1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عبداللہ اسلام اور سیکولرزم .... عمر فراہی (انڈیا)۔

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏29 اکتوبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    عبداللہ اسلام اور سیکولرزم .... عمر فراہی (انڈیا)۔

    فرانس ایک لبرل اور سیکولر ریاست ہے جہاں مسلم عورتوں کے حجاب پر اس لئے پابندی ہے کیوں کہ اس سے ایک مذہب کی نمائندگی ہوتی ہے ۔مگر اسی سیکولر فرانس میں اظہار رائے کی آزادی کے تحت مذہب اور مذہبی شخصیات کا مزاق اڑانے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔کیا یہ منافقت نہیں ہے کہ اسی لبرلزم اور سیکولرآئین کے تحت فرانس اور یوروپ کے بہت سے ممالک میں عیسائی مذہب یا ان کی مقدس شخصیات کی شان میں گستاخی کو اکثریت کی دل آزاری قرار دے کر قابل گرفت تصور کیا جاتا ہے مگر اقلیتوں کے جذبات کی کوئی قدر نہیں ۔اسی فرانس میں جمعہ کے دن ایک اٹھارہ سالہ چچن نوجوان نے اپنے استاد سموئیل پٹی کو اس لئے قتل کردیا کیوں کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاکہ بنا کر مسلمانوں کی دل آزاری کی تھی ۔فرانس کی پولیس نے اسی وقت اس نوجوان کے سینے میں دس راؤنڈ گولی مار کر شہید کر دیا اور اسے وہاں کے اخبارات نے جہادی اور اسلامی دہشت گرد قرار دیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عبداللہ شیشان کی پرورش فرانس میں ہی ہوئی تھی اور اس کے لبرل والدین خانہ جنگی کے شکار شورش زدہ چچنیا سے ہجرت کر کے سیکولر فرانس میں پناہ گزین کی حیثیت سے شہریت اختیار کرلی تھی ۔عبداللہ کے والدین کو شدت پسندی سے نفرت تھی اس لئے انہوں نے فرانس کا رخ کیا ۔عبداللہ کے والدین کو چچنیا کا اسلامی ماحول شدت پسند نظریات میں نہیں ڈھال سکا مگر عبداللہ کو اگر فرانس کے سیکولر ماحول نے شدت پسندی کی طرف راغب کیا تو اس کا مطلب صاف ہے کہ یوروپ اور مغرب کے لبرلزم اور سیکولرزم میں نقص ہے اور یہ معاشرہ محبت کا نہیں نفرت کا درس دیتا ہے ۔عبداللہ شیشان کے ذریعے سموئیل پٹی کے قتل کے بعد پیرس میں اظہارِ رائے کی آزادی کی حمایت میں ایک زبردست احتجاج اور مظاہرے کے ذریعے گستاخ سموئیل پٹی کی روح کو فرانس کے سب سے بڑے اعزاز Jesus سے نوازا گیا ۔یعنی سموئیل پٹی اب پروفیسر Jesus سموئیل کے نام سے جانا جائے گا ۔تعجب ہے کہ یوروپ اور دین سیکولزم میں مسلمانوں کے خلاف پروپگنڈہ کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں میں قوت برداشت کا فقدان ہے اور یہ ان کے پیغمبر اور کتاب کی تعلیم کی وجہ سے ہے ۔یہی وہ پروپگنڈہ ہے جس کی وجہ سے یوروپ میں اسلام کے خلاف نفرت پھیلائی جاتی ہے ۔بلکہ یوں کہیں کہ یہ کام ایک زبردست پروپگنڈے اور منصوبے کے تحت ہو رہا تاکہ ہر طرح سے طاقتور یوروپ اسلام کی طرف راغب نہ ہو ۔نفرت اور بغض کی یہی وہ شعلہ ہے جس کا مظاہرہ پیرس کے اس احتجاج کے بعد ایفل ٹاور کے پاس نظر آیا جب دو گوری عورتوں نے دو پینتالیس اور پچاس سالہ مسلمان عورتوں کو جن کا نام کینزہ اور امل تھا چاکؤوں سے حملہ کر دیا ۔ایک عورت کو ان عورتوں نے چھ بار سینے میں چاکو مار کر اس کے پھیپھڑے کو بری طرح زخمی کر دیا اور وہ شدید زخمی حالت میں بستر مرگ پر ہے اور دوسری عورت کو اس کے بازو میں زخم آئے ہیں ۔یہ گوری عورتیں جب حملہ کر رہی تھیں تو ان کی زبان سے نفرت آمیز جملے بھی ادا ہو رہے تھے ۔وہ کہہ رہی تھیں کہ تم حرام خور سور کی اولاد غلیظ عرب ہمارے ملک سے باہر جاؤ۔فرانس کی پولیس نے عبداللہ کی طرح ان دونوں حملہ آور عورتوں کے سینے میں ایک بھی راؤنڈ گولی نہیں ماری کیوں کہ یہ دہشت گرد نہیں ایک مہذب معاشرے کی فرقہ پرست خاتون تھیں ۔پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا اور ہو سکتا ہے کہ اقدام قتل کا مقدمہ بھی درج کرلے مگر وہاں کے سبھی اخبارات نے ان حملہ آور عورتوں کو radical یعنی جہادی نہیں بلکہ racist یعنی فرقہ پرست لکھا ۔یہ ہے وہ غالب اور بااقتدار تہذیبوں کا جلوہ جو دنیا کی کسی بھی ڈکشنری میں کوئی بھی زبان و الفاظ اور اس کے معنی اور مفہوم داخل کر دیں غلام قوموں اور عدالتوں کو بھی قبول کرنا ہی ہوتا ہے ۔راحت اندوری صاحب کا
    یہ مصرع خوش ہونے اور تالیاں بجانے کیلئے تو ٹھیک ہے کہ
    ہمارے منھ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
    ہمارے منھ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے

    سچائی یہ ہے کہ صداقت کو ثابت کرنے کیلئے منصف کو بھی آزادانہ ماحول اور اقتدار چاہئے ۔اسلام اور مسلمان سیکولر معاشرے میں اپنی رسمی تبلیغ کرنے کیلئے تو آزاد ہے لیکن یہ دعوت و تبلیغ بھی صحرا میں سراب کی طرح ہے ۔سیکولر معاشرہ ایک منافقانہ معاشرہ ہے ورنہ ایسا کیوں ہے کہ اسی فرانس کے سیکولر آزادانہ ماحول میں فرانس کی ایک معزز خاتون پچاس سال تک اسلام سے واقف نہیں ہو سکی مگر مالی کے دہشت گردوں نے چند سالوں میں ہی اسے اسلام سے روشناس کر دیا اور جب وہ ان کی قید سے رہائی کے بعد فرانس کے ایئر پورٹ پر قدم رکھتی ہے اور فرانس کاصدر ان کا میڈم سوفی کے نام سے استقبال کرتا ہے تو وہ یہ کہنے میں ذرہ برابر جھجھک محسوس نہیں کرتیں کہ اب میں سوفی نہیں مریم ہو چکی ہوں ۔یہ صرف ایک سوفی کی کہانی نہیں ہے ایسی سیکڑوں یون ریڈلی جیسی تعلیم یافتہ خاتون جن کے ذہنوں میں سیکولر معاشرے اور ماحول نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر بھر دیا تھا جب وہ حادثاتی طور پر افغانستان شام اور سومالیہ کے دہشت گردوں کی پناہ میں جاتی ہیں تو محبت کا پیغام لیکر آتی ہیں ۔اس کا مطلب صاف ہے کہ سیکولر ممالک اور معاشرے میں اسلام پسند تنظیمیں اور تحریکیں یا تو بہت ہی کمزور ہیں یا انہوں نے اس ماحول میں اسلام کو بھی سیکولرزم کے پیرہن میں ڈھال کر اسلام کو مشتبہ بنا دیا ہے یا وہ لوگوں کے ذہنوں میں اسلام کے خلاف پھیلائی جارہی بدگمانیوں کو دور کرنے میں ہی اپنا وقت ضائع کر چکی ہیں اور کر رہی ہیں ۔ایسے میں شر پسند غالب فرقہ پرست طاقتیں جب منصوبہ بند طریقے سے مسلمانوں کے مقدس مقامات ان کے شعار اور شخصیات کے خلاف گستاخانہ حرکتیں کرتی ہیں تو عبداللہ کا مشتعل ہونا لازمی ہے ۔میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ سیکولر ماحول اور معاشرے میں مسلمان بغیر کسی قیادت اور رہنمائی کے صرف مشتعل ہو سکتا ہے ۔اس کے بعد اس مشتعل بھیڑ کے خلاف میڈیا جو پروپگنڈہ کرتا ہے ہم اپنے ملک بھارت میں ممبئی سے لیکر بنگلور کے مسلمانوں کے ایسے کئی احتجاج اور مظاہروں کا تماشہ دیکھ چکے ہیں جس پر پولیس بلا اشتعال فائرنگ کرتی ہے اور پھر مسلمان ہی فساد فی الارض کا قصوروار بھی قرار پاتا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ سیکولرزم ایک فتنہ ہے ۔اس وقت سیکولر ممالک اور ماحول میں اگر مسلمان اپنے ایمان اخلاق اور اسلامی معاشرے کی تخلیق اور حفاظت کر لے یہی بہت بڑی کامیابی ہے اور یہ چیزیں اسلام کی طرف دوسری قوموں کی توجہ کا بھی سبب بن سکتی ہیں ۔مگر سوال پھر وہی عمل اور قربانی کا ہے جو ہر دور میں بہت مشکل ہوتا ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں