1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

صرف 3 جملے روزانہ لکھئے.. ۔۔۔ علی رضا احمد

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏7 فروری 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    صرف 3 جملے روزانہ لکھئے.. ۔۔۔ علی رضا احمد

    پھر دیکھیے کہ زندگی میں کیا تبدیلی آئی ہے

    دور طالب علمی میں دوسروں کے غمناک قصے مجھے بھی آبدیدہ کر دیا کرتے تھے۔ کوئی تعلیم یافتہ نوجوان اپنی بے روزگاری کا رونا روتا ، '' مجھے دیکھو! ڈگری کس کام کی ،اتنا لکھنے پڑھنے کے بعد بھی جھک ہی ماری ہے‘‘ ۔ایک اور دوست کہتا ، ''مسٹر کتابی کیڑے! دن رات پڑھ کر کون سا تیر مار لو گے یہاں سفارش کے بغیر سب بے کار ہے‘‘ ۔ چند منٹ چائے پینے میں لگاتے اورتشویش کی لہریں دوڑا کر اپنا راستہ ناپ لیتے۔
    مجھے شروع ہی سے لکھنے پڑھنے کا شوق تھا منیر نیازی میرے والد کے دوستوں میں شامل تھے ، ہم ان کے ساتھ کیرم بورڈ بھی کھیلا کرتے تھے، میں ان کی گلیوں میںمارا مارا پھرنے سے کچھ کچھ شاعر بھی بن گیا تھا ، اسی لئے میں ایک بات ہمیشہ محسوس کیا کرتا تھا۔ وہ یہ کہ میں جب بھی لکھنے یاپڑھنے بیٹھتا تو نئی امنگ پیدا ہو جاتی ، یوں لگتا کہ میں بالکل نیا انسان ہوں ،مایوس اور ہمت ہارنے والا نہیں بلکہ اندھیروں میں بھی روشنی کی کرنیں ڈھونڈ نکالنے والا فرد۔یہ علم کی وہ طاقت ہے جسکا اساتذہ اکثر تذکرہ کیاکرتے ہیں۔ہر کتاب پڑھنے کے بعد یوں لگتا کہ اندر کوئی انسان سویا ہوا تھا جو قدرے جاگ گیا ہے۔ یہی چیز مجھے موٹیویشنل بکس کی جانب کھینچ لائی ۔ میں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ایک کتاب کسی فرد کو اندر سے کتنا بدل سکتی ہے؟۔تب یہ راز کھلا کہ ''ہر لفظ فرد کے اندر کچھ نہ کچھ نیا پن پیدا کرتا ہے اور اگر کوئی یہ جاننا چاہتا ہے کہ وہ کتابوں اور علم کے ذریعے خود میں کتنا بدلائو لا سکتا ہے تو سب سے پہلے کتاب یا مضمون کو کسی مقررہ وقت پر پڑھنے کی بجائے وقت بدل بدل کر پڑھ کر دیکھیے‘‘۔ ماہرین نے بتایا کہ ''ہر فرد مختلف ہے،اس کی تخلیقی یا کسی بات کو سمجھنے کی صلاحیت کس وقت عروج پر ہو گی ؟یہ جاننا بھی ضروری ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی کو صبح کا وقت زیادہ سوٹ کرتا ہو اورکسی کا شام کا وقت‘‘۔ لیکن یہ ساری باتیں اسی وقت سمجھ میںآ سکتی ہیں جب کوئی ورق گردانی کا وقت بھی بدلتا رہے۔ ایک ماہر نفسیات نے لکھا کہ '' مجھے شام کے کھانے کے بعد پڑھنا اچھا لگتا ہے، میں مصنف کو بہتر طور پر سمجھ بھی پاتا ہوں اور یاد بھی رکھ سکتا ہوں لیکن یہی کتا ب اگر میںسورج کی پھیلتی کرنوں کے ساتھ پڑھوں تو شائد جلد ہی بھول جائوں‘‘۔
    ایک اور ماہر نے لکھا ''میری ٹمی فل ہو تو مجھے کتاب سے دل لگانا اچھا لگتا ہے ورنہ نہیں‘‘۔ایک نے لکھا کہ '' صبح صبح کتاب پڑھنے کے بعد دن کا آغاز نہایت ہی اچھا ہوتا ہے دن بھر ہشاش بشاش رہتا ہوں۔ یوں لگتا ہے جیسے کسی نے نئی امنگ بھر دی ہو ‘‘۔اس لئے آپ بھی سب سے پہلے اپنے بہترین وقت کا راز جانئے،اور پھر اس وقت کو کسی بھی تبدیلی کے بغیر مستقل مخصوص کر لیجئے۔اگر آپ کامیاب رہنا چاہتے ہیں تو ٹائم ٹیبل بنا لینا زیادہ مفید رہے گا۔روزانہ نہیں تو ہفتے بھر کی مصروفیات کا ٹائم ٹیبل ضرور آپ کی نظروں کے سامنے رہنا چاہیے۔ کسی کتاب کے پیچھے ہی نہ پڑ جائیں کچھ وقت کے لئے اس کی جان چھوڑ بھی دیں۔ دماغ کی تازگی کیلئے ایسا کرنا لازمی ہے۔ 30منٹ پڑھائی، 5منٹ کا وقفہ مناسب رہے گا۔اب ہم آتے ہیں اصل موضوع کی جانب۔ اتنا کچھ پڑھنے کے بعد لکھنے کا تجربہ کیسا رہے گا؟
    یہ بہترین تجربہ ہو سکتا ہے اس سے تخلیقی صلاحیتوں اور کام کی رفتا ر کوجلا ملے گی،کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ محض 3 سطریں روزانہ لکھ کر خود کو کتنا بدل سکتا ہے۔ ہمارے پاس ضرورت سے زیادہ وقت ہوتا ہے، دن بھر میں کئی گھنٹے آسانی سے ضائع کر دیتے ہیں۔ یہ وقت استعمال کیجئے۔ 3 جملے لکھتے رہیں، اپنی ناکامی کے نہیں،صرف کامیابی کے ۔یہ مت سوچئے کہ دن بہت مشکل سے گزرا، کیا کروں، پھنس گیا ہوں، فلاں غلط فیصلے نے کہیں کا نہیں چھوڑا،یہ اور ایسے دوسرے جملوں سے گریز کیجئے، لکھنا تو دور کی بات ہے۔ ناکامی، مایوسی، آج نہیں،کل پرسوں، اگلے ہفتے ......ایسے تمام الفاظ کوحرف غلط کی طرح مٹا دیجئے،ان کا آپ کی زندگی کی کوئی کام نہیں۔جس مقصد کو پانا چاہتے ہیں اس تک پہنچنے کا راستہ روزانہ 3 سطریں لکھ کر تلاش کیجئے، مل جائے گا۔وہ 3 سطریں یہ بھی ہو سکتی ہیں،
    پہلا جملہ :میں فلاں کام پر فوکس کروں گا!
    جب میں نے تعلیم پر فوکس کرتے ہوئے یہ جملہ متواترلکھا تو مجھے لگا کہ ماسٹر ڈگری کا حصول ذرا مشکل نہیں ۔
    دوسرا جملہ:میں شکر گزار ہوں.....اس سے ہمیں اپنے اندر بلا وجہ پیدا ہونے والے وسوسوں پر قابو پانے میں مد دملتی ہے۔ مجھے ایک دوست نے بتایا کہ ''اپنا سب سے بڑا دشمن میںخود ہوں، جیسے ہی میں کوئی کام شروع کرتا ہوں تو اندر سے آواز آتی ہے،''میں یہ کام نہیں کر سکتا ،میں ہار جائوں گا‘‘ ، وغیرہ وغیرہ۔خود سے دشمنی چھوڑیئے، اور اعتماد بحال کرتے ہوئے آگے بڑھیے۔جس طرح جم جانے سے پٹھے مضبوط ہوتے ہیں اس طرح ایسی باتیں سوچنے سے دماغ کوبہتر توانائی ملتی ہے۔
    تیسرا جملہ :یہ باتیں تو میں بھول چکا ہوں:
    آپ خود پر رحم کھایئے ، اپنی کوتاہیوں کو نظر انداز کرنا سیکھیے، کچھ لوگ اپنی ناکامیوںپر خود کو دیر تک کوستے رہتے ہیں ،یہ اچھی عادت نہیں۔ یہ جملہ لکھنے سے اپنے بارے میں رائے بہتر ہو گی۔ اپنی کوتاہیوں کو نظر انداز کرنے والوں کو زیادہ تیزی سے منزل کو پاتے دیکھا گیا ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں