1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

علامہ اقبالؒ کی نجی زندگی ۔۔۔ ڈاکٹر جاوید اقبال

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏10 نومبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    علامہ اقبالؒ کی نجی زندگی ۔۔۔ ڈاکٹر جاوید اقبال

    انہیں انگریزی لباس سے سخت نفرت تھی، اچکن پہننے کی تلقین کرتے تھے

    کئی بار کتاب پڑھنے کی وجہ سے کھانے کی میز پر آنا بھول جاتے ، علی بخش سے معصومانہ میں پوچھتے کیوں بھئی میں نے کھانا کھا لیا ہے؟، آدھی رات کو بے چینی کے عالم میں علی بخش سے قلم دوات منگواتے، اشعار لکھنے کے بعد پر سکون ہو جاتے تھے
    مجھے خواب کی طرح یاد ہے کہ ہمارے یہاں ایک مرتبہ ایک مہمان آکر ٹھہرے تھے۔ میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار انہیں ابا جان کو ’اقبالؒ‘ کہہ کر پکارتے سنا۔ یہ متناسب جسم، میانہ قد، باریش بزرگ نہایت خوش پوش، خوش باش اور خوش خور تھے۔ ممبئی سے آئے تھے ۔ آپ کا نام مولانا محمد علی تھا۔ یہ وہی محمد علی تھے جن کے متعلق اس زمانے میں مجھے ایک شعر حفظ ہوگیا تھا ؎

    بولی اماں محمد علی کی
    جان، بیٹا!خلافت پہ دے دو

    دو ایک مرتبہ میں ابا جان اور اماں جان کے ساتھ سیالکوٹ بھی گیا۔ تب دادا جان بقید حیات تھے، گو بہت ضعیف ہو چکے تھے اور اپنے کمرے میں چار پائی پر بیٹھے رہتے۔ میں ان کے پاس جاتا تو آنکھوں کو اپنے ہاتھ کا سایہ دے کر مجھے دیکھتے اور پوچھتے کہ کون ہے۔؟ جب میں اتنا بتاتا کہ میں جاوید ہوں تو ہنس پڑتے، طاق میں سے ایک ٹین کا ڈبہ اٹھاتے اور اس میں سے برفی نکال کر مجھے کھانے کو دیتے۔

    رمضان کے دنوں میں اماں جان باقاعدہ روزے رکھتیں اور قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتیں۔ گھر کے ملازم بھی روزے رکھتے۔ مجھے سحری کھانے کا بے حد شوق تھا اورایک آدھ بار ابا جان کے ساتھ سحری کھانا بھی یاد پڑتا ہے۔ وہ بڑھاپے میں ہر نصف گھنٹے کے بعد علی بخش کو بلوا کر پوچھتے کہ افطاری میں کتنا وقت باقی ہے۔ جب عید کا چاند دکھائی دیتا تو گھر میں بڑی چہل پہل ہو جاتی۔ میں عموماً ابا جان کو عید کا چاند دکھایا کرتا تھا۔

    عید کے دن ابا جان مجھے اپنے ساتھ بادشاہی مسجد لے جاتے تھے ۔نماز سے فارغ ہو کر ہم گھر آتے۔ ابا جان کی عادت تھی کی وہ عید کے روز سویوں پردہی ڈال کر کھایا کرتے تھے۔ سارا دن انہیں ملنے والوں کا تانتا بندھا رہتا اور دن کھاتے پیتے، ہنستے کھیلتے گزر جاتا۔

    کبھی بیمار ہوتا تو اماں جان اور ابا جان بہت پریشان ہو جاتے۔ میرے سرہانے روپوں کے نوٹ رکھے جاتے اور کھیلنے کے لیے اماں جان مجھے نو اشرفیاں دیتیں جو میری پیدائش کے وقت ابا جان کے مختلف احباب سے بطور تحفہ ملی تھیں۔ اماں جان کا خیال تھا کہ اگر بچہ بیمار ہو اور اسے کھیلنے کے لیے روپے یا اشرفیاں دی جائیں تو وہ جلد صحت یاب ہو جاتا ہے۔ ابا جان مجھ سے بار بار پوچھتے، کہیں درد تو نہیں ہو رہا، اور اگر میں انکار سے سر ہلاتا تو کہتے: ’’منہ سے بولو بیٹا!سر مت ہلائو ۔‘‘

    ہمارے گھر میں نہ تو ریڈیو تھا اور نہ گراموفون بجانے کی اجازت تھی ۔ اباجان ایسی چیزوں کو پسند نہ کرتے تھے ۔البتہ گانا سننے کا انہیں شوق ضرور تھا، اور اچھا گانے والوں کو جب کبھی گھر بلوا کر ان سے اپنا یا اوروں کا کلام سنتے تو مجھے بھی پاس بٹھالیا کرتے ۔ فقیر نجم الدین مرحوم ، اباجان کو اکثر ستار بجا کر سنایا کرتے تھے۔ خود ابا جان کو جوانی میں ستار بجانے کا شوق رہ چکا تھا۔ لیکن جب وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے یورپ گئے تو اپنی ستار کسی دوست کو دے گئے۔ ۱۹۳۱ء میں جب گول میز کانفرنس میں شمولیت کے لیے انگلستان گئے تو اس وقت میں نے انہیں ایک خط میں خواہش ظاہر کی کہ واپسی پر وہ گراموفون لیتے آئیں۔ گراموفون تو وہ لے کر نہ آئے لیکن اس خط کے جواب میں انہوں نے نظم لکھی ؎

    دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
    نیا زمانہ، نئے صبح و شام پیدا کر

    مرا طریق امیری نہیں ،فقیری ہے
    خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر

    چند سالوں بعد اماں جان کے ،گھر کے اخراجات سے بچائے ہوئے، روپوں سے زمین خریدی گئی اور ’جاوید منزل‘کی تعمیر شروع ہوئی۔اماں جان نئے گھر میں گاڑی پر لائی گئیں کیونکہ ان دنوں وہ سخت علیل تھیں۔ دوسرے دن ابا جان جب انہیں دیکھنے کے لیے زنانے میں آئے تو انہوں نے اپنے ہاتھ میں کچھ کاغذات اٹھا رکھے تھے۔ آپ نے اماں جان سے کہا کہ اس مکان کو جاوید کے نام ہبہ کر دو۔یوں ’جاوید منزل‘ میرے نام منتقل ہوگئی۔ابا جان نے کرایہ نامہ بھی تحریر کیا جس کی رو سے میرے کرایہ دار کی حیثیت سے رہنے لگے۔ میرے والد سامنے کے تین کمروں میں رہائش کا کرایہ ہر ماہ کی ۲۱ تاریخ کو ادا کرتے تھے۔

    اماں جان کے انتقال کے بعد ہم دونوں بچے ابا جان کے زیادہ قریب آگئے۔ہم دونوں بہن بھائی روتے دیکھ کر اپنے دونوں ہاتھ پیار سے ہمارے کندھوں پر رکھ کر قدرے کرختگی میں مجھ سے گویا ہوئے: ’’ تمہیں یوں نہ رونا چاہئے!یاد رکھو‘ تم مرد ہو‘ اور مرد کبھی نہیں رویا کرتے۔‘‘ اس کے بعد اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ انہوں نے ہم دونوں بہن بھائیوں کی پیشانیوں کو باری باری چوما۔

    گرمیوں میں اباجان باہر سوتے اور میری چارپائی ان کے قریب ہوا کرتی ۔ رات گئے تک وہ جاگتے رہتے کیونکہ انہیں عموماً رات کو آمد ہوتی تھی۔ اور جب شعر کی آ مد ہوتی تو ان کی طبیعت اور بھی زیادہ خراب ہو جایا کرتی۔ چہرے پر تغیر رونما ہو جاتا، بستر پر کروٹیں بدلتے، کبھی اٹھ کر بیٹھ جاتے اور کبھی گھٹنوں میں سر دے دیتے ۔ اکثر اوقات وہ رات کے دو یا تین بجے علی بخش کو تالی بجا کر بلاتے اور اس سے اپنی بیاض اور قلم دوات لانے کو کہتے۔ جب وہ لے آتا تو اشعار لکھ دیتے۔ اشعار لکھ چکنے کے بعد ان کے چہرے پر آہستہ آہستہ سکون کے آثار نمودار ہو جاتے اور وہ آرام سے لیٹ جاتے۔

    اباجان کی عادت، سر کے نیچے ہاتھ رکھ کر، بستر پر ایک طرف سونے کی تھی۔ اس حالت میں ان کا ایک پائوں اکثر ہلتا رہتا جس سے دیکھنے والا یہ اندازہ لگا سکتاکہ وہ ابھی سوئے نہیں بلکہ کچھ سوچ رہے ہیں۔لیکن جب وہ گہری نیند سو جاتے تو خراٹے لیا کرتے،اور نہایت بھیانک قسم کی آوازیں نکلتیں۔ کئی بار میں ان کے خراٹوں سے ڈر جایا کرتا۔

    اباجان کو میں نے بیسیوں مرتبہ خودبخود مسکراتے یا روتے دیکھا ہے۔ جب کبھی تنہائی میں بیٹھے اپنا کوئی شعر گنگناتے تو ان کا بے جان سا ہاتھ عجیب تغافل کے عالم میں اٹھتا اور ہوا میں گھوم کر اپنی پہلی جگہ پر آگرتا۔ ساتھ ہی ان کے سر کو ہلکی سی جنبش ہوتی۔ صبح کو نماز بہت کم چھوڑتے تھے۔ گرمیوں میں باہر رکھے ہوئے تخت پر ہی نیت باندھ لیتے، دھوتی اور بنیان زیب تن ہوتی اور سرپر تولیہ رکھ لیتے۔ ان کے کمرے کی حالت پریشان سی رہتی تھی، ویسے چارپائی پر نیم دراز پڑے رہنے میں بہت خوش رہتے۔ کئی بار دوپہر کا کھانا کسی کتاب میں منہمک ہونے کی وجہ سے بھول جایا کرتے اور جب وہ کتاب ختم ہو جاتی تو علی بخش کو بلوا کر معصومانہ انداز میں پوچھتے ’’کیوں بھئی، میں نے کھانا کھا لیا ہے؟ ‘‘ شام کو گھر کے دالان ہی میں دو ایک چکر لگا لیا کرتے ۔ اس کے سوا ان کی زندگی میں بظاہر کامل جمود تھا۔

    اماں جان کی وفات کے بعد اباجان صرف ایک بار زنانے میں آئے، وہ بھی تب جب مجھے بخار آیا تھا۔ آپ کو پہلی بار تب معلوم ہوا کہ زنانہ حصے میں کمروں کی تعداد کتنی ہے۔ اماں جان کی وفات کے بعد اباجان نے خضاب لگانا بھی ترک کر دیا تھا۔ ایک دن میں نے خضاب شروع کرنے کو کہا تو مسکرا کر بولے ’’میں اب بوڑھا ہو چکا ہوں‘‘۔ میں نے پھر کہا ’’لیکن، اباجان! ہم تو آپ کو جوان دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘چنانچہ شاید اس خیال سے کہ بچے میرے سفید بالوں کو دیکھ کر ضعیف سمجھنے لگے ہیں، انہوں نے پھر سے خضاب لگانا شروع کر دیا۔ مگر چند مہینوں بعد پھر چھوڑ دیا۔

    ابا جان کی تمنا تھی کہ میں تقریر کرنا سیکھوں ۔ وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ میں کشتی لڑا کروں۔ چنانچہ میرے لیے گھرمیں ایک اکھاڑہ بھی کھدوایا گیا تھا۔وہ اکثر کہا کرتے کہ اکھاڑے کی مٹی میں ڈنڑپیلنا یا لنگوٹی باندھ کر لیٹ رہنا صحت کے لیے نہایت مفید ہے۔

    اباجان کے عقیدت مندوں میں ایک حجازی عرب بھی تھے جو کبھی کبھار انہیں قرآن مجید پڑھ کر سنایا کرتے ۔ ایک بار انہوں نے سورۃ مزمل پڑھی تو آپ اتنا روئے کہ تکیہ آنسوئوں سے تر ہو گیا۔ جب وہ ختم کر چکے تو آپ نے میری طرف دیکھا اور مرتعش لہجے میں بولے ’’تمہیں یوں قرآن پڑھنا چاہیے!‘‘اسی طرح مجھ سے ایک مرتبہ مسدس حالی پڑھنے کوکہا، اور خاص طور پر وہ بند .....قریب بیٹھے ہوئے میاں محمد شفیع نے دہرایا ؎

    ’’وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا!‘‘

    علامہ صاحب یہ سنتے ہی آبدیدہ ہو گئے۔قرآن مجید سنتے وقت یا اپنا کوئی شعر پڑھتے وقت یا رسول پاک ﷺ کا اسم مبارک کسی کی نوک زبان پر آتے ہی ان کی آنکھیں بھر آیا کرتیں۔

    اباجان کو انگریزی لباس سے سخت نفرت تھی۔ مجھے ہمیشہ شلوار اور اچکن پہننے کی تلقین کیا کرتے۔ منیرہ بھی اگر اپنے بالوں کو دو حصوں میں گوندھتی تو نا پسند کرتے اور کہتے : ’’بال اس طرح مت گوندھا کرو، یہ یہودیوں کا انداز ہے ‘‘۔ اگر میں کبھی غلطی سے اپنی قمیضوں یا شلواروں کا کپڑا بڑھیا قسم کا خرید لاتا تو بہت خفا ہوتے اورکہتے ’’تم اپنے آپ کو کسی رئیس کا بیٹا سمجھتے ہو؟تمہاری طبیعت میں امارت کی بو ہے۔ لیکن اگر انہیں کبھی یہ معلوم ہو جاتا کہ میں آج پلنگ پر سونے کی بجائے زمین پر سویا تو بڑے خوش ہوا کرتے۔(ایک مقالے کے چند حصے )

     

اس صفحے کو مشتہر کریں