1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عفت موہانی

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏21 دسمبر 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    عفت موہانی نے یہ حیثیت ناول نگاراورافسانہ نگار، ہندوستان کے علاوہ بیرونی ممالک میں بھی شہرت حاصل کی ہے۔ صف اول کی ناول نگار ہیں۔ برسوں سے وہ لکھ رہی ہیں۔

    عفت موہانی قلمی نام ہے اصل نام خورشیدسلطانہ ہے۔ ۲۴؍ جولائی ۱۹۳۷ء ؁ میں حیدرآباد میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم کی تکمیل کے بعد عثمانیہ یونیورسٹی سے بی۔ اے ، ایم۔ اے ، اور بی۔ ایڈ میں امتیازی کامیابی حاصل کی۔ ‘‘(عفت موہانی، اپنی کہانی اپنی زبانی، رسالہ صبا، حیدرآباد دکن ۔ ص ،۲۳)

    عفت موہانی کے مزاج میں بہت سادگی ہے اکثرسفیدرنگ لباس زیب تن کرتی ہیں۔ ان کے ناول کی ہیروئین بھی اکثرسفیدلباس میں جلوہ گر ہوئی ہیں۔ عفت موہانی کو گھریلو کاموں میں سینے پرونے ، پکوان وغیرہ سے بالکل بھی دلچسپی نہیں ہے اس لئے انہیں تصنیف و تالیف کے لئے بہت وقت مل جاتا ہے ویسے بچپن سے ادبی ذوق رہا۔ آٹھ سال کی عمرسے کہانیاں لکھنی شروع کہیں جو اخبار ’’میزان ‘‘ میں بچوں کے صفحے پر شائع ہوتی رہیں۔

    عفت موہانی نے تقریباً ۸۵ً ناول اور سینکڑوں افسانے لکھے ہیں ناولوں کے نام حسب ذیل ہیں :

    (۱) ستم کے سہارے (۲)محبت نام غم کا (۳) درد و درماں (۴) قافلے بہار کے (۵) نام تمنا(۶) بزدل (۶) غمگسار(۷) ہمسفر(۸) پندار(۹) راز (۱۰) آخری تحفہ (۱۱) محبت کی راہیں ( ۱۲ ) (۱۳) صنم (۱۴) داغ دل (۱۵) شہر آرزو (۱۶) آہوں کے گیت (۱۷) مداو (۱۸) سچے بندھن (۱۹) سویرے (۲۰) پیماں (۲۱)سزا(۲۲) بھنور (۱۶) شہر آرزو(۱۷) آہوں کے گیت (۱۸) مداوا (۱۹) سچے بندھن (۱۹) سویرے (۲۰) پیماں (۲۱) سزا (۲۲) بھنور(۲۳) لے نام بھی ہستہ (۲۴) فاصلے اور منزل (۲۵) درد کا رشتہ (۲۶) ایک چراغ دور کا (۲۷) صہبا(۲۸) زود پشیماں (۲۹) پھول کا دل (۳۰) شرارت (۳۱) وفا کا دکھ (۲۳) ہم تو جئے بس تیرے لئے (۳۳) تقدیر(۳۴) پرانی آگ (۳۵) بہانے (۳۶) انتظار(۳۷) ایک زخم نہاں اور (۳۸) آگ میں پھول (۳۹) تیرے جہاں سے چل دے (۴۰) پت جھڑ کی بہار(۴۱) آرزو کی سوغات (۴۲) نغمہ سنگ ( ۴۳) دوراہا (۴۴) خواب وسراب (۴۵) پیاسی برسات (۴۶) قلزم غم (۴۷)خلش (۴۸) تکریم (۴۹) پچھتاوے (۵۰) درد آشنا (۵۱)ایک نظر(۵۲) آفریں (۵۳) چبھن (۵۴) شرط (۵۵) تشنہ کام (۵۷) خواب پریشان (۵۸)موم کی زنجیریں (۵۹) گنہگار (۶۰) ہار جیت (۶۲) بے زبان(۶۳) نقاب (۶۴) تاوان ( ۶۵)محبت تم سے کی میں نے (۶۶) بنیا (۶۷) صنوبیہ(۶۸) تعبیر (۶۹) راستہ پھولوں بھرا (۷۰) خمیازہ (۷۰) دلیل کا کنول (۷۱) صبح بہاراں (۷۲) لبینہ (۷۳) اگر تم با وفا ہوتے (۷۴) سراب ساحل (۷۵) خواب ناتمام (۷۴) کرنوں کی مہک (۷۵) ماریہ (۷۶) وفا جن سے کی (۷۷) اگن برہا کی (۷۸) سحاب (۷۹)رقیب (۸۱) وہ ایک لمحہ (۸۲) خوشبو تیری یادوں کی (۸۳) شفق کے سائے (۸۴) ملن کے سپنے ۔ ایک ناول دستاب نہیں ہوئی۔

    عفت موہانی نے مختلف النوع موضوعات پرخامدفرمسائی کی ہے۔ اخلاقی اصلاحی ، سماجی معاشرتی ، قومی یکجہتی ونفیساتی مسائل وغیرہ جیسے موضوعات پر اپنا قلم اٹھا یا ہے۔

    عفت موہانی کے ناولوں میں ہم روایت کی اسیرعورتوں سے ملتے ہیں جو اپنے معاملات میں آزاد نہیں ہیں۔ ان کی مرضی پرکسی دوسرے کی مرضی مسلط کر دی جاتی ہے۔ جیون ساتھی کے انتخاب میں بھی اس کی رائے کو اہمیت نہیں دی جاتی اور اس کی پسندکونظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ خاندان کی عزت ، بزرگوں کا ادب اس کی پاوں کی بیٹریاں بن کر رہ جاتی ہیں۔ روشن خیالی اور ترقی پسندہی ہمارے سماج میں سخت ممنوع ہے۔

    عفت موہانی کاسب سے پہلا ناول ’’ستم کے سہارے ‘‘ ہے۔ جو ۱۹۷۱ء؁میں نسیم بک ڈپولکھنوسے شائع ہو کر منظر عام پر آیا۔ یہ ناول عفت موہانی نےنسیم انہو نوی (ناول نویس )کی فرمائش پر لکھا جوان کے ماہنامہ ’’ حریم ‘‘ میں مسلسل شائع ہوتا رہا۔ یہ ناول ۲۵۶ صفحات پر مشتمل ہے۔

    اس ناول میں تین کردار اہم ہیں خالد، روبینہ اور ناہید۔ یہ تینوں کردار ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ محبت کرتے ہوئے اپنے آپ پرستم کرتے ہیں۔

    خالد اور رو بینہ دونوں ایک دوسرے سے بے انتہا محبت کرتے ہیں۔ خالد روبینہ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ خالد اپنے والد کرنل صاحب سے شادی کی بات کرتا ہے۔ کرنل صاحب گو یہ رشتہ پسندنہیں اور خالد کا رشتہ ناہیدسے طئے کرتے۔ خالد کو اپنے ماں باپ سے اپنی بات منوانے کی ہمت نہیں اور خالد روبینہ کو لئے کرگھرسے فرار ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ روبینہ ایک مشرقی شرم و حیا والی لڑکی ہے۔ خالد کے ساتھ بھاگنے سے انکار کر دیتی ہے اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ مجھے تم سے کبھی محبت ہی نہیں تھی۔ خالد گھر آ کر اپنے گھر والوں کی مرضی کے آگے جھک جاتا ہے۔ ناہیدسے شادی کر لیتا لیکن روبینہ کی محبت کو دل سے نہیں بھلا پاتا۔ شادی کی رات روبینہ بیمار ہو جاتی ہے۔ خالد روبینہ کی عیادت کے لئے جاتا ہے۔ خالد کو جب پتہ چلتا کہ روبینہ آج بھی اسے بے حد چاہتی ہے۔ خالد بھی بیمار ہو جاتا ہے۔ ناہید خالد کی تیمار داری میں اپنے آپ کو وقف کر دیتی ہے جبکہ خالد ناہید پر ظلم کرتا اسے طلاق دینے کی دھمکی دیتا ہے۔ ناہیداس امید کے سہارے رہتی کہ ایک نہ ایک دن خالداسے اپنا لے گا ناہید اپنی محبت خالد پر نچھاور کر دیتی ہے ہر چھوٹی بڑی ضروریات کا خیال رکھتی ہے۔ خالد ناہید کی معصومیت کی وجہ سے ناہید کو چاہنے لگتا ہے لیکن ناہیدکواس بات کا انکشاف ہو جاتا کہ خالد روبینہ سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ ناہیدخالدسے کہتی کہ اگر پہلے ہی بتا دیتے روبینہ سے محبت ہے تو وہ شادی سے انکار کر دیتی اور یہ بھی کہتی کہ وہ روبینہ سے شادی کر لے دونوں کی خدمت کر کے وہ اپنی زندگی گزار لے گی۔ خالد ناہید پر ظلم کر کے دراصل اپنے ماں باپ سے بدلا لے رہا تھا۔ مگراس کی سزاناہیدکومل رہی تھی۔ ناہیدخالدسے کہتی ہے کہ :

    ’’آپ اسے بھول نہیں سکتے اپنی محبت پر جھوٹی آن اور بناوٹی نفرت کا پردہ نہ ڈالئے۔ آپ خود کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں ، روبینہ کو بھی اور مجھے بھی آپ میں اتنی ہمت نہ تھی آپ اپنے کو بھی بچا لیتے روبینہ کو بھی اور مجھے بھی۔ کیا ملا آپ کو اور کیا پایا آپ نے ‘‘۔ (ناول ‘‘ستم کے سہارے ‘‘ از۔عفت موہانی ص ۴۰ ۲ ۱۹۷۱؁ نسیم بک ڈپو لکھنو)

    ناہید سوچنے لگتی ہے کہ روبینہ خالد کی محبوبہ ہو کر خالد کے لئے مر مٹ سکتی ہے میں تو بیوی ہوں کیوں نہ ان کے راستے سے ہٹ کر ہمیشہ کے لئے دونوں کو ملوا دوں یہ سوچ کر خودکشی کر کے اپنی جان قربان کر دیتی ہے۔ ناہید مرتے مرتے بھی اپنی موت کو اتفاقی حادثہ قرار دے کر روبینہ اور خالد کو تمام الزامات سے بری الذمہ کر جاتی ہے۔

    خالد کے والدین کی خوشی کے لئے روبینہ بھی ایک معذور شخص سے شادی کر کے زندگی گزار رہی تھی۔ ناہید کی قربانی سے پھر دو بچھڑے محبوب مل جاتے ہیں

    نسوانی کردار میں ناہید اور روبینہ کے کردار بہت خوب ہیں۔ خالد کا کردارایسا ہے جو باپ کی خوشی کی خاطر تمام آرزوؤں کا گلا گھونٹ دیتا اور ویران زندگی گزارنے لگتا ہے

    عفت موہانی نے منظر نگاری بہت خوبصورت انداز میں کی ہے عفت موہانی کا دوسرا ناول ’’محبت نام ہے غم کا‘‘ کتابی شکل میں ۱۹۷۳؁ میں شائع ہوا۔ یہ ناول ۲۲۴صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ ناول ۱۹۶۷ء میں ’’حریم ‘‘کے پرچوں میں چھپا۔ ڈاکٹر فیصل کا بیٹانافذحسین نمائش میں کھو جاتا ہے اور لا ولد نواب صاحب کو ملتا ہے۔ انہوں نے پڑھا لکھا کر لکچرر بنایا شادی بھی کرتے ہیں اور ایک بچہ بھی تولد ہوتا ہے۔ کالج میں ٹینس مقابلے میں نافذ اپنے بہن بھائی اور ماں باپ سے ملاقات بھی ہوتی ہے اور وہ ایک قلبی ربط محسوس کرتے ہیں اور گھر آتے ہیں نافذ حسین کے بیٹے کو دیکھ کرمسزفیصل کو وہ اپنے بیٹا جیسا لگتا ہے۔ نواب صاحب بھی ساری کہانی ستاتے ہیں کہیں نافذ سے جدا نہ ہو جاؤں یہ سوچ کر غم سے نڈھال ہو جاتے ہیں اور ایک اتفاقی حادثہ میں اپنی جان کھو دیتے ہیں جیتے جی نافذسے جدائی برداشت نہ ہوئی نافذ کی محبت غم بن گئی تھی ’’محبت نام ہے غم کا ‘‘

    چونکہ عفت موہانی ایک مذہبی اور مسلم پردہ دار گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں جہاں عورت کا اعلی تعلیم یافتہ ہونا غلط سمجھا جاتا ہے اور عورت کی دنیا گھرکی چاردیواری سے باہر نہیں سمجھی جاتی۔ ان کو مذہبی ،روایتی ، نیک اور پاکیزہ خیالات ،اورسوچنے کا اندازاسی ماحول کے زیر اثر ملا ہے۔

    عفت موہانی کی نظر میں عورتوں کی آزاد خیالی اور ترقی پسندی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ۔ محبت میں شرافت کی تمام حدیں پھلانگ دے اور ایک ناجائز بوجھ اٹھائے تکالیف کی زندگی گزارے۔ یا پھر طوائف بن جائے یا خود کشی کر لے۔

    عفت موہانی مخلوط تعلیم کے بھی خلاف ہیں۔ ناول ’ایک چراغ دو رکا ، دلدل کا کنول اور ہار جیت کی کہانیاں کچھ اس طرح ہیں کہ عورت سے مجبوراً طوائف بن جاتی ہے۔

    ’ایک چراغ دور کا ‘‘ کی ہیروئن امیر ماں باپ کی بگڑی ہوئی اولاد دجو دولت چمک دمک سے ایک طوائف کے ہتھے چڑھی۔ اشفاق کے ذریعہ اسے گذری زندگی سے چھٹکارا تو ملتا ہے مگر وہ بھی سماج کے ڈرسے عزت کی زندگی نہ دے سکا۔

    ’’دلدل کا کنول ‘‘طوائف کی بیٹی ماریہ اپنے اس راز کو چھپا نے کے لئے پل پل موت کا سامنا کرتی ہے۔ کمال ماریہ کو دولت کا لالچ بھی دیتا ہے مگر ماریہ اس دولت کو ٹھکرا دیتی ہے اور آخر کار عزت کی زندگی گزارنے کے مقصد کامیاب ہو جاتی ہے۔ ناول ’’ہار جیت ‘‘ بھی ایک طوائف کے ارد گرد گھومتی ہے۔ راحت جو ایک شریف باپ ناول ‘‘پت جھڑکی بہار‘‘ میں سوسائٹی گرل کبیر کو اپنے خوبصورتی کے جال میں پھنسا کرسارے پیسے لے کر فرار ہو جاتی ہے۔

    عفت موہانی کے ناولوں میں عورتیں طوائف کا پیشہ کچھ مجبوری کی وجہ سے اپناتی ہیں اور کچھ شوق سے اپنا تی ہیں۔

    ناول ’’مداور‘‘ میں ایثار بہت خوبصورت نوجوان ہے محسنہ ایثار کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر گھر والوں سے بغاوت کرتی ہے اور اپنے ماں باپ کے لاکھ سمجھانے پربھی سمجھتی نہیں آخر میں اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے۔ اسی سے ملتا جلتا کردار ’’آرزو کی سوغات ‘‘میں ہے نوحی عاصم کی محبت میں اس طرح گرفتار ہوتی ہے کہ اس سے دھوکہ ملنے پر نوحی خودکشی کر لیتی ہے۔

    ناول ’’ خمیازہ‘‘ میں شہلا اپنے عیش کی خاطر آشنا کے تعاون سے اپنے شوہر کا قتل کر کے پھر آشنا سے شادی کر لیتی ہے۔ اپنے پہلے شوہر کی لڑکیوں سے نوکرانی جیسا سلوک کرتی ہے۔

    ناول خواب وسراب ‘‘ کی ماں جہاں آرا نے شہریار کو اپنے سگے بیٹے کی طرح چاہا اور شہریار کی خاطر سگے بیٹے کو چھوڑنے تیار ہو گئی۔ اپنے عیش کی خاطر سگی اولاد کی دشمن بنی اور انھیں اپنی راہ کا کا نٹا سمجھا اور سگی ماں ہو کر بھی اپنے بچے کے حق میں سوتیلی ماں بن کر بچوں سے پیار کرتی ہے تو کہیں سوتیلی ماں بن کر شوہر کے بچوں پر ظلم ڈھاتی ہے اور کہیں پرسوتیلے بچوں کواس قدر پیار کرتی ہے کہ ان کی تائید میں اپنے خون سے نفرت کرنے لگتی ہے۔

    عورت کے مختلف روپ طبیعت کو عفت موہانی نے اپنے ناولوں میں جگہ دی ہے

    اردو ادب کی دنیا میں شاید ہی کسی اور مصنفہ نے اتنے ناولیں لکھی ہوں۔

    عفت موہانی کے کئی ناولوں کے مختلف زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں جیسے کنٹری وغیرہ اترپردیش اردو اکیڈیمی نے ان کے بعض ناولوں پر ایوارڈ دیئے ہیں۔

    عفت موہانی ادبی دنیا میں بہت تیزی کے ساتھ محوسفرہیں۔ عفت موہانی ۱۹۷۱ء؁سے ۱۹۹۵ء ؁ تک تقریباً۸۵ناول لکھیں۔ ۱۹۹۵ء کے بعد نسیم انہونوی کے انتقال کے بعدسے انھوں نے ناول لکھنا چھوڑ دیا۔ اب وہ صرف افسانے لکھ رہی ہیں جو اکثر رسائل میں چھپتے رہتے ہیں عفت موہانی کے افسانوں کا مختصر جائزہ ’’افسانوں کے باب ‘‘ میں ملاحظہ فرمایئے۔

    ٭٭٭
     

اس صفحے کو مشتہر کریں