1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

صغرا ہمایوں مرزا

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏21 دسمبر 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    دنیائے ادب میں صغرا ہمایوں مرزا کا تعارف مختلف حیثیتو ں سے ہوتا ہے۔ ادیبہ شاعرہ ،مدیرہ ، اور سماجی خدمت گذار کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دہیں۔

    حیدرآباد کی پہلی مسلم خاتون جنھوں نے اپنی تصانیف اور کارناموں کے ذریعہ حیدرآباد و بیرون حیدرآباد شہرت حاصل کی ۔

    صغرا ہمایوں مرزا کے والد ڈاکٹر صفدر علی مرزا سرجن افواج تھے۔ صغرا ہمایوں مرزا ۱۸۸۴ء؁ میں حیدرآباد میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے خانگی طورپراردواورفارسی کی تعلیم حاصل کی کیونکہ اس زمانے میں اسکول نہیں تھے۔ اسکی شادی ۱۹۰۱ء ؁ میں ہمایوں مرزا صاحب پٹنہ کے بسیرسٹر سے ہوئی۔ شادی کے بعد ہمایوں مرزا نے حیدرآباد ہی میں سکونت اختیار کی۔

    صغرا ہمایوں مرزا نے لڑکیوں کی فلاح و بہبود کے خیال سے ایک مدرسۂ صفدریہ قائم کیا۔ جس کے لئے انہوں نے اپنی جائیداد کا ایک حصہ دے دیا۔ اس مدرسہ میں آج بھی تعلیم کے ساتھ مختلف کور سس سکھائے جاتے ہیں۔

    صغرا ہمایوں مرزا نے نہ صرف فلاحی کام انجام دیئے بلکہ اپنے قلم کے ذریعہ اصلاح کی کوشش بھی کی ہے۔

    (۳) ایک ایسے دور میں جبکہ تعلیم یافتہ خواتین کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی اور ماحول قدامت پسندانہ تھا۔ انہوں نے پردے کی قیود کوتوڑکرجلسہ عام میں تقاریر کیں۔ اسطرح خواتین کو نئی راہ دکھائی۔ )

    صغرا ہمایوں مرزا کی طبیعت نثرنگاری کی طرف زیادہ مسائل تھی اسلئے زیادہ تر نثر ہی میں لکھا۔ مگر وہ اچھی شاعرہ بھی تھیں۔ صبا تخلص کرتی تھیں۔ انھیں استادجلیل سے تلمذ تھا۔ ان کی ادارت میں کئی رسالے نکالے۔ زیادہ تر صغرا ہمایوں مرزا نے خواتین کی ترقی اور اصلاح کے مسائل سے خاص دلچسپی لی۔ متعدد ناول اور افسانے لکھے اور اصلاحی کتابیں بھی لکھیں۔ طرز تحریرسادہ ، رواں اور شگفتہ ہے تاکہ پڑھنے والد دلچسپی کے ساتھ ساتھ کچھ سبق بھی حاصل کر سکے۔ کثیر تعداد میں مضامین ،قصے ، افسانے اور مرثیے لکھے۔ ان کی تصانیف تقریباً پندرہ رہیں جوحسب ذیل ہیں :

    (۱) سرگزشت ہاجرہ (اصلاحی ناول )

    (۲) شیرنسواں (معاشرتی ناول )

    (۳) موہنی (معاشرتی ناول )

    (۴) بی بی طوری کا خواب (قصہ یا حکایت )

    ( ۵) مقالات صغرا ء (تقاریر کا مجموعہ )

    (۶) تحریر انساء (عورتوں کو خط و کتابت سکھا نے کی کتاب )

    ( ۷) سفینہ ء نجات (نوحوں اور مرثیوں کا مجموعہ )

    (۸) سفرنامہ عراق

    (۱۰) ء پونہ

    ( ۱۱) سیربہاروبنگال

    (۱۲) سیاحت جنوبی ہند

    (۱۳) مجموعہ نصائح

    (۱۵) آواز غیب

    اس کے علاوہ انہوں کے حضرت فاطمہ کی سواغ عمری بھی تحریر کی ہے۔

    سرگزست ہاجرہ ، مشیرنسواں ، بی بی طوری کا خواب نصائح حصہ اول اور موہنی کو بہت زیادہ شہرت حاصل ہوئی سرگذشت ہاجرہ داستانی طرز کا ایک ناول ہے۔ جس میں چار سہیلیاں ایک جگہ جمع ہو کر اپنی آپ بیتی سناتی ہیں جس کے مطالعہ سے لڑکیوں کو اخلاقی درس حاصل ہوتا ہے سرگذشت ہاجرہ میں صغرا ء ہمایوں مرزا مغربی تہذیب کی اچھائیوں کو مشرقی قدروں کے ساتھ اپنانے کی ترغیب دیتی ہیں ساراکی سرگذشت کا ایک اقتباس ڈاکٹر کی زبانی ملاحظہ فرمائیے

    ’’دنیا کا منہ کوئی بندہ نہیں کر سکتا آپ جوان ہیں میرے گھر میں آج کل میری بی بی نہیں ہے وہ اپنے میسورگئی ہے ایسی حالت میں آپ کا میرے گھر میں تنہا رہنا بد نمائی ہے گو کہ میں آپ کو مثل اپنی لڑکی کے سمجھتا ہوں دنیا بری جگہ ہے۔ اسی لئے حضرت رسول خدا نے حضرت عائشہ سے فرمایا تھا۔ ’’اے عائشہ تم اپنے باپ سے بھی جب بات کروتو تنہائی میں نہ کرو کسی کو ساتھ رکھو شیطان ساتھ ہے اس سے ڈرو۔ ‘‘

    جناب بشیر الدین احمد نے تو بیگم صغرا ہمایوں مرزا کو حیدرآباد فرخندہ بنیاد کی روح رواں کیا تھا وہ قوم وہ ملک کی اصلاح کی خاطرایسی تصویر دکھا یا کرتی تھیں جس سے قوم اور اپنے آپ کوسدھارسکے۔ بیگم صاحب کے بیان کی اثر آفرینی ملاحظہ ہوسارا کی سرگزشت میں لکھتی ہیں

    ’’آپ یہ خیال نہ کیجئے کہ آپ کا رہنا میرے لئے دوبھر ہے۔ آپ کی وجہ سے میرے اخراجات میں اضافہ ہو گیا ہے جو مجھے گراں گذر رہا ہے نہیں ہرگز نہیں جو کچھ کہہ رہا ہوں یقین جانیئے آپ کی بھلائی کے لئے۔ دنیا میں آپ مجرد زندگی کب تک بسرکریں گی عورت کے لئے شوہر ایک نعمت ہے اور مرد کے لئے نیک بی بی کا ملنا جنت ہے ‘‘۔

    مشیرنسواں ایک معاشرتی ناول ہے۔ اس میں اخلاقی اصلاح اور مقصدیت کارفرما ہے۔ مقصد کو واضح شکل دے کر اخلاقی اصلاح کا اہم کام لیا۔ انہوں نے کہا :

    ’’کسی قوم کے رسم و رواج کی آنکھیں بند کر کے تقلید کرنی فضول ہے۔ البتہ اس کے ہنرسکھینے چاہئیں۔ ‘‘

    بیگم صغرا ہمایوں مرز اکا ’’موہنی ‘‘ بھی ایک رسوم پر قصے کے پیرائے میں روشنی ڈالی گئی ہے۔

    ’’بی بی طوری کا خواب ‘‘ قصہ یا حکایت کہاجاسکتا یہ پندرہ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں اصلاحی پہلو نمایاں طور پر عیاں ہے۔

    ’’بی بی طوری اپنے سائیں سے اپنا خواب بیان کرتی ہے۔ کسی پہاڑ پر دھواں اور کسی کے چیخنے کی آوازیں سن کروہ وہاں جاتی ہے وہاں ایک چڑیا انسانوں کی مانند گفتگو کر سکتی ہے ایک شکاری کی قیدسے رہائی مختلف اشخاص کے پاس لے جاتی ہے اور بی بی طوری ان سب کی مدد کرتی ہے جو کسی نہ کسی مصیبت میں مبتلا ہیں بی بی طوری کی ساس اس خواب کی ی تعبیر بتاتی ہیں کہ تمہارے ہاتھوں مصیبت زدہ اشخاص کا بھلا ہو گا۔

    صغرا ہمایوں مرزا اس طرح سے اس قصہ کے ذریعہ مصیبت زدہ ، اشخاص کی مدد کرنے کا خواتین کودرس دیتی ہیں۔

    بیگم صغرا ہمایوں مرزا کی تحریروں میں ناول اور کہانی کی ملی جلی تکنیک ملتی ہے۔ جب ۱۹۱۷ء ؁ میں جامعہ عثمانیہ کا قیام عمل میں آیا اس وقت ان کی تخلیقات کا فی مقبول ہو رہی تھیں۔ عوام اور خواص دونوں طبقوں میں دلچسپی سے پڑھی جا رہی تھیں ان کی تحریروں میں۔ اس عہد کے گہرے نقوش نظر آتے ہیں جس سے اس عہد کی روایات کوسمجھنے میں آسانی ہوئی ہے۔ خواجہ حسن نظامی ،بیگم صاحبہ کے فن کے بارے میں لکھتے ہیں :

    ’’حکایات عموماً معتبر اور تاریخی ہیں۔ جس کے اندر ایک خاص مقصد یہ تھا کہ وہ طبقہ نسواں کو دنیا کی نشیب و فراز کو بتانے کی کوشش کی ہے تاکہ ملک اور قوم کی بیگم صغرا ہمایوں مرزا کا ۱۹۵۹ء؁ میں انتقال ہوا۔ مجموعی اعتبار سے ان کی تخلیقات مذہبی اور اصلاحی ہونے کی وجہ سے پر اثر اور ناقابل فراموش ہیں۔

    ٭٭٭
     

اس صفحے کو مشتہر کریں