1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عزیز النساء حبیبی

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏21 دسمبر 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    حیدرآباد کی ترقی پسند افسانہ نگاروں میں عزیز النساء حبیبی کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ان کا تعلق حیدرآباد کے رئیس تعلیم یافتہ گھرانے سے ہیں۔ ابتدائی تعلیم کے بعد بی ایس سی۔ بی۔ ایڈ کیا اور محکمہ تعلیم سے وابستہ ہو گئی۔ بچپن سے کہانیاں لکھنے کا شوق تھا کالج میں آنے کے بعد یہ شوق اور پروان چڑھا۔ اور اسی شوق نے ایک مجموعے کی شکل اختیار کر لی۔ ان کا افسانوی مجموعہ۔ تم بڑی سنگ دل ہو۔ جو مندرجہ ذیل بیس افسانے شامل ہیں۔ ۱)سنہری آنکھیں ۔ ۲ اے غم دل کیا کروں۔ ۳ مثلث۔ ۴ تلاش۔ ۵) التجا ۶)باجی۔ ۷ )شہلا۔ ۸) سپنوں کے جھروکوں سے۔ ۹) ایک عید۔ ۱۰)چاندنی رات۔ ۱۱)تیرے بغیر ۱۲)عورت کا دل۔ ۱۳)زندگی کے کھیل ۱۴) تم ۱۵) دل جلتا ہے تو جلنے دے۔ ۱۶) میرا محبوب۔ ۱۷) امتحان ۱۸) اف یہ مرد ۱۹) تم بڑی سنگ دل ہو۔ ۲۰) یہ دنیا ہے۔

    عزیز النساء حبیبی اپنے انفرادی لب و لہجہ اور طرز اد ا کی بناء پر ادب کی جانی پہچانی شخصیت بن گئی۔ ان کے طرز تحریر کی پختگی اور خیال و فکر کی بلندی اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ وہ ایک نہایت حساس اور با صلاحیت افسانہ نگار ہیں۔ انہوں نے مختلف النوع موضوعات پر خاصی توجہ فرمائی ہیں۔

    ان کے افسانوں کے موضوعات میں معاشرتی، وسماجی نفسیاتی مسائل جیسے موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔

    عزیزالنساء حبیبی اپنے افسانوں کے تعلق سے لکھتی ہیں۔

    ’’ ہندوستانی عورت کی بے بسی کو دیکھ کر میں نے بارہا سوچا کہ وہ عورت جس کے بغیر مرد ایک پل ٹک نہیں سکتا جو بیوی بن کر لاکھوں دلوں پر حکو مت کرتی ہے جو سرتاپا ہمدردی ہوتی ہے۔ ماں بن کر فقر بانی کا جیتا جاگتا نمونہ نظر آتی ہے حضور نے جس کے قدموں تلے جنت کی نشاندہی کی ہے۔ وہ مشرق میں کمزور بے بس کنیز کے سوا کچھ نہیں۔ ان ہی پریشانیوں سے چھٹکارا پانے کے لئے میں افسانے لکھتی ہوں ‘‘ (پیش لفظ ’’تم بری سنگل دل ہو ‘‘۔)

    عزیز النساء حبیبی نے اپنے افسانوں میں یہ بتا نے کی کوشش کی ہے کہ ایک مشرقی عورت کتنا ہی خود کو ترقی پسند

    اور بے باک کیوں نہ بتائے مگر اس کا دل ہمیشہ مشرقی عورت ہی کا رہے گا۔ اپنے شوہر سے پیار و محبت کے علاوہ ایثار، ہمدردی بھروسہ اور اعتماد کی متمنی رہتی ہے۔ افسانہ، شہلا، کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔

    ’’ ہندوستان کی مختلف لڑکیوں کی طرح وہ بھی مرد کی بے وفائی اور ہوس کا شکار ہوئی لیکن اس بے چاری نے کبھی بے وفائی کا شکوہ نہیں کیا۔ وہ مرد کی طرح کم ظرف نہیں جو اپنی زندگی کے اہم ترین اور نازک ترین راز کو بھی ہوا میں ربر کی گیند کی طرح اچھال دیتے ہیں ‘‘(دیباچہ ’’تم بڑی سنگل دل ہو ‘‘)

    محبت کی راہ میں اٹھنے والے قدم مرد کو کچھ نہیں ہوتا لیکن عورت کو کہیں کا نہیں رکھتی۔ اس کی رضا کارانہ خود سپردگی مہنگی پڑتی ہیں۔ بہر حال اس افسانے میں ایک مشرقی عورت کے حال زار کو پیش کیا گیا ہے۔

    عورت کی نا انصافی پر ابراہیم جلیس ’تم بڑی سنگدل ہو‘ کے دیباچے میں لکھتے ہیں۔

    ’’عزیز کو سماج میں عورت کی توہین پر غصہ ہے۔ سماج کی نظر میں عورت ایک قابل فروخت جنس کے سوا کچھ نہیں۔ عورت کو سماج نے انسان کبھی نہیں سمجھا۔ وہ سماج کی اس نا انصافی پر شدّت سے احتجاج کرتی ہیں ان کا مطالبہ ہے کہ عورت کو عورت سمجھا جائے۔ عورت جنس نہیں انسان ہے۔ وہ خریدی جائے اور نہ بیچی جائے۔ ‘ (دیباچہ ’’تم بڑی سنگ دل ہو ‘‘)

    عزیز النساء محبیبی نے ترقی پسند دور میں کافی افسانے لکھے اور اس دور کے ممتاز افسانہ نگاروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ آل انڈیا ریڈیو حیدرآباد سے بھی افسانے نشر ہو تے رہے۔ مختلف رسائل میں بھی افسانے شائع ہوتے رہے۔ عزیز النساء حبیبی اپنے تجربات اور مشاہدات کا بڑی گہرائی سے مطالعہ اور معاشرے کی ترجمانی کرتے ہوئے اپنے افسانے ترتیب دیئے۔ اس مجموعے کے ہر افسانے کی ابتداء ایک خوبصورت شعر سے ہوتی ہے اس کے بعد ہندوستانی معاشرے کی مظلوم عورتوں کے حال زار کی داستان غم دل کو چھو لینے والے انداز میں ہوتی ہیں۔ واقعی عزیز النساء حبیبی کا انداز بیان بہت خوب سے خوب تر کی طرف رواں دواں ہے۔

    ٭٭٭
     

اس صفحے کو مشتہر کریں