1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ظفرعلی خان: زندگی کے دلچسپ واقعات

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏24 ستمبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    ظفرعلی خان: زندگی کے دلچسپ واقعات
    [​IMG]
    آج سے تقریباً ساڑھے چار سو سال پیشتر دریائے جہلم کے کنارے ایک گھرانا آباد تھا جس کے سربراہ راجہ درویش خاں تھے۔ اس گھرانے کا تعلق راجپوتوں کی جنجوعہ گوت سے ہے۔ راجہ صاحب کے پرداد کے باپ ہندو راجپوت تھے مگر دادا (صاحب خاں) نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ مولانا خود لکھتے ہیں اسلام امتیاز نسب کا حریف ہے کی کم ہے یہ شرف کہ ہیں اسلامیوں میں ہم ہندوستان عرب کے گھرانے میں ہے شریک کل آریہ تھے، آج ملے شامیوں میں ہم انہی صاحب خاں کے پوتے، راجہ ملک درویش خاں ذی ثروت اور ذی اقتدار تھے۔ ان کے انتقال کے بعد بیٹوں میں تنازعہ پیدا ہو گیا جس کے نتیجے میں راجہ صاحب کے ایک بیٹے نصیر خاں نے آبائی ریاست کو خیرباد کہہ کر مشرق کا سفر اختیار کیا۔ شجاعت کی بدولت انہوں نے ازسر نو راحت و آرام کے سامان پیداکر لیے اور دریائے چناب کے کنارے نصیر آباد نامی ایک مقام آباد کر کے فارغ البالی کی زندگی بسر کرنے لگے۔ گردش روزگار نے نصیر خاں کی اولاد کو پھر آبائی وراثت کی آسائشوں سے محروم کر دیا اور یہ جگہ چناب کی طغیانی میں تباہ ہو گئی۔ ان کی اولاد بے خانماں ہو کر تین بہ تقدیر نکلی اور قرب و جوار کے علاقوں میں مختلف افراد نے مختلف دیہات آباد کر لیے اور پنجاب میں پر طوائف الملوکی کے دور دورہ کے باعث ہر فرد نے اپنی حفاظت کے لیے اپنے گاؤں میں گڑھیاں تعمیر کر لی تھیں۔ اس خاندان میں محمد حسن خاں (ظفر علی خاں کے پردادا) دارا پور ضلع جہلم میں مقیم تھے، بقول پروفیسر حمید احمد خاں ان کی ساری عمر عسرت میں گزری۔ پنجاب میںمحمد حسن خاں کے والد (احمد خاں) خاندان کے دیگر افراد کے ہندوئوں کے ہاتھوں کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔ محمد حسن کی والدہ اپنے یتیم بچے کو لے کر ضلع گوجرانوالہ میں آ گئیں، بعدازاں یہ خاندان کوٹ مہرتھ تحصیل وزیر آباد میں چلا گیا۔ محمد حسن مرحوم کے تین بیٹے ہوئے۔ جن میں ایک مولوی کرم الٰہی مرحوم (مولانا ظفر علی خاں کے دادا) تھے۔ مولوی صاحب نے عربی و فارسی میں کافی دستگاہ حاصل کر لی تھی۔ وہ تعلیم کی تکمیل کے بعد مشن سکول صدر بازار سیالکوٹ میں فارسی، عربی کے مدرس اول مقرر ہوئے۔ مولوی کرم الٰہی کے دوران ملازمت ایک بنگالی استاد نے ان سے معاوضہ پر فارسی، اردو پڑھنے کی خواہش ظاہر کی تو مولوی صاحب نے فرمایا: ’’میں آپ سے فارسی، اردو پڑھنے کا معاوضہ نقدی کی شکل میں نہیں لینا چاہتا۔ میرا معاوضہ صرف یہ ہے کہ آپ اس کے بدلے میں میرے بیٹے سراج الدین احمد کو انگریزی پڑھا دیں۔ چنانچہ بنگالی استاد نے اس تجویز کو منظور کر لیا اور مولوی سراج الدین احمد نے خصوصی طور پر اسکول کے علاوہ بنگالی استاد سے انگریزی پڑھی۔ مولوی کرم الٰہی اپنے زمانے میں نامور استاد تھے، اور افسران بالا نے ان کا ذکر نہایت اچھے انداز میں کیا۔ ان کی فراست اور دور اندیشی سے اس خاندان کی مالی حالت بھی بہتر ہو گئی تھی، انہوں نے اپنی کفایت شعاری زندگی کے سبب اتنا پس انداز کر لیا تھا کہ جب وہ سیالکوٹ چھوڑ کر مستقلاً وزیر آباد میں آباد ہوئے تو انہوں نے شہر سے باہر موضع ونجو والی کے قریب ایک وسیع قطعۂ زمین خرید کر اس میں دو پختہ کنویں تعمیر کیے اور اپنی رہائش کے لیے کچی اینٹوں کا ایک وسیع مکان بھی بنایا، اس آبادی کا نام کرم آباد تجویز کیا۔ مولوی صاحب نے 1890ء میں انتقال کیا اور اپنے ہی باغ میں دفن ہوئے۔ ظفر علی خاں کے والد مولوی سراج الدین احمد فتو منڈی ضلع گوجرانوالہ میں 19 جنوری 1850ء کو پیدا ہوئے۔ ان کی تعلیم و تربیت اپنے والد (مولوی کرم الٰہی) کے زیرنگرانی ہوئی اور انہوں نے بھی اسی اسکول میں تعلیم پائی جہاں ان کے والد سیالکوٹ میں استاد تھے۔ میجر فلر ، ڈائریکٹر سر رشتہ تعلیم نے جب اسکول کا معائنہ کیا تھا، تو مولوی سراج الدین احمد کے متعلق یہ لکھا تھا کہ ’’یہ لڑکا نہایت ہوشیار ہے اور مدرس اول (مولی کرم الٰہی) کا بیٹا مدرسہ کا زیور ہے۔‘‘ اس امر سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اپنے والد کے زیرنگرانی کس طرح تعلیم و تربیت حاصل کر رہے تھے۔ مولوی کرم الٰہی قناعت پسند، صاف گو اور سیدھے مسلمان تھے۔ یہی چیز وراثت میں ان کی اولاد کو بھی ملی۔ مولوی سراج الدین احمد کی عمر 17 سال کی تھی۔ اکتوبر 1867ء میں انہوں نے اپنی والدہ سے دال کھاتے کھاتے اکتا جانے کا ذکر کیا۔ جب ان کی والدہ نے یہ بات ان کے والد کو بتائی تو انہوں نے متانت سے جواب دیا کہ ’’یہاں تو دال ہی پکا کرے گی۔ اگر اسے گوشت کھانا ہے تو اپنا انتظام خود کرنا چاہیے۔‘‘ اس فقرے نے بیٹے کے دل پر اثر کیا۔ والدہ سے ایک روپیہ لیا اور اجازت لے کر اپنے گاؤں سے آ گئے۔ پھر منشی عزیزالدین وکٹوریہ پریس گوجرانوالہ کے یہاں ملازم ہوئے۔ اس کے بعد کچھ دنوں تک راجہ موتی سنگھ کے پاس (سیالکوٹ میں) ان کے بچوں کے اتالیق کے طور پر 30 روپے ماہوار پر ملازم رہے۔ لیکن یہ ملازمت بھی عارضی ثابت ہوئی، اور اس کے خاتمے کے بعد محکمہ ڈاک میں ملازمت مل گئی اور اسی محکمہ سے انہوں نے پنشن لی۔ ان کی کارکردگی اور حسن خدمت کے سبب حکومت کشمیر نے اس کی خدمات مستعار لے لی تھیں۔ یہاں بھی انہوں نے ایک عرصہ تک کام کیا، اور یہ خدمات نہایت مستعدی اور اعلیٰ کارکردگی سے انجام دیں۔ یہاں رہ کر انہیں کشمیری مسلمانوں کے بہبود اور ان کی خدمت کے زیادہ مواقع ملے۔ انہوں نے وہاں غلام محی الدین رکن کونسل کشمیر کے ذریعے بیگا رکی قدیم رسم کو ختم کرانے کی سعیٔ بلیغ بھی کی تھی۔ ان کی طبیعت میں خودداری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اس لیے انگریز کی ملازمت نے بھی ان کی خودداری پر کوئی حرف نہیں آنے دیا۔ یہی سبب تھا کہ جب اس قسم کے مواقع پیش آئے تو انہوں نے کبھی عزت نفس کو ملازمت پر قربان نہیں کیا۔ خو ان کے صاحبزادے چوہدری غلام حیدر راوی ہیں: ’’والد صاحب مرحوم مختلف مقامات پر پوسٹ ماسٹر کے عہدے پر فائز رہے۔ کسولی یا ڈکشائی کا واقعہ ہے کہ ایک اتوار کو ڈاک خانہ بند تھا۔ ایک گورے سارجنٹ نے ڈاک خانے کے برآمدہ میں پہنچ کر کہا ’بابو! ہم چٹھی رجسٹری کرانا مانگتا‘ مولوی سراج الدین احمدنے جواب دیا، ’آج ڈاک خانہ بند ہے۔ رجسٹری نہیں ہو سکتی۔‘‘ گورے سارجنٹ نے کہا ’یو۔ ڈیم۔‘‘ یہ سنتے ہی انہوں نے ڈاک خانے کے چپڑاسیوں کو ڈاک خانہ کھولنے کا حکم دیا۔ جب سارجنٹ یہ سمجھ کر کہ میری چٹھی رجسٹر ہونے والی ہے، ڈاک خانہ کے کمرے میں داخل ہوا، تو انہوں نے چپڑاسیوں کو حکم دیا کہ رول سے اس گورے کی خوب مرمت کی جائے۔ جب دو رول سے اس کی تواضع ہو گئی، تو مولوی صاحب نے اس سے کہا کہ ’’یو۔ڈیم! نکل جاؤ، تمہاری رجسٹری ہو گئی۔‘‘ دوسرے دن شام کو مولوی صاحب سڑک کے کنارے جا رہے تھے تو اتفاق سے اس گورے سارجنٹ نے انہیں پہچان لیا اور دیکھتے ہی بولا ’’آؤ ہم دوستی کر لیں‘‘۔ مولوی صاحب نے اس سے ہاتھ ملایا اور وہ ہنستا ہوا چلا گیا۔ مولوی سراج الدین احمد چونکہ ایسے محکمہ میں ملازم تھے جس پر اس زمانے میں غیر مسلم اقوام کے افراد مسلط تھے، اس لئے ان کی ہر تقریر میں مسلمانوں کے عروج و زوال کے اسباب کا بیان ضرور ہوتا اور وہ اس بات پر زور دیا کرتے تھے کہ ’’جب تک مسلمان اپنے علم کے اعتبار سے ہندوؤں کے برابر نہیں ہو جاتے، اور صلاحیت کی بنا پر سرکاری ملازمتوں میں اپنا مناسب حصہ حاصل نہیں کر لیتے، ان کی معاشرتی ترقی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔‘‘

     

اس صفحے کو مشتہر کریں