1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

صدر کی انگڑائی

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از آصف احمد بھٹی, ‏4 جون 2013۔

  1. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    کالم نگار - اسد اللہ غالب
    الیکشن کے بعد صدر زرداری کا کردار بہت محدود ہو گیا تھا اور انہیں چپ لگ گئی تھی، لیکن ان کی غیر سرکاری میڈیا ٹیم کے سربراہ اکرم شہیدی یا کسی اور دانا نے راستہ نکال لیا اور پانچ اینکرز ان کے سامنے بٹھا دئے گئے، یہ فارمیٹ ایک بریفنگ کا تو ہو سکتا ہے مگر کسی انٹرویو کا نہیں ،مگر یہ انٹرویو ہی تھا اور مجھے حیرت ہے کہ اس میں ملک کا ایک ممتاز میڈیا ہاﺅس، وقت نیوز، کیوں نظر انداز کیا گیا۔بلکہ جو دیگر چینل ہیں ، ان کے اینکرز بھی صدر کے سامنے کیوں نہ بٹھائے گئے۔ اطلاعات تک رسائی کا حق کیوں محدود کیا گیا۔​
    صدر نے سوائے منہ دکھائی کے کوئی بڑی بات نہیں کی، نہ ان سے کہلوائی جا سکی۔ صدر نے خود احتیاط کی یا سوالات پوچھنے والوں نے فرینڈلی شو کیا۔صدر نے تسلیم کیا ہے کہ نئے مینڈیٹ کے بعد انہیں صدارتی دوڑ میں شامل ہونے کا حق نہیں پہنچتا ، اسی مینڈیٹ کی روشنی میں بعض حلقے ان سے توقع کر رہے تھے کہ وہ اخلاقی جرات کا مظاہرہ کریں۔ محض ٹرم پوری کرنے کی گردان نہ کریں بلکہ اپنی پارٹی کی شکست کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے ایوان صدر کو خالی کر دیں۔ان کی پارٹی کے کئی اہم عہدے داروں نے استعفے دیئے، ان کے گورنر نے استعفی دیا، ویسے بھی اب ایوان صدر میں بیٹھ کر وہ تین ماہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔مستعفی ہو کر وہ نیک نامی کماتے اور مرد حر کے خطاب پر پورا اترتے ، بہر حال ان کے پاس صدارت کے لئے الگ منڈیٹ موجود ہے، چشم ما روشن ، دل ما شاد، وہ بھلے سے تین ماہ اور اس محفوظ ایوان میں گزار لیں۔​
    اس پیش کش کا ہر کوئی خیر مقدم کرے گا کہ صدر صاحب نئی حکومت سے تعاون کریں گے۔میں تو شرح صدر سے سمجھتا ہوں کہ یہ چارٹر آف ڈیمو کریسی کا کرشمہ ہے۔ میاںنواز شریف نے بھی بڑے دل سے کام لیا اور پانچ سال تک صبرو تحمل کا ثبوت دیا۔ صدر صاحب نے کہا ہے کہ صرف میاں صاحب نہیں ، مولانا فضل الرحمن ، اے این پی، ایم کیو ایم ، ق لیگ، سبھی نے آئینی ٹرم کی تکمیل میں معاونت کی۔ میں یہاں ایک تلخ حقیقت کی طرف متوجہ کرنا چاہوں گا۔ پاکستان کی تاریخ میں ایک پارلیمنٹ نے تو اپنی ٹرم پوری کر لی لیکن باسٹھ سال میں کوئی وزیر اعظم اپنی ٹرم پوری نہیں کر سکا۔مشرف نے تین وزیر اعظم بھگتائے اور زرداری صاحب کے دور میں دو وزیر اعظم آئے۔ مشرف نے وزیر اعظم خود بدلے مگر زرداری صاحب کے دور میں عدلیہ کے ذریعے تبدیلی آئی۔لوگوں کو شبہ ہے کہ زرداری صاحب بھی گیلانی کو بدلنے کے خواہاں تھے، وہ پر پرزے نکال رہے تھے اورراجہ صاحب بھی کوئی زیادہ نہیں سنتے تھے۔ آئینی طور پر تو دونوں وزرائے اعظم ان کی سننے کے پابند نہیں تھے مگر پارٹی ڈسپلن اور اخلاقیات کے بھی کچھ تقاضے تھے جنہیں ملحوظ رکھا جاتا تو الیکشن کے نتائج یہ نہ ہوتے جو پیپلز پارٹی کو دیکھنے پڑے۔زرداری صاحب کبھی اکیلے بیٹھیں گے تو انہیں اس نکتے پر ضرور غور کرنا چاہئے کہ صدر بن کر وہ پارٹی کے لئے مفید ثابت ہوئے یا انہیںسونیا گاندھی کی طرح پارٹی کی با گ ڈور تھامنا چاہئے تھی۔یہ بیلنس شیٹ سامنے رکھ کر وہ آئندہ کے کردار کا بہتر تعین کر سکتے ہیں ، ایک باپ کے طور پر انہیں اپنے بچے بے حد عزیز ہیں ، وہ ان کی لیاقت کے معترف ہیں ،مگر پارٹی پالیٹکس، اور اقتدار کی راہداریوں کے کیا تقاضے ہیں، ان سے صرف نظر کرتے ہوئے وہ اپنا اور پارٹی کامستقبل شاید ہی محفوظ بنا سکیں۔تحریک انصاف نے تیزی سے اپنی جگہ بنائی ہے اور ن لیگ نے اگر غلطیاں نہ کیں تو پیپلز پارٹی کو قدم جمانے کی جگہ کہیں نہیںملے گی۔ ملک میں پارٹیا ں تو دو ہی رہیں گی، ن لیگ یا پی پی پی اور ن لیگ یا پی ٹی آئی۔ سہ طرفہ مقابلہ تو اب بھی نہیں ہوا، یہ مقابلہ دو طرفہ تھا۔اور آئندہ بھی یہی رجحان غالب نظر آتا ہے۔​
    جنرل مشرف کی قسمت کا فیصلہ ن لیگ کے ہاتھ میں دینے کی بات کی گئی ہے۔یہ درست ہے کہ صدر اپنے وزیر اعظم کی ایڈوائس کا پابند ہے مگرکچھ پابندیاں جو ہر ایک کو نظر آتی ہیں وہ عالمی ضامنوں کی بھی ہیں۔جنرل ضیا کے دور میں بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر کو جلا وطنی قبول کرنا پڑی،جنرل مشرف کے دور میں میاں نواز شریف کی جاں بخشی کی گئی۔اور زرداری صاحب کے دور میں مشرف کو گارڈ آف آنر دے کر رخصت کیا گیا۔حالانکہ یہی مشرف ایک سال سے آرمی ہاﺅس میں محض ایک بے بس پرندے کی طرح پھڑ پھڑا رہا تھا، میں ان سے ملاقات کے لئے گیا تو ایسی ویرانی پر میرا دل بھی پسیج گیا۔ میںنے ان کے معاون جنرل راشد قریشی سے کہا تھا کہ اگر آپ بیرے کو چائے لانے کو کہیں تو مجھے شک ہے کہ وہ آپ کا حکم نہیں سنے گا، اس پر راشد قریشی نے مجھ سے کہا کہ کیا میں یہ حقیقت مشرف کے ساتھ ملاقات میں بھی واضح کروں گا ، میں نے کہا نہیں ، معاشرے میں روائت ہے کہ دم مرگ، مریض کو دلاساہی دیا جاتاہے اور یہ کہہ کر اس کی قبل از وقت جان نہیں لی جا تی کہ وہ تو بس آخری سانسوں پر ہے۔اس شخص کو پروٹوکول ملا ، کچھ اندرونی مجبوریاں اور زیادہ تر خارجی عوامل کارفرما تھے۔اب مشرف خود پنجرے میں آن پھنسا ہے ۔ اس پر آرٹیکل چھ کے اطلاق کے لئے زور ڈالا جا رہا ہے۔ آرٹیکل چھ اسی آئین کا حصہ ہے جس میں باسٹھ اور تریسٹھ کے آرٹیکل بھی شامل ہیں اور جن پر آئین بننے سے لے کر آج تک عمل نہیں ہوا۔ ایسے نظام میں صرف ایک آرٹیکل پر کون اور کیسے عمل کرائے گا۔ صدر زرداری اور ان کے وزرائے اعظم نے اس امتحان میںہاتھ ہی نہیں ڈالا۔اب وہ ذمے داری دوسروں کی طرف لڑھکا رہے ہیں۔ یہ محض بیت بازی کے مترادف ہے۔​
    ڈرون چیل نہیں ۔ یہ جملہ پاکستان کی قومی غیرت کے منہ پر طمانچہ ہے، قیامت برپا کرنے والی سپرپاور نے بھی اس لہجے میں بات نہیں کی۔زرداری صاحب کو تین ماہ بعد ایوان صدر میں پانچ سال مکمل ہو جائیں گے ، اس عرصے میں انہیں لازمی طور پر خبر ہو گئی ہو گی کہ پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے، مکمل طور پر خود مختار اور اپنے اقتدار اعلی کا دعویدار۔ ڈرون چیل نہیں تو پاکستان بھی مٹی کا بت نہیں کہ جو چاہے ، اسے فائرنگ رینج سمجھ لے اور نشانہ بازی کی آماجگاہ بنا لے۔اگر ہماری قیادت قوم کو حوصلہ نہیں دے سکتی تو اس کی حوصلہ شکنی بھی نہ کرے ورنہ قوم یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہو گی کہ اس زندگی سے موت اچھی ہے، سلطان میسور کا قول یاد دلائے گی کہ شیرکی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے۔دنیا کے نقشے پر پچاس سے زائد اسلامی ممالک ہیں مگر ہندو ریاست ایک ہے اور یہودی ریاست بھی ایک ہے اور اگر ڈرون کے مقابلے میں To be or not to be میں سے کوئی آپشن چننی پڑے تو پاکستانی قوم مر مٹنے کے راستے کو ترجیح دے گی۔​
    نوٹ : - کالم نگار سے مراسلہ نگار کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
     
    غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    سوچنے سمجھنے کی باتیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ہائیٹ لائٹ شدہ جملے پڑھیں۔)
     

اس صفحے کو مشتہر کریں