1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عبدالملک بن مروان

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از طارق راحیل, ‏5 جنوری 2009۔

  1. طارق راحیل
    آف لائن

    طارق راحیل ممبر

    شمولیت:
    ‏18 ستمبر 2007
    پیغامات:
    414
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    ملک کا جھنڈا:
    عبدالملک بن مروان
    65ھ تا 86ھ

    685ء تا 705ء

    * 1 ابتدائی زندگی اور تخت نشینی
    * 2 عبدالملک کی مشکلات
    o 2.1 عبداللہ ابن زبیر کی خلافت
    o 2.2 خوارج
    o 2.3 توابین
    o 2.4 عوامی ردعمل
    o 2.5 ترکوں اور بربروں کی شورش پسندی
    o 2.6 بیرونی حملہ
    * 3 اقدامات
    o 3.1 جنگ توابین
    o 3.2 مختار ثقفی کی شورش
    o 3.3 کوفہ و عراق پر عبدالملک کا قبضہ
    o 3.4 محاصرہ مکہ
    * 4 فتوحات
    o 4.1 جنوبی افریقہ کی فتوحات
    o 4.2 ترکستان کی فتح
    o 4.3 اہل روما کے خلاف جنگیں
    o 4.4 خوارج کا استیصال
    o 4.5 رتبیل کی بغاوت
    o 4.6 ابن اشعث کی بغاوت
    * 5 عبدالملک کی اصلاحات
    o 5.1 عربی بطور دفتری زبان
    o 5.2 نئے سکوں کا اجراء
    o 5.3 محکمہ برید کی توسیع
    o 5.4 خانہ کعبہ کی تعمیر نو
    o 5.5 دیگر تعمیرات
    o 5.6 شہروں کی آبادی
    o 5.7 رفاہ عامہ
    * 6 اصلاحات کے اثرات
    o 6.1 ملکی وحدت کا تصور
    o 6.2 نظم و نسق کی اصلاح
    o 6.3 عربی زبان و تہذیب کا فروغ
    o 6.4 ملکی معیشت میں استحکام
    o 6.5 عربی عجمی آویزش کا آغاز
    * 7 وفات
    * 8 سیرت و کردار
    * 9 مجموعی جائزہ

    ابتدائی زندگی اور تخت نشینی

    مروان بن حکم کی وفات کے بعد 685ء میں عبدالملک مسند خلافت پر متمکن ہوا۔ اس کی پیدائش حضرت عثمان کے عہد خلاف 26ھ کو ہوئی۔ تخت نشینی کے وقت کی عمر 39 سال تھی۔ مروان نے اپنی زندگی میں خالد بن یزید اور عمرو بن سعید کو ولی عہدی سے خارج کرکے عبدالملک کے لیے بیعت حاصل کر لی تھی۔ مروان نے اس کی تعلیم و تربیت کی طرف پوری توجہ دی ۔ اس کی پرورش مدینہ کے علمی ماحول میں ہوئی اور ارباب علم و فضل اور اہل کمال کی صحبتوں سے فیض یاب ہوا۔ اسی وجہ سے وہ اموی حکمرانوں میں سب سے زیادہ پڑھا لکھا خلیفہ شمار ہوتا ہے۔ اگرچہ عبدالملک انتہائی ناسازگار ماحول میں تخت نشین ہوا لیکن وہ محض اپنے عزم و استقلال تدبر اور دواندیشی کی بدولت مخالفین پر قابو پانے میں کامیاب ہوا۔ اس طر ح ایک مستحکم اموی حکومت کی بنیاد رکھی۔


    عبدالملک کی مشکلات

    تخت نشین ہونے کے بعد عبدالملک کو مندرجہ ذیل مشکلات کا مقابلہ کرنا پڑا


    عبداللہ ابن زبیر کی خلافت

    سانحہ کربلا نے مسلمانوں میں ایک ہمہ گیر اضطراب پیدا کر دیا تھا ۔ اہل حجاز نے مسلمانوں کے ان جذبات کی ترجمانی کی اور امویوں کی خلافت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ عبداللہ ابن زبیر چونکہ چوٹی کے اکابرین میں شمار ہوتے تھے اور لوگوں میں مقبول بھی تھی اس لیے جب آپ دعوہ خلافت لے کر اٹھے تو اہل مکہ اور مدینہ نے فوراً آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی ۔ مصعب ابن زبیر نے عراق ، کوفہ ، بصرہ ، وغیرہ پر اپنا قبضہ جما لیا چنانچہ ان حالات میں عبداللہ ابن زبیر کی خلافت امویوں کے لیے بہت بڑا چیلج تھی۔

    خوارج

    اگرچہ خوارج نے شروع شروع میں امویوں کے مقابلہ میں عبداللہ ابن زبیر کا ساتھ دیا لیکن بعد میں ان کے ساتھ بھی نہ چل سکے۔ عبداللہ ابن زبیر نے ان کے خاتمہ کی کوششیں کیں لیکن ان کی وفات کے بعد خوارج پھر امویوں کے خلاف شدت کے ساتھ سرگرم عمل ہوگئے۔

    توابین

    توابین کے رہمنا سلیمان بن صرو تھے۔ ان لوگوں قصاص حسین کو اپنا مقصد بنا کر 685ء میں باقاعدہ تنظیم کی شکل اختیار کر لی۔ ان کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا تھا۔ اس لیے یہ تحریک بھی اموی اقتدار کے لیے زبردست خطرہ تھی۔ مختار ثقفی نے سلیمان کی وفات کے بعد توابین کو اپنے ساتھ ملا کر سیاسی انتشار سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔


    عوامی ردعمل

    اموی خلافت شخصی بادشاہت کا رنگ اختیار کر چکی تھی۔ مسلمان چونکہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اسے خلافت راشدہ کی راہ سے ہٹا ہوا سمجھتے تھے اس لیے وہ دل سے اموی خلافت کے قیام پر خوش نہیں تھے۔ سانحہ کربلا نے نفرت کے ان جذبات کو مزید تقویت دی چنانچہ جابجا بغاوتیں اورشورشیں اس اجتماعی ردعمل کا مظہر تھیں


    ترکوں اور بربروں کی شورش پسندی

    ترکستان اور شمالی افریقہ کے ترک اور بربر چونکہ خود سر تھے اس لیے ان کی طرف سے بغاوتیں اور شورشوں کا خطرہ بھی عبدالملک کے لیے انتہائی تشویش کا باعث تھا۔ یہ لوگ کسی بھی ایسے موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے جس کواستعمال میں لا کر وہ اپنی خود مختارانہ حیثیت برقرار رکھ سکیں

    بیرونی حملہ

    رومی اپنے سابقہ علاقوں کو واپس حاصل کرنے کی خاطر اکثر اسلامی سرحدات پر حملے کرتے رہتے تھے اس وقت چونکہ ملک میں افراتفری کا عالم تھااس لیے رومی حملہ کا خطرہ بھی عبدالملک کے لیے انتہائی پریشان کن تھا۔


    اقدامات

    جنگ توابین

    توابین نے ایک تحریک کی شکل میں منظم ہو کر کوفہ سے عباسیون کے خلاف اپنی جدوجہد کا اعلان کردیا۔ عبداللہ ابن زیاد عبداملک کی طرف سے کوفہ کا گورنر تھا ۔ عین الورہ کے مقام پر توابین کے گروہ اور عبید اللہ کی افواج کے درمیان جنگ ہوئی یہ سلسلہ تین روز تک جاری ۔ ابن زیاد کے لشکر کو دباراہ ناکامی لیکن بالآخر تیسری بار کامیاب رہا۔ سلیمان بن صرو میدا میں شہید ہوا جو لوگ بچ گئے وہ کوفہ واپس چلے گئے۔


    مختار ثقفی کی شورش

    وہ لوگ جنہوں نے عبدالملک کے ابتدائی ایام میں سیاسی انتشار سے فائدہ اٹھا کر عنان حکومت اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوششیں کیں ان میں مختار ثقفی نہایت اہم ہے ۔ اس شخص نے توابین کی کمان سنبھالی اور کوفہ پر قبضہ کر لیا۔ جس کے بعد مختار نے چن چن کر ان لوگوں کو قتل کیا جو امام حسین کے قتل میں ملوث تھے۔ جن میں شمرو الجوشن ، عمرو ابن شعد اور سنان وغیرہ شامل تھے۔ ابن زیاد بھی دریائے زاب کے کنارے شکست کھا کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ امویوں سے فارغ ہونے کے بعد مختار عبداللہ بن زبیر کی جانب متوجہ ہوئے۔ عبداللہ بن زبیر نے مصعب بن زبیر کو اس کی سرکوبی کے لیے بھیجا اور کوفہ میں مصعب نے اس کو قتل کردیا۔


    کوفہ و عراق پر عبدالملک کا قبضہ

    مختار ثقفی کے خلاف جنگ سے مصعب کی قوت کمزور ہوگئی تو عبدالملک نے 637ء میں عراق پر حملہ کر دیا۔ مہلب بن ابی صفرہ چوکہ فارس کے مہمات میں مشغول تھے اس لیے مصعب کو امداد نہ ہنچ سکی۔ دوسری طرف عراقیوں نے لالچ میں آکر مصعب کاساتھ چھوڑ دیا اور عبدالملک سے مل گئے۔ مصعب اور ابراہیم بن مالک الاشتر بڑی پا مردی سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ ان کا کٹا ہوا سر عبدالملک کو پیش کیا گیا تواس نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا۔

    ’’ اب قریش میں ایسے آدمی کہاں پیدا ہوں گے۔‘‘


    محاصرہ مکہ

    مصعب بن زبیر کی شکست عبداللہ بن زبیر کے لیے ناقابل تلافی نقصان تھا۔ عراق پر عبدالملک کے قبضہ نے سیاسی صورت حالات یکسر بدل دی۔ اب زبیر کی مالی اور فوجی قوت کمزور ہو گئی ۔اب عبدالملک کے لیے سرزمین حجاز کو اپنے تصرف میں لا کر عبداللہ ابن زبیر کی قوت کو ختم کرنا آسان تھا۔ چنانچہ عبدالملک نے اپنے نامور سپہ سالار حجاج بن یوسف کو 693ء میں مکہ کی فتح کے لیے روانہ کیا۔ حجاج نے محاصرہ کرکے سنگ باری شروع کر دی۔ یہ محاصرہ کئی ماہ جاری رہا۔ اس حملہ کے دوران خانہ کعبہ بھی سنگ باری کا نشانہ بنا اور گر گیا یہاں تک کہ لوگ حجر اسود کے ٹکرے اٹھا کر لے گئے۔ محاصرہ اس قدر شدید تھا کہ باہر سے کسی قسم کی رسد اور امداد کا پہنچانا ناممکن تھا۔ سامان رسد کی کمی ۔ اشیاءے خوردو نوش کی قلت ، قمیتوں میں اضافہ عوام کے لیے قابل برداشت نہ رہا۔ اکثر لوگ ابن زبیر کا ساتھ چھوڑ کرحجاج کے ہاں پناہ گزین ہوگئے۔ حتی کہ ان کے لڑکوں تک نے ساتھ چھوڑ دیا۔ مگر آپ کے پایہ استقلال میں سر مو فرق نہ آیا۔ چنانچہ لڑتے ہوئے میدان جنگ میں شہید ہوئے ۔ آپ کی لاش تین دن سولی پر لٹکی رہی۔ آپ کی وفات کے بعد مکہ پر اموی اقتدار قائم ہوگیا۔

    فتوحات

    جنوبی افریقہ کی فتوحات

    یزید اول کے زمانہ میں ایک بربری سردار کسیلہ بن مکرم نے سرکشی اختیار کی اور افریقہ کے والی عقبہ کو قتل کرکے خود شمالی افریقہ پر قابض ہوگیا۔ عبدالملک نے شمالی افریقہ کی ازسرنو تسخیر کے لیے 69ھ میں ایک آزمودہ کار جرنیل زہیر بن قیس کو روانہ کیا۔ کسیلہ قروان چھوڑ کر حمص چلا گیا۔ زبیر بھی اس کے تعاقب میں وہاں پہنچ گیا۔ ایک خونریز جنگ کے بعد خود برقہ میں قیام پذیر ہوا اور فوج کو قروان کے اردگرد کے علاقوں کی فتح پر مامور کیا۔ اس دوران رومیوں نے ایک زبردست لشکر کے ساتھ برقہ پر اچانک حملہ کردیا ۔ زہیر میدان جنگ میں مارا گیا اس کی موت کے بعد رومی سارے علاقے پر قابض ہو گئے۔

    عبدالملک نے عبداللہ ابن زبیر کے خلافت مہمات سے فارغ ہو کر 694ء میں حسن بن نعمان کو 40 ہزار فوج کے ساتھ افریقہ روانہ کیا۔ شمالی افریقہ کے بربروں کو رمیوں کی تمام باج گزار ریاستوں کی حمایت حاصل تھی۔حسان نے ان میں سے قرطاحبنہ کی اہم ریاست پر قبضہ کرکے ان مراکز پر حملوں کا سلسلہ شروع کیا۔ جہاں سے رومی اسلامی سرحدات پر حملے کرتے تھے۔ بعد ازاں حسان علاقہ جیل کی ملکہ وامیہ کی طرف متواجہ ہوا۔ بربریوں اور رومیوں میں عام تاثر یہ تھا کہ ملکہ کی ساحران قوتوں کی وجہ سے اسے شکست دینا مشکل ہے۔ اس کے خلاف پہلی جنگ میں مسلمانوں کو شکست ہوئی۔ اس واقعہ سے شمالی افریقہ میں مسلمانوں کے رعب و دبدبہ کو ایک دھکا لگا۔ حسان برقہ میں قیام پذیر ہو کر پانچ سال تک مرکز کی امداد اور کمک کا منتظر رہا۔ بالاخر اس دوران ملکہ کے حامیوں میں پھوٹ پڑ چکی تھی۔ انہوں نے توڑ پھوڑ کی پالیسی اختیار کی۔ آباد اور پر رونق شہر مسمار کر دیے۔ لہلہاتے ہوئے کھیت ، سرسبز و شاداب وادیاں اور زرخیز علاقے تباہ و برباد کر دئیے گئے جس کی وجہ سے ملک میں قحط کی سی حالت پیدا ہو گئی۔ مفلوک الحال رعایا نے اسلامی لشکر کو ان کا نجات دہدنہ قرار دے کر خوش آمدید کہا۔ ملکہ نے مزاحمت کی کوشش کی لیکن شکست کھائی ۔ ملکہ کی شکست کے بعد تمام شمالی افریقہ پر اموی حکومت دوبارہ قائم ہو گئی ۔


    ترکستان کی فتح

    خارجیوں کے خلاف کامیاب مہموں کے بعد مہلب نے ترکستان کا رخ کیا۔ امیر سبل کو شکست دینے کے بعد مہلب نے مزید پیش قدمی کو جاری رکھا تاکہ ترکستان کی فتح مکمل کی جا سکے۔ بخارا کا بادشاہ مہلب کا مقابلہ کرنے کے لیے 40 ہزار فوج لے کر آیا۔ مہلب نے اپنے بیٹے حبیب کو اس کے مقابلہ کے لیے روانہ کیا۔ دونوں فوجوں کے درمیان کئی ایک جنگیں لڑی گئیں لیکن کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔ اس دوران مہلب نے وفات پائی۔ عبدالملک نے یزید بن مہلب کو والئی خراسان مقرر کرکے ترکستان کی فتح پر مامور کیا۔ یزید کے بھائی فضل نے بادغیس اور اردگرد کے بہت سے علاقوں کو فتح کر لیا اور اس طرح ترکستان بھی اموی سلطنت کا جزو بنا۔


    اہل روما کے خلاف جنگیں

    مسلمانوں کے باہمی اختلافات اور اندرونی خلفشار سے فائدہ اٹھا کر قیصر روم نے اسلامی سرحدوں پر یلغار شروع کر دی تھی۔ عبدالملک نے قیساریہ کے مقام پر رومیوں کو زبردست شکست دے کر ان کے کئی ایک دیگر علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد کافی عرصہ تک رومی سر نہ اٹھا سکے۔


    خوارج کا استیصال

    خوارج کے قلع قمع کے لیے سب سے پہلی مہم مہلب ابن ابی صفرہ اور عبدالعزیز بن عبداللہ کی ماتحتی میں روانہ کی گئی۔ شامی افواج کو شکست ہوئی اور عبداللہ میدان جنگ میں کام آیا۔ اس پر عبدالملک خود میدان جنگ میں اترا۔ شامی افواج اہواز کے خوارج پر قابو پانے کے بعد بحرین کے خارجی سردار ابوفدیک کے خلاف سرگرم عمل ہوئیں۔ اس کے بعد ہرمز کے خوارج کو شکستیں دے کر ان کی قوت کا خاتمہ کیا گیا۔

    سب سے خطرناک بغاوت حجاز میں شبیب خارجی کی تھی۔ جسے ایک بااثر بزرگ صالح تمیمی کی تائید بھی حاصل تھی مروان بن محمد کے ساتھ شبیب کا پہلی بار مقابلہ ہوا تو وہ قلعہ بند ہوگیا۔ لیکن ایک دن اچانک حملہ کرکے شامی افواج کوبھاگنے پر مجبور کر دیا۔ حجاج بن یوسف نے غضب آلودہ ہو کر تین مہمات یکے بعد دیگرے روانہ کیں جو ناکام ہوئیں۔ اس دوران اموی افواج کے سپہ سالار محمد بن اشعث نے حج کے دونوں میں جنگ بند کر دی۔ حجاج نے ناراض ہو کر اسے معزول کرکے عثمان بن قطن کو شامی فوج کا کمانڈر مقرر کیا۔ عثمان نے جنگ کا دوبارہ آغاز کیا لیکن شکست کھا کر مارا گیا۔ حجاج نے اب ایک دوسرا لشکر جرار عباب بن ورقا کی ماتحتی میں روانہ کیا لیکن شبیب نے کمال بہادری سے کام لے کر صرف ایک ہزار جان نثاروں کے ساتھ اتنے بڑے لشکر کو بھی شکست دی۔ حجاج تنگ آکر خود میدان جنگ میں اترا۔ ایک خونریز جنگ کے بعد شبیب کو شکست ہوئی لیکن شبیب کرمان ہوتا ہوا ہواز نکل گیا۔ شامی افواج نے تعاقب کیا۔ خوارج نے پامردی سےمقابلہ کیا لیکن ایک رات دریا عبور کرتے ہوئے شبیب ڈوب کر مر گیا۔ اس کی موت کے بعد خوارج کی قوت مزاحمت دم توڑ گئی ۔


    رتبیل کی بغاوت

    حاکم سیستان رتبیل نے ملکی انتشار سے فائدہ اٹھا کر بغاوت کر دی۔ پہلی مہم اس کے خلاف عبداللہ کی سرکردگی میں روانہ کی گئی یہ علاقہ چونکہ پہاڑی تھا اس لیے رتبیل نے اسے نہ روکا ۔ عبداللہ غلط فہمی میں مسلسل آگے بڑھتا رہا چنانچہ رتبیل نے اسے پہاڑی دروں کے درمیان گھیرے میں لے کر ہتھیار ڈالے پر مجبور کر دیا۔ عبداللہ جنگ نہ کرنے کا وعدہ کرکے واپس لوٹا۔ دوسری مہم بھی ناکام لوٹی ۔ تنگ آکر حجاج نے تیسرا لشکر محمد بن اشعث کے ماتحت روانہ کیا۔ اس نے تبیل کے نصف سے زیادہ علاقہ پر قبضہ کر لیا ۔ کوفی فوج مسلسل جنگوں میں مشغول رہنے کی وجہ سے تھک چکے تھے اس لیے ابن اشعث نے تھوڑے عرصہ کے لیے جنگ ملتوی کر دی۔ حجاج نے اس پر ابن اشعث کی سرزنش کی اسے معزول کرنے کی دھمکی دی۔ ابن زشعث نے اس رویہ کو توہین آمیز سمجھتے ہوئے بغاوت کر دی۔ جس کی وجہ سے رتبیل کے خلاف مہمات کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔


    ابن اشعث کی بغاوت

    ابن اشعث نے اعلان کیا کہ چونکہ اموی حکومت خلاف شرع ہے اس لیے وہ خلافت راشدہ کی بحالی کے لیے ان کے خلاف لڑے گا۔ سپاہیوں نے ان کا ساتھ دینے کا عہد کیا۔ ابن اشعث نے بصرہ پر قبضہ کر لیا۔ حجاج کے جوابی حملہ کے بعد بصرہ سے نکل کر کوفہ پر قابض ہو گیا۔ بصرہ سے بچے کچھے سپاہی بھی اس کے ساتھ کوفہ میں آملے ۔ یہ بغاوت چونکہ خطرناک صورت اختیار کرتی جارہی تھی اس لیے عبدالملک نے خود مداخلت کی اور اشعث کو مندرجہ ذیل شرائط پیش کیں

    1۔ حجاج کی بجائے محمد بن مروان کو عراق کاگورنر مقرر کیا جائے گا

    2۔ عراقی فوج کوشامی فوج کے برابر تنخواہ دی جائے گی

    3۔ ابن اشعث نے یہ شرائط عراقیوں کے سامنے پیش کیں تو فوج نے انھیں تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ جنگ دوبارہ چھڑ گئی۔ ابن اشعث کوفہ سے شکست کھا کر بصرہ پہنچا لیکن وہاں بھی نہ ٹھہر سکا بالاخر رتبیل کے ہاں پناہ گزیں ہوا لیکن رتبیل نے بے وفائی کی اور اس کا سر کاٹ کر خلیفہ کو روانہ کر دیا اس طرح عراق اور سیستان میں امن و امام قائم ہوا۔


    عبدالملک کی اصلاحات

    عربی بطور دفتری زبان

    ان اصلاحات میں سب سے زیادہ اہم اور نمایاں عربی زبان کو بطور دفتری زبان کے اختیار کیا جانا تھا۔ اگرچہ حضرت عمر فاروق کے زمانہ میں ایران ، شام اور افریقہ کے بیشتر علاقے فتح کیے جا چکے تھے۔ لیکن دفتری نظام بعض انتظامی دشواریوں کی وجہ سے عبدالملک کے زمانہ تک علاقائی زبانوں میں ہوتا تھا۔ قدیم ساسانی سلطنت کے اہم صوبوں ایران اور عراق میں پہلوی زبان رائج تھی۔ شام میں شریانی زبان مستعمل تھی اور مصر میں قدیم مصری زبان یا یونانی دفتری زبان تھی۔ لٰہذا ان تمام علاقوں میں دفتری نظام کے تمام شعبوں بالخصوص مالیہ ، لگان داری اور مالی شعبوں میں مقامی غیر مسلم باشندے چھائے ہوئے تھے۔ چونکہ یہ لوگ مقامی زبانوں پر عبور رکھتے تھے اس لیے عربی عمال حکومت ان کا خاطر خواہ محاسبہ نہ کر سکتے تھے۔ عبدالملک کے زمانہ میں اموی حکومت مستحکم تھی اور اصلاحات ملکی کے لیے حالات بھی سازگار تھے۔ اس لیے اس نے نظم و نسق ملکی میں انقلابی اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ اس کی سب سے پہلی کڑی عربی زبان کابطور دفتری زبان کے نافذ کیا جانا تھا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ اس تبدیلی کا حقیقی سہرا حجاج بن یوسف کے سر ہے ۔ ایک بار اس نے صالح بن عبدالرحمن ایرانی کلرک کو ایرانی اور عربی دونوں زبانوں میں لکھتے ہوئے دیکھا اور اس کی سرپرستی شروع کر دی تاکہ وہ پوری دفتری زبان کا عربی میں ترجمہ کر دے ۔ عجمیوں کو جب اس تجویز کا علم ہوا تو انھوں نے صالح کو اس کام سے باز رکھنے کے لیے بھاری رقوم بطور رشوت پیش کیں لیکن وہ اپنی سازش میں کامیاب نہ ہوسکے۔

    عربی زبان اگرچہ ملکی اور سرکاری زبان قرار دی جاچکی تھی۔ لیکن اس کےرسم الخط میں ابھی کچھ خامیاں تھیں جو زبان دانی میں رکاوٹ تھیں۔ مثلاً عربی حروف پر نقطے نہیں ہوتے تھے جن کیوجہ سے مشابہ الفاظ کے پڑھنے میں دقت ہوتی تھی ۔ جیسے (ب ، ت ، ث ، ج ، ح ، خ وغیرہ) اس کے علاوہ حروف پر اعراب یعنی زیر زبر اور پیش لگوائے تاکہ عربی زبان کی تحصیل میں عجمیوں کو کوئی دقت پیش نہ آئے ۔

    نئے سکوں کا اجراء

    عبدالملک کا دوسرا قابل فخر کارنامہ اسلامی سکوں کا اجرا ہے ابھی تک اسلامی مملکت کے تمام علاقوں میں رومی اور پہلوی سکے رائج تھے۔ یہ سکے سونے اور چاندی سے بنائے جاتے تھے۔ اور تمام تجارتی اور سرکاری لین دین ان ہی سکوں کے توسط سے ہوتا تھا۔ خلافت راشدہ کے زمانہ میں ابھی ایرانی درہم کے نمونہ پر سکے بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ امیر معاویہ نے بھی اپنی عہد حکومت میں اپنے سکے جاری کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ اس ناتمام کوشش کے بعد کسی بھی مسلمان حکمران سوائے حضرت عبداللہ ابن زبیر کے بھائی مصعب بن زبیر کے اس اہم قومی ضرورت کی طرف توجہ نہ دی مگر مصعب کے جاری شدہ سکے معیاری نہ تھے اور انھیں قبول عام حاصل نہ ہو سکا۔ عبدالملک نے خالص اسلامی سکوں کی ترویج کا آغاز کیا۔ اس نے رومی درہم دینار کے مقابلہ میں نئے درہم اور دینار جاری کئے جن پر قل ھو اللہ احد کی عبارت کندہ تھی۔ یہ سکے علی الترتیب چاندی اور سونے کے تھے۔ اس کے علاوہ ان سکوں پر تاریخ اور ٹکسال کا نام بھی درج کیا جاتا تھا۔ شہشاہ روم نے اس انقلابی تبدیلی پر دھمکی دی کہ اگر عبدالملک نے اسلامی سکوں کا ڈھالنا بند نہ کیا تو وہ اپنے سکوں پر ایسے نازبیا کلمات درج کروائے گا جن سے رسول اللہ کی شان میں گستاخی ہو۔ عبدالملک نے اس دھمکی کا کوئی اثر نہ لیا اور اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ 695ء ، 76ھ میں دمشق میں ٹکسال تعمیر کی گئی۔ حجاج بن یوسف نے کوفہ میں بھی ایسی ہی ایک ٹکسال قائم کی۔ سونے اور چاندی کے دینار میں بالعموم ایک اور دس کی نسبت تھی۔ اگرچہ اس نسبت میں بعض اوقات تبدیلیاں بھی ہوتی رہیں۔ اسلامی سکے کی معیار قدرو قیمت اور خوبصورتی کی بدولت بہت جلد اقوام عالم نے ان کو قبول کر لیا۔


    محکمہ برید کی توسیع

    حضرت امیر معاویہ کے زمانہ میں محکمہ ڈاک قائم ہو چکا تھا۔ عبدالملک نے اس میں مزید اصلاح اور توسیع کی۔ دارالخلافہ دمشق سے گھوڑے ڈاک اور خطوط مملکت کے مختلف حصوں اور اطراف کی جانب لے کر روانہ ہوتے اور منزل مقصود تک بحفاظت پہنچاتے ۔ محکمہ برید کی اس تنظیم جدید سے ملک کے دور نزدیک علاقے ایک دوسرے سے منسلک ہوگئے۔ اس کے علاوہ محکمہ برید خلیفہ وقت کو ملکی معاملات اور وقوع پذیر ہونے والے واقعات بھی باخبر رکھتا ۔ گویا جاسوسی کا کام بھی اس محکمہ کے سپرد تھا۔


    خانہ کعبہ کی تعمیر نو

    حضرت عبداللہ بن زبیر کے زمانہ حکومت میں خانہ کعبہ کی تعمیر کی طرف توجہ دی گئی تھی۔ اور اس میں کچھ اضافے بھی کیے گئے تھے عبدالملک نے خانہ کعبہ کی عمارت کو گرا کر ازسرنو قدیم نقشہ کے مطابق دوبارہ تعمیر کی۔ نیز خانہ کعبہ پر ہر سال نیا غلاف چڑھانے کی رسم کی ابتدا بھی کی ۔ یہ ریشمی غلاف ہر سال دمشق سے روانہ کیا جاتا تھا

    دیگر تعمیرات

    مسلم فن تعمیر کے نادر نمونے اس دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ جامع دمشق اور قبتہ الضحرہ اس دور کی اہم تاریخی یادگاریں ہیں۔ اس کے علاوہ جامع مصر اور کئی ایک دیگر مساجد کی توسیع اور مرمت بھی اسی دور میں کی گئی۔

    شہروں کی آبادی

    فوجہ نقطہ نظر سے کوفہ اور بصرہ کے درمیان عبدالملک نے واسطہ کا نیا شہر تعمیر کرایا جو بعد میں مشہور چھاونی اور تجارتی مرکز کی حیثیت اختیار کر گیا۔ علاوہ ازیں وہ شہر جو امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ مٹتے جا رہے تھے ان کی آبادی کی طرف بھی خاص توجہ دی گئی مثلاً آذربائیجان اور اردبیل وغیرہ

    رفاہ عامہ

    عوامی بہبود اور خوشحالی کے لیے عمومی اور خصوصی اقدامات اختیار کیے گئے۔ 80 ھ میں مکہ میں زبردست سیلاب آیا جس کی وجہ سے عوام کا بے پناہ جانی و مالی نقصان ہوا ۔ خانہ کعبہ کی دیواروں تک پانی بہ نکلا ۔ مکہ کے چاروں طرف پہاڑیاں ہیں لٰہذا سیلاب کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے عبدالملک نے وادی کے کنارے مستحکم بند تعمیر کروائے تاکہ اہل شہر محفوظ مامون رہیں۔ اس کے علاوہ جابجا سڑکیں بنائیں اور پرانی سڑکوں کی مرمت کی گئی ۔ تاکہ رسل و رسائل اور نقل و حمل میں آسانیاں پیدا ہوں۔

    اصلاحات کے اثرات

    ملکی وحدت کا تصور

    مملکت اسلامیہ کے تمام علاقوں میں عربی زبان کو سرکاری زبان قرار دینے کی وجہ سے ملکی اور قومی وحدت کے تصور کو فروغ حاصل ہوا چونکہ تمام ملک کی سرکاری زبان ایک تھی لٰہذا عوام میں یگانگت اور وحدت کے تصورات کا پیدا ہونا لازمی تھا۔ اس سے ملکی استحکام میں اضافہ ہوا۔

    نظم و نسق کی اصلاح

    عربی زبان کے سرکاری درجہ ملنے سے قبل چونکہ علاقائی زبانیں دفتری زبان شمار کی جاتی تھیں اس لیے مقامی لوگوں کو دفاتر میں بالادستی حاصل تھی لیکن اب فوج کے علاوہ سول میں بھی عربی عنصر عجمیوں کے ساتھ ساتھ مختلف انتظامی شعبوں میں داخل ہو کر حکومتی ذمہ داریوں کی تربیت پانے لگا۔ نیز غلط دفتری ملازمین کامحاسبہ بھی آسان ہوگیا۔

    عربی زبان و تہذیب کا فروغ

    عربی زبان کی سرکاری حیثیت کے تعین کے بعد مقامی باشندوں نے عربی زبان کو سیکھنا شروع کر دیا حتی کہ شمالی افریقہ کے لوگوں کی زبان بھی عربی ہوگئی فارسی زبان کی ترقی وقتی طور ر رک گئی۔ اس دور میں بڑے بڑے عجمی عربی دان پیدا ہوئے۔ اس کے علاوہ قرآن قوافی اور قرآن فہمی کے لیے راہیں ہموار ہوئیں اور اشاعت اسلام میں بھی ترقی ہوئی

    ملکی معیشت میں استحکام

    اسلامی سکہ کے رواج سے نہ صرف تجارت ہی کوفروغ حاصل ہوا بلکہ ملکی معیشت مستحکم ہوئی ۔ اور خوشحالی میں بھی قابل قدر اضافہ ہوا۔

    عربی عجمی آویزش کا آغاز

    ایرانی بڑے قوم پرست تھے۔ انھوں نے جب اپنی زبان و ادب اور تہذیب کو عربی زبان اور تمدن کے غلبہ کی بنا پر مٹتے دیکھا تو ان کے اندر قومی شعور کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی حکومتی شعبوں میں بھی جب عربی عناصر ہر جگہ غالب آنے لگے تو یہیں سے عرب و عجم کی باہمی آویزش کا آغاز ہوا۔ بنو ہاشم کی تحریک کو بھی اس وجہ سے ایرانیوں کی مکمل ہمدردیاں حاصل تھیں ۔ شاہنامہ فردوی فارسی ادب میں اس جذبہ کی شاندار مثال ہے۔

    وفات

    705ء میں مختصر سی علالت کے بعد عبدالملک نے وفات پائی اور دمشق میں دفن ہوا۔ مدت خلافت تقریباً 21 برس ہے۔ اپنی زندگی میں اپنے دونوں لڑکوں ولید بن عبدالملک اور سلیمان بن عبدالملک کو یکے بعد دیگرے جانشین نامزد کر چکا تھا چنانچہ وفات سے قبل ولید کو بلایا اور اسے ملکی معاملات اور حکومت کے بارے میں نصیحتیں کیں۔


    سیرت و کردار

    عبدالملک بلاشبہ بنو امیہ کے کامیاب ترین حکمرانوں میں سے ایک تھا۔ اس کی تعلیم و تربیت ہر لحاظ سے مکمل تھی ۔ مدینہ کے علمی ماحول نے اس کی شخصیت کو باوصف بنایا۔ خلافت کا بارگراں اٹھانے سے پہلے منصب قضاء و افتا پر فائز رہا۔ طبیعت بالعموم ریاضت و عبادت کی طرف مائل تھی لیکن خلیفہ بننے کے بعد اس دینی شعار کو اتار کر میدان سیاست میں وہ تمام حیلہ سازیاں کیں جو دنیاوی حکمرانوں کا کمال سمجھی جاتیں ہیں۔ اس کے عہد حکومت میں کچھ زیادتیاں بھی ہوئیں ۔ بہت سے لوگ بے گناہ موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ عمرو بن سعید کو دھوکہ سے قتل کیا گیا مگر اس کے کارنامے ان خامیوں پر حاوی ہیں۔

    علم و فضل میں وہ یکتا تھا۔ بڑے بڑے آئمہ کرام اس کے علمی کمالات کے متعرف تھے۔ بقول شعبی

    ’’میں نے جس کسی سے گفتگو کی اپنے آپ کو اس سے برتر پایا سوائے عبدالملک کے کہ اس کے ساتھ کبھی حدیث یا شعر پر گفتگو ہوئی تو اس نے میرے علم میں اضافہ کیا۔‘‘

    ابو زیاد ان کے بارے میں کہتے ہیں۔

    ’’ اس زمانے میں فقہاء میں چار ممتاز شمار ہوتے ہیں۔ سعید بن حبیب ، عروہ ابن زبیر اور عبدالملک بن مروان ‘‘

    بقول شاہ معین الدین ندوی

    ’’اگر زمانہ نے اس کو سلطنت پر نہ بٹھا دیا ہوتا تو وہ مدینہ کے مسند علم کی زینت ہوتا۔‘‘

    جب تخت نشین ہوا تو اپنے آپ کو مشکلات اور مصائب کے نرغے میں پایا۔ صرف شام اور مصر ہی اموی حکومت کے ماتحت تھے۔ بقیہ تمام عالم اسلام عبداللہ ابن زبیر کا ہمنوا تھا اور ان میں سے اکثر ان کی خلافت کو تسلیم کر چکے تھے دوسری طرف خوارج ، توابین اور دیگر مخالفین کی شورشیں اموی اقتدار کے لیے خطرہ تھیں۔ رومی حملہ کا خطرہ الگ تھا۔ ان حالات میں عبدالملک کی بجائے کوئی اور شخص ہوتا تو حوصلہ ہار دیتا لیکن عبدالملک قطعاً ہراساں نہ ہوا وہ حالات کا خاموشی سے جائزہ لیتا رہا جب تک عبداللہ بن زبیر اپنے مخالفین کے خلاف صف آراء رہے اس نے کوئی قدم نہ اٹھایا لیکن جونہی اس نے محسوس کیا کہ ان لڑائیوں کی بدولت عبداللہ بن زبیر کی قوت کمزور پڑ چکی ہے۔ وہ میدان عمل میں اترا اور دیکھتے ہی دیکھتے عراق، حجاز ، ترکستان ، اور شمالی افریقہ پر قبضہ کر لیا۔ مشہور مورخ مسعودی نے لکھا ہے کہ 686ء کو جب عبدالملک کوفہ میں مختار کے خلاف تیاریوں میں مشغول تھا سے پے درپے ناکامیوں اور شورشوں کی اطلاع دی گئی تو ان خبروں کو سن کر لمحہ بھر کے لیے ہراساں نہ ہوا۔ راب بھر ہنستا اور قہقہے لگاتا رہا لیکن اس کی ہر ہر ادا سے اس کے عزم اور استقلال کا اظہار ہوتا تھا۔ یہی عزم و استقلال اس کی کامیابی کا سبب بنا۔ نازک سے نازک اوقات میں بھی مردانہ وار مقابلہ کرنا اس کا ذاتی وصف تھا۔


    مجموعی جائزہ

    وہ ایک زبردست منتظم ، بہادر اور نڈر حکمران تھا اندرون ملک بغاوتوں اور شورشوں کا قلع قمع کرنے کے بعد اس نے ملکی فتوحات کرکے سلطنت کو وسعت بخشی ۔ اس کی وسعتوں کا دامن سمٹنے کی بجائے ہمیشہ پھیلتا ہی رہا۔ اس نے نظام حکومت کو بہتر بنانے اور ملکی استحکام کے نقطہ نظر سے کئی ایک اہم اصلاحات نافذ کیں۔ ان اصلاحات کے نتیجہ کے طور پر نہ صرف نظم و نسق کی اصلاح ہوئی بلکہ بنو امیہ کی سیاسی مرکزیت مضبوط ہوئی۔ معاشی استحکام کی بدوت ملکی خوشحالی میں اضافہ ہوا ، اسلامی سکہ بین الاقوامی دنیا میں قبول عام حاصل کر چکا تھا۔ تعمیر و ترقی کا دور دورہ تھا۔ رومی جھنڈے سرنگوں ہو چکے تھے ان غیر معمولی کارہائے نمایاں کی بدولت اسے بنو امیہ کی خلافت کا حقیقی بانی قرار دیا جا چکا تھا۔ عربی تہذیب اور تمدن کو پھیلانے کے لیے سرکاری سرپرستی حاصل تھا ۔ سرکاری محکموں میں خواہ سول ہوں یا فوجی عرب عناصر کو بالادستی حاصل تھی اور عربی سکہ بھی رائج ہو چکا تھا۔ اس وجہ سے مورخین نے اسے نہ صرف عرب قومیت کی بنیاد رکھنے والا قرار دیا بلکہ بنو امیہ کا حقیقی بانی بھی تسلیم کیا گیا۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں