1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

شیخ عبدالقادر جیلانی کی دعوت ایک جائزہ- 3: (حضرت شیخ ؒ کی تعلیم و تربیت)

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از دیوان, ‏8 مئی 2015۔

  1. دیوان
    آف لائن

    دیوان ممبر

    شمولیت:
    ‏21 فروری 2008
    پیغامات:
    63
    موصول پسندیدگیاں:
    56
    حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیم و تربیت
    حضرت شیخ کی طالب علمی کے حالات
    حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ بغداد میں علوم دین حاصل کرنے کے لیے آئے تھے اس لیے آپ نے اس پر بھرپور توجہ دی۔آپ نے سب سے پہلے قرآن کریم حفظ کیا اور اس کے بعد دوسرے علوم کی تعلیم حاصل کی۔ آپ نے دینی تعلیم اس وقت کے بہت بڑے عالم قاضی ابو سعید مخرمی کے مدرسہ باب الازج میں حاصل کی۔ مختلف علوم میں آپ کے اساتذۃ کرام کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:
    ادب: ادب کی تعلیم ابو زکریا تبریزی سے حاصل کی، جو خود متعدد کتابوں کے مصنف تھے۔
    علم حدیث: علم حدیث اس وقت کے بڑے بڑے محدثین سے حاصل کیا جن میں ابوغالب محمد بن احسن باقلانی، ابوبکر احمد بن مظفر، ابو قاسم علی بن بیان رزاز، ابومحمد جعفر بن احمد سراج، ابوسعید محمد بن خشیش، ابوطالب عبدالقادر بن محمد بن یوسف، میں ابوبرکات طلحہ عاقولی، ابوغنائم محمد بن علی بن میمون خراصی،ابوطاہر عبدالرحمان بن محمد، ابومنصور عبدالرحمان قزاز،ابوالقاسم بن احمد بن بنان کرخی کے نام قابل ذکر ہیں۔
    فقہ اور اصول فقہ: یہ فنون آپ نے شیخ ابو خطاب محفوظ کلوذانی، ابو وفا علی بن عقیل حنبلی، ابو حسن محمد بن قاضی ابو یعلی،محمد بن حسین بن محمد سراج، قاضی ابو سعید مخرمی سے حاصل کئے۔
    آپ کا علم حاصل کرنے کا عرصہ ۴۸۸ھ سے لے کر ۵۲۱ھ تک کی تینتیس (۳۳) سال کی طویل مدت پر پھیلا ہوا ہے جس کے متعلق کچھ زیادہ معلومات نہیں ملتیں شاید اس لیے کہ اس دوران آپ کئی بار سلسلہ تعلیم چھوڑ کر بغداد کے ویرانوں اور کھنڈرات کی طرف چلے جاتے تھے یہاں تک کہ آپ کو عبدالقادر مجنون کے لقب سے یاد کیا جانے لگا۔طلب علم کی اس طویل مدت کے دوران میں آپ نے بے پناہ مشکلات کا سامنا کیا مگر ہمت نہ ہاری۔ آپ فرماتے تھے کہ میں نے ایسی ہولناک سختیاں جھیلی کہ اگر وہ پہاڑ پر گزرتیں تو پہاڑ بھی پھٹ جاتا۔ جب مصیبتوں کی ہر طرف سے مجھ پر یلغار ہو جاتی تھی تو میں ویرانوں کی طرف نکل جاتا تھا اور شور پکار کرنے لگتا تھا۔
    اس طرح کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ایک دن ویرانے میں میرے شور اور پکار کو سن کر علاقے کے ڈاکو گھبرائے ہوئے آئے مجھے پہچان کر کہنے لگے : ’’یہ تو عبدالقادر دیوانہ ہے۔تو نے ہمیں ڈرا دیا۔‘‘
    بعض اوقات یہ سختیاں جب برداشت سے باہر ہوجاتیں تو تنگ آکر زمین پر لیٹ جاتا اور اس آیت کا ورد شروع کردیتا:

    فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا، اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا۔ (الانشراح 4،5)
    ترجمہ:بے شک تنگی کے ساتھ آسانی ہے بے شک تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔
    ابوبکر تمی بیان کرتے ہیں کہ حضرت شیخ نے مجھ سے یہ واقعہ بیان کیا کہ قیام بغداد کے دوران مجھ پر ایک ایسا سخت وقت گزرا کہ میں نے چند روز تک کچھ نہیں کھایا حتی کے بھوک سے ایک دن دریا کے کنارے آیا تاکہ گری پڑی گھاس پھوس سے ہی پیٹ بھر لوں لیکن جس جگہ پہنچا وہاں مجھ سے بھی پہلے کچھ لوگ پہنچے ہوئے تھے۔میں نے یہ سمجھ کر کہ شاید یہ کوئی درویشوں کی جماعت ہے واپس ہو گیا اور اسی کیفیت میں شہر کی ایک مسجد کے اندر پہنچا جو ایک بازار میں تھی۔اس وقت میں بھوک سے نڈھال تھا۔ مگر کسی سے سوال بھی میرے لئے ممکن نہیں تھا اور مجھے یوں لگا کہ میری موت واقع ہو جائے گی۔اس وقت ایک عجمی نوجوان روٹی اور بھنا گوشت لے کر مسجد میں داخل ہوا اور کھانے بیٹھ گیا۔ اس کو دیکھ کر بھوک کی شدت سے میرا منہ بار بار کھل جاتا تھا حتی کہ میں نے خود کو ملامت کر کے کہا کہ یہ کیا حرکت ہے؟ رب العالمین تیرے حال سے واقف ہے اور زیادہ سے زیادہ موت ہی تو واقع ہو سکتی ہے۔یکایک نوجوان نے مجھے مخاطب کر کے کہا: ’’آئیے بسم اللہ کیجیے۔‘‘ لیکن میں نے انکار کر دیا۔ پھر جب اس نے بہت اصرار کیا تو مجبورا کھانے میں شریک ہو گیا۔
    جب میں نے اس شخص کے بارے میں معلوم کیا تو اس نے بتایا کہ میں جیلان کا رہنے والا ہوں اور عبدالقادر کی تلاش میں آیا ہوں۔میں نے اس کو بتایا کہ میں ہی عبد القادر ہوں تو اس کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑ گیا اور اس نے کہا کہ اللہ کی قسم جس وقت میں آپ کی تلاش میں بغداد پہنچا ہوں تو میرے پاس صرف تین دن کا سفر خرچ رہ گیا تھاجب کسی طرح آپ کا پتہ معلوم نہ ہو سکا اور میرے اوپر تین دن ایسے گزر گئے کہ میرے پاس کھانا خریدنے کو بھی سوائے اس رقم کے جو آپ کے لیے میرے پاس تھی کچھ باقی نہ رہا اور مزید تین دن گزرنے کے بعد میری حالت ایسی ہو گئی کہ جہاں شریعت مردار تک کھانے کی اجازت دے دیتی ہے تو میں نے آپ کی رقم میں سے یہ روٹی سالن خرید لیا ہے۔ لہذا یہ آپ ہی کا مال ہے۔خوب اچھی طرح کھائیے اور مجھے اپنا مہمان سمجھئے اور جب میں نے اس سے پوچھا کہ تم یہ کیا کہہ رہے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ آپ کی والدہ نے میرے ذریعے آٹھ دینار بھجوائے تھے جس سے میں نے یہ روٹی سالن خرید لیا اور اس خیانت کے لیے آپ سے معذرت خواہ ہوں۔
    آپ نے ایک واقعہ اس طرح بیان فرمایا کہ فصل کٹنے کے زمانے میں بغداد کے طالب علموں کی ایک جماعت دیہاتوں میں جا کر غلہ وغیرہ طلب کیا کرتی تھی۔ چنانچہ ایک مرتبہ میں بھی ان کے ہمراہ چلا گیا۔لیکن وہاں ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ حق کا ارادہ کرنے والے اور صالح لوگ کسی سے کچھ طلب نہیں کرتے۔ یہ کہہ کر مجھے سوال کرنے سے روک دیا۔اس کے بعد میں کچھ طلب کرنے نہیں گیا۔

    تزکیہ باطن
    دینی علوم حاصل کرنے کے بعد آپ نے حضرت حماد بن مسلم دباس کی خدمت میں رہ کر طریقت و سلوک کی راہیں طے کیں جو کہ اصل ترتیب ہے۔ حضرت شیخ کے اپنے قول سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔
    ’’مخلوق سے کنارہ کشی سے قبل علم فقہ حاصل کرو کیونکہ جو شخص علم کے بغیر عبادت کرتا ہے وہ اصلاح سے زیادہ فساد میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ تمہیں چاہیے کہ شمع شریعت اپنے ہمراہ لے کر علم کی روشنی میں عمل کرو۔ پھر اللہ تمہیں علم لدنی کا وارث بنا دے گا۔‘‘ (قلائد الجواہر)
    الفتح الربانی کی مجلس ۴۷ میں فرماتے ہیں:
    ’’تیرے لیے علم و تدریس میں داخل ہونا ضروری ہے اس کے بعد عمل کا نمبر ہے اور پھر اخلاص کا۔‘‘
    حضرت شیخ کے نزدیک اس ترتیب کی اس قدر اہمیت ہے کہ اپنے وعظوں میں اس کا کئی بار ذکر کیا ہے۔ مثلا دیکھئے شیخ کے مواعظ حضرت الفتح الربانی مجلس ۱۲، ۴۵، ۴۹،۳۷ وغیرہ۔
    حضرت جنید بغدادیؒ سے بھی اسی طرح کی ایک بات منقول ہے۔ ان کا قول ہے:
    ’’تصوف پورا کا پورا اللہ کی کتاب اور نبی کی سنت پر مبنی ہے۔ پس جو قرآن کا علم نہ رکھتا ہو اور حدیث سے واقف نہ ہو تو اس راہ تصوف میں اس کا اتباع نہ کیا جائے۔‘‘
    درحقیقت یہ بہت اہم اصول ہے اسی لیے کتابوں میں لکھا ہے کہ صحبت ایسے شیخ کی اختیار کرنی چاہیے جو بقدر ضرورت علم دین رکھتا ہو اور عقائد، اعمال اور اخلاق میں شریعت کا پابند ہو۔
    عالم کی فضیلت عابد پر کیسی ہے اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
    عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی میری تم میں سے معمولی آدمی پر۔ (ترمذی)
    حضرت شیخ کے مرشد حضرت حماد بن مسلم دباس نے آپ کی تربیت کے دوران بہت سخت امتحانات سے گزارا۔ خود حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ جب میں کبھی شیخ دباس کے پاس ہوتا تو آپ مجھ سے فرماتے تو ہمارے پاس کیا لینے آیا ہے تو فقیہ ہے اہل فقہ کے پاس جایا کر مگر میں خاموش رہتا تھا۔ ایک اور واقعہ میں حضرت شیخ اپنے مرشد کے ساتھ جمعہ کی نماز کے لیے جارہے تھے۔ راستے میں ایک پل پر سے گزر ہوا جو نہر دجلہ کے اوپر تھا تو ان کے مرشد نے انہیں پانی میں دھکا دے دیا۔ اس وقت سخت سردی کا موسم تھا لیکن حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ میں نے غسل جمعہ کی نیت کر لی۔ ان کے ساتھی انہیں وہیں چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔ حضرت شیخ نے نہر سے نکل کر اپنے کپڑے نچوڑے اور اپنے مرشد کے پیچھے چل پڑے۔اس واقعہ سے جہاں حضرت شیخ کا اپنے مرشد سے تعلق کا اظہار ہوتا ہے وہیں یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ حضرت شیخ تزکیہ نفس کی راہ پر آنے سے پہلے مفتی اور فقیہ بن چکے تھے۔
    ایک اور واقعہ میں حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ میں حضرت دباس کے پاس گیا تو انہوں نے فرمایا کہ آج ہمارے پاس بہت سی روٹیاں آئیں لیکن ہم نے سب کھا لیں اور تمہارے لیے کچھ نہیں بچا۔ حضرت دباس کا حضرت شیخ کے ساتھ یہ معاملہ دیکھ کر ان کے دیگر مرید بھی انہیں تکلیفیں پہنچانے لگے۔ وہ بار بار کہتے کہ تم تو فقیہ ہو تمھارا ہمارے پاس کیا کام۔ جب حضرت دباس کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے مریدوں سے فرمایا کہ تم اس کو تکلیف کیوں پہنچاتے ہو۔ خدا کی قسم تم میں سے کوئی ایک بھی اس کے مقام کا نہیں ہے۔ میں تو صرف امتحان کے طور پر اس کو اذیت پہنچاتا ہوں۔ لیکن میں نے اس کو ایسا پہاڑ پایا جس میں ذرا حرکت نہیں ہے۔

    تدریسی زندگی کا آغاز
    ۵۲۸ھ میں حضرت شیخ کے استاد اور مرشد قاضی ابو سعید مخرمی کا قائم کردہ مدرسہ حضرت شیخ کے حوالے کیا گیا جس میں انہوں نے مختلف تیرہ علوم و فنون کی تدریس کا کام سنبھالا۔ اس سلسلے میں نحو، تفسیر، حدیث، اصول فقہ، حنبلی فقہ جس میں اختلاف مذاہب بھی شامل ہے قابل ذکر ہیں۔
    آپ نے جب مدرسے میں درس شروع فرمایا تو طلبا کی تعداد کچھ زیادہ نہیں تھی لیکن آپ کی وسعت علم کی شہرت بہت جلد بغداد اور اس سے باہرپہنچ گئی اور دور دراز کے طلبا جوق در جوق آپ کے درس میں شریک ہونے لگے اور حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ مدرسہ تنگ پڑ گیا اور اس کو وسیع کرنے کی نوبت آگئی۔جب مدرسے کی توسیع کا کام پورا ہو گیا اس وقت اس مدرسے کا نام مدرسہ باب الازج کے بجائے مدرسہ قادریہ ہوگیا اور اس کی شہرت سارے عالم میں پھیل گئی۔

    (جاری ہے)
     
    Last edited: ‏8 مئی 2015
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں