1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

شہری شعور

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از راہبر, ‏21 نومبر 2007۔

  1. راہبر
    آف لائن

    راہبر ممبر

    شمولیت:
    ‏14 مارچ 2007
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    شہری شعور
    ڈھنڈورا مچا ہے، رونا پیٹنا جاری ہے کہ ہماری قوم سوئی پڑی ہے، لوگ چپ ہیں، ظلم کے خلاف آواز بلند نہیں کی جارہی، احتجاج نہیں ہورہا۔۔۔ قوم کو بے حس بھی کہا جارہا ہے۔۔۔ لیکن کل ایک نکتہ میرے ذہن میں مسلسل گردش کرتا رہا کہ اصل کمی ہے “شہری شعور” کی۔ (سِوِک سینس کا ترجمہ یہی ہے نا؟)
    ہماری قوم کو شہری شعور نہیں ہے۔ ہمارے کیا حقوق ہیں، کیا فرائض ہیں، کن باتوں کا کیا اثر ہوتا ہے؟ ان باتوں کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ ہمارے تعلیمی نصاب کا تو خیر سے کیا رونا رویئے، پڑھے لکھے لوگوں کو بھی جاہل ہی رکھتا ہے۔ ہمارے پچھتر فیصد سے زیادہ مسائل کا حل صرف اور صرف “شہری شعور” کا بیدار ہونا ہے۔
    یہ مسائل صرف سیاسی نہیں، بلکہ سماجی اور معاشرتی بھی ہیں۔ ٹریفک جام کا مسئلہ ہو یا مہنگائی کا، حکومت کے مظالم ہوں یا مافیا کے کارنامے، کچھ بھی ہو۔۔۔ اگر شہری شعور بیدار ہوجائے تو سمجھ لیں کہ ہم نے آگے بڑھنا شروع کردیا۔ لیکن یہ بات کہنے میں بہت آسان اور مختصر ہے، عملی زندگی میں بہت مشکل۔ (لیکن ناممکن نہیں!)
    اب یہ شہری شعور بیدار کیسے ہوگا؟ یہ ایک غور طلب سوال ہے۔ میرا خیال ہے کہ مختصر اور جامع تحاریر لکھی جائیں اور ان کو تقسیم کیا جائے، سیمینارز وغیرہ کا اہتمام کیا جائے، وغیرہ وغیرہ۔۔۔ لیکن یہ سارا کام باقاعدہ طویل المدت منصوبہ بندی کے تحت کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ فی الوقت ہم قوم کی بے حسی پر جس طرح رو رہے ہیں، خدانخواستہ اگر مستقبل میں کوئی دوسری افتاد آن پڑی، تب بھی ہماری حالت اس سے زیادہ مختلف نہ ہوگی (بلکہ شاید بدتر ہی ہوجائے)۔
    مجھے اس سلسلہ میں تجاویز اور آراء کا انتظار رہے گا۔ اپنے مخلص اور بیدار ہونے کا ثبوت دیجئے!

    "راہبر کی بیاض" سے اقتباس
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    راہبر بھائی ۔ آپ نے بہت اچھا موضوع شروع کیا ہے۔ آپ کی کمی ہماری اردو میں کافی عرصہ سے محسوس کی جارہی تھی۔ آپکا شکریہ کہ آپ نے پھر وقت نکالا۔

    شہری شعور کی جگہ اگر ہم لفظ “قومی شعور“ یا “ملّی شعور“ کہہ لیں تو شاید زیادہ مناسب ہو گا۔ کیونکہ قومی یا ملی شعور ہی وہ فرق ہوتا ہے جو جانوروں کے ایک ریوڑ سے انسانی معاشرہ کو ممتاز کرتا ہے۔

    میرا خیال ہے ہمیں سب سے پہلے اپنی اپنی اصلاح‌سے اس عمل کا آغاز کرنا ہوگا۔ اور معاشرے میں‌چراغ سے چراغ جلا کر اس شعوری روشنی کو آگے بڑھانا ہوگا۔ جیسے علامہ اقبال :ra: نے فرمایا تھا

    ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
    پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ

    مایوسی کی ضرورت نہیں۔ اگر ہم دنیا کے بڑے بڑے انقلابات کے “ماقبل انقلابات“ ادوار کا جائزہ لیں تو احساس ہوگا کہ ہمارا معاشرہ تیزی سے کسی بڑی تبدیلی کی طرف گامزن ہے۔ اب انقلابی قوتوں، انقلابی لیڈروں اور انقلابی کارکنوں کو کرنا یہ ہے کہ پہلے سے منصوبہ بندی کر کے اس پھٹنے والے آتش فشاں کو رخ منفی کی بجائے مثبت سمت میں موڑنے پر توجہ کر لیں۔
    جی ہاں۔ کیونکہ جب معاشرتی جذبات کا ریلا اٹھتا ہے اور اگر اسے دانشمند اور بصیرت بھری قیادت میسر نہ ہو تو یہ ریلا طوفان کی طرح ہر طرف تباہی پھیلاتا نکل جاتا ہے جس میں پورا معاشرہ خس و خاشاک کی طرح بہہ جانے کا بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ روس کے خلاف افغان جنگ کے بعد ہوا۔ جذبات کا ریلا اٹھا، گو کہ اسکے پیچھے اور بھی کئی محرکات تھے لیکن جب روس جیسی سپر پاور شکست کھا گئی تو قیادت اور پلاننگ کا فقدان اور بے مقصدیت ہونے کے باعث افغانی باہم دست و گریبان ہو کر اپنے ہی ملک کو تباہ کرنے پر تل گئے۔

    جبکہ اگر پہلے سے مکمل منصوبہ بندی ہو ، ریلے کے راستے متعین ہوں اور معقول حد بندی کی جاچکی ہو تو بلند سے بلند جذباتی ریلا بھی امن و سکون کے ساتھ پورے نظم و ضبط کے ساتھ بہتا بہتا اپنی منزل مقصود کو جا پہنچتا ہے۔

    دورِ رسالت مآب :saw: اور صحابہ کرام :rda: کے ذریعے لایا گیا سرزمین عرب پر عظیم پرامن انقلاب اس کی واضح مثال ہے کہ مکہ المکرمہ فتح کرنے کے بعد بھی جذبات قابو میں رہے اور امن و سکون اپنی مثالی شکل میں قائم رھا۔

    دوسری مثال خود قیام پاکستان ہے۔ اللہ تعالی نے برصغیر کے مسلمانو‌ں کو قائد اعظم محمد علی جناح :ra: کی شکل میں عظیم قیادت عطا کر دی تھی ۔ انقلاب آیا۔ اسکے نتیجے میں گلوبل نقشے پر ایک سلطنت نے جنم لے لیا لیکن مجموعی طور پر سکون رہا۔ حالانکہ ایسی صورتحال میں اگر جذبات کنٹرول نہ ہوتا تو پورا برصغیر کسی بڑی جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا تھا۔

    سو ایک پہلو تو یہ ہوا کہ قیادت، تحریک اور کارکنوں کو مکمل اور پیشگی منصوبہ بندی کرنا ہوگا۔

    دوسرے جیسے آپ نے خود ہی ذکر کیا تعلیم کی خرابی ۔ سب سے پہلے ہمیں اپنے تعلیمی اداروں سے صرف اردو و انگریزی پڑھنے والوں کی بجائے باشعور پاکستانی پیدا کرنے ہوں گے۔ اور اس کے لیے ہمیں پورے کے پورے نظام تعلیم درست کرنے پر محنت کرنا ہوگی۔ یا تو ہم خود یہ کام کر لیں ۔ یا پھر ایسی این۔جی۔اوز یا تحاریک جو واقعی اس سلسلے میں مثالی اور مثبت کام کر رہی ہیں انکا دست و بازو بن کر اس کام کو تیز کرنا ہوگا۔ تاکہ ہم جلد از جلد باشعور سوسائٹی تشکیل دے کر معاشرے کو ایک بڑی تبدیلی سے ہمکنار کر کے فلاح و ترقی کی منزل کی طرف قدم بڑھا سکیں۔
     
  3. راہبر
    آف لائن

    راہبر ممبر

    شمولیت:
    ‏14 مارچ 2007
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    اتنے جامع تبصرے پر بہت شکریہ نعیم بھائی!
    میں “ہماری اردو“ سے دور ضرور رہا لیکن یہ موضوعات اور خیالات و احساسات ہمیشہ میرے ساتھ رہے۔ میں نے بلاگ لکھنا شروع کیا تو اس موضوع پر کافی تحاریر لکھیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ ایک دن یہ تمام مایوس کن حالات و مناظر ضرور بدل جائیں گے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں