسلمان آج تک اس بحث کا ادراک نہیں کرسکے اور نہ ہی اس کی روشنی میں کوئی مثالی سیاسی نظام وضع کرسکے ہیں۔ عالم اسلام اگر ایک سیاسی نظام پر متفق ہوجاتا تو اندرونی بیرونی مسائل سے دوچار نہ ہوتا۔ علامہ اقبال کی اسلامی علوم پر گہری نظر تھی ان کو مفکر اسلام بھی کہا جاتا ہے۔
    آج بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو دعویٰ کرتے ہیں کہ جمہوریت اسلام کے منافی ہے۔ معروف قانون دان ایس ایم ظفر نے اپنی کتاب ’’عوام پارلیمنٹ اسلام‘‘ میں مستند حوالوں کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ جمہوری سیاسی نظام اسلام کے معروف بنیادی اصولوں کے عین مطابق ہے۔ اقبال نے مغربی جمہوریت کے بعض پہلوئوں پر تنقید ضرور کی تھی مگر جمہوری فلسفہ سے اختلاف نہیں کیا تھا۔ اکثر دانشوروں نے چونکہ فکر اقبال کا پورا احاطہ نہیں کیا اس لیے وہ اقبال کے تصور جمہوریت کا مکمل جائزہ پیش نہ کرسکے۔ اقبال کا اپنے زمانے کی جمہوریت پر ایک اعتراض یہ تھا اس میں بندوں کے معیار اور استعداد کو مد نظر نہیں رکھا جاتا…؎
    جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں
    بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
    اقبال نے اپنے فارسی کلام پیام مشرق (1923) میں جمہوریت کے عنوان سے قطعہ لکھا جس کا ترجمہ یہ ہے
    ’’تو اس انداز کی جمہوریت سے دور بھاگ اور اپنے منتخب بے شمار حکمرانوں سے قطع نظر کرتے ہوئے کسی ایک پختہ کار کی غلامی اختیار کرلے کیونکہ دو سوگدھوں کے دماغ سے انسانی فکر پیدا نہیں ہوسکتی‘۔
    اقبال چاہتے تھے کہ پارلیمنٹ میں ایسے افراد ہوں جن کی فکر پختہ ہو اور ہر لحاظ سے اہل و دیانت دار ہوں تاکہ قوم کی ترقی اور خوشحالی کے لیے مثبت اور تعمیری کردار ادا کرسکیں۔اقبال نے اسلام کے سیاسی نظام کے بارے میں 1919ء میں "Political Thought in Islam" کے عنوان سے ایک آرٹیکل تحریر کیا جس میں بیان کیا کہ اسلام سے قبل عرب قبائل کی یہ روایت تھی کہ وہ اپنے قبائلی چیف یا شیخ کی وفات کے بعد اُس کے جانشین کا انتخاب مشاورت اور اکثریت کے اصول پر کرتے تھے۔ اقبال کے مطابق پیغمبر عربؐ نے عرب کی اس قدیم رسم (مشاورت اور انتخاب) کو قائم رکھا۔ رحلت کے وقت یا اس سے قبل اپنی جانشینی کے متعلق مسلمانوں کو کوئی ہدایات نہ فرمائیں تاکہ مسلمان مشاورت سے اپنا خلیفہ منتخب کرسکیں۔
    علامہ اقبال نے 28 مئی 1937ء کو قائداعظم کے نام خط میں تحریر کیا
    ’’اسلام کے قانونی اصولوں کے مطابق کسی مناسب شکل میں سماجی جمہوریت کو قبول کرلینا کوئی انقلاب نہیں ہے بلکہ اسلام کی اصل کی جانب لوٹنا ہوگا‘‘۔
    اقبال اشرافیہ کی جمہوریت نہیں ایسی سماجی جمہوریت کے قائل تھے جس کے ثمرات سے مخصوص طبقہ نہیں بلکہ سب عوام بلا تفریق مستفیض ہوسکیں۔
    اقبال ایسی جمہوریت کے قائل تھے جس میں سماج کا ہر فرد اپنی صلاحیتوں کے مطابق ترقی کرسکے۔ وہ لکھتے ہیں
    ’’ایسی جمہوریت ہی بہترین نظام ہے جس کا مقصد یہ ہو کہ فرد کو اس قدر آزادی ہوکہ اس کی فطرت کے تمام امکانات کو ترقی اور نشوونما کے مواقع فراہم ہوسکیں‘‘۔
    علامہ اقبال نے ایک ایسی جمہوریت کا خواب دیکھا تھا جس کی بنیاد مساوات پر رکھی گئی ہو وہ لکھتے ہیں
    ’’دوسرا سیاسی اصول جمہوریت ہے جو انسانوں کی غیر مشروط اور کامل مساوات پر مبنی ہو۔ مسلم ملت کے تمام افراد معاشرتی اور معاشی تفاوت کے باوجود قانون کی نظر میں مساوی حقوق کے مالک ہیں‘‘۔
    اقبال ایسی روحانی جمہوریت کے علمبردار تھے جس میں ارکان پارلیمنٹ کا انتخاب سرمایہ اور جاگیر کی بنیاد پر نہیں بلکہ اہلیت اور دیانت کی بنیاد پر کیا جائے۔ ایسا جمہوری نظام جس میں قانون کی حکمرانی ہو اور حاکم بھی قانون کے تابع ہو۔ عوام کو مساوی مواقع اور حقوق حاصل ہوں۔ ہر فرد کو بلا امتیاز مذہب ، رنگ اور نسل، ترقی اور نشوونما کا موقع مل سکے۔ اقبال جمہوریت کو اسلام کے سنہری اصولوں کے تابع رکھنا چاہتے تھے۔ وہ بادشاہت آمریت اور مذہبی پیشوائیت کے سخت مخالف تھے۔
    پاکستان کا موجودہ جمہوری ماڈل علامہ اقبال کے تصور جمہوریت کے منافی ہے۔ یہ ماڈل اسلامی، مغربی اور جمہوری بھی نہیں ہے۔ ایک ایسے انتخابی نظام کو جمہوریت کا نام دے دیا گیا ہے جس میں صرف اشرافیہ کے افراد ہی منتخب ہوسکتے ہیں۔ پاکستانی جمہوریت کا گڈ گورنینس، مساوی ترقی، اخلاقیات اور قانون کی حکمرانی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
    برطانوی جمہوریت میں ’’پارٹی ٹکٹ ‘‘کا کوئی تصور نہیں ہے وہاں ہر انتخابی حلقہ کے پارٹی اراکین اپنے اُمیدواروں کا فیصلہ کرتے ہیں جبکہ پاکستان میں پارٹی کا سربراہ ’’پارٹی فنڈ‘‘ لے کر پارٹی ٹکٹ دیتا ہے۔ برطانیہ میں سیاسی جماعتوں کے اندرونی انتخابات ہوتے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کو ذاتی جاگیر کی طرح چلایا جاتا ہے۔ برطانیہ کا جمہوری نظام مساوات پر مبنی ہے وہاں پر بس ڈرائیور کا بیٹا بھی وزیر بن سکتا ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ میں 200ارکان آکسفورڈ یونیورسٹی کے گریجوایٹ ہیں۔ پاکستان کی پارلیمنٹ میں جعلی ڈگری ہولڈر بیٹھے ہیں۔ پاکستان کے جمہوری ماڈل کو حقیقی جمہوریت بنانے کی ضرورت ہے جو نظام کی تبدیلی سے ہی ممکن ہے۔

    بشکریہ نوائے وقت ادارتی صفحہ
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    عمران خان نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے گرایجویشن کی ہے۔۔باقی سب نے صرف ڈگریاں پرنٹ کروائی ہیں ۔یونیورسٹی نہیں گے
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    یہ سب کچھ کرپٹ نظام کا شاخسانہ ہے۔
    درخت ہی کانٹے دار ببول کا بویا جائے گا تو اس پر گلاب نہیں اگیں گے۔
    پاکستان کو علامہ اقبال رح اور قائد اعظم رح کے تصورات کے مطابق ایک اسلامی فلاحی جمہوری نظام درکار ہے۔
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    انگوٹھا چھاپ لیڈوں کے ہوتے ہوئے ،کرپش ،لوٹ مار کی ہی توقع کی جا سکتی ہے
     
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    اکثر سنا جاتا ہے " ہم بطور قوم ہی کرپٹ ہیں۔ ہم ٹھیک ہو ہی نہیں سکتے بلکہ بعض تو کہتے ہیں کرپٹ حکمرانوں کی وجہ ہماری اپنی کرپٹ ذہنیت ہے وغیرہ وغیرہ"
    جب کہ عظیم دانشور شیخ سعدی رح کا کہنا ہے کہ
    "حکمرانوں کی ذہنیت نیچے قوم میں سرایت کرتی ہے۔ فرماتے ہیں اگر حکمران کسی درخت سے ایک پھل ناحق کھا لے تو قوم اپنے حکمران کی تقلید میں اس درخت کے سارے پھل ناحق کھا جائے گی "
    اس سے یہ بھی سبق ملتا ہے کہ اگر حکمران نیک، ایماندار، لائق، خوفِ خدا کا حامل میسر آجائے تو اسکی قیادت میں پوری قوم بھی بہتری کی راہ پر چل پڑے گی۔"
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    آپ کی بات درست ہے۔جیسی عوام ویسے حکمران ۔یہ تو قدرت کا فیصلہ ہے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں