1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ضرورت وقت

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از عنایت عادل, ‏24 جولائی 2013۔

  1. عنایت عادل
    آف لائن

    عنایت عادل ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اپریل 2013
    پیغامات:
    121
    موصول پسندیدگیاں:
    114
    ملک کا جھنڈا:
    وقت کم ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بالحق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عنایت عادل
    بہت کچھ دیکھنے کو، سننے کو مل رہا ہے۔ حال ہی میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومتوں ، جی ہاں چار صوبوں پر مشتمل اس ملک میں اب ایک نہیں، چار چار حکومتوں کا ذکر کرنا پڑتا ہے، اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے سے زیادہ، ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے کے لئے تیار ہو چکی ہیں۔سند ھ اور پنجاب میں کم و بیش انہی چہروں پر مشتمل کابینائیں سامنے آئی ہیں کہ جو نا صرف گزشتہ پانچ سال ، بلکہ اس سے قبل مشرف حکومت میں بھی انہی مسندوں پر جلوہ افروز رہی ہیں کہ جن پر انہیں اس بار بٹھا دیا گیا ہے۔سندھ کی اگر بات کی جائے تو وہاں عمران خان کی تحریک انصاف کے کمزور ہوم ورک، اور میاں صاحب کی نون لیگ کی بھرپور کوششوں کے باوجود، چھوٹے صوبہ، بڑے صوبہ کی ایک ہی ملک میں پائی جانے والی تفریق نے سندھی بھائیوں کو اسی جماعت سے ہی امیدیں باندھے رکھنے پر مجبور کئے رکھا کہ جس کے خلاف سیاسی جدوجہد کے دوران ، اور تو اور ان جماعتوں کی جانب سے بھی تبدیلی کا ہاٹ کیک لفظ استعمال کیا جاتا رہا کہ جو کسی نہ کسی طور گزشتہ حکومت کا حصہ رہیں۔تبدیلی کے لفظ کا اس قدر مقبول ہونا اس بات کی واضح دلیل تھی کہ عوام ، پیپلز پارٹی(اور اسکی حلیف جماعتوں) کی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے۔البتہ گزشتہ حکومت کو ایک کریڈٹ بہرحال دینا پڑے گا کہ اس نے ''مفاہمت'' کی پالیسی کا نعرہ لگاتے ہوئے ملک کی عوام کونہ سہی، سیاسی جماعتوں کو ایک ہی دھارے میں پروئے رکھنے کی ایک'' کامیاب'' کوشش ضرور کی۔ یہ اور بات کہ اسکی اس کوشش میں جمہوریت کا حسن اور جمہوریت کی ضرورت کہلائی جانے والی حزب اختلاف کا وجود پانچ سالہ دور کے آخر میں ہی نظر آیااور پارلیمنٹ میں موجود مختلف الخیال اور مختلف نظریوں کی حامل جماعتیں ایک ہی لڑی میں پروئی نظر آئیں۔''زرداری'' کہلائی جانے والی اس لڑی میں پروئی جانے والی ان جماعتوں اور ان جماعتوں میں شامل شخصیات کو کس قدر ''نوازا'' گیا، اسکی دلیل کے طور پر صرف یہی ایک فقرہ ہی کافی ہے کہ پانچ سالہ جمہوری دور میں ہمیں کوئی حزب اختلاف کا وجود نظر نہ آیا، جسکی بدولت پانچ سالہ''حکومتی'' بے لگامی کی انتہا دیکھنے کو ملی۔ پنجاب میں راجہ ریاض اور رانا ثناء اللہ کی جانب سے ایک دوسرے کو سہارا دینے کے احسان جتانے پر مشتمل بیانات کا تواتر بھی اسی قسم کی دلیل کے زمرے میں لایا جا سکتا ہے۔سندھ میں لیاری ، کٹی پہاڑی اور ناظم آباد میں اٹھتے لاشے بھی ''مفاہمتی'' عمل کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے اور جہاں شاہی سید کراچی پر'' بادشاہت ''میں اپناحق جتاتے دکھائی دئے وہیں اس صوبے کی وزارت اعلیٰ پیپلز پارٹی کی'' قائم'' رہی جبکہ گورنری کا'' عشرت کدہ ''متحدہ کے ہاتھوں میں رہا۔ یوں بہم دست و گریباں یہ تینوں قوتیں کم از کم اس جمہوری سوچ کو تقویت دیتی ضرور دکھائی دیں کہ ''اختلافات '' کے باوجود جمہوری عمل کو جاری رہنا چاہئے۔ اس سوچ کی قیمت کراچی کے شہریوں نے کیا اداکی اور ہنوز ادا کی جا رہی ہے، یہ ایک الگ بحث ہے جو کہ کسی جمہوری سورما کی جانب سے جمہوریت کے خلاف سازش کے الزام کا سامنا بھی کر سکتی ہے۔خیبر پختونخواہ کا لالٹین تیر کا ہمرکاب ہو کر پانچ سال تک ملک کے اندھیروں کو کم کرنے کی جستجو کرتا دکھائی دیا (یہ اور بات کہ کالا باغ ڈیم کی مخالفت بھی صوبے میں دیگر ڈیموں کی تعمیر پر انہیں مجبور نہ کر سکی)تو جمہوریت کی اعلیٰ ترین کامیابی بلوچستان میں نظر آئی کہ جہاں کیا مذہبی، کیا سیکولر اور کیا قوم پرست، سب ہی وزارتوں سے نواز دئے گئے۔قوم (یا قوم کے قائدین) ابھی مذید بھی ملک کو جمہوری لحاظ سے سے ''مضبوط '' کرنے کے خواہاں تھے، لیکن کیا کیجئے کہ آئین آڑے آ گیا اور راجہ صاحب پانچ سال پورے کرنے کو اپنا کارنامہ قرار دیتے ہوئے وزارت عظمیٰ سے محروم ہو بیٹھے۔گیارہ مئی کا دن جس جوش اور جزبے کی تصویر بن کر آیا، اس دن کی ڈھلتی شام البتہ کچھ اور ہی منظر دے گئی۔ اگلی صبح سامنے آنے والے انتخابی نتائج جہاں ''دھاندلی دھاندلی'' کی کبڈی میچ کا میدان بنا گئے وہیں قوم کو یاد دلا دیا گیا کہ یہ ایک ملک ضرور ہے لیکن صوبے اس میں'' چار ''ہیں۔اور اسی یاددہانی کے طور پر چاروں صوبوں میں مختلف جماعتوں کی حکومتیں سامنے آئیں تا کہ ہر ایک صوبے کا تشخص واضح ہو سکے۔
    اب اس تاریخ ساز عمل کو دو ماہ مکمل ہونے نوے دن ہونے کو ہیں(نوے دن کا ذکر یہاں ایک خاص تناظر میں کیا جا رہا ہے)۔ملک میں مسائل کے انبار میں سے تین مسائل چوٹی کے مسئلے ہونے کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں۔ دہشت گردی (جس میں ڈرون حملے بھی شامل ہیں)،توانائی کا بحران اور ہوشربا مہنگائی ایسے مسائل ہیں کہ جنہوں نے عوام کو ذہنی مریض بنانے تک کی کامیابی حاصل کر لی ہے۔ لیکن انہی مسائل نے ، مختلف صوبوں میں قائم مختلف جماعتوں کی مختلف حکومتوں کو ایک دوسرے خلاف انگلیاں اٹھانے اور انگلیاں اٹھاتے ہوئے اپنی سیاسی ریٹنگ بڑھانے کا سامان بھی پیدا کر دیا ہے۔یہ صورتحال عوام کے لئے کیا نتائج سامنے لا سکتی ہے، یہ ایک نہایت دلچسپ تصویر کشی کرتی دکھائی دے رہی ہے۔اگر تو یہ مختلف حکومتیں، صحتمند مقابلے Competition) (Healthy کا ادراک کرتے ہوئے کارکردگی کے لحاظ سے ایک دوسرے پر فوقیت حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہو گئیں تو ضمانت دی جا سکتی ہے کہ ملک کے چاروں صوبوں ، اور اس نتیجے میں پورا ملک ترقی اور خوشحالی کی اس راہ پر گامزن ہو سکتا ہے کہ جس کی اہلیت اس ملک کے وسائل کے بل بوتے پر ہمیشہ سے اس قوم میں رہی ہے، اور جسکا خواب ہر محب وطن شہری کئی دہائیوں سے دیکھ رہا ہے، لیکن اگر مختلف صوبوں میں قائم ہونے والی حکومتوں نے اپنی تمام تر توانائیاں محض ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے پر ہی صرف کر دیں تو عوام کی وہ چیخیں نکلنی ہیں کہ جنکو اب تک وہ حب الوطنی میں لپٹی اپنی مجبوری کے ساتھ سینے میں دبائے بیٹھے ہیں۔پہلی صورت کو ممکن اور دوسری بدحالی سے کیسے بچا جا سکتا ہے اس کے لئے مختلف سیاسی جماعتوں کے عام کارکنان اور حامی عوام کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔اندھی تقلید اور ذاتی مفاد پرستی کا لبادہ ایک طرف پھینکتے ہوئے اپنے سیاسی قائدین اور جماعتوں کے منفی اقدامات پرپردہ ڈالنے اور مخالف جماعتوں کے مثبت اقدامات کو بھی سیاسی شک کی نگاہ سے دیکھنے اور بے جا تنقید کے روئیوں سے جان چھڑانا ہو گی۔اپنے ہی حامیوں کی جانب سے تنقید جہاں سیاسی قائدین کو بہتر کارکردگی پر مجبور کر سکتی ہے وہیں مخالفین کی جانب سے کی جانے والی کسی مثبت اقدام پر حوصلہ افزائی ، کسی سیاسی شخصیت، یا سیاسی جماعت کو مذید مثبت اقدام اٹھانے کا جزبہ فراہم کر سکتی ہے۔
     
    نذر حافی نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں