1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

شرک کو سمجھیے-4ا: کیا صرف بت پرستی ہی شرک ہے؟

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از دیوان, ‏5 جون 2015۔

  1. دیوان
    آف لائن

    دیوان ممبر

    شمولیت:
    ‏21 فروری 2008
    پیغامات:
    63
    موصول پسندیدگیاں:
    56
    پیچھے جو کچھ بیان ہوا اس سے معلوم ہوا کہ مشرکین عرب نہ اللہ کا انکار کرتے تھے، نہ وہ رسول اللہ ﷺ کی دعوت کا انکار ان ﷺ کی ذات کی وجہ سے کرتے تھے نہ ہی وہ اعمال سے بھاگتے تھے۔ مزید یہکہ وہ صرف بے جان پتھروں کی عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی سوچ اور فکر اس سلسلے میں یہ تھی کہ یہ بت اللہ تک پہنچنے کا وسیلہ اور واسطہ ہیں۔ آیئے ذرا اس چیز کو مزید سمجھتے ہیں کہ بت پرستی کیا ہے؟ بت پرست کس چیز کی عبادت کرتے ہیں؟ اگر یہ بات سمجھ میں آجائے تو یقینا شرک کی حقیقت بھی کھل کر سامنے آجائے گی۔
    اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مشرکین عرب جن کو ہم بت پرست کہتے ہیں وہ درحقیقت مٹی کی مورت بنا کر اس کا ایک نام رکھ دیتے تھے اور اس کو اپنا معبود قرار دے دیتے تھے۔ اسی تراشے ہوئے پتھر کو سجدہ کرتے تھے۔اسی کے نام کا ذکر کرتے تھے۔ اس کا نام لے کر اپنی حاجتوں میں اس کو پکارتے تھے تو درحقیقت یہ انتہائی ناقص خیال ہے بلکہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ اس غلط فہمی کی بنیاد یہ ہے کہ شرک صرف بت پرستی کا نام ہے۔ اس غلط فہمی کی وجہ سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے لا الہ الا اللہ کہنے والا کیونکہ بتوں کی پوجا نہیں کرتا لہذا وہ مشرک نہیں ہو سکتا چاہے اس کے عقیدے اور اعمال کیسے ہی ہوں۔ اس سوچ کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں قرآن پاک کیا بتاتا ہے۔
    حضرت عیسیؑ اور ان کی ماں کو معبود بنایا گیا
    واذ قال الله یٰعيسى ابن مريم ء انت قلت للناس اتخذوني وامي الهين من دون الله قال سبحانك ما يكون لي ان اقول ما ليس لي بحق ان كنت قلته فقد علمته تعلم ما في نفسي ولا اعلم ما في نفسك انك انت علام الغيوب (المائدۃ: 116)
    ترجمہ:اور (اس وقت کو بھی یاد رکھو) جب اللہ فرمائے گا کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری والدہ کوالہ مقرر کرو؟ وہ کہیں گے کہ تو پاک ہے مجھے کب شایاں تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کا مجھے کچھ حق نہیں اگر میں نے ایسا کہا ہوگا تو تجھ کو معلوم ہوگا (کیونکہ) جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے اسے میں نہیں جانتا بے شک تو علام الغیوب ہےحضرت عیسیؑ اور ان کی والدہ کو الہ بنایا گیا جب کہ نہ عیسیؑ اور نہ ہی مریمؑ بت تھے۔ اور عیسائی بت پرست نہیں بلکہ وہ درحقیقت حد سے بڑھی ہوئی شخصیت پرستی کا شکار ہیں جس کی بنیادی وجہ حضرت عیسیؑ کے معجزات ہیں۔ اس بے لگام شخصیت پرستی کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو ان صفات کا حامل قرار دے دیا ہے جو ان میں نہیں تھیں۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے ماں کی گود ہی میں اعلان کردیا تھا:
    اني عبد الله (مریم:30)
    ترجمہ: میں اللہ کابندہ ہوں
    لیکن عیسائی کہتے ہیں کہ آپ اللہ کے بندے نہیں اس کے بیٹے ہیں۔ یہی بےلگام شخصیت پرستی شرک کا سبب بن جاتی ہے اور دین ناواقف اپنی طرف سے اللہ کے مقرب بندوں کو بندگی سے نکال کر الوہیت کا جامہ پہنا دیتے ہیں۔ ٹھیک یہی کام کلمہ گو مشرک بھی کرتے ہیں۔ وہ رسول اللہ ﷺ اور برزگان دین کے ساتھ وہ باتیں منسوب کرتے ہیں جن کا انہوں خود دعوی نہیں کیا بلکہ انکار ہی کیا ہے۔
    علما اور صوفیوں کو معبود بنایا گیا
    اتخذوا احبارهم ورهبانهم اربابا من دون الله والمسيح ابن مريم وما امروا الا ليعبدوا الها واحدا لا اله الا هو سبحانه عما يشركون۔ (التوبہ: 31)
    ترجمہ:انہوں (یہودی و نصاریٰ) نے اپنے علما اور مشائخ اور مسیح ابن مریم کو الله کے سوا رب بنا لیا حالانکہ ان کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ ایک الہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور وہ ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے۔
    جب یہ آیات نازل ہوئیں تو حضرت عدیؓ بن حاتم، جو اسلام لانے سے پہلے عیسائی تھے، نے رسول ﷺ سے دریافت کیا کہ ہم نے تو کبھی علما اور صوفیا کی عبادت نہیں کی تو قرآن پاک نے ایسا کیوں کہا؟ آپ ﷺ نے جواب دیا علما اور صوفیوں نے جو چیزیں ازخود حلال و حرام کردی تھیں (یعنی محض اپنی طرف سے نہ کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے) تم اس کو حجت نہیں مانتے تھے؟ حضرت عدیؓ نے کہا ضرور سمجھتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
    فذٰلک عبادتھم ایاھم (سنن الترمذی)
    ترجمہ:یہی تو ان کی عبادت کرنا ہے
    چونکہ حلال و حرام قرار دینا اللہ تعالیٰ کا منصب ہے اس لیے اس میں کسی غیر کو شریک ٹھہرانا اس کی عبادت کرناہے۔ اس آیت میں علما اور صوفیا کا ذکر ہے کہ لوگوں نے ان کو رب بنایا او مشرک ہوئے۔ حالانکہ علما و صوفیا بت نہیں ہوتے، اور نہ ہی حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ بت تھے۔ معلوم ہوا کہ اللہ کے نیک بندوں کو اللہ کی کسی صفت میں شریک کرنا اس کو الہ بنانا ہے جو شرک ہے۔
    نوٹ: یہاں احبار و رھبان سے مراد وہ علما و صوفیا ہیں جو محض اپنی رائے سے دین میں حلال و حرام قرار دیتے تھے۔ البتہ علمائے حق کسی مسئلے میں کوئی حکم بتاتے ہیں وہ اس میں داخل نہیں اس لیے کہ وہ قرآن و سنت کی روشنی میں حکم فرماتے ہیں۔
    حضرت نوحؑ کی اولاد کو معبود بنایا گیا
    وقالوا لا تذرن آلهتكم ولا تذرن ودا ولا سواعا ولا يغوث ويعوق ونسرا وقد اضلوا كثيرا ولا تزد الظالمين الا ضلالا
    (نوح: 23-24)

    ترجمہ:اور وہ کہنے لگے کہ اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا اور ود اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کو کبھی ترک نہ کرنا
    ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر یہ ان بتوں کے نام تھے جن کی قوم نوح عبادت کرتی تھی۔ ان بتوں کی حقیقت کیا تھی اس کی خبر صحیح بخاری کی اس روایت سے ملتی ہے:
    اسماء رجال صالحين من قوم نوح فلما هلكوا اوحى الشيطان الى قومهم: ان انصبوا الى مجالسهم التي كانوا يجلسون انصابا وسموها باسمائهم ففعلوا فلم تعبد حتى اذا هلك اولئك ونسخ العلم عبدت
    ترجمہ:(یہ) نام قوم نوح کے نیک لوگوں کے تھے، جن کی وفات کے بعد شیطان نے (اس قوم کے) لوگوں کوپٹی پڑھائی کہ ان (بزرگوں) کے بت بنا کر ان جگہوں پر رکھ دو جہاں یہ بزرگ بیٹھا کرتے تھے اور ان بتوں کے انہی بزرگوں پر نام بھی رکھ دو (تاکہ ان کی یاد آتی رہے)، لوگوں نے اسی طرح کیا لیکن ان مجسموں کی عبادت نہیں کی یہاں تک کہ وہ لوگ جنہوں نے یہ بت بنائے تھے مرگئے اور ان بتوں کا مقصد پس پردہ چلا گیا اور بعد میں آنے والے ان بتوں کی عبادت کرنے لگے۔
    ان بتوں کی عربوں کے یہاں بھی عبادت ہوتی تھی۔اس روایت سے معلوم ہوا کہ بت پرستی اصل میں بزرگ پرستی سے شروع ہوئی۔
    (جاری ہے)​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں