1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

شبینہ اسلم فرشوری

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏21 دسمبر 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    شبینہ اسلم فرشوری اردو دنیا کی جانی مانی شخصیت ہیں بدایوں یوپی میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد رحمان حسین فرشوری بھی کافی ادبی ذوق رکھتے تھے۔

    شبینہ اسلم فرشوری کی ابتدائی تعلیم بدایوں میں ہوئی۔ آگرہ یونیورسٹی سے بی۔ اے اور بی ایڈ کرنے کے بعد تایا زاد بھائی اسلم فرشوری سے ۲؍ اپریل ۱۹۷۵ کو شادی ہوئی۔ جو آل انڈیا ریڈیو میں اناونسر تھے اس کے بعد وہ ای ٹی وی اردو کے ڈائریکٹر بھی رہ چکے ہیں۔ تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے ان کے افسانے اور مضامین اخبار سیاست میں چھپ چکے ہیں جو بہت جلد کتابی شکل میں، باتیں اپنے دل سے، کے نام سے منظر عام پر آئیں گے۔ انہوں نے پہلے بچوں کیلئے لکھنا شروع کیا۔ عورتوں کی مختلف مسائل پر بھی نفسیاتی مضامین لکھے۔ مزاحیہ مضامین بھی کافی لکھے۔ (ملاقات ۱۰؍ اپریل بمقام محفل خواتین)

    شبینہ اسلم فرشوری کو ادبی ذوق ورثہ میں ملا اس لئے ان کو شعر و ادب سے ہمیشہ سے ہی لگاو رہا کئی افسانے اور مضامین وقتاً فوقتاً مختلف رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ شمع میں شبینہ انجم کے نام سے اکثر سوال چھپتے جس کے جواب ادریس دہلوی دیتے تھے۔ شادی کے بعد باضابطہ ان کے شوہر اسلم فرشوری نے علمی و ادبی ذوق کو جلا بخشی۔ ان کے پسندیدہ ادیب مشتاق احمد یو سفی، مجتبیٰ حسین، رفیعہ منظور الامین، جیلانی بانو ڈاکٹر حبیب ضیاء۔ ’’ نسیمہ تراب الحسن اور فریدہ زین ہیں ‘‘۔ (’’حیدرآباد کی طنز و مزاح نگار خواتین‘‘ از ڈاکٹر حبیب ضیاء ص ۱۹۵)

    ان کے افسانے گھریلو زندگی اور سماجی رجحانات کیا اچھے عکاس ہیں افسانہ’’ بادلوں کا سفر‘‘ میں مشرقی اور مغربی تہذیبوں کے امتزاج کی ضرورت کو نمایاں کیا ہے۔ چونکہ سماجی مسئلہ راست طور پر گھریلو زندگی سے وابستہ تھا اس لئے اس مسئلہ کے حل کو انہوں نے روز مرہ کی گھریلو زندگی میں ہی تلاش کیا ہے۔

    افسانہ’ بادلوں کا سفر‘ میں سفینہ بیگم کی آج ساٹھ ویں سالگرہ تھیں۔ بچپن سے انہوں نے اب تک پرکشش زندگی گزاری۔ بچپن میں ہر کسی کی لاڈلی تھیں جب ہوش سنبھا لا تو سب کی خوشی میں اپنی خوشی سمجھ کر سب کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی۔ ایک دن اچانک گاڑی چلاتے ہوئے سفینہ بیگم کا حادثہ ہو گیا۔ جب ہوش آیا تو دوا خانہ میں اپنے اطراف خاندان کے سارے افراد کو دیکھا پھر وہ پیار بھری نظروں سے سب کو دیکھتی رہیں۔ ایک ماں اپنے بچوں کے چہرے پر خوشی دیکھنا چاہتی ہے۔ اگر بچے اپنی زندگی میں ناکام رہے تو اس میں ماں کی ناکامی ہے کیونکہ وہ بچوں کی خوشحال زندگی میں اپنی تربیت پر خوش ہوتی ہے۔ اگر اولاد کی زندگی میں کہیں سے دکھ کے بادل آ گئے تو وہ اس کا ذمہ دار خود کو سمجھتی ہے کہ شاید میری مصروف ترین زندگی کی وجہ سے میں اپنے بچوں کی صحیح پر ورش نہ کر سکی۔ مگر سفینہ بیگم ہر معاملہ میں خوش قسمت تھیں کہ شادی سے لے کر آج تک اس نے ہر حالات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا۔ اور جوان بیٹے جو ماں کی طاقت ہوتے ہیں انہیں دیکھ کر تو وہ ہر غم بھلا دیتی ہے ان کی خوشی میں اپنی خوشی سمجھتی ہے۔ شبینہ اسلم فرشوری کے افسانے مختلف موضوعات پر مبنی ہیں جو زندگی کے کسی نہ کسی مسئلہ سے متعلق ہیں اور اچھے افسانے کہے جا سکتے ہیں ان کے افسانوں میں تفکر کا عنصر بھی ہے اور نفسیاتی مشاہدہ بھی۔ ان کے افسانوں میں مکمل موضوعات پر عبور کے ساتھ ساتھ اسلوب میں رنگینی و دلکشی ہے۔

    ٭٭٭
     

اس صفحے کو مشتہر کریں