1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ضیاء الحق کو مٹانے کے نام پر خود کو مٹانے کا سلسلہ روک دو۔

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از m aslam oad, ‏20 جنوری 2011۔

  1. m aslam oad
    آف لائن

    m aslam oad ممبر

    شمولیت:
    ‏15 جنوری 2010
    پیغامات:
    224
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    ضیاء الحق کا دور بڑا خوفناک تھا۔ اس میں بہت ظلم ہوا… ضیاء الحق نے بہت خوفناک قوانین بنائے… معاشرے کو یرغمال بنایا… ضیاء الحق کے دور میں کلاشنکوف کلچر، ہیروئن کلچر عام ہوا… ضیاء الحق کے دور میں یہ … ضیاء الحق کے دور میں وہ… ضیاء الحق ایسا تھا… ضیاء الحق ویسا تھا… یہ الفاظ گزشتہ 23برس سے پاکستانی قوم دن رات سن رہی ہے اور یہ الفاظ کہنے بولنے والے صرف ضیاء الحق کے سیاسی حریف یا مخالفین ہی نہیں بلکہ ضیاء الحق کے ہاتھوں دنیا میں وجود پانے والے اور اس کے ساتھ ساتھ اس میں اپنے آپ کو غیرجانبدار کہنے اور غیرجانبدار جتلانے والے میڈیا کے لوگ اور ادارے بھی شامل ہیں۔ 23 سال گزرے یہ سب لوگ مل کر دیواروں سے سر ٹکرا رہے ہیں اور ضیاء الحق کے دور کی باتوں، قوانین، طرز حکومت سے ٹکرا ٹکرا کر نہ صرف اپنے سر پاش پاش کر رہے ہیں بلکہ اپنے سر ہی گنوا رہے ہیں، ایک ایسا ہی سر گزشتہ دنوں بھی پاش پاش ہو گیا جس کا کہنا تھا کہ میں نے اس دور میں بہت ماریں کھائی تھیں۔ شاہی قلعہ کی جیل میں بند رہا… برسوں زندان کے پیچھے گزار دیئے اور اب گورنر ہائوس پہنچا ہوں تو ویسے نہیں بلکہ قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ اب میں یہاں اگلی مرتبہ بھی گورنر رہوں گا۔ پنجاب کو پیپلزپارٹی کا قلعہ بنائوں گا، گورنر ہائوس دفتر ہو گا، لاہور لاڑکانہ ہو گا، قوانین بدلیں گے، تبدیلی آئے گی… ڈکٹیٹر کا دور اب دوبارہ نہیں آ سکے گا۔ ضیاء الحق کے کالے قوانین ختم ہوںگے… اور نجانے کیا کیا… لیکن یہ کیا ہوا…؟ کہ نام کے ساتھ ٹکراتے ٹکراتے خود ٹکر کھا گئے اور فنا ہو گئے لیکن ضیاء الحق وہیں کھڑا ہے… اس کے بنائے قوانین بھی ویسے کے ویسے ہیں… اور جو انہیں ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے خود ختم ہو جاتا ہے۔
    یہ 16 ستمبر 1978ء کی بات ہے کہ ضیاء الحق نے ملک کی عنان حکومت سنبھالی تھی اور حالت یہ تھی کہ لوگوں کی جائیدادیں، سکول اور فیکٹریاں چھینی جا رہی تھیں۔ عوام کی ہر چیز کو قومی تحویل میں لیا جا رہا تھا۔ سوشلزم کو نظام حکومت کہا جا رہا تھا اور جنگ کے زمانے میں جس طرح لوگوں کو راشن ڈپو سے محدود پیمانے پر اشیائے خورو نوش دی جاتی ہیں ویسے ہی پاکستان کے لوگوں کو عام حالات میں دی جا رہی تھیں اور لوگ دن رات قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی دن رات کی خون پسینے کی کمائی سے نان جویں خریدتے اور پیٹ پالتے تھے۔ حالت یہ تھی کہ چینی 7 روپے کلو ملتی تھی (آج کے دور سے تقابل کریں تو شاید 700 روپے کلو نکلے) اور وہ بھی راشن کارڈ پر راشن ڈپو کے ذریعے سے اور وہ بھی حکومت کے من پسند چہیتوں کے ہاتھوں اور حال یہ تھا کہ راشن کارڈ پر درج چینی تو 7 روپے پر ملے گی لیکن اگر کوئی اضافی چینی خریدنا چاہے تو وہ 15 روپے کلو ادا کر کے جتنی چاہے خرید سکتا تھا۔ ڈپوئوں کا سارا نظام ان چہیتوں کے پاس تھا جن کے ذریعے سے عوام کو ہانکا جا رہا تھا۔ اگلا پروگرام بھی بتا دیا گیا تھا کہ اب سوشلزم آئے گا تو سب کچھ قومی ملکیت ہو گا اور لوگ کام کریں گے اور سرکار کے پاس سے کھائیں گے اپنا ذاتی کام کاج، ملکیت، جائیداد کسی کی نہیں ہو گی ابھی اس سب کی تیاری تھی کہ اس دوران میں ایک سیلاب آیا اور سارا کچھ بہا لے گیا لیکن سرحدوں پر صورت حال یہ تھی کہ دوسری طرف سے ایک اور سرخ سیلاب پاکستان کی طرف افغانستان کے راستے سوویت یونین کی شکل میں بڑھ رہا تھا جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ سرخ سیلاب جس طرف جاتا ہے سب کچھ سرخ کر جاتا ہے اس کے سامنے کوئی کھڑے نہیں ہو سکتا۔ پھر یہ چھوٹا سیلاب بڑے سیلاب کی طرف بڑھا اور اسے کسی اژدھے کی طرح نگل گیا… پاکستان میں عوام کو آزادی ملی، مہنگائی کا خاتمہ ہوا، حکومت میں استحکام پیدا ہوا، ملک محفوظ و مامون ہوا… اس کے ساتھ ساتھ اس ملک کو اس اسلام سے عملاً متعارف کروانے کا سلسلہ شروع ہوا جس کے لئے یہ ملک بنا تھا، فحاشی کے سیلاب کو لگام دی گئی جو گزشتہ چند سالوں میں اس قدر عروج پر پہنچا تھا کہ وہ منظر آج بھی دیکھنے کو نہیں ملتے۔ نماز ہر جگہ اور ہر محکمے میں لازم ہو گئی۔ شرعی قوانین کے قیام کے لئے عملاً کوششیں ہوئیں اور آئین پاکستان میں ایسے قوانین شامل ہوئے کہ جو پاکستان کے دشمنوں کے سینے میں تیر کی مانند اتر گئے۔ وہی جو اپنی مجبوری سے ضیاء الحق کے ساتھی بنے پھرتے تھے یک دم اس کے دشمن ہوئے اور اپنے سفیر کی بھی پروا کئے بغیر اگلا وار کر کے ضیاء الحق کو ٹھکانے لگانے کے لئے اڑھائی درجن مزید لوگوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ بظاہر ضیاء الحق جہاز اور اپنے سارے رفقاء سمیت دنیا سے مٹ گیا لیکن… وہ مٹایا نہ جا سکا۔ 23 برس سے زائد گزرے… ضیاء الحق کا نام اسی طرح ان سب کا پیچھا کر رہا ہے جس طرح اس وقت تھا۔ ضیاء الحق کے ہی ادارے یعنی پاک فوج سے تعلق رکھنے والے اس کے ایک پیش رو پرویز مشرف نامی شخص نے بھی اسے مٹانے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا تھا۔ اسے اپنے آقائوں کی طرف سے اشارہ ملا کہ حدود آرڈیننس ختم کرو… پھر آناً فاناً اس کے خلاف طوفان کھڑا ہوا… یورپ اور امریکہ سے پیسے کے انبار آئے اور پھر پاکستانی اسمبلی نے اس کے خلاف تحفظ حقوق نسواں ایکٹ تھا پاس کر لیا، اس کے خلاف ہر طبقہ اور ہر جگہ سے بہت شور و غوغا ہوا… کہ یہ غیر اسلامی ہے شریعت کے منافی ہے لیکن یہ سب کچھ نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوا لیکن جب 2010ء رخصت ہو رہا تھا جاتے جاتے اس حقوق نسواں ایکٹ کو بھی ساتھ بہا لے گیا جب وفاقی شرعی عدالت نے یہ کہہ دیا کہ اس بل کی کئی شقیں شریعت کے متصادم ہیں جنہیں کالعدم کہا جاتا ہے اور حدود کی سزائوں کو بحال کیا جاتا ہے… جنہوں نے برسوں سر پھٹول کی تھی، ساری دنیا کو جھوٹا کہا تھا… سب کچھ مسترد کر دیا تھا ان کا سب کیا دھرا ایک لفظ سے واپس ہو گیا۔
    اور اب یہی کچھ توہین رسالت ایکٹ ختم کرنے کی باتیں کرنے والوں کے ساتھ ہو رہا ہے، کہتے ہیں کہ یہ انسان کا بنایا قانون ہے یہ ضیاء الحق کا بنایا قانون ہے… کیا اس سے پہلے یہاں مسلمان نہیں تھے، باقی دنیا کیا مسلمان نہیں۔ اس کی ضرورت ہی کیا ہے…؟ اسے ختم کرو… نام غلط استعمال کا ہے… لیکن نیت دوسری… اگر مسئلہ غلط استعمال کا ہے تو جہاں غلط استعمال ہوا اس کا پیچھا کر کے اسے کبھی درست کر کے بھی دکھا دو، یہ نہیں کرنا کیونکہ یہ تو مقصد ہی نہیں تھا اور نہ ہے۔
    مقصد تو ان کے مشن کی تکمیل ہے جنہیں ان قوانین کے خاتمے کے لئے دن رات ایک کرنا پڑ رہا ہے۔ بھلا کوئی سوچے کہ ایک عام اور دیہاتی خاتون آسیہ کے لئے پوپ بینی ڈکٹ کیوں بیان پر بیان دیئے جا رہا ہے انہیں تکلیف کس بات کی ہے۔ یہی کہ اسلام نظر نہ آئے، اگر مسئلہ عیسائیت کا ہو تو یہ بھارت میں عیسائیوں کے قتل عام پر بھی کبھی معمولی سی حرکت یا جنبش کریں اور ہاں… ضیاء الحق کے نام کے ساتھ ٹکریں مار مار کر اپنے سر پھوڑنے اور خود کو موت سے ہمکنار کرنے والوں سے ہم کہتے ہیں کہ اب باز آ جائو کیونکہ ضیاء الحق کا نام اور تصور لے کر تم جس سے ٹکریں مارتے ہو وہ ضیاء الحق نہیں بلکہ اسلام ہے جسے تم پھونکے مار مار کر بجھانے کی کوشش کرتے ہو اور یہ شمع بجھنے کے بجائے تمہارے چہرے جھلسا رہی ہے۔ ضیاء الحق نے جو کہا وہ اس کا اپنا نہیں تھا اس لئے وہ مٹ نہیں سکا بلکہ مٹانے کی کوشش کرنے والے مٹ رہے ہیں۔ اس لئے اب بھی وقت ہے ضیاء الحق کو مٹانے کے نام پر خود کو مٹانے کا سلسلہ روک دو۔

    بشکریہ،،،،ہفت روزہ جرار
     

اس صفحے کو مشتہر کریں