1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

شیطان کا دربار

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از زمردرفیق, ‏3 مئی 2008۔

  1. زمردرفیق
    آف لائن

    زمردرفیق ممبر

    شمولیت:
    ‏20 فروری 2008
    پیغامات:
    312
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    شیطان کا دربار


    اف توبہ ! یہ شعلے پہینکنے والے تودے، یہ دھواں دھار بگولے اور یہ بھیانک دامن کوہ! خدایا میں کہاں ہوں اور یہاں کیسے آگیا؟

    میں نے آنکھیں ملیں۔ سوچا، خواب تو نہیں دیکھ رہا ہوں مگر نہیں میں کھلی نطروں سے دیکھ رہا ہوں۔ دھواں دھار بگولے حرکت کرتے ہوئے شعلے اگلنے والے تودوں میں سما گئے پھر میں نے دیکھا جیسے آگ کے مجسمے تودوں پر بیٹھے ہوں۔ ایں! یہ تو جاندار معلوم ہوتے ہیں یہ تو آپس میں کچھ اشارے کر رہے ہیں۔ ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ خدایا یہ کون سی مخلوق ہے جنہیں میں دئکھ رہا ہوں۔ ان کے چہروں پر دھواں چھایا ہوا ہے ان کی آنکھیں انگارے برسا رہی ہیں ان کے جبڑے بھیڑیوں کے جبڑوں کی طرح ہیں۔ لگتا تو یہ ہے کہ یہ انسان ہیں مگر یہ انسان کیسے؟

    ایک گھبراہٹ اور خوف میرے دل پر چھا گیا۔ ابھی میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچا تھا کہ ان آگ کے تودوں پر بھیانک صورت والے جاندار مجسمے پکار اٹھے

    “یا ابلیس پُر تبلیس!“
    اور پھر یکدم شور ہوا “زندہ باد!“

    اوہ ! یہ شیطان ہیں‘ میرے دل نے کہا۔ میں سوچنے لگا کہ میں نے تو ابلیس پڑہا ہے۔ یہ پر تبلیس کے کیا معنی ہیں؟ میں کچھ دیر سمجھ نہ سکا میری نظریں ایک بڑی پہاڑی کے تودے پر تھی جس پر ایک عظیم دھواں دھار بگولے سے نکل کر ایک مجسمہ حرکت کرتا ہوا جا بیٹھا۔ وہ سارے شیطانوں سے زیادہ ہیبت ناک اور کریہہ تھا۔ نہ جانے کس طرح مجھے یقین ہو گیا کہ یہی ابلیس ہے۔ میں نے معوذتین پڑھ کر اپنے اپر دم کیا اور یہ دیکھنے کی کوشش کرنے لگا کہ یہ سب کیا کرنے والے ہیں؟

    ابلیس پُر تبلیس یا میرے الفاظ میں ابلیس نے اپنا بھاری جبڑا کھولا۔ دھویں کا ایک بگولا اس کے منہ سے بھبکے کی طرح نکلا میں نے سنا۔۔۔
    “ہاں میرے ساتھیو! اپنی کار گزاری بتاؤ، کیا کیا کارنمایاں کر کے آئے ہو آج جس نے سب سے بڑھ کر کام انجام دیا ہوگا اُسے میں اقلیم شیطان میں اپنا نائب قرار دیدونگا۔

    ابلیس کے اشارے پر ایک طرف کا ایک تودہ جنبش میں آیا۔ میں نے دیکھا اس تودے پر سے ایک شیطان اُترا ابلیس کے سامنے آیا۔ مجرا بجا لایا اور پھر اسی طرح اپنی کار گزاری سنانے لگا۔

    بسم الابلیس پُر تبلیس۔
    یوں تو آج میں نے بہت سے انسانوں، جی ہاں! آدم کے بیٹوں کو بہکایا۔ لیکن مجھے فخر ہے کہ آج میں نے ایک عابد کو غافل کر کے قعرمذلًت میں گرا دیا۔
    “ساتھیو ! وہ عابد ایک جنگل میں خدا کی عبادت کر رہا تھا اچانک میں روشنی بن کر اسکے سامنے نمودار ہوا۔ میں نے روشنی میں سے پکارا “قبول قبول!“ اے عبادت گزار بندے تیری عبادت قبول۔ اب تو اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ میں تجھ پر سے عبادت کے سارے ارکان کی پابندی ختم کرتا ہوں۔ اب تو جو چایے کرے۔ تجھے جنت ملے گی“۔

    یا ابلیس ! یہ سن کر وہ عابد چونکا۔ روشنی کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ حیران تھا کہ کون اسے پکار رہا ہے؟ میں نے سمجھہ لیا۔ میں نے پھر کہا “میں کھلے چھپے بھیدوں کا جاننے والا ہوں۔ میں یہ بھی جاننے والا ہوں کہ تیرے دل میں کیا ہے۔ سُن ! میں تیرا رب ہوں اور میں تجھ سے خوش ہو گیا۔ میری رضا کے سوا تجھے اور کیا چاہیے؟

    یہ سن کر اس نے سامنے رکھی ہوئی کتاب اٹھانا چاہی میں سمجھ گیا یہ کتاب قرآن ہے میں نے سوچا اگر اس نے قرآن اٹھا لیا تو میرا داؤ خالی جائے گا اُسے جلد از جلد کلام الٰہی سے غافل کر دینا چایہے۔ میں نے پکارا۔۔۔

    “اب قرآن کی تلاوت کی تجھے ضرورت نہیں۔ علم دین کے سارے خزانے میں تجھے ودیعت کرتا ہوں۔ اُٹھ اور اب جو چاہے کر۔ “اب تو جنت کا حقدار ہو گیا“۔

    وہ سوچ میں پڑ گیا۔ میں نے اسے سوچنے دیا۔ بولا “تو میرا خدا کیسے ہو سکتا ہے۔ خدا سے تو ہم کلام ہونے کا شرف تو انبیاء علیہم السلام کو حاصل تھا۔ اور ان کے بعد اب کؤئی نہیں ہو سکتا۔ مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یا تو کوئی جادوگر یے یا شیطان“۔

    اُف یا ابلیس پُر تبلیس ! یہ سنتے ہی میں بوکھلا ہو گیا۔ وہ تو خیر ہوئی اس نے “لاحول“ نہیں پڑھی۔ مجھے جھٹ ایک داؤں سوجھ گیا اور میں نے اسی داؤ سے اسے چت کر دیا۔ میں نے کھسیانی سی آواز بنا کر کہا ؛-
    “اے عابد ! بے شک تو خدا کے کلام کا عامل ہے، اپنے علم کے زور سے بچ گیا۔ ورنہ میں تیرے ایمان کو اُچک ہی چکا تھا۔“
    یہ سنتے ہی عابد کی پیشانی چمک اٹھی۔ غرورِ علم سے اس کی گردن تن گئی اور سینہ پھول گیا۔

    بولا۔ “علم چیز ہی ایسی ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے کوئی گمراہ نہیں ہو سکتا۔“
    میں اس کے سامنے سے ہٹ گیا۔ عابد خوش خوش اٹھا۔ بوریا لپیٹ کر ایک طرف چل دیا۔
    میں پیچھے ہو لیا وہ اپنے معتقدین میں پہنچا اور ڈینگ مارنے لگا۔ “آج میں علم کی بدولت بچ گیا ورنہ شیطان مجھے اُچک لے جاتا۔“ اور پھر اسنے سارا قصہ سبکو سنایا۔ سب اس کی تعریف کرنے لگے۔

    ساتھیو ! میرا خیال ہے کہ میں نے اس کے اندر غرورِ علم بھر دیا۔ میں نے اسے اللہ کے فضل سے غافل کر دیا اور میں سمجھتا ہوں کہ ایک انسان کو اللہ کے فضل سے غافل کر دینا بہت بڑا کام ہے۔ یہ وہ باریک نقطہ ہے جسے میں نے بڑی محنت سے حاصل کیا۔ امید ہے کہ میرا یہ کام اس محفل میں اکرام کے لائق سمجھا جائے گا۔

    میں نے دیکھا، جیسے ہی شیطان چپ ہوا چاروں طرف سے اسکی تعریف ہونے لگی۔ لیکن ابلیس خاموش رہا اس نے دوسرے شیطان کی طرف اشارہ کیا۔ دوسرا شیطان اپنی جگہ سے اٹھا ابلیس کے سامنے گیا۔ مجرا کیا اور پھر ابتدائیہ کلمات کے بعد یوں اپنی رپورٹ سنانے لگا۔

    “ساتھیو ! آج میں نے سب سے بڑا کام جو کیا ہے اس کی مختصر روداد آپکے سامنے پیش کرتا ہوں۔ آج میرا گزار ایک مسجد میں ہوا۔ وہاں ایک نو جوان عالم درس دے رہا تھا۔ میں نے سنا وہ کہ رہا تھا۔ اسلام محض ایک مذہب ہی نہیں ہے بلکہ مکمل نطام حیات ہے۔ اس نطام میں جہاں ایک ظرف عبادت کے اصول ہیں اسی طرح سیاست کے قوانین بھی۔ اس نظام میں ایک طرف شادی بیاہ کے قاعدے بتائے گئے ہیں تو دوسری طرف لین دین کے ضابطے بھی۔ اس نظام میں گود سے لے کر گور تک اور مسجد سے میدان جنگ تک کے سارے طریقے موجود ہیں ۔ لہٰذا صرف روزہ نماز ہی کر لینا کافی نہیں ہے بلکہ وہ سب کچھ فرائض میں سے ہے جو خدا نے حکم دیا ہے تو پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ۔

    نوجوان واقعی زبردست عالم معلوم ہوتا تھا۔ اس کا علم نیا تھا۔ میں نے سامعین پر نظر ڈالی۔ ایک طرف ایک بے چین شخص بیٹھا نظر آیا۔ میں نے اس کے کان میں پھونکا یہ تو کوئی مودودی معلوم ہوتا ہے“۔

    بس پھر کیا تھا۔ “بے چین“ صاحب نے بڑے تیکھے پن سے کہا “جناب! آپ کا تعلق کس جماعت سے ہے؟“

    اور پھر آپ سمجھ سکتے ہیں کہ میں نے کیا، کیا ہوگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کچھ لوگ ایک کے طرف دار ہو گئے اور کچھ دوسرے کے اور پھر وہ ہنگاما برپا ہوا کہ میری ضرورت نہیں رہی۔ وہ نوجوان عالم صاحب اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔

    یا ابلیس ! میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح کی محفل کو درہم برہم کر دینا اس دین کو ڈھانا ہے جس پر آدم کے بیٹوں کو بڑا ناز ہے۔ اُمید ہے کہ میرا یہ کام پسند کیا جائےگا۔

    اس شیطان کے خاموش ہونے پر بھی تعریف کے انگارے برسائے جانے لگے لیکن ابلیس اسی طرح چپ بیٹھا رہا جس طرح بیٹھا تھا۔
     
  2. مریم سیف
    آف لائن

    مریم سیف ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏15 جنوری 2008
    پیغامات:
    5,303
    موصول پسندیدگیاں:
    623
    ملک کا جھنڈا:
  3. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    باتوں‌ہی باتوں‌میں مولانا صاحب کی اچھی تعریف کر دی ہے ۔ ماشاءاللہ۔ :87:

    اللہ تعالی ہم سب کو فرقہ واریت سے محفوظ فرما کر ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہوئے ، اخوت و اتحاد کی راہ پر گامزن فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین و شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں