1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

شہرِاعتکاف 2011

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از محمداکرم, ‏23 اگست 2011۔

  1. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]

    تحریک منہاج القرآن کا شہر اعتکاف

    حرمین شریفین کے بعد دنیا کا سب سے بڑا شہر اعتکاف۔
    فہم دین، تزکیہ نفس، توبہ اور آنسوؤں کی بستی۔
    اعتکاف تلاش حق کی اس جستجو کا نام ہے ، جس پر رہبانیت کا سایہ تک نہیں۔​

    [​IMG]

    تحریر : اے جے تبسم

    انسان اپنے معبود اور پالن ہار کے ساتھ مختلف طریقوں سے تعلق قائم کرتا ہے کبھی تنہائی میں روکر اور کبھی سرمحفل پکار کر ، کبھی کھلی وادیوں میں گھومتے ہوئے تو کبھی لق و دق صحرا میں بھٹکتے ہوئے، کبھی اونچے پہاڑ سر کرتے ہوئے، تو کبھی دریا اور سمندر عبور کرتے ہوئے، کبھی چبھن سے مزہ لیتے ہوئے کبھی آسودگی میں شکرادا کرے تو کبھی تکلیف میں گلہ کر ے غرض یہ کہ انسان اپنی فطرت صبر اور برداشت کے مطابق اللہ سے مختلف طریقوں سے ہم کلام ہوتا ہے کبھی کبھی انسان کا دل کرتا ہے کہ وہ سب کچھ چھوڑ کر اس کی تلاش میں نکل کھڑا ہو جس نے ساری دنیا بنا کر اشرف المخلوقات کے قدموں میں ڈھیر کر دی ، کبھی جی میں آتا ہے کہ سر میں خاک ڈال کر بستی بستی قریہ قریہ دیوانہ وار اس پروردگار کی الوہیت اور عظمت کے راگ الاپے جائیں جس نے انسانی پتلے میں اپنی محبت کا جوہر عظیم رکھ کر اسے بے مثل بنا دیا، کبھی دل میں یہ تمنا سر اٹھاتی ہے کہ کسی جنگل یادریا کے کنارے سادھوبن کر ڈیرہ لگا لیا جائے اور ساری دنیا سے کٹ کر بس اسی ذات کا ورد و وظیفہ کیا جائے جو فرماں برداروں کے ساتھ ساتھ نافرمانوں کی ضروریات کا خیال بھی رکھتا ہے گویا انسان اللہ سے لو لگانے کے لئے تنہائی کی تلاش میں رہتا ہے اور تنہائی کے حصول کے لئے بعض اوقات ترک دنیا بھی ہو جاتا ہے گویا وہ اعتدال کی راہ چھوڑ کر مخلوق سے بے رغبتی اور کنارہ کشی میں افراط کرتا ہوا بہت دور تک نکل جاتا ہے تاریخ انسانی خصوصاً عیسائیت میں ایسے سینکڑوں واقعات ملتے ہیں۔

    [​IMG] [​IMG]

    جب انسانوں نے دنیا سے لاتعلقی کا اعلان کیا یوں معرفت حق اور وصال محبوب کے متلاشیوں نے لذات نفسانی سے دست برداری اور علائق دنیاوی سے کنارہ کشی کی وہ اپنی سماجی ذمہ داریوں سے فرار اختیار کرتے ہوئے جنگلوں اور ویرانوں میں جا بسے۔ بیوی ، بچوں اور معاشرتی زندگی کی دیگر مصروفیات سے منہ موڑکر غاروں کی خلوتوں اور جنگلوں کی تنہائیوں میں جا ڈیرہ لگایا اور وہیں رہ کر کثرت عبادت ومجاہدہ بلکہ نفس کشی کے ذریعے وصالِ حق کی جستجو کرنے لگے۔ قرآن نے ان کے اس تصور حیات کو رہبانیت کے نام سے موسوم کیا۔ قرآن پاک کی رو سے یہ طرز زندگی وصال حق کی متلاشی روحوں نے از خود اختیار کیا تھا، یہ طریقہ ان پر فرض نہیں تھا۔ ارشاد ہوتا ہے’’ اور رہبانیت جس کی ابتداء خود انہوںنے کی ہم نے ان پر فرض نہیں کیا تھا، مگر انہوں نے اے اللہ کی رضا کے لئے اختیار کیا لیکن جس طرح اس کو نبھانا چاہئے تھا اس کو نبھا نہ سکے پھر بھی ان میں سے جو ایمان لائے ہم نے ان کو اجر دیا اور ان میں سے اکثر تو نافرمان ہی ہیں‘‘ (الحدید، ۵۷:۲۷)

    دین مصطفوی میں نہ تو رہبانیت کی گنجائش ہے اور نہ تصور بلکہ اسلام تو مخلوق اور اجتماع میں رہتے ہوئے اللہ سے لو لگانے کی بات کرتا ہے، تزکیہ نفس، تصفیہ باطن اور صفائی قلب ہمیشہ سے سعید روحوں کا خاصا رہا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے مختلف طریقے اختیار کئے جاتے ہیں اسی مقصد کے لئے اسلام نے تربیت کا بہت ہی اچھااور جامع پروگرام عطا کیا ہے رمضان المبارک کے آخری عشرے میں ہونے والا اعتکاف اس سلسلے میں نہایت اہم، مؤثر اور فائدہ مند پروگرام ہے۔ اعتکاف تلاش حق کی اس جستجو کا نام ہے جس پر رہبانیت کا سایہ تک نہیں بلکہ اعتکاف تو رہبانیت کی ضد ہے۔ اعتکاف اجتماع سے کٹ جانے کا نام بھی نہیں بلکہ اجتماع میں رہتے ہوئے اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی پا جانے کا نام ہے۔ اعتکاف چند روز کے لئے دنیا کی الجھنوں سے بے نیاز ہو کر اپنے خالق و مالک سے تعلق بندگی استوار کرنے کا نام ہے، یادالٰہی میں آنسو بہانے،اپنے رب سے مغفرت طلب کرنے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کا نام ہے۔ اسلام میں تمام عبادات کا مقصود اس خدائے لا شریک کی بندگی ہے جو اس جہان رنگ و بو کا مالک ہے، جو ہواؤں کو اذن سفر دیتا ہے، جس نے حضور(ص) کے سر انور پر ختم نبوت کا تاج سجایا اور انہیںکل جہانوں کے لئے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا لیکن ان عبادات کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اسلام اپنے پیروکاروں کے ظاہروباطن کی روشنیوں سے منور کرتا ہے۔ وہ جہاں فرد کے اندر پاکیزگی، طہارت اور تقویٰ کے اوصاف دیکھنا چاہتا ہے وہاں وہ ان روشنیوں پر انسانی معاشرے کی بنیادیں بھی استوار کرنا چاہتا ہے، وہ جہاں فرد کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشتا ہے وہاں وہ ہر سطح پر اپنے پیروکاروں کے ذہنوں میں اجتماعی شعور کو بھی پختہ کرنا چاہتا ہے۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کونسی ایسی عبادت ہے جس میں فرد اور معاشرے کی اصلاح کا پہلو نمایاں نہ ہو۔ اعتکاف رسول کرریم(ص) کی سنت ہے جو فرد کے ظاہر و باطن کا منظر نامہ روشنیوں سے تحریر کرتا ہے۔

    تحریک منہاج القرآن کا ایک امتیازی وصف یہ بھی ہے کہ اس نے فرد کے در قلب پر دستک دی ہے بلکہ اس نے روحوں کا زنگ اتار کر دلوں کا میل بھی دھو دیا ہے۔ اسی مقصد کے لئے جامع المنہاج میں تحریک کے زیر اہتمام اجتماعی اعتکاف کا غیر روایتی تصور بھی ہے۔ رمضان کے آخری عشرے میں مسنون اعتکاف اور اعتکاف برائے تربیت کی سوچ قائد تحریک ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ذہن میں بہت پہلے سما چکی تھی جس کا ابتدائی اظہار اتفاق مسجد اور ماڈل ٹاؤن کی مسجد میں بھی ہوتا رہا۔اعتکاف تو وہ ہمیشہ ہی بیٹھتے تھے، 1990ء میں جب وہ ماڈل ٹاؤن کی مسجد میں اعتکاف بیٹھے تو ان کے ساتھ 50 افراد بھی وہیں گوشہ نشیں ہو گئے تو ان کے ذہن میں موجود اجتماعی اعتکاف کے تصور نے حقیقت کا روپ دھار لیا، 1991ء میں یہ تعداد مزید بڑھی تو اس مسجد کی وسعت تنگ محسوس ہونے لگی، 1992ء میں جب موجودہ جگہ جو ٹاؤن شپ کے علاقے میں جامع المنہاج کے نام سے موسوم ہے باقاعدہ اجتماعی اعتکاف کے انعقاد کی مستقل جگہ قرار پائی تب معتکفین کی تعداد 1500تھی۔ 65 کنال کے اس وسیع و عریض کمپلیکس میں انہوں نے ایک شاندار مسجد تعمیر کروائی ، چند سال قبل انہوں نے مسجد کے سامنے والے لان میں ایک بہت بڑا بیسمنٹ تیار کروایا، یہ تہہ خانہ سارا سال علم کی پیاس بجھانے والوں کے کام آتا ہے تو رمضان کے آخری عشرے میںمعتکفین اس سے مستفید ہوتے ہیں۔ 1992ء سے معتکفین کی تعداد سال بہ سال بڑھتی گئی جو اب 20 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ دنیا کے تقریباً 25 ممالک سے بے شمار افراد بھی اس اجتماعی شہر اعتکاف میں شریک ہوتے ہیں اس کے علاوہ منہاج یونیورسٹی کے ہزاروں طلبہ اور طالبات بھی یہاں موجود ہوتے ہیں۔
    [​IMG] [​IMG]
    اعتکاف گاہ میں خیموں اور تہہ خانوں کا ایک شہر آباد ہے، جس کا نظم و نسق قابل دید ہے، انتظامی سہولت کے لئے معتکفین کو مختلف حلقوں میں تقسیم کیا گیا ہے، حلقوں کی تقسیم اضلاع کی بنیاد پر کی گئی ہے اور ایک حلقہ چالیس افراد پر مشتمل ہے۔ اعتکاف گاہ میں انتظامیہ معتکفین کے مسائل کے حل کے لئے کاؤنٹر قائم کر رکھے ہیں، ایک کمپیوٹرائزڈ کنٹرول روم میں ہر چیز کا حساب کتاب ہے، ہر حلقے کا ایک امیر اور ایک ناظم جن کو حلقے کے افراد باہمی مشاورت سے چنتے ہیں اور یہ عمومی طور پر تحریک منہاج القرآن کا معتبرکارکن ہی ہوتا ہے، امیر اپنے حلقے کے تمام معاملات کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ ہر آنے والے کی باقاعدہ رجسٹریشن کی جاتی ہے اور خوراک اور رہائش کے لئے ساڑھے تین سو روپے فی کس وصول کئے جاتے ہیں۔ یہ بہت قلیل رقم ہے اور اخراجات اس رقم سے پورے ہونا نا ممکن ہیں،اس سوال پر قائد تحریک ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بتایا کہ ہماری تنظیم اس سلسلے میں اعانت بھی کرتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی بتایا کہ تقریبا ایک ہزار افراد انتظامی معاملات سے منسلک ہیں جو ایک ایک چیز پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور مختلف کمیٹیوں کے تحت کام کر رہے ہیں۔ اعتکاف گاہ میں طعام و قیام کے علاوہ طہارت کا وسیع تر بندوبست ہے۔ دو عدد ٹیوب ویل چل رہے ہیں اور ایک ہزار ٹائلٹ بنائے گئے ہیں اور ایک وقت میں تقریباً دو ہزار افراد کے وضو کی گنجائش موجود ہے، طعام گاہ میں صفائی اور پکوائی کا اچھا اور وسیع انتظام ہے اور اس شہر کے ہر باسی کو وقت پر وافر مقدار میں کھانا ملتا ہے، سحری اور افطاری کے حوالے سے کسی کو بھی شکایت کا موقع نہیں ملتا۔ ہم نے کتب کے اسٹال کا معائنہ بھی کیا جس میں ڈاکٹر صاحب کی شائع ہونے والی تقریباً 400 کے قریب کتب رکھی گئی تھیں اور ساتھ ہی پانچ ہزار موضوعات پر آڈیو ، ویڈیو اور سی ڈیزکے سیٹ بھی موجود تھے۔

    راقم نے مختلف معتکفین سے ان کے حلقوں میں ملاقاتیں بھی کیں، بالخصوص بیرون ممالک سے آئے ہوئے احباب سے یہ پوچھا کہ آخر آپ اتنا سفر کر کے محض اعتکاف کی خاطر یہاں کیوں آئے حالانکہ اعتکاف تو اپنے شہر یا محلے کی مسجد میں بھی بیٹھ سکتے ہیں، ان لوگوں کے جوابات بہت خوبصورت تھے البتہ ایک بات مشترک تھی اور وہ ڈاکٹر صاحب سے عقیدت ، چاہت اور محبت کے جذبات ہیں جس سے مغلوب ہو کر وہ پاکستان کے شہر اعتکاف پہنچے۔ بھارت سے آئے ہوئے سید ہدایت اللہ شاہ نے بتایا کہ وہ ڈاکٹر صاحب کی معیت میں اعتکاف بیٹھنے میں روحانی مسرت محسوس کرتے ہیں۔اسی طرح ملائشیا ، کینیڈا، ناروے، ڈنمارک،لنڈن، نیوجرسی، ہالینڈ، یونان سے آئے ہوئے افراد نے بھی اپنی اپنی داستانیں سنائیں کہ وہ ڈاکٹر صاحب سے روحانی لگاؤ محسوس کرتے ہیں۔ کویت سے آئے ہوئے محمد رفیق نے بتایا کہ وہاںادارہ منہاج القرآن کی کئی تنظیمیں کام کررہی ہیں اور 6 ہزار سے زائد افراد تحریک منہاج القرآن کے لائف ممبر ہیں۔ برمنگھم سے آئے ہوئے نوجوان محمد سعد کا کہنا تھا کہ میں نے ڈاکٹر صاحب سے روحانیت کا علم سیکھا ہے۔

    ڈاکٹر صاحب سے ہم نے پوچھا کہ اسلام میں اعتکاف کا تصور تو قطعی طور پر خلوت سے عبارت ہے جبکہ یہ عجیب شکل کا اعتکاف ہے جہاں جلوت ہی جلوت ہے انہوں نے خلوت اور جلوت کی خوب وضاحت فرمائی اور فرمایا خلوت کا حقیقی تصور یہ ہے کہ دل کا رجوع مالائے اعلیٰ کی طرف ہو جائے۔خلوت یہ نہیں کہ بندہ بیٹھا تو تنہائی میں ہو اور اس کا دماغ دنیا جہاں کے خیالات کی آماجگاہ بنا ہو، اس صورت میں وہ خلوت نہیں جلوت ہے جبکہ ہم اس ظاہری خلوت میں بھی حقیقی خلوت کا ماحول پیدا کر دیتے ہیں۔ہمارے اس سوال پر کہ شہر اعتکاف اعتکاف کے معروف تصور سے بٹا ہواہے ان کا کہنا ہے کہ عام تصور جہالت کا پیدا کردہ ہے کہ اعتکاف میں منہ چھپا لیا جائے اور بات بھی اشاروں ، کنایوں میں کی جائے، اسلام میں ایسا تصور نہیں ہے، اس سلسلے میں انہوں نے حرمین شریفین کے اعتکاف کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ خود حضرت محمد (ص) کے دور میں مسجد نبوی میں صحابہ جس قسم کا اعتکاف بیٹھتے تھے اس کا جائزہ لے لیں۔ مسجد نبوی کا وہ حصہ جو ریاض الجنہ ہے وہاں حضور اکرم (ص) کے ساتھ دیگر اصحاب اعتکاف بیٹھے تھے جن میں اصحاب صفہ کے ستر صحابہ کرام بھی شامل تھے وہاں حضور (ص) ان کی تربیت فرماتے تھے۔ آج بھی ہزار ہا افراد اسی اجتماعی ماحول میں اعتکاف کی برکتیں سیمٹتے ہیں ۔لہذا اصل بات یہ ہے کہ اعتکاف میں اپنے آپ کو دیگر تمام امور سے ہجرت کرتے ہوئے اللہ اور دین کے امور میں خاص کر دیا جائے۔وعظ و نصیحت اور تلقین کچھ بھی خلاف سنت نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ہم نے اعتکاف کو ثواب برائے ثواب نہیں رہنے دیابلکہ اسے تعلیم، تربیت اور تزکیہ نفس کا ایسا ذریعہ بنا دیا ہے جس سے لوگ بہت کچھ سیکھ کر جاتے ہیں۔ ہمارے اس سوال پر کہ یہ اعتکاف گاہ کی بجائے تربیت گاہ محسوس ہوتی ہے تو قادری صاحب کا کہنا تھا کہ اعتکاف ہوتا ہی تربیت کے لئے ہے، اس لئے اس شہر اعتکاف کو تربیت گاہ کہہ سکتے ہیں۔
    [​IMG] [​IMG]
    شہر اعتکاف میں ملک اور بیرون ملک سے اس اجتماعی اعتکاف میں شرکت کرنے والوں کی تربیت کا بہت اچھا انتظام کیا جاتا ہے، تمام تربیتی امور ڈائریکٹر نظامت دعوت رانا محمد ادریس کے سپرد ہیں، انہوں نے ہمیں اعتکاف میں ہونیوالے تربیتی پروگرام کے حوالے سے آگاہ کیا۔انہوں نے کہا کہ معتکفین نماز تہجد ادا کرنے، سحری کھانے اور اشراق کی نماز ادا کرنے کے بعد کچھ دیر کے لئے آرام کرتے ہیں اور ساڑھے نو بجے اٹھ کر نماز چاشت ادا کرتے ہیں اور اس کے بعد تربیتی حلقہ جات کا انعقاد ہوتا ہے جس میں مطالعہ قرآن و حدیث کے بعد تصوف اور فقہ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ بنیادی قسم کی دعائیں اور دیگر وظائف وغیرہ یاد کروائے جاتے ہیں۔ ان حلقہ جات کے انعقاد کی ذمہ داری منہاج کالج آف شریعہ کے شاہین صفت، با کردار اور باصفا طلباء کے پاس ہوتی ہے جو تربیتی امور میں عملی طور پر حصہ لے کر معتکفین کی خدمت سرانجام دیتے ہیں اور ان کو درس قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ فقہ اور تصوف کی باریکیاں بڑے ہی شاندار طریقے سے سمجھاتے ہیں۔ حلقہ جات کے اختتام پر ساڑھے بارہ بجے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا ہر روز ایک تربیتی خطاب ہوتا ہے جس کو سننا ہر معتکف کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے مدلل اور خوبصورت خطاب کے بعد نماز ظہر اور قیلولہ ہوتا ہے، نماز عصر کے بعد فقہی مسائل کی نشست ہوتی ہے جس میں مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی صاحب معتکفین کے فقہی سوالات کے جوابات دیتے ہیں۔ شہر اعتکاف میں طاق راتوں کو خصوصی طور پر ذکر و نعت کی محافل کا اہتمام کیا جاتا ہے جن میں ایک عجیب وجدانی اور کیف و مستی کی کیفیت ہوتی ہے اور ذات حق کی تجلیات کے متلاشی گوہر مراد سے فیضیاب ہوتے ہیں۔

    اس شہر اعتکاف کی نگرانی مرکزی ناظم اعلیٰ ڈاکٹر رحیق احمد کے سپرد ہے جو تمام قسم کے انتظامی اور تربیتی امور کی مجموعی طور پر نگرانی کرتے ہیں ان سے جب میں نے اس اجتماعی اعتکاف کے حوالے سے بات چیت کی تو انہوں نے کہا کہ منہاج القرآن کا مرکز ایک دھوبی گھاٹ کی طرح ہے یہاں میلی کچیلی اورزنگ آلود روحوں کو دھو کر ان کو پاک صاف کر دیا جاتا ہے۔ لوگ یہاں آتے ہیں اور فیو ض و برکات سے اپنی جھولیاں بھر کر لے جاتے ہیں۔ انتظامی امور کے نگران مرزا خالداقبال کامریڈنے کہا کہ اتنی تعداد میں لوگوں کی رہائش اور خوراک کا انتظام یقیناً ایک مشکل امر ہے لیکن عزم مصمم اور ٹیم ورک کی بدولت ہم نے اس مشکل امر کو نہایت بخوبی سرانجام دیا ہے اور اللہ کا شکر ہے کہ معتکفین کو کسی قسم کی بھی کوئی شکایت نہیں ہے۔ اس اجتماعی اعتکاف میں معتکفین کے لئے کھانے کا انتظام شیخ محمد رفیع کے سپرد ہوتا ہے۔

    اس اجتماعی اعتکاف میں ہزاروں خواتین بھی شرکت کرتی ہیں جن کی تربیت کی ذمہ داری منہاج القرآن ویمن لیگ کے سپر د ہوتی ہے۔ خواتین کی اعتکاف گاہ قریب ہی منہاج کالج برائے خواتین میں قائم کی جاتی ہے جو کلوز سرکٹ ٹی وی کے شہر اعتکاف سے منسلک ہوتی ہے۔ اعتکاف میں شریک تمام خواتین کے تربیتی اور انتظامی امور کی ذمہ داری فریدہ سجاد کے پاس ہے جبکہ ان کے ساتھ مسز حمیرہ راشد اور رافعہ علی بھی کمیٹی کے ممبران کی حیثیت سے تمام امور بڑے احسن طریقے سے انجام دے رہی ہیں فریدہ سجاد نے بتایا کہ ہم نے اس شہر اعتکاف میں شریک خواتین کی تعلیم و تربیت کا بہت ہی اچھا اور مؤثر اہتمام کر رکھا ہے یہاں پر آنے والی تمام خواتین کے لئے روحانی تسکین کا سامان موجود ہے تربیتی حلقہ جات بھی ہوتے ہیں جن میں ان کو قرآن و حدیث کے مطالعہ کے ساتھ دیگر فقہی اور شرعی مسائل سے بھیٓآشنا کیا جاتا ہے۔ حلقہ جات کے انعقاد میں منہاج کالج فار ویمن کی شب زندہ دار طالبات اپنا کردار نہایت خوش اسلوبی سے ادا کرتی ہیں اور اپنی مہمان ہستیوں کی میزبانی کے فرائض خوبصورت انداز میں انجام دیتی ہیں۔ اعتکاف گاہ میں دیگر سہولیات کے ساتھ ڈسپنسری کا قیام بھی لازماً ہوتا ہے جہاں کسی اچانک حادثے سے نمٹنے کا بخوبی بندوبست ہوتا ہے اور معتکفین کو مفت دوا اور علاج کی سہولت میسر ہوتی ہے۔ اس شہر اعتکاف میں ایک عجیب روح پرور منظر ہوتا ہے ،روحانی طور پر سرشاری کی کیفیات اس شہر کے باسیوں کے چہروں پر بخوبی دیکھی جاسکتی ہیں۔ راتوں کے قیام، ورد وظیفے ، تلاوت قرآن اور نعت خوانی ہر وقت ہوتی رہتی ہے۔

    اس اجتماعی اعتکاف میں نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد شرکت کرتی ہے جو روحانیت کے فیوض سے جھولیاں بھر کر رخصت ہوتی ہے۔ رمضان المبارک کے اس آخری عشرے میں اس اعتکاف گاہ پر رحمتوں اور برکتوں کی خصوصی بارش ہوتی ہے۔ پتھر سے پتھر دل یہاں آکر نرم ہو جاتے ہیں۔ یہاں سے لوگ رحمتوں، برکتوں اور محبتوں کے خزانوں سے جھولیوں کو بھر کر روانہ ہوتے ہیں۔ یہاں پیار، محبت،ایثار، قربانی، رواداری اور ہمدردی کے جذبات کا مظاہرہ ہر وقت دیکھنے کو ملتا ہے۔ تحریک منہاج القرآن کا یہ اجتماعی اعتکاف پاکستان میں اپنی نوعیت کا واحد اعتکاف ہے جہاں اتنے زیادہ لوگ دس دن قیام کرتے ہیں اور دین کا صیحح فہم اور تربیت کے موتی لے کو اٹھتے ہیں ۔یہ اعتکاف تحریک منہاج القرآن کے دیگر امتیازات میں ایک سنہری باب کی حیثیت سے شامل ہے۔
     
  2. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شہرِاعتکاف 2011

    شہر اعتکاف 2011 کا آغاز ہوگیا​

    21 اگست 2011 ء

    تحریک منہاج القرآن کے زیراہتمام حرمین شریفین کے بعد اسلامی دنیا کا سب سے بڑا اعتکاف لاہور میں شروع ہوگیا۔ جامع المنہاج (بغداد ٹاؤن) ٹاؤن شپ میں آباد ہونے والے شہر اعتکاف میں الگ الگ جگہوں پر ہزارہا خواتین و حضرات عید کا چاند نظر آنے تک معتکف ہوگئے ہیں۔ شہراعتکاف میں معتکفین کو سہولیات دینے کے لئے وسیع پیمانے پر انتظامات کئے گئے ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا خطاب بیرون ملک سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے براہ راست نماز فجر کے بعد شروع ہوگا اور خطابات کا یہ سلسلہ آخری روزے تک جاری رہے گا۔ منہاج انٹرنیٹ بیورو اور منہاج پروڈکشن کے باہمی تعاون سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خطاب سمیت شہراعتکاف کی سرگرمیاں http://www.minhaj.tv پر براہ راست دکھائی جائیں گی۔ اس طر ح پوری دنیا کے کروڑوں مسلمان شہر اعتکاف میں بالواسطہ طور پر شریک ہوں گے۔ شہر اعتکاف میں مردوں کی طرف تین اور خواتین کی طرف دو LED سکرینوں کا انتظام کیا گیا ہے۔ معتکفین کے لئے وضو اور طہارت کا وسیع پیمانے پر انتظام کیا گیا ہے۔ سحری و افطاری کی تیاری کے لئے سیکڑوں افراد ڈیوٹی سرانجام دیں گے۔ سیکیورٹی کے لئے پولیس اہلکاروں کے علاوہ منہاج یوتھ لیگ اور مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کے ایک ہزار نوجوان مامور ہیں۔ تحریک منہاج القرآن کے ناظم اعلیٰ ڈاکٹر رحیق احمد عباسی، سربراہ اعتکاف 2011ء شیخ زاہد فیاض، سیکرٹری جواد حامد اور 58 انتظامی کمیٹیوں کے سربراہان ہمہ وقت شہر اعتکاف میں موجود ہیں تا کہ معتکفین کو کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
     
  3. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شہرِاعتکاف 2011

    تحریک منہاج القرآن کے شہر اعتکاف کا پہلا دن، شیخ الاسلام کا خصوصی خطاب

    22 اگست 2011 ء

    [​IMG]

    اعتکاف کے پہلے روز مؤرخہ 22 اگست 2011ء کو بعد از نماز فجر تزکیہء نفس، فہم دین، اصلاح احوال، توبہ اور آنسوؤں کی بستی، تحریک منہاج القرآن کے شہر اعتکاف میں شریک ہزاروں معتکفین و معتکفات سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے خصوصی خطاب فرمایا۔ آپ نے حقائق تصوف اور طرائق معرفت کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تصوف و احسان بنیادی طور پر نہ تو خالی ذکر و اذکار کا نام ہے اور نہ مخصوص طور و اطوار کا، ان میں سے بعض چیزیں اس کی فروع ہیں، جبکہ دوسری بعض چیزیں خرافات و بدعات ہیں۔ اصل تصوف تو انسان میں بنیادی سطح پر ایسی روحانی تبدیلی پیدا کرتا ہے جو اس کے جملہ اخلاق اور خصلتوں کو بدل ڈالے اور انسان مکارم اخلاق اور روحانی اقدار کا پیکر بن جائے۔ یہی خصلتیں اور بنیادی اخلاق سلوک و روحانیت کے باغ کے لئے زمین کا کام دیتے ہیں۔

    [​IMG]

    برطانیہ سے براہ راست ویڈیو کانفرنس کے ذریعے شہر اعتکاف میں شریک ہزارہا خواتین و حضرات سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری خطابات فرما رہے ہیں، جو منہاج ٹی وی ویب سائٹ www.Minhaj.tv کے ذریعے دنیا بھر میں براہ راست نشر بھی کئے جا رہے ہیں۔ یہ خطابات حسب معمول اعتکاف کے دس دن نماز فجر کے بعد اور نماز تراویح کے بعد ہو رہے ہیں۔ طاق راتوں میں محافل قرات و نعت بھی ہو رہی ہیں۔ یاد رہے کہ شہر اعتکاف میں ہونے والی جملہ محافل قرات و نعت اور خطابات منہاج ڈاٹ ٹی وی کے ذریعے براہ راست نشر ہوتے رہیں گے۔

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]
     
  4. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شہرِاعتکاف 2011

    لاہور میں منعقد ہونے والے دس روزہ شہرِ اعتکاف میں پہلے دن کا خطاب ، جسمیں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ نے اصل اسلامی تصوف کے بارے میں تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ ساتھ ہی آجکل کے جعلی تصوف کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ طالبینِ حق کیلئے یہ خطاب نور کی بہت سی راہوں کو روشن کرتا ہے, اس لنک پر ملاحظہ فرمائیں :
    عنوان: حقائقِ تصوف اور طرائقِ معرفت
    http://www.youtube.com/user/deenislam365
     
  5. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شہرِاعتکاف 2011

    جزاک اللہ العظیم

    اکرم بھائی آپ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ
     
  6. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شہرِاعتکاف 2011

    [​IMG]
    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_3rd-Day_20110824_12.jpg

    تحریک منہاج القرآن کے شہر اعتکاف کے تیسرے روز مؤرخہ 24 اگست 2011ء کو بھی تمام معتکفین و معتکفات شیڈول کے مطابق ذکر و اذکار، تلاوت قرآن مجید اور اللہ تعالیٰ کی بندگی و عبادت میں مصروف رہے۔ اور تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں کثرت سے درود و سلام بھیجنے کا عمل بھی جاری رہا۔ بعد از نماز فجر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے سلوک و تصوف کے موضوع پر خطاب کیا۔

    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_3rd-Day_20110824_10.jpg
    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_3rd-Day_20110824_08.jpg

    شیخ الاسلام نے "سلوک و تصوف" کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تصوف کی اصطلاحات میں اصل حیثیت اور مقام شیخ کو حاصل ہے۔ "شیخ" ہونا نہ کاروبار اور نہ ہی وراثت ہے۔ بلکہ تصوف میں احسان، ایمان اور ایقان کے تقاضے پورے کرنے والا کوئی بھی شخص مقام و مرتبہ حاصل کر سکتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ایک سادہ آدمی تعلیم حاصل کرتے کرتے ڈاکٹر بن گیا۔ وہ دنیا کا معتبر اسکالر اور سائنسدان بن گیا۔ محنت کرتے کرتے وہ دنیا کا بہت بڑا تاجر بن گیا۔ آپ نے کہا کہ تصوف میں جو شخص بھی محنت سے ولائت کے تقاضے پورے کرے گا، وہ اس کو حاصل کر لے گا۔ شیخ ہونے کے لیے گدی نشین ہونا لازمی نہیں۔ بلکہ جس نے بھی شریعت و حقیقت اور طریقت کے تقاضے پورے کر لیے، وہ شیخ بن گیا۔

    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_3rd-Day_20110824_09.jpg
    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_3rd-Day_20110824_15.jpg
    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_3rd-Day_20110824_16.jpg
    آپ نے کہا کہ مرید اور ارادت کے حوالے سے ہمارے ہاں ایک عجیب سا تصور رائج ہو گیا ہے۔ مرید کا معنی ارادہ کرنے والا، تصوف کی اصطلاح میں مرید اس کو کہتے ہیں، جو اللہ کا ارادہ کرے اور جس کو اللہ چاہتا ہے وہ مراد ہوتا ہے۔ تصوف میں جو شخص دنیا کے ساری غلاظتوں کو نکال کر صرف اللہ کا ارادہ کر لے تو اس کو مرید کہتے ہیں۔ جب بندہ آخرت اور جنت کا دھیان بھی خیال سے نکال دے تو پھر وہ مرید بنتا ہے۔ یہ اس کا حقیقی معنی ہے۔

    مرید کا ایک مجازی اطلاق بھی ہے۔ مجازاً شیخ کے شاگردوں پر بھی مرید کا اطلاق ہوتا ہے۔ اے میرے شیخ میں تیری صحبت، تیرے حلقہ اور تیری مجلس میں آتا ہوں، تو مجھے یہ سکھا کہ اللہ کا طالب کیسے بننا ہے۔ تو شیخ وہ ہے جو مرید کو اللہ کی طرف متوجہ کرنے کی راہ دکھاتا ہے۔ اس لیے مرید کی نسبت اور اضافت مجازی طور پر شیخ کی طرف کر دی جاتی ہے۔

    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_3rd-Day_20110824_14.jpg
    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_3rd-Day_20110824_03.jpg
    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_3rd-Day_20110824_13.jpg
    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_3rd-Day_20110824_11.jpg

    شیخ الاسلام نے کہا کہ آج وقت آ گیا ہے کہ ایسے مغالطوں کو دور کیا جائے۔ حضور غوث الاعظم نے اپنی کتاب غنیتہ الطالبین کے باب 23 میں لکھا ہے۔ کہ میں نے لفظ "مرید" قرآن پاک سے اخذ کیا ہے۔ شیخ کا مرید ہونا اس لیے مرید کہلاتا ہے کہ جو بندے کو دنیا کی مریدی سے نکال کر مولا کی مریدی کی طرف لے جائے۔ قرآن میں ہے۔

    وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ

    (اے میرے بندے!) تو اپنے آپ کو ان لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے رب کو یاد کرتے ہیں اس کی رضا کے طلب گار رہتے ہیں۔

    الكہف، 18 : 28

    ارادت، مرید اور مراد کے باب میں یہی تعلیمات سلطان الہند حضرت خواجہ اجمیری اور یہی امام عارفاں حضرت سیدنا بہاؤ الدین شاہ نقشبند کی ہیں۔

    جب تک بندہ اللہ کی محبت کا اس طرح ارادہ نہ کرے تو اس وقت تک وہ مرید نہیں ہو سکتا۔

    دوسری جانب ہمارے ہاں یہ امتیاز بالکل ختم ہو گیا ہے کہ شیخ اللہ کی طرف جانے والا وسیلہ ہے، مراد نہیں۔


    بدقسمتی سے آج ایک سازش کے تحت صدیوں سے چلے آنے والے صحیح اور راسخ عقیدہ اہل سنت کو ختم کیا جا رہا ہے۔ شرک اور بدعت کے نام پر عقیدہ کو ختم کیا جا رہا ہے۔ کئی لوگوں نے عقیدہ صحیحہ کو ختم کرنے کے لیے ایسے موضوعات کو بیان کرنا ہی چھوڑ دیا، جس میں توسل، شفاعت، میلاد، مولد النبی، نعت خوانی، اہل بیت، شہادت امام حسین، مقام صحابہ، مقام اولیاء، مقام صالحین اور کئی اور موضوعات شامل ہیں۔ مخالفین اپنے وعظ میں ان موضوعات کی بجائے کچھ اور ہی بیان کر رہے ہیں۔ ادھر جب نوجوان نسل ان کو سنتی ہے تو ان کو طرف راغب ہو جاتی ہے اپنے عقائد کا تو ان کو پتہ ہی نہیں، تو پھر یہ عقیدہ کیسے پروان چڑھے گا۔

    آپ نے کہا کہ یہ تصور بھی غلط ہے کہ تصوف میں ہاتھ میں ہاتھ دینا ضروری ہے۔ تصوف میں ہر قدم اور ہر شے اللہ کے لیے ہوتی ہے۔ بیعت ایک معاہدہ اور عہد ہے، جو بندے اور اللہ کے درمیان ہے۔ جسمانی طور پر یہ لازمی نہیں ہے کہ ہاتھ میں ہاتھ دے کر ہی عہد کیا جائے۔ یہ رائج رسوم میں ایک رسم ہے جو جائز تو ہے لیکن اسے واجب سمجھنا درست نہیں

    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_3rd-Day_20110824_05.jpg

    صحابہ کرام کے دور میں عرب میں ہاتھ میں ہاتھ دینا ایک کلچر تھا۔ جس طرح صحابہ نے بیعت رضوان کی، جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بھی ذکر کیا۔ اس طرح عقبی میں مناء کے میدان میں بیعت عقبیٰ ثانیہ، ثالثہ ہوئیں۔ اس کے علاوہ صحابہ کرام کی مختلف بیعتیں ہیں۔ اس طرح سات، آٹھ قسموں کی بیعت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی ثابت ہیں۔ ان میں سے ہر بیعت مریدی اختیار کرنے کے لیے نہیں تھی۔ لیکن یہ ایک عہد ہوتا تھا۔ لہذا اگر کوئی ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کرتا ہے تو یہ جائز ہے۔ لیکن اگر کوئی ایسا نہ کرے، یعنی ہاتھ میں ہاتھ نہ بھی دے تو وہ غلط نہیں ہے۔ ایسا نہ کرنے والا شخص بھی مرید ہو سکتا ہے۔ شیخ ہو سکتا ہے۔ کیونکہ یہ طریقہ واجب نہیں ہے۔ یہ طریقہ حضور غوث الاعظم اور شاہ نقشبند سمیت بہت سے آئمہ کی کتب میں ہے۔

    حضرت داتا گنج بخش کے استاد امام ابو القاسم قشیری اور ان کے شیخ امام ابو عبدالرحمن سلمی کی کتب میں بیعت کے لیے ہاتھ میں ہاتھ دینے کا طریقہ ہی رائج نہیں۔

    حضرت شقیق بن ابراہیم بلخی جن میں سے تمام سلاسل ملتے ہیں، انہوں نے حضرت ابراہیم بن ادھم کی صحبت اختیار کی لیکن ہاتھ میں ہاتھ نہیں دیا، بلکہ صرف مجلس سے شیخ مان لیا۔


    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_3rd-Day_20110824_04.jpg

    شیخ کے لیے اجازت نہیں کہ وہ چل کر لوگوں کے پاس جائے اور لوگوں کو مرید بناتا پھرے۔ شیخ وہ ہے جس کے پاس مرید خود چل کر آئیں اور دس میں سے کسی ایک کو مرید بنائے اور باقی نو کو چھوڑ دے۔ انہیں اپنی مجلس میں فیض لینے کا کہے۔ جو زہد نہیں سکھاتا، وہ کون سا شیخ ہے۔

    آج ہم نے ٹونے ٹوٹکے کا نام تصوف بنا لیا ہے۔ اس شیخ کی صحبت اور مجلس جائز ہے، جو عالم ہو، زاہد ہو، ظاہر اور باطن میں کامل ہو۔ کیونکہ یہ شیخ کی ذمہ داری ہے، جب مرید اس کی ارادت میں آ جائے تو اس کو سنتیں بھی سکھائے اور فراض بھی سکھائے۔ الا ماشاء اللہ آج کے نام نہاد شیوخ کو تو نماز میں سنتیں، واجبات اور فرائض کا بھی علم نہیں رہا۔ مریدوں کی تلاش میں ملک ملک مارا مارا پھرنا، ایسے کسی تصوف کی اسلام میں گنجائش نہیں ہے۔

    شیخ الاسلام کا خطاب 7 بج کر 25 منٹ پر ختم ہوا۔


    http://www.youtube.com/watch?v=3nzCL0fkXfk&feature=player_embedded
     
  7. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شہرِاعتکاف 2011

    اعتکاف کے دوسرے روز مؤرخہ 23 اگست 2011ء کو بعد از نماز فجر تزکیہء نفس، فہم دین، اصلاح احوال، توبہ اور آنسوؤں کی بستی، تحریک منہاج القرآن کے شہر اعتکاف میں شریک ہزاروں معتکفین و معتکفات سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے سلوک و تصوف کے موضوع پر خطاب کیا۔ آپ نے کہا کہ سلوک تصوف میں یہ بات صوفیاء و عرفاء کے درمیان طے شدہ ہے کہ سلوک الی اللہ میں بہت سی منزلیں آتی ہیں۔ بہت سے کیفیات، احوال اور مقامات آتے ہیں۔ جن میں سب سے زیادہ ناپائیدار چیز کیفیت ہوتی ہے۔

    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_1st-Day_20110823_07.jpg
    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_1st-Day_20110823_27.jpg
    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_1st-Day_20110823_25.jpg

    انہوں نے کہا کہ جب انسان اللہ کی راہ میں ذاکر ہوتا ہے تو اس کے دل پر انوار کی واردات ہوتی ہیں۔ اور جب مناجات کرتا ہے تو اس کے دل پر دعوات و مناجات وارد ہوتے ہیں۔ انسان اللہ کی جتنی اطاعت و عبادات کرتا چلا جاتا ہے تو اسے فرائض و نوافل سب میں تجلیات نصیب ہوتی ہیں۔

    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_1st-Day_20110823_22.jpg

    شیخ الاسلام نے کہا کہ جیسے انسان کی شخصیت میں پانی کی ٹھنڈک اثر دکھاتی ہے، اسی طرح اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جب بندہ راضی ہو جائے تو رضا کے اثرات حلاوت و لذت کے طور پر انسان کو ملتے ہیں، جس سے کیفیت بنتی ہے۔ پھر جب وہ عبادت کرتا ہے اور کلام الٰہی کی تلاوت کرتا ہے تو اس کو کیفیات نصیب ہوتی ہیں۔

    اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

    إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَO

    بیشک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر انہوں نے استقامت اختیار کی تو ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گےo

    صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب آپ کی مجلس میں ہوتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے جنت و دوزخ ہمارے سامنے ہیں۔ جب گھر واپس جاتے ہیں تو ساری کیفیت جاتی رہتی ہیں۔ اس پر آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ جب کیفیت آئے اور جائے تو یہ ایمان کی حالت ہے۔ اس سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔


    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_1st-Day_20110823_30.jpg
    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_1st-Day_20110823_21.jpg
    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_1st-Day_20110823_24.jpg

    جب انسان پر کیفیت وارد ہوتی ہے تو پھر اس پر نور ٹپکتا ہے۔ کئی ایسے ہوتے ہیں، جن پر انوار کا ایک ایک قطرہ ٹپکتا ہے۔ ان میں سے کئی لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں، جن پر نور برستا ہے۔ جن پر نور کی برسات ہوتی ہے۔ ان میں سے بعض ایسے خوش نصیب ہیں، جن کا دل نور کی وجہ سے مالاء اعلیٰ بن جاتا ہے۔ یہ انسان کی کیفیات ہیں۔ کیونکہ جب انسان میں صرف صحبت کا اثر ہو اور اپنی ریاضت نہ ہو تو پھر اس کی شخصیت میں انوار و کیفیات کا اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔

    پھر آقا علیہ السلام نے کہا کہ جو کیفیت میری مجلس میں ہوتی ہے اگر وہ گھر جا کر بھی برقرار رہے تو پھر تمہارا حال یہ ہو جائے تو تم گلیوں میں چلو اور دائیں، بائیں ملائکہ اتریں اور وہ تم سے مصافحہ کرنے کے لیے قطار اندار قطار انتظار کریں۔

    آپ نے کہا کہ اگر کیفیت زیادہ دیر تک رہے تو اس کو حالت کہتے ہیں۔ روحانی اصطلاح میں ایسے شخص کو صاحب حال کہتے ہیں۔

    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_1st-Day_20110823_32.jpg
    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_1st-Day_20110823_04.jpg
    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_1st-Day_20110823_05.jpg

    شیخ الاسلام نے کہا کہ جب انسان اللہ کے تعلق میں مست رہے تو اس کو کوئی برا بھلا بھی کہتا رہے تو اس کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ کیونکہ جو لطف اس کو لوگوں کی تعریف اور مدحت سے ملنا تھا، اس سے کروڑہا درجے بہتر اللہ کی طرف سے ملتا ہے۔ اس لیے ان کو لوگوں کی پرواہ نہیں ہوتی۔

    دو عالم سے کرتی ہے بے گانہ دل کو
    عجب چیز ہے لذت آشنائی

    کبھی کبھی انسان کے "حال" میں اونچ نیچ ہوتی ہے اور تغیر بھی آتا ہے۔ دوسری جانب شیطان اس بات پر خوش ہوتا ہے کہ انسان ساری زندگی محنت کرے، لیکن اس کو ذوق نہ ملے۔ یا وہ اس پر خوش ہوتا ہے کہ بندے کو عبادت کی توفیق ہی نہ ملے۔ جو انسان غافل ہے شیطان اس سے مطمئن ہے۔

    شیخ الاسلام نے کہا کہ جو آدمی غفلت چھوڑ دے اور ذاکر ہو جائے تو اس کے لیے شیطان تڑپنے لگ جاتا ہے۔ جوں جوں بندہ سلوک الی اللہ کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے توں توں شیطان کے حملے بھی بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ شیطان کے حملے اس وقت شکست خوردہ ہو جاتے ہیں، جب بندہ صاحب مقام ہو جاتا ہے تو اسے صاحب مقام بننے کے بعد اپنے مقام کی محافظت کرنی پڑتی ہے۔

    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_1st-Day_20110823_10.jpg
    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_1st-Day_20110823_15.jpg
    پھر انسان کو اپنے اندر مراقبہ، محاسبہ، مجاہدہ، مقافحہ اور مکالمہ کرنا ہوتا ہے۔ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کہتے ہیں کہ ہم تو دن بھر کے اعمال کا بھی محاسبہ نہیں کرتے۔ ہم سے پہلے لوگوں کا یہ عالم تھا کہ وہ دن بھر کے خیالات کا بھی محاسبہ کرتے تھے۔

    آپ نے کہا کہ سلوک و تصوف کی راہ میں انسان اس وقت تک پختہ نہیں ہوتا، جب تک اس کی بنیاد مضبوط نہ ہو۔ سلوک و تصوف کی راہ میں بنیادیں جتنی مضبوط ہوں گی اوپر کی منزلیں بھی اتنی ہی مضبوط بنتی چلی جائیں گی۔ ورنہ وہ آگے جا کر دھڑام سے نیچے گر جائے گا۔ مضبوط بنیاد ہونے پر انسان کو پتہ چلتا ہے کہ کیفیات کے بعد حال تک کیسے جانا ہے۔ پھر نفس کے حملوں سے کیسے بچنا ہے۔ نفس امّارہ کے حملوں سے کیسے بچنا ہے۔ نفس کی پہچان ہوگی تو حملے کی پہچان ہوگی۔

    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_1st-Day_20110823_08.jpg
    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_1st-Day_20110823_11.jpg
    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_1st-Day_20110823_06.jpg

    انسان کی طبعیت پر نفس کبھی شہوت، کبھی کبر اور کبھی غیض و غصہ سے حملہ آور ہوتا ہے۔ اب اس کی پہچان کیسے ہوگی۔ پھر نفس لوامہ کے بھی حملے ہیں۔ نفس مُلہمہ کے بھی اتار چڑھاؤ ہیں، یہ نفس مطمئنہ تک پہنچنے کے سب مراحل ہیں۔ اس پورے سفر کو طے کرنے کے لیے سب سے زیادہ ضروری علم ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تصوف میں جہالت کے ساتھ ان کا کام چل جائے گا تو وہ بہکاوے، گمراہی اور مغالطے میں ہیں۔ علم صحیح اور علم نافع کے بغیر کوئی تصوف نہیں ہے۔ روحانی علم کے بغیر نہ مرض کی تشخیص ہوتی ہے اور نہ علاج
    ۔

    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_1st-Day_20110823_20.jpg

    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_1st-Day_20110823_14.jpg

    آپ نے کہا کہ جن لوگوں نے طریقت اور تصوف کو کاروبار بنا لیا ہے تو وہ مریدوں کے سامنے علم کی نفی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ علم تو علماء کا کام ہے، ہم تو حال والے لوگ ہیں۔ یہ جہالت کی انتہاء ہے اور یہ مرض پاکستان اور ہندوستان میں عام ہے۔ آپ نے کہا کہ طریقت و تصوف ایک فن ہے۔ اس فن کے ماہر اولیاء و صوفیاء ہیں۔ جو علم کے بغیر نامکمل ہیں۔

    آپ نے کہا کہ پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش کے لوگ سن لیں کہ شریعت کے بغیر کبھی طریقت نہیں ملتی۔ جو ایسا دعویٰ کرے وہ دجال ہے۔ وہ جھوٹا اور کاذب ہے۔ ایسے شخص کا سوائے جہنم کے کوئی ٹھکانہ نہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیشیوں نے تصوف کو تعویذ اور رکھ گنڈے کا نام دے دیا ہے۔

    حضور غوث الاعظم، بایزید بسطامی، جنید بغدادی، داتا گنج بخش علی ہجویری نے فرمایا کہ شریعت کے بغیر عمل کا دعویٰ باطل ہے۔ شریعت کے بغیر دعویٰ طریقت کرنے والا شیطان اور دجال ہے۔ وہ پیر نہیں وہ شیطان ہے۔ شیخ الاسلام نے کہا ہے کہ بغیر عمل کے پیری کا دعویٰ کرنے والے دھوکے باز ہیں۔ اعمال صالح کے بغیر صرف نسبت سے بیڑا پار کرنے کا تصور اولیائے کرام کے ہاں نہیں تھا یہ تصور جاہلوں اور دنیا پرستوں کا ہے۔ شریعت پر عمل کئے بغیر جو طریقت کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا، کاذب اور شیطان ہے۔ تصوف حسن اعمال، حسن احوال اور حسن اخلاق کا نام ہے جبکہ ہمارا معاشرہ حقیقت تصوف کو سمجھنے کے حوالے سے دو انتہاؤں پر کھڑا ہے، ایک طرف تصوف کا کلیتاً انکار ہے جبکہ دوسری طرف اسکے نام پر کاروبار کیا جا رہا ہے۔ بدقسمتی کہ آج تعویذ گنڈوں اور پھونکوں کو تصوف سمجھ لیا گیا ہے اور یہ تصور پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش میں بکثرت پایا جاتا ہے
    ۔
    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_1st-Day_20110823_17.jpg
    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_1st-Day_20110823_16.jpg

    انہوں نے کہا کہ نیک اعمال کرنے والے شخص کو اللہ کی طرف سے خاص کیفیت نصیب ہوتی ہے اور یہ کیفیت کچھ دیر کیلئے آ کر چلی جاتی ہے۔ صاحب حال وہ ہے جس پر کیفیت زیادہ دیر کیلئے رہے اور صاحب مقام کو اللہ کے انوار و تجلیات کی کیفیت میں دوام حاصل ہو جاتا ہے۔ صاحب مقام ہونے سے پہلے سالک پر شیطان، نفس اور دنیا کا حملہ شدید تر ہو جاتا ہے۔
    انہوں نے کہا کہ علم نافع صاحب مقام کی حفاظت کرتا ہے۔ آنے والے وقت میں علم نافع کے بغیر برتری کا کوئی تصور نہیں ہے، اس لئے جاہل ملاؤں اور دنیا دار پیروں سے دامن بچا کر اہل علم اور حقیقی اللہ والوں کی صحبت اختیار کی جا نی چاہیے تاکہ ایمان کی حفاظت کے ساتھ ساتھ روحانی ترقی کا عمل جاری رہ سکے۔

    شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کہا کہ آج مادیت کے غلبہ کے باعث ہم دن بھر کے اعمال کا رات کو محاسبہ نہیں کرتے جبکہ ہمارے اسلاف دن بھر آنے والے خیالات اور وسوسوں کا بھی محاسبہ کیا کرتے تھے اور خیالات میں ہلکے سے بگاڑ پر اتنے متفکر ہو جاتے تھے کہ عبادت اور مجاہدہ سے اس خیال سے چھٹکارا پانے کی محنت کیا کرتے تھے۔

    شیخ الاسلام کا خطاب سوا 7 بجے ختم ہوا۔ خطاب کے اختتام پر آپ نے دعا کرائی۔


    http://www.youtube.com/watch?feature=player_embedded&v=lJ7jiLvqG5o
     
  8. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شہرِاعتکاف 2011

    السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ۔
    صدیقی بھائی اللہ تعالیٰ آپکو برکتیں اور سعادتیں عطا فرمائے، آپکا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے شہر اعتکاف کے نورانی اور ایمان افروز لمحات کو یہاں شیئر کیا۔


    پوسٹ نمبر 6 میں چند Typing Mistakes کی طرف توجہ فرمائیں اور ان کو ایڈٹ کردیں:

    درست لفظ ہے: مغالطوں

    درست عبارت ایسے ہونی چاہیے:
    بیعت ایک معاہدہ اور عہد ہے، جو بندے اور اللہ کے درمیان ہے۔ جسمانی طور پر یہ لازمی نہیں ہے کہ ہاتھ میں ہاتھ دے کر ہی عہد کیا جائے۔ یہ رائج رسوم میں ایک رسم ہے جو جائز تو ہے لیکن اسے واجب سمجھنا درست نہیں۔

    پوسٹ نمبر 7 میں چند Typing Mistakes :

    درست لفظ ہے: محافظت

    درست لفظ ہے: امّارہ

    درست لفظ ہے: مُلہمہ

    براہ مہربانی شہر اعتکاف کے متعلق جو بھی معلومات آپکے پاس ہوں انکو شیئر کرتے رہیں۔ انشاءاللہ میں بھی بساط بھر اپنا حصہ ڈالتا رہوں گا، کہ یہ عمل کل روز قیامت ہم سب کیلئے نفع کا باعث ہوگا انشاء اللہ تعالیٰ۔
    جزاک اللہ خیراً ۔ والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
    :91: :dilphool::dilphool::dilphool:
     
  9. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شہرِاعتکاف 2011

    محترم محمد اکرم بھائی اللہ پاک آپ پر اپنی خصوصی رحمتوں و برکتوں‌کا نزول فرمائے۔۔۔۔۔آپ نے جن اغلاط کی نشاندھی کی تھی اُن کی تصحیح کر دی گئی ہے۔۔۔۔آپ کا بہت بہت شکریہ حوصلہ افزائی اور راہ نمائی کا۔۔۔۔۔
    باقی انشاء اللہ یہ سلسلہ جاری رہے گا
     
  10. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شہرِاعتکاف 2011

    تحریک منہاج القرآن کے شہر اعتکاف کا چوتھا دن، شیخ الاسلام کا خصوصی خطاب


    شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 24 رمضان المبارک کی صبح نماز فجر کے بعد شہر اعتکاف کے ہزاروں معتکفین و معتکفات سے لندن سے بذریعہ ویڈیو ٹیلی کانفرنس خطاب کیا۔ آپ نے "حقائق تصوف اور طرائق معرفت" کے سلسلہ میں "سلوک الی اللہ، علم اور احکام شریعت" کے موضوع پر خطاب کیا۔

    [​IMG]
    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_4th-Day_20110825_06.jpg

    شیخ الاسلام نے کہا کہ سلوک الی اللہ کا سفر ایک مسلسل ہجرت ہے۔ جس کے مختلف مقامات ہیں۔ سب سے پہلے طہارت سے اطاعت کی طرف ہجرت ہے، پھر استقامت کی طرف، پھر ریاضت کی طرف ہجرت، پھر معرفت، محبت اور پھر قربت کی طرف ہجرت کا سفر ہے۔ احادیث مبارکہ کے مطابق آقا علیہ السلام ہر روز 70 اور بعض روایات کے مطابق 100 مرتبہ استغفار کرتے۔ اس پر بعض محدثین اور اہل اللہ و اولیاء نے تشریح کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو معصوم تھے، استغفار کس کے لیے کرتے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہر روز آپ کے 100 درجے شان بلند ہوتی۔ یہ آقا علیہ السلام کا مقام عبدیت تھا، جس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے پچھلے مقام کو اگلے مقام سے فروتر اور بلند دیکھ کر استغفار کرتے۔

    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_4th-Day_20110825_07.jpg
    شیخ الاسلام نے کہا کہ اہل اللہ ہر لمحہ اپنے حال کی بہتری کا انتظام کرتے ہیں، کیونکہ جوں جوں وقت بیت رہا ہے تو عمر کم ہو رہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عمر بڑھ رہی ہے لیکن اہل اللہ کے نزدیک عمر وہ ہے جو باقی رہ گئی۔ یاد رکھ لیں کہ تصوف میں سلوک کا سفر اس وقت شروع نہیں ہوتا جب تک انسان اپنے حال سے باخبر نہ ہو۔ بیداری، روشنی اور غفلت کی نیند اندھیرا ہے۔ جن لوگوں کے من میں اندھیرے کا راج رہتا ہے تو انہیں خبر ہی نہیں ان کے من میں کیا کیا غلاظتیں اور خرابیاں ہیں، جنہوں نے انسان کو اندھیرے میں گھیرا ہوا ہے۔ لہذا صوفیاء کہتے ہیں کہ سلوک میں پہلا سفر اپنے حال کی خبر رکھنا ہے۔ جب اپنے حال کی خبر ہوگی تو انسان کو فکر ہوگی، اور جب فکر ہو گی تو انسان تدبیر کرتا ہے۔ اس تدبیر سے پہلے عملی انتباہ کرتا ہے۔ پھر انسان کی دوسری ہجرت توبہ کی طرف ہے۔ پھر انسان کہتا ہے کہ

    رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ

    اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی؛ اور اگر تو نے ہم کو نہ بخشا اور ہم پر رحم (نہ) فرمایا تو ہم یقیناً نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گےo

    آپ نے کہا کہ تصوف میں ان لوگوں کو کذاب کہا گیا ہے، جو سلوک کا تصوف بغیر علم کے طے کرنے کا کہتے ہیں۔ جو لوگ طریقت میں علم کو پس پشت ڈال کر محض طریقت اور تصوف کی بات کرتے ہیں تو وہ جھوٹ بولتے اور دین کو جھٹلاتے ہیں۔ آقا علیہ السلام نے دین میں فہم حاصل کرنے کو سب سے بڑی عبادت قرار دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف سے ایک ہزار عابد اور عبادت گزار ہوں مگر علم سے خالی ہوں تو ان سے ایک فقیہ، جس کو اللہ نے علم دیا تو وہ ان ہزار عابدین سے افضل ہے۔ کیونکہ بغیر علم کے شیطان ان عبادت گزاروں کو ہلاکت میں ڈال سکتا ہے۔


    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_4th-Day_20110825_03.jpg

    شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کہا کہ قرآن مجید نے فیصلہ کر دیا کہ بے عمل کو عالم کہتے ہی نہیں۔ صرف وہی لوگ عالم ہوتے ہیں، جن کا قلب اللہ کی خشیت سے لرزہ لرزہ ہو۔ عالم اس وقت تک نہیں بنتا جب تک علم نافع نہ ہو اور آقا علیہ السلام نے علم نافع نہ ہونے سے پناہ مانگی ہے۔ قیامت کے دن اللہ پاک عالم اور عابد کو کھڑا کریں گے۔ جو مخلص عبادت گزار ہوں گے، ان کو جنت میں بھیج دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ عالم باعمل کو روک لے گا۔ اس کو کہا جائے گا کہ تجھے اس لیے روکا ہے کہ جن جن لوگوں کو تو نے زندگی میں علم سکھایا تھا تو ان کی شفاعت کر کے جنت میں اپنے ساتھ لے جا۔


    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_4th-Day_20110825_04.jpg

    آج جن لوگوں کے پاس نہ علم ہے اور نہ عمل، وہ سالک، نہ فقیر اور نہ پیر ہیں، ان کا تصوف سے دور کا بھی واسطہ نہیں، بلکہ ایسے لوگوں کی صحبت اور مجلس میں بیٹھنا ہلاکت اور بربادی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ آج ہم تصوف کو علم سے بالکل جدا سمجھنے لگ گئے ہیں۔ حضور داتا گنج بخش کی کتاب "کشف المحجوب" کا پہلا باب علم پر ہے۔ غور طلب بات ہے کہ کتاب سلوک و تصوف پر ہے، لیکن آغاز علم کے باب سے ہے۔ کیونکہ تصوف کا سارا خلاصہ خشیت الٰہی کا حاصل کرنا ہے۔ کوئی شخص اس وقت تک صاحب حال نہیں ہو سکتا، جب تک وہ صاحب "قال" نہ ہو۔

    امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس نے علم فقہ حاصل کیا اور علم تصوف سے محروم رہا تو وہ شخص فاسق و فاجر ہوگیا۔ جس نے علم تصوف حاصل کیا اور احکام شریعت سے عاری رہا تو وہ شخص زندیق اور ملحد ہو گیا۔ جس نے علم شریعت اور علم طریقت، علم زہد اور تصوف دونوں کو جمع کیا تو وہ شخص فلاح پا گیا۔


    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_4th-Day_20110825_08.jpg

    شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ وہ لوگ جنہوں نے تصوف کو عجمی قرار دے رکھا ہے، ان کا یہ تصور سراسر جہالت پر مبنی ہے۔ انہوں نے صوفیاء کو پڑھا ہی نہیں۔ وہ تصوف کو خلافِ شریعت سمجھ رہے ہیں، جو بہت بڑی جہالت اور ضلالت و گمراہی ہے۔

    حضرت سیدنا عثمان نیشاپوری، ان کی وفات 298 ھجری میں ہوئی اور وہ موسسینِ تصوف میں سے ہیں، آپ فرماتے ہیں کہ جس نے اپنے ظاہر و باطن پر سنتِ مصطفیٰ کی حکومت کر لی تو اللہ رب العزت اس پر حکمت کے دروازے کھول دیتا ہے۔

    حضرت ابوالحسن ہواری مامون اکابر صوفیاء میں سے تھے، امام بخاری کے ہم زمانہ تھے، ان کی وفات 230 ہجری میں ہوئی، فرماتے ہیں کہ جو شخص اتباع سنت کے خلاف عمل کرے، اس شیخ کی کوئی تعمیل نہیں کرنی چاہیے۔ اس شخص کی ہر بات کو رد کر دیا جائے۔


    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_4th-Day_20110825_10.jpg

    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_4th-Day_20110825_09.jpg

    آپ نے کہا کہ تصوف کو بدعت کہنا بدبختی ہے بلکہ تصوف تو روح قرآن ہے، روح سنت رسول ہے، یہ روح صحابہ ہے۔ تصوف وہ نور ہے جو پردے اٹھا دیتا ہے، اس نور کا نام تصوف و طریقت ہے۔ جو نور انسان کو تاریکی سے نکال کر روشنی دیتا ہے، اس کا نام تصوف ہے۔ یہ انسان کے اندر گندگی کو ختم کر کے نور کی روشنی پیدا کرتا ہے۔ تصوف میں امام غزالی جیسے بڑے بڑے علماء لوگوں کے احوال کو سنوارتے تھے۔ حضرت جنید بغدادی ہوں یا سری سقطی، داتا گنج بخش علی ہجویری ہوں یا بابا فرید گنج شکر، سب نے تصوف کے ذریعے ہی لوگوں کو عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عشق خدا کے جام پلائے۔ اس لیے تصوف کو خارجی چیز، ہندوستانی یا ایرانی پودا سمجھنا بذاتِ خود بدعت ہے۔

    علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کتاب "الاستقامہ" کے جز اول، صفحہ 87 میں شیخ شہاب الدین سہروردی کے طریق سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ حضور غوث الاعظم نے انہیں کہا کہ ابن تیمیہ جو تم کتابیں پڑھنا چاہتے ہو یہ علم قبر کا سامان نہیں ہیں۔ اب ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا کہ حضور غوث الاعظم نے کشف سے میرے دل کا حال جان لیا۔

    آخر میں شیخ الاسلام نے کہا کہ سلوک و تصوف کی راہ میں آج مشائخ، شاگردوں اور تلامذہ پر یہ لازم اور بھاری ذمہ داری عائد ہے کہ وہ علم اور عمل کے ساتھ تصوف کی تعلیم کو عام کریں۔

    شیخ الاسلام کا خطاب 7 بجے ختم ہوا۔


    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    خطاب کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    http://www.youtube.com/watch?v=K67kFlg7u74&feature=player_embedded
     
  11. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شہرِاعتکاف 2011

    تحریک منہاج القرآن کے شہر اعتکاف کا پانچواں دن، شیخ الاسلام کا خصوصی خطاب
    http://www.minhaj.org/images-db4/Jumatul-Wida_20110826_03.jpg
    http://www.minhaj.org/images-db4/Jumatul-Wida_20110826_09.jpg

    تحریک منہاج القرآن کے شہر اعتکاف میں مورخہ 26 اگست 2011ء کو جمعۃ الوداع کا روحانی اجتماع ہوا جس میں معتکفین و معتکفات کے علاوہ ہزاروں عشاقان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شرکت کی۔ جمعۃ الوداع کے موقع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تصوف کے موضوع پر خصوصی خطاب کیا۔ آپ نے کہا ہے کہ امت مسلمہ کے زوال کی بنیادی وجہ علم کے کلچر سے منہ موڑ لینا ہے۔ مسلمان اس وقت تک عروج کی طرف گامزن نہیں ہو سکتے جب تک علم کے حصول کو پہلی ترجیح نہیں بنا لیتے۔ معاشرے میں پائی جانیوالی تنگ نظری اور انتہا پسندی کا باعث بھی حقیقی اسلامی تعلیمات کو فروغ نہ دینا ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ایک اللہ، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن کو ماننے والے ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں۔ ہماری زندگی سے خوشی اور سکون رخصت ہو گئے ہیں۔ ملک کی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں ہماری خود مختاری پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ وہ شہر اعتکاف میں جمعتہ الوداع کے بڑے اجتماع سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے لندن سے خطاب کر رہے تھے

    http://www.minhaj.org/images-db4/Jumatul-Wida_20110826_14.jpg
    http://www.minhaj.org/images-db4/Jumatul-Wida_20110826_04.jpg
    http://www.minhaj.org/images-db4/Jumatul-Wida_20110826_06.jpg
    http://www.minhaj.org/images-db4/Jumatul-Wida_20110826_11.jpg

    انہوں نے کہا کہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ رخصت ہو رہا ہے۔ قوم آج کی رات اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو کر اجتماعی معافی مانگے۔ اپنے اعمال کی درستگی کیلئے اللہ سے توفیق طلب کرے تا کہ ملک پاکستان کے عوام عدم تحفظ، خوف، بد امنی، قتل و غارت گری اور بجلی و پانی کی کمیابی سے نجات پا سکیں کیونکہ جس معاشرے میں تنگی نظر آئے وہ اللہ کی ناراضگی کی نشانی ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادی نے کہا کہ عالمی سطح پر پاکستان کا تشخص بری طرح مجروح ہوا ہے۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی اس کی پہچان بن گئی۔ پاکستان کے پر امن تشخص کی بحالی کیلئے انفرادی اور اجتماعی سطح پر جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا۔

    انہوں نے کہا کہ والدین جس درد سے اولاد کی دنیاوی تعلیم کیلئے پریشان ہوتے ہیں اور جدو جہد کرتے ہیں اسی طرح اولاد کی تربیت اور ایمان کی حفاظت کیلئے بھی فکر مند ہوا کریں ورنہ آنیوالی نسلوں کا ایمان تباہ ہو جائے گا۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ ہمیں زندگی کی ترجیحات بدلنا ہوں گی کیونکہ مستقبل ان کا ہے جو علم کی دولت سے مالا مال ہوں گے۔


    http://www.minhaj.org/images-db4/Jumatul-Wida_20110826_15.jpg
    http://www.minhaj.org/images-db4/Jumatul-Wida_20110826_08.jpg
    http://www.minhaj.org/images-db4/Jumatul-Wida_20110826_10.jpg
    http://www.minhaj.org/images-db4/Jumatul-Wida_20110826_13.jpg
     
  12. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شہرِاعتکاف 2011

    تحریک منہاج القرآن کے شہر اعتکاف 2011ء کا چھٹا دن:شیخ الاسلام کا خصوصی خطاب

    تحریک منہاج القرآن کے عالمی شہراعتکاف میں 27 اگست 2011ء کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ہزاروں معتکفین اور معتکفات سے خطاب کیا۔ آپ نے یہ خطاب لندن میں ستائیسویں شب کے روحانی اجتماع سے کیا، جو شہر اعتکاف لاہور کے علاوہ دنیا بھر میں منہاج ٹی وی کے ذریعے براہ راست پیش کیا گیا۔

    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_6th-Day_20110827_03.jpg
    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_6th-Day_20110827_04.jpg

    شیخ الاسلام نے تصوف کے سلسلہ میں "خلق عظیم" کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تصوف اخلاص نیت، علم نافع، عمل صالح اور حسن اخلاق کا مجموعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ تصوف میں مختلف مقامات ہیں۔ احوال سے اعمال جنم لیتے ہیں، اعمال سے علم صحیح ملتا ہے، اور اگر علم لوجہ اللہ ہو تو یہ علم نافع بنتا ہے۔
    شیخ الاسلام نے کہا کہ بدقسمتی سے آج ہم نے تصوف کے نام کو رسوم اور اصطلاحات کا مجموعہ بنا دیا ہے۔ لوگ بھول گئے کہ تصوف کی روح کیا ہے۔ روح اور دل کو روحانی لذت سے آشنا کرنا اصل تصوف ہے۔ آپ نے کہا کہ تصوف میں صوفی وہ ہے جو اخلاق اور رحمت کا منبع ہو۔ جس کا دل نرم ہو، جس کا کلام نرم ہو اور جس کی شخصیت نرم ہو۔

    انہوں نے کہا کہ تصوف میں صوفیاء کی تواضع کا عالم یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی مجلس میں کبھی بھی کسی غیر مسلم کو نہیں نکالتے۔ صوفی پانی کی مانند ہوتا ہے، جو بھی اسے پیے، وہ ہر ایک کو سیراب کرتا ہے اور ٹھنڈک بھی پہنچاتا ہے۔

    حضرت جنید بغدادی کا قول ہے کہ تصوف اللہ کے اعلیٰ اخلاق کا نام ہے۔ آپ نے کہا کہ صوفی وہ شخص ہے، جس کا دل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح ہو، جنہوں نے اللہ کے حکم پر اپنے نوجوان بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے پیش کر دیا۔

    جس شخص میں انبیاء علیھم السلام کے اخلاق پائے جائیں، اسے صوفی کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جس شخص کا دل ہر قسم کی قدورت سے پاک ہو جائے اور وہ اللہ کی مخلوق سے اخلاق حسنہ سے پیش آئے، صوفی ہے۔ شیخ الاسلام نے کہا کہ بندہ کا ہر اچھے خلق میں داخل ہو جانا اور برے خلق سے نکل جانا تصوف ہے۔


    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_6th-Day_20110827_05.jpg
    آپ نے کہا کہ سلوک الی اللہ کی طرف بڑھنے کے لیے اللہ کی قربت اور معرفت کو حاصل کرنا ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ بہت سے ابدال اور اولیاء کو جنت میں اونچے مقامات اور درجات ملیں گے، وہ انہیں نماز، روزہ اور عبادات کی وجہ سے نہیں، بلکہ انکے جود و سخا کی وجہ سے انہیں یہ مقام عطا کیے جائیں گے۔

    ایسے لوگ کسی کے لیے باعث اذیت نہیں ہوتے بلکہ یہ مخلوق کے لیے رحمت بن جاتے ہیں، بس ایسے لوگوں پر اللہ اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے۔


    http://www.minhaj.org/images-db4/Itikaf-City_Minhaj-ul-Quran_6th-Day_20110827_06.jpg


    آج کے خطاب کا لنک:
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    http://www.youtube.com/watch?v=OloGtS0Ti7I&feature=player_embedded
     

اس صفحے کو مشتہر کریں