1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

شیخ عبدالقادر جیلانی کی دعوت ایک جائزہ-10:(حضرت شیخ کی تعلیمات: تقدیر، عمل)

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از دیوان, ‏26 فروری 2017۔

  1. دیوان
    آف لائن

    دیوان ممبر

    شمولیت:
    ‏21 فروری 2008
    پیغامات:
    63
    موصول پسندیدگیاں:
    56
    تقدیر

    تقدیر کا عقیدہ بھی اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے۔ اس کا انکار کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

    بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوتا جب تک تقدیر پر اس کے خیر و شر کے ساتھ ایمان نہ لائے اور جب تک یہ نہ جان لے کہ جو (خیر و شر) اس کو پہنچ گیا یہ ناممکن تھا کہ اسے نہ پہنچتا اور جو نہیں پہنچا یہ ممکن نہ تھا کہ اس کو پہنچ جاتا۔ (ترمذی)

    اس عقیدے کی وضاحت بھی حضرت شیخ کے مواعظ میں بار بار ملتی ہے۔

    تقدیر کو نہ کوئی رد کرنے والا رد کرسکتا ہے اور نہ کوئی روکنے والا اس کو روک سکتا ہے۔ تو اپنے آپ کو تقدیر الہی کے حوالے کردے تو راحت پائے گا۔یہ رات اور دن جو آتے جاتے رہتے ہیں کیا ان کا لوٹا دینا تیرے لیے ممکن ہے؟ جب رات آتی ہے تو آہی جاتی ہے۔خواہ تو پسند کرے یا نہ کرے اور یہی حال دن کا ہے کہ دونوں تیری مرضی کے خلاف بھی آتے رہیں گے۔یہی حال قضا و قدر کا ہے جو اللہ عز و جل نے تیرے لیے مقدر کردیا ہے خواہ تیرے نفع کے متعلق ہو یا نقصان کے۔ (الفتح الربانی مجلس62)

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

    جان لو کہ اگر سارے لوگ مل کر تمہیں نفع پہنچانا چاہیں تو تجھے کوئی نفع نہیں پہنچا سکتے سوائے اس کے کہ جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے۔ اور اگر سب لوگ مل کر تجھے نقصان پہنچانا چاہیں تو وہ نقصان نہیں پہنچا سکتے سوائے اس کے کہ جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے۔ قلم اٹھا لیے گئے اور صحیفے خشک ہوگئے۔ (ترمذی)

    اس حدیث کے متعلق فتوح الغیب کے وعظ نمبر 42 میں حضرت شیخ فرماتے ہیں:

    ہر مومن کو چاہیے کہ اس حدیث کو اپنے دل کا آئینہ بنا لے، اس کو اپنا جامہ اور اپنا لباس بنا لے، اس کو اپنا ذکر بنا لے اور اپنی تمام حرکات و سکنات میں اس پر عمل کرے یہاں تک کہ دنیا اور آخرت کی تمام آفات سے سلامت رہے اور اللہ کی رحمت سے دونوں جہانوں میں عزت پائے۔

    تقدیر ہی سے متعلق رزق کا معاملہ ہے۔اس بارے میں حضرت شیخ فرماتے ہیں:

    ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رزق پیدا فرما کر اس کو تقسیم کردیا، جو رزق مقدر میں کردیا ہے اسے نہ کوئی بند کرسکتا ہے اور نہ کوئی اس کو روکنے والا ہے۔ رزق کو نہ کوئی بڑھا سکتا ہے اور نہ کم کرسکتا ہے۔ (غنیۃ الطالبین، ایمان کی تعریف)

    الفتح الربانی کی مجلس 61 میں اس بات کو ذرا مختلف انداز میں اس طرح بیان فرماتے ہیں:

    تم ہر وقت اللہ تعالیٰ سے اسی کا سوال کرتے رہتے ہو کہ تمہارے کھانے، تمہارے پانی، تمہارے کپڑے اور تمہاری بی بی اور تمہارا رزق زیادہ کر دے۔حالانکہ یہ ایسی چیز ہے کہ تمہارے ساتھ ساتھ سارے مستجاب الدعوات بندے مل کر بھی دعائیںکریں تو اس میں زیادتی ہوگی نہ کمی۔رزق تو نہ ذرہ برابر گھٹے گا اور نہ ذرہ برابر بڑھے گا۔اس سے فراغت ہوچکی ہے۔اس کام میں لگو جس کے کرنے کا تم کو حکم ہوا ہے۔اور اس سے باز رہو جس سے منع کردیا گیا ہے۔ جس کا خود بخود آنا ضروری ہے اس میں مشغول مت ہو۔کیونکہ اس کے لانے کا تو وہ تمہارے لیے ضامن ہوچکا ہے۔ جو کچھ تمہاری قسمت میں ہے اپنے وقت پر خود آجائے گا خواہ شیریں ہوں یا تلخ اور چاہے تمہیں پسند ہوں یا ناگوار۔

    قیامت

    اس دنیا کے بعد ایک اور زندگی ہے جس میں ہر انسان کو اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ اچھے اعمال کا بدلہ جنت ہے اور برے اعمال کی سزا جہنم ہے۔ یہی وہ عقیدہ جو انسان کو اچھے اعمال پر ابھارتا اور برے اعمال سے روکتا ہے۔حضرت شیخ کا ایک ملفوظ ملاحظہ فرمائیں جس میں انہوں نے اس دن کی ایک تصویر کھینچ دی ہے:

    اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ((یہ فیصلے کا دن ہے۔جس میں ہم نے تم کو اور اگلوں کو جمع کیا۔پھر اگر تمہارا کوئی داؤ ہے تو تم مجھ پر چلاؤ۔)) اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مخلوق کو اس زمین کے علاوہ اپنی زمین پر اکٹھا کریں گے جس پر کسی آدمی کا خون نہیں بہایا گیا۔اور اس پر کوئی گناہ نہیں کیا گیا۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا [​IMG](قیامت کی گھڑی میں کوئی شک نہیں۔اور بلاشبہ اللہ نے ان کو اٹھانا ہے جو قبروں میں ہیں، الحج-۷))۔ قیامت کا دن ہار جیت کا دن ہے۔افسوس کا دن، شرمساری کا دن، یادگری کا دن، کھڑے ہونے کا دن،گواہی کا دن، یاد کا دن، خوشی کا دن، غم کا دن، ڈر کا دن، امان کا دن، آرام کا دن،سزا کا دن، راحت کا دن، مشقت کا دن، پیاس کا دن، چھوٹ کا دن، پوشاک کا دن،ننگ کا دن، نقصان کا دن ہے۔ اس دن ایمان والے اللہ تعالیٰ کی مدد سے خوش ہوں گے۔اے اللہ! ہم اس دن کی برائی سے تیری پناہ پکڑتے ہیں۔اور آپ سے بھلائی مانگتے ہیں۔ اور ہمیں دنیا میں نیکی دیجیے اور آخرت میں نیکی دیجیے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔ (جلاء الخواطر مجلس 40)

    عمل

    عقائد کے بعد اعمال کا نمبر آتا ہے۔ حضرت شیخ کے یہاںدین پر عمل ہی انسان کے عقیدے کا اظہار ہے۔ الفتح الربانی مجلس 54 فرماتے ہیں:

    اس امر (اسلام) کی بنیاد توحید ہے اور اعمال صالحہ اس (پر) کی (گئی) تعمیر ہے۔

    الفتح الربانی کی مجلس 22 میں ارشاد ہوتا ہے:

    سب کی بنیاد و ابتدا حق تعالیٰ اور اس کے پیغمبر پر ایمان لانا اور اللہ اور رسول کو سچا سمجھنا ہے۔ اس کی بنیاد اسلام ہے اور اس کے بعد ایمان، اس کے بعد اللہ عز وجل کی کتاب اور اس کے بعد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر عمل کرنا اور اس کے بعد عمل میں اخلاص پیدا کرنا اور کمال ایمان کے ساتھ قلب کا توحید میں مستحکم ہونا۔

    اعمال دو طرح کے ہیں، ایک ظاہری اعمال جیسے نماز دوسرا باطنی جیسے صبر شکر وغیرہ اور دونوں ہی ضروری ہیں۔ظاہری اعمال کا اثر باطنی اعمال پر پڑتا ہے۔ حضرت شیخ کا ارشاد ہے:

    جو شخص ظاہر شریعت پر عمل کرتا رہے گا تو یہ عمل اس کو اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس پر عمل کرنا نصیب کرے گا۔ ( الفتح الربانی مجلس 62)

    (جاری ہے)
     

اس صفحے کو مشتہر کریں