1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سینیٹ انتخابات۔۔۔اتنا شورکیوں ؟ ۔۔۔۔ خاور گھمن

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏5 فروری 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    سینیٹ انتخابات۔۔۔اتنا شورکیوں ؟ ۔۔۔۔ خاور گھمن

    یوں توسینیٹ انتخابات ملکی سیاست میں کافی حر کت کا سبب بنتے رہے ہیں، خاص طورپر جب سابق قبائلی علاقوں کے12 ارکان قومی اسمبلی8 سینٹرز کا چنائوکیا کرتے تھے۔ اس لیے وہاں سے سینیٹر بننے کیلئے ایک ڈیڑھ ممبر کے ساتھ’’ مک مکا‘‘ کر لیا جاتا تو بات بن جاتی تھی۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کس طرح ایک ہی خاندان کے تین چار سینیٹرز منتخب ہو جایا کرتے تھے، چھوٹے صوبوں میں ارا کین کو ’’لکشمی‘‘ دکھاکر رام کرلیا جاتا تھا۔
    اس طرح سینیٹ کا حصہ بننے کیلئے چند کروڑ روپے لگا دینا بھی زیادہ معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ ایسے مالدار افراد بآسانی سینیٹ کا حصہ بن جایا کرتے تھے۔ پیسے کے زور پر ایوان بالا کا حصہ بننے والوں کی ترجیح کبھی بھی عوامی مسائل یا قانون سازی نہیں رہی اور ہو بھی نہیں سکتی ؟ ان لوگوں کا ہمیشہ سے مقصد صرف اپنی بڑی بڑی گاڑیوں پر سبز نمبر پلیٹس لگوانا، سرکاری پروٹوکول انجوائے کرنا اور پارلیمان کا حصہ ہو تے ہوئے اپنے کئی طرح کے کاروباروں کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنا رہا ہے۔ اور یہ سب کچھ بڑے تواتر کے ساتھ کم و بیش پچھلی 3 دہائیوں میں ہوتا رہا ہے۔ چونکہ یہ طریقہ کار اتنے تسلسل کے ساتھ ہو رہا تھا اس لیے زیادہ تر لوگوں نے اس عمل کو بد قسمتی سے ملکی سیاست کا معمول سمجھ لیا ۔

    سینیٹ انتخابات میں ووٹوں کی خریدو فروخت معمول رہا ہے اس لیے سیاستدانوں خاص طور پر بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان کی کسی نہ کسی حد تک خواہش رہی کہ اس عمل کو شفاف بنایا جائے۔ اپنی اپنی سطح پر ان لوگوں نے کچھ نہ کچھ کوششیں بھی کیں جو بار آور ثابت نہ ہو سکیں ۔ 2006 ء میں جب محترمہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے لندن میں جس چارٹر آف ڈیمو کریسی پر دستخط کیے، سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانا بھی اس کا حصہ تھا، اس کے بعد اس چارٹر آف ڈیموکریسی کا جو حشر کیا گیا وہ ہم سب نے دیکھا۔ مقتدرہ سے خفیہ رابطوں کی ممانعت سے نیب قانون کی تبدیلی اور ایک دوسرے کی حکومتوں کیخلاف سازش کا حصہ نہ بننے تک ، اس معاہدے کی تمام شقوں کی بدرجہ اتم دھجیاں بکھیری گئیں۔ ایسے میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کا خواب بھی ادھورا رہ گیا۔2015 ء میں وزیر اعظم نواز شریف نے بھی کوشش کی کہ کوئی طریقہ کار نکالا جائے جس کے ذریعے اس رشوت کو روکا جا سکے لیکن کامیابی نہ ملی۔ ماضی میں جتنی بھی کوششیں اس حوالے سے کی گئیں اس میں سنجیدگی کا عنصر ہمیشہ غائب رہا،اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی سیاسی مصلحت آڑے آجاتی ۔

    سب کی خواہش کے بعد بھی یہ کام ہو اکیوں نہیں؟ تو اس کی بڑی وجہ سیاسی قیادت کے عزم کی کمی نظر آتی ہے لیکن اب کی بار وزیر اعظم نے عزم کا اظہار کیا تو ماضی میں ہارس ٹریڈنگ کے دعویدار سار ے پیچھے ہٹ گئے۔ یہی نہیں عدالتوں میں بھی کہہ دیا کہ ایسا نہیں ہو سکتا ، بظاہر اس کا مطلب ہے کہ ا پوزیشن رہنمائوں میں اس کام کیلئے ہمیشہ خلوص کی کمی رہی۔ سادہ فہم سوال ذہن میں آتا ہے اگر مریم نواز بھی اوپن بیلٹ کے حق میں ہیں اور سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے جارہی ہیں تو کیوں نہیں وہ پارلیمان میں حکومت کی طرف سے پیش کی گئی ترمیم پر بات کرتیں؟ حکومت کو چھوڑیں (ن) لیگ اپنی مرضی کی آئینی ترمیم ایوان میں لے آئے۔

    حکومت وقت نے سینیٹ انتخابات میں اوپن بیلٹنگ کیلئے سپریم کورٹ میں نہ صرف ریفرنس داخل کیا بلکہ آئینی ترمیم بھی پارلیمان میں جمع کروا دی گئی ہے۔ ریفرنس پر سپریم کورٹ نے تمام سٹیک ہولڈرز سے جواب طلب کیا ہے سپیکر قومی اسمبلی ، چیئرمین سینیٹ ، بلوچستان، خیبر پختونخوااور پنجاب کے وزرائے اعلیٰ نے حکومتی ریفرنس کی مکمل حمایت جبکہ سندھ حکومت اور الیکشن کمیشن نے مخالفت کی ہے۔

    ریفرنس سپریم کورٹ میں زیر سماعت لیکن اس مدعے کو لے کر کافی بحث و مباحثہ ہو رہا ہے اور شہر اقتدار میں ہر طرف سینیٹ انتخابات کا ہی چرچا ہے۔ ایسے میں وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ انہیں علم ہے کونسا سیاسی لیڈر کتنا پیسا لگا رہا ہے اور کون کس کو خرید رہا ہے؟ تحریک انصاف نے 2015 ء میں ہونے والے سینیٹ انتخابات میں مبینہ طور پر اپنا ووٹ بیچنے کی پاداش میں پارٹی کے24 ایم پی ایز کو نکال باہر کیا تھا اور اس کا کریڈٹ عمران خان لیتے رہے ہیں۔

    حکومتی اراکین کاکہنا ہے وزیر اعظم نے نیک نیتی سے اپنا فرض پورا کر دیا، سپریم کورٹ اور قانون سازی ، دونوں آپشنز استعمال کر رہے ہیں اب اسکے بعد ایک بار پھر اپوزیشن کے بے نقاب ہونے کا وقت ہے، عوام کو ایک با رپھر پتا چلے گا کہ ان کے قول و فعل میں تضاد ہے۔ دوسری جانب پی ڈی ایم کے ایک سینئررہنما کاکہناتھاکہ حکومت پی ڈی ایم تحریک کے دبائو پر نئے کارڈز کھیل رہی ہے ،حکومت واقعی سنجیدہ ہوتی تو سینیٹ الیکشن کے حوالے سے بل سال یا 6 ماہ پہلے لایا جا سکتا تھا، بہت سارے حکومتی اراکین صوبائی اسمبلی ان کیخلاف ووٹ دینے جا رہے ہیں، حکومت کو بس یہی پریشانی لاحق ہے۔

    اسلام آباد کے باخبر حلقوں کاکہناہے کہ سینیٹ انتخابات پر حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی سیاست کر رہے ہیں، البتہ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ سپریم کورٹ اس حوالے سے کیا حکم صادر کر تی ہے۔ اگر سپریم کورٹ حکم دیتی ہے کہ یہ کام صرف اور صرف پارلیمان کا ہے تو ایسی صورت میں بھی وزیراعظم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے ان کی حکومت تو سینیٹ انتخابات میں شفافیت لانا چاہتی ہے لیکن اپوزیشن نے عوامی مفاد کی اس قانون سازی میں تعاون نہیں کیا۔ آنیوالے چند ہفتے ملکی سیاست میں اہم ہیں، دیکھتے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں