1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عبداللہ بن حجش رضی اللہ عنہ۔۔۔ ایک عظیم صحابی

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از مجیب منصور, ‏2 ستمبر 2007۔

  1. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت عبداللہ بن جحش ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے دعوت اسلامی کے اولین مرحلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پکار پر لبیک کہا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زادبھائی تھے۔ ان کی والدہ محترمہ حضرت امیمہ بنت عبدالمطلب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برادر نسبتی تھے۔ ان کی ہمیشیرہ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ اور امہات المومنین میں سے تھیں۔ وہ پہلے شخص تھے جن کو اسلام میں کسی مہم کی قیادت سونپی گئی۔ ان سب کے علاوہ وہ پہلے آدمی جن کو امیر المومنین کے لقب سےپکارا گیا۔وہ بزرگ اور محترم صحابی حضرت عبداللہ بن جحش اسدی رضی اللہ عنہ ہیں۔
    حضرت عبداللہ بن جحش نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دار ارقم مں داخل ہونے سےقبل مشرف بہ اسلام ہوچکے تھے۔ ان کا شمار سابقون الاولون میں ہوتاتھا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کی اذیت رسانیوں سے بچنے کے لیے اور اپنے دین کی حفاظت کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم کو ہجرت مدینہ کی اجازت مرحمت فرمائی تو قافلہ مہاجرین میں صرف ایک شخص ان سے آگے تھا ۔ ان سے پہلے اس شرف کی طرف سوائے حضرت ابوسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کسی اور نے سبقت نہیں کی تھی۔
    خدا کے لیے ہجرت کرنا اور اللہ کی راہ میں گھر بار اور اہل و عیال سے جدائی اختیار کرنا۔ حضرت عبداللہ بن جحش کے لیے کوئی نیا تجربہ نہ تھا۔ اس سے پہلے وہ اور ان کے گھرانے کے کچھ لوگ حبشہ کی طرف ہجرت کر چکے تھے لیکن اب کی بار ان کی ہجرت نہایت مکمل اور وسیع ہجرت تھی۔ اس بار ان کے اہل وعیال ان کے متعلقین اور اہل خاندان سب نے ہجرت میں ان کا ساتھ دیا۔ ان میں سے مرد، عورتیں،بچے ، بچیاں اور بوڑھے، جوان سبھی انکے شریک سفر تھے کیونکہ ان کا گھر اسلام کا گھراور ان کا خاندان ایمان کا خاندان تھا۔
    جب یہ لوگ مکہ چھوڑ کرنکل گئے تو ان کے مکانات رنج و ملال اور حزن وافسردگی کی تصویر پیش کر رہے تھے ۔ ان کے اوپر اس طرح ویرانی اور اداسی مسلط ہوگئی اور زندگی کی رونق اور چہل پہل کے آثار اس طرح وہاں سے مٹ گئے جیسے پہلے وہاں کوئی رہتا ہی نہ تھا۔ حضرت عبداللہ بن جحش اور انکے اہلخانہ کو ہجرت کیے ہوئے ابھی تھوڑی ہی مدت گزرتی تھی کہ ایک دن سرداران قریش یہ معلوم کرنے کے لیے مکہ کے محلوں اور آبادیوں میں گشت کرنے نکلے کہ مسلمانوں میں سے کون کون سے لوگ مکہ چھوڑ کر جاچکے ہیں اور کون سے لوگ ابھی تک یہاں سکونت پذیر ہیں۔ ان گشت کرنے والوں میں ابوجہل بھی تھا اور عتبہ ابن ربیعہ بھی۔عتبہ نے دیکھا کہ بنو جحش کے مکانات میں گردوغبار اڑاتی ہوئی ہوائیں نوحہ کرتی پھر رہی ہیں اور ان کے دروازوں کے کھلے ہوئے پٹ آپس میں ٹکرا ٹکرا کر بڑی بھیانک آواز پیدا کر ہے ہیں۔ یہ دیکھ کر اس نے کہا کہ بنو جحش کے مکانات ویران ہوگئے ہیں اور یہ اپنے مکینوں کے فراق میں رو رہے ہیں۔یہ سن کر ابوجہل نے کہاکہ یہ کیسے لوگ تھے کہ ان کی جدائی کے صدمے سے ان کے مکانات تک رو رہے ہیں۔پھر ابوجہل نے حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کے مکان پر قبضہ کرلیا اور اس میں باقی ماندہ سامان و اسباب پر مالکانہ طور پر تصرف کرنے لگا۔ جب اپنے مکان پر ابوجہل کے قبضے کی خبر حضرت عبداللہ بن جحش کو ہوئی اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عبداللہ! کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہوکہ اللہ تعالیٰ اس کے عوض تم کو جنت میں مکان عطا فرمائے۔انہوں نے کہا کہ کیوں نہیں؟اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اس پر راضی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کو اس کے بدلے میں جنت میں اس سے عمدہ اور عالیشان مکان ملے گا۔ یہ سن کر ان کا جی خوش ہوگیا اور ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوگئیں۔
    حضرت عبداللہ بن جحش اپنی دونوں ہجرتوں کی مشقتیں جھیلنے کے بعد ،قریش مکہ کے ہاتھوں دکھ اور اذیت برداشت کرنے کے بعد ابھی انصار مدینہ کے زیر سایہ اور ان کے حفظ و امان میں رہ کر سکھ چین کے چند لمحات بھی نہیں گذار سکے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت نے انہیں ان کی زندگی کی سب سے کڑی آزمائش اور ان کے اسلام لانے کے بعد کے سب سےتلخ تجربے سے سے دوچار کردیا۔
    ہوا یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی اولین فوجی مہم کے لیے آٹھ صحابہ کرام کو جن میں حضرت عبداللہ بن جحش اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما بھی شامل تھے ، طلب فرمایا اور کہا کہ میں تمہارا امیر اس شخص کو مقرر کروں گا جوبھوک پیاس کی شدت سب سے زیادہ برداشت کرسکتا ہو۔پھر آپ نے اس دستے کی قیادت حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کے سپرد فرمائی اس طرح حضرت عبداللہ بن جحش سب سے پہلے مسلمان تھے جن کو مسلمانوں کے کسی فوجی دستے کی قیادت سونپی گئی۔روانگی سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے سمت سفر کا تعین فرمایا اور ایک خط ان کے حوالے کرتے ہوئے یہ ہدایت کی کہ وہ دن کی مسافت طے کرنے سے پہلے اس کو نہ پڑھیں۔ حسب ہدایت جب انہوں نے اس خط کو کھولا تو اس میں یہ ہدایت درج تھی:
    "میرے اس خط کو پڑھنے کے بعد آگے بڑھ کر طائف اور مکہ کے دمیان "نخلہ" کے مقام پر پڑاو ڈالو اور وہاں ٹھہر کر قریش کی ٹوہ لگاو اور ان کے حالات سے واقفیت حاصل کرو"
    حضرت عبداللہ بن جحش نے خط پڑھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر سرتسلیم خم کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں مقام نخلہ پر پہنچ کر وہاں خفیہ طور پر قریش پر نظر رکھوں اور ان کے حالات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کروں۔انہوں نے مجھے تم میں سے کسی کو زبردستی اپنے ساتھ لے جانے سے منع فرمایا ہے ۔ اس لیے تم میں سے جو شخص شہادت کا طالب اور اس کا آرزومند ہو وہ میرے ساتھ چلے اور جس کا جی چاہے بلا خوف و ملامت واپس چلا جائے لیکن سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو بسر و چشم قبول کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جہاں جانے کا حکم دیا ہے چلیں! ہم سب آپ کے ساتھ ہیں۔
    وہ لوگ وہاں سے آگے بڑھے اور نخلہ کے مقام پر پہنچ کر قریش کے حالات معلوم کرنے کے لیے مختلف راستوں پر چکر لگانے لگے۔ اس تلاش وجستجوکے دوران ان کی نظر دور سے آتے ہوئے قریش کے ایک تجارتی قافلے پر پڑی جو چار آدمیوں عمروبن حضرمی، عمربن کیسان،عثمان بن عبداللہ اوراس کے بھائی مغیرہ بن عبداللہ پر مشتمل تھا۔ ان لوگوں کے ساتھ قریش کا سامان تجارت تھا جس میں کھال اور کشمش وغیرہ وہ چیزیں تھیں جن کی وہ تجارت کرتے تھے۔
    وہ تاریخ ماہ حرام(رجب) کی آخری تاریخ تھی۔ صحابہ کرام نے آپس میں اس بات پر مشورہ کیاکہ قافلے کے ساتھ کون ساطرز عمل اختیار کیاجائے۔ اگر ہم انہیں قتل کرتے ہیں تو ماہ حرام میں جنگ و خونریزی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اس صورت میں ماہ حرام کی حرمت پامال ہوگی اور ہم اہل عرب کی ناراضی اور ان کی ملامت کا ہدف بن جائیں گے اور اگر انہیں آج کی تاریخ گزرنے تک مہلت دے دیں تویہ حدود حرم میں داخل ہوکر ہماری پہنچ سے باہر ہوجائیں گے۔ اورخود کو ہماری گرفت سےمحفوظ کر لیں گے۔ وہ دیر تک اس مسئلے پرغوروفکر کرتے رہے۔ آخر کار وہ ان کے اوپر حملہ کرنے، انہیں قتل کرنے اور ان کے مال واسباب کو بطور غنیمت لے لینے پر متفق الرائے ہوگئے اور پھر تھوڑی دیر میں وہ ان میں سےایک کو قتل اور دوکوگرفتار کرچکے تھے۔ البتہ چوتھا شخص بھاگ کر اپنی جان بچانےمیں کامیاب ہوگیا۔
    حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ اور انکے ساتھی دونوں اسیروں اور سامان تجارت سے لدے ہوئے اونٹوں کو لیے ہوئے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ جب یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی کاروائی سے آگاہ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس فعل پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا اور ان سے کہا:
    "خدا کی قسم میں نے تم کو جنگ کی اجازت نہیں دی تھی۔ میں نے تو تم کوصرف قریش کے حالات معلوم کرنے کا حکم دیا تھا اور یہ ہدایت کی تھی کہ انکی نقل و حرکت پر خفیہ طور پر نظر رکھو"
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا بلکہ ان کے معاملے کو فی الحال ملتوی کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت سے بھی اعراض فرمایا اور اس میں سے کچھ نہیں لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرز عمل سے حضرت عبداللہ بن جحش اوران کے ساتھیوں کو سخت صدمہ پہنچا اور انہیں اس بات کا یقین ہوگیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوکر مکمل طور پر تباہی وبربادی کا سامنا کر رہے ہیں۔ مزید برآں ان پر یہ بات بھی شاق گزری کہ ان کے مسلمان بھائی انہیں ملامت کرنے لگے۔ جب بھی ان کا گزر مسلمانوں کی کسی ٹولی کی طرف سے ہوتا وہ یہ کہتے ہوئے ان کی طرف سے منہ پھیر لیتے کہ "یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے" اور انہیں اس وقت اور بھی زیادہ صدمہ پہنچا جب ان کو یہ بات معلوم ہواکہ قریش نے ان کی اس حرکت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرنے اور ان کو قبائل میں بدنام کرنے کا ایک ذریعہ بنالیا ہے۔ مشرکین مکہ یہ کہہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (نعوذ باللہ)بدنام کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ "محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام مہینے کو حلال کرلیا۔ اس میں خونریزی کی، مال لوٹا اور آدمیوں کو گرفتار کیا" پھرنہ پوچھیے کہ حضرت عبداللہ بن جحش اور ان کے ساتھیوں کو اپنی اس فروگزاشت پر کتنا گہرا رنج اور صدمہ ہوا اور ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنی شرمندگی اور ندامت لاحق ہوئی کیونکہ ان کی اس کاروائی کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت ذہنی کوفت واذیت میں مبتلا ہوگئے تھے۔ جب ان لوگوں کی بے چینی اور پریشانی حد سے متجاوز اور ان کی قوت برداشت سے باہر ہوگئی تو اچانک ایک شخص نے آخر انہیں یہ مژدہ جانفزا سنایا کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگیا اور اس نے اس سلسلے میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل کیا ہے۔ یہ سن کر انہیں ناقابل بیان مسرت ہوئی۔ لوگ قرآن کی اس آیت کو پڑھتے ہوئے انہیں خوشخبری سناتے، انہیں مبارکباد دیتے اور ان کے ساتھ معانقہ کرتے۔
    "یَسئلُونَکَ عَنِ الشَّھرِالحَرامِ قِتَال فِیہ۔۔۔۔۔۔البقرۃ:217
    "لوگ پوچھتے ہیں ماہ حرام میں لڑنا کیسا ہے؟کہواس میں لڑنا بہت برا ہے مگر راہ خدا سے لوگوں کو روکنااور اللہ سے کفر کرنا اور مسجد حرام کا راستہ خدا پرستوں پر بند کرنا اور حرم کے رہنے والوں کو وہاں سےنکالنا اللہ کے نزدیک اس سے بھی براہے اور فتنہ خونریزی سے شدید تر ہے"
    جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جی خوش ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قافلے کا مال قبول کرلیا اور دونوں قیدیوں کو فدیہ لے کر رہا فرمادیا۔پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عبداللہ جحش اور ان کے رفقاء سے بھی راضی ہوگئے۔کیونکہ ان کا یہ غزوہ مسلمانوں کی زندگی میں ایک بہت بڑے او رعظیم واقع کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس غزوہ میں حاصل ہونےو الا مال غنیمت اسلام میں سب سے پہلا مال غنیمت تھا۔ اس میں قتل ہونے والا شخص پہلا مشرک تھا،جس کا خون مسلمانوں نے بہایا۔ اس میں گرفتار ہونے والے قیدی پہلے قیدی تھے جو مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔اس کا جھنڈا پہلا جھنڈا تھا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک نے باندھا اور اس کے امیر حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ وہ پہلے شخص تھے جن کو امیر المومنین کے لقب سے پکارا گیا۔ پھر بدر کا معرکہ پیش آیا۔ اس میں حضرت عبداللہ بن جحش نے شجاعت و مردانگی کے وہ جوہر دکھائے جو ان کے ایمان کے شایان شان تھے۔ پھر غزوہ احد پیش آیا۔ جس میں حضرت عبداللہ بن جحش اور ان کے دوست حضرت سعد بن ابی وقاص کے مابین ایک یادگار ناقابل فراموش واقع پیش آیا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص اپنے اور اپنے دوست کے واقعے کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ :"غزوہ احد کے موقع پر عبداللہ بن جحش مجھ سے ملے اور بولے: کیا تم اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں کرو گے؟ میں نےجواب دیا "کیوں نہیں!" پھر ہم دونوں ایک طرف خلوت میں چلے گئے اور میں نے دعا کی" میرے رب!جب دشمن سے میری مڈبھیڑ ہو تو میرا مقابلہ کسی ایسے شخص سے کرانا جس کی گرفت نہایت سخت ہو اور جس کا غیظ و غضب انتہائی شدید ہو، میں اس سے لڑوں۔ وہ مجھ سے لڑے، پھر تو مجھے اس کے اوپر غلبہ و کامرانی عطافرما دے، حتی کہ میں اسے قتل کرکے اس کے اسلحے کو اپنے قبضے میں کرلوں"
    عبداللہ بن جحش نے میری اس دعا پر آمین کہی پھر انہوں نے دعا کی۔"خدایا! میدان جنگ میں میرا مقابلہ ایسے شخص سے کرانا جو انتہائی غضب ناک اورسخت گیر ہو۔ میں تیری راہ میں اس سے جنگ کروں اوروہ مجھ سے لڑے، پھر وہ میرے اوپر غالب آجائے اور میری ناک اور میرے کان کاٹ لے اور جب قیامت کے دن میں تیرے سامنے حاضر ہوں تو تُو مجھ سے پوچھے کہ اے میرے بندے!تیری ناک اور تیرے کان کیوں کاٹے گئے تو میں کہوں کہ خدایا! تیری اور تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں اور توکہے کہ تو نے سچ کہا"۔
    حضرت سعد بن ابی وقاص فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن جحش کی دعا میری دعا سے اچھی تھی۔ میں نے دن کے آخری حصے میں دیکھا کہ انہیں قتل کرکے ان کا مثلہ کردیاگیا ہے اور ان کی ناک اور کانوں کو ایک دھاگے کے ذریعہ درخت پرلٹکا دیا گیا ہے۔
    اللہ تعالیٰ نے حضرت عبداللہ بن جحش کی دعا قبول فرمالی اور انہیں شہادت کی نعمت سے نوازا جیسا کہ ان کے ماموں حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو نوازا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو ایک ہی قبر میں دفن کیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس آنسو ان کی قبر کوترکر رہے تھے جو شہادت کی خوشبو سے معطر ہورہی تھی۔
     
  2. راجہ صاحب
    آف لائن

    راجہ صاحب ممبر

    شمولیت:
    ‏8 ستمبر 2006
    پیغامات:
    390
    موصول پسندیدگیاں:
    7
    ملک کا جھنڈا:
    Re: ذکر عضیم نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کےعظیم اصحاب

    :mashallah:

    :salam: مجیب بھائی
    کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ مضمون آپ نے کون سی کتاب سے لیا ہے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں