1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سیرت رسول اللہ ﷺ کے رہنما پہلو ۔۔۔۔۔ تحریر : ابو طلحہٰ اظہارالحسن محمود

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏8 اگست 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    سیرت رسول اللہ ﷺ کے رہنما پہلو ۔۔۔۔۔ تحریر : ابو طلحہٰ اظہارالحسن محمود


    ہمیں عصری مسائل کا حل سیرت النبیﷺ میں ملے گا
    نبی کریمﷺ کی حیات مبارکہ ہم سب کیلئے رہنما کا درجہ رکھتی ہے۔ آپﷺ کی پاکیزہ سیرت پر عمل کرنے سے ہمارے تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ ہم آپﷺ کی پاکیزہ سیرت کا صرف ایک پہلو یعنی سادگی کو اپنا کر بھی اپنے لاتعداد مسائل سے جان چھڑا سکتے ہیں۔ ہماری کھانے پینے کی عادات نہ صرف مالی مشکلات کا سبب بن رہی ہیں بلکہ یہ کئی بیماریوں کی بھی جڑ ہیں۔

    آپﷺ کی کھانے پینے کی عادات میں بھی شفا ہے، جیسا کہ آپﷺ بھوک رکھ کر کھایا کرتے تھے، کئی سو برس پہلے کی گئی اس بات کی تصدیق دور حاضر کے غذائی ماہرین نے بھی کی ہے۔ آئیے، ہم ایک بار پھر آپ ﷺ کی حیات مبارکہ پر ایک نظر ڈالتے ہیں کیونکہ کئی عصری مسائل کا حل اس ہی میں ملے گا۔

    آپﷺ کی روزمرہ زندگی سادہ سی تھی۔ آپ ﷺ اپنے کام خود کرتے تھے۔ مویشیوں کو چارہ ڈالتے، بازار سے سامان خریدتے، کپڑوں کو پیوند لگاتے، اکٹھے کھاناکھاتے اور اگر بعض دفعہ کھانے کو کچھ بھی میسر نہ ہوتا تو خدا کا شکر ادا کرتے اور بھوکے ہی سوجاتے، کبھی کئی کئی ہفتے چولہے میں آگ نہ جلتی اور پانی اور کھجوروں پر گزارہ ہوتا۔ سادگی کا یہ عالم تھا کہ آپﷺ کی غذا عموماً جو کی روٹی ہوتی تھی اور چونکہ نبی اکرم ﷺ کے یہاں چھلنی نہیں تھی‘ اس لئے اس کی بھوسی پھونک مارکر ہٹا دی جاتی تھی۔ چنانچہ عمر بھر آپﷺ نے نہ کبھی چھنے ہوئے باریک آٹے کی روٹی تناول فرمائی اور نہ ہی کبھی کسی کھانے کو برا کہا۔ جو کچھ موجود ہوتا تھا وہ تناول فرما لیتے تھے اور بھوک نہیں ہوتی تھی تو چھوڑ دیتے تھے۔ آپ ﷺ اپنے اہل وعیال سے زیادہ اپنی امت کی آسائش و سہولت کا خیال رکھتے تھے‘ چنانچہ لگان و خراج سے جو مال ودولت اور اشیا آپ ﷺ کو موصول ہوتیں توآپﷺ فوری طور پر لوگوں میں تقسیم کر دیتے تھے۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا کہ اپنے لئے کچھ نہ چھوڑتے۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ بسا اوقات تین تین روز تک گھر میں آگ نہ جلتی۔ آپ ﷺ نے بہت سادہ زندگی بسر کی اور وصال سے قبل فرمایا:

    ترجمہ: ’’کہ میرے ورثاء کو میرے ترکہ میں روپیہ پیسہ کچھ نہ ملے گا۔‘‘

    حقیقت میں آپﷺ کے پاس دنیوی سازوسامان میں سے کچھ تھا ہی نہیں جو کسی کو دیا جاتا۔ حالت تو یہ تھی کہ آپﷺ کی زرہ مبارک ایک یہودی کے پاس 30 درہم کے عوض گروی رکھی ہوئی تھی اور آپﷺ کے پاس اتنی رقم بھی نہ تھی کہ اسے چھڑا لیتے۔ حضرت نبیﷺ کے دستر خوان پر جب کوئی مہمان ہوتا تو آپﷺ بار بار اس سے فرماتے جاتے، کھائیے اور کھائیے، جب مہمان خوب سیر ہوتا اور بے حد انکار کرتا تب آپﷺ اپنا اصرار ختم کر دیتے۔ آپﷺ نے ترکہ میں صرف اپنے ہتھیار، ایک خچر اور تھوڑی سی مملوکہ زمین کے سوا کوئی چیز نہیں چھوڑی اور ان اشیاء کی بابت بھی ارشاد فرمایا کہ یہ خیرات کردی جائیں۔ تو پھر ہم آج دنیاوی آسائشوں کے پیچھے کیوں بھاگ رہے ہیں؟

    حضرت حفصہؓ فرماتی ہیں گھر میں ایک ٹاٹ کا ٹکڑا تھا جسے ہم دُہرا کردیا کرتے تھے۔ آنجنابﷺ اسی پر آرام فرمایا کرتے۔ ایک رات میں نے خیال کیا کہ اگر اس کی چار تہیں کر دیں تو غالباً آپﷺ کو زیادہ آرام ملے گا۔ چنانچہ ہم نے ایسا ہی کیا ۔ جب صبح ہوئی تو آپ ﷺ نے پوچھا: ترجمہ :’’رات کو تم نے میرے لیے کیا بچھایا تھا‘‘؟

    میں نے کہا، ترجمہ :’’وہی آپﷺ کا ٹاٹ تھا، مگر اس کی چار تہیں کردی تھیں تاکہ آپﷺ بہتر طریقے سے آرام کرسکیں۔‘‘

    آپﷺ نے فرمایا : ’’نہیں! اسے تو جیسا پہلے تھا ویسا ہی کر دو۔ اس نے مجھے نماز شب سے باز رکھا۔‘‘

    آپﷺ راتوں کو اتنی دیر تک نماز میں کھڑے رہتے تھے کہ پائوں مبارک پر ورم آجاتا تھا‘ یہ دیکھ کر بعض صحابہؓ نے عرض کیا کہ ’’یارسول اللہﷺ ! آپﷺ کی مغفرت تو خدا کر چکا ہے۔ اب آپﷺ کیوں یہ زحمت اٹھاتے ہیں؟‘‘ ارشاد ہوا: ’’کیا میں خدا کا شکر گزار بندہ نہ بنوں‘‘۔

    ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ کے دودھ شریک بھائی مسروق ان کے پاس آئے۔ حضرت عائشہؓ نے کھانا منگوایا اور فرمانے لگیں: ’’جب سیر ہو کرکھانا کھاتی ہوں تو مجھے رونا آتا ہے۔‘‘ انہوں نے پوچھا کہ کیوں؟ حضرت عائشہؓ نے جواب دیا کہ مجھے آپﷺ کا زمانہ یاد آ جاتا ہے کہ جب تک رسول اللہﷺ حیات رہے، خدا گواہ ہے کہ کبھی ایک دن میں دوبار سیر ہو کر روٹی نہیں کھائی اور بعض دفعہ گھر میں پورا مہینہ آگ نہیں جلتی تھی اور ہم صرف کھجوروں اور پانی پر گزارہ کرتے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ پیغمبرخداﷺ نے فرمایا کہ ایک بار مجھ پر 30 دن رات اس حالت میں گزرے کہ میرے پاس کھانے کو سوائے قلیل مقدار میں کوئی چیز نہیں ہوتی تھی۔ آپﷺ کے پاس کبھی صبح یا شام کا کھانا جمع نہیں ہوا کہ کھانے سے کھانے والے بھی زیادہ ہوئے۔ ایک مرتبہ حضرت نبیﷺ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور بولا! یا رسول اللہﷺ! میں بھوک سے بے تاب ہوں۔ آپﷺ نے مہمان نوازی کے لئے اپنی ایک زوجہ محترمہ کو پیغام بھیجا کہ کھانے کے لئے جو کچھ موجود ہو‘ بھیج دو۔ جواب آیا: اس خدا کی قسم جس نے آپﷺ کو پیغمبر بنا کر بھیجا ہے، یہاں تو پانی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ پھر آپﷺ نے دوسری بیوی کے ہاں معلوم کیا تو وہاں سے بھی یہی جواب آیا۔ یہاں تک کہ آپﷺ نے ایک ایک کرکے اپنے تمام گھروں سے پتہ کیا تو سب کے ہاں سے اسی طرح کا جواب آیا۔

    اب آپﷺ اپنے صحابہؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ’’ آج رات کیلئے اس مہمان کی میزبانی کون قبول کرتا ہے؟‘‘ ایک انصاری نے کہا : ’’یا رسول اللہﷺ! میں قبول کرتا ہوں۔‘‘ یہ انصاری ان کو اپنے گھر لے گئے اور گھر جا کر بیوی کو بتایاکہ میرے ساتھ رسول اللہﷺ کے مہمان ہیں‘ ان کی خاطر داری کرو۔ بیوی نے کہا:’’ اس وقت تو گھر میں صرف بچوں کیلئے کھانا ہے۔‘‘ صحابیؓ نے کہا:’’ بچوں کو کسی طرح بہلا کر سلا دو اور جب مہمان کے سامنے کھانا رکھو تو کسی بہانے چراغ بجھا دینا اور کھانے پر مہمان کے ساتھ بیٹھ جانا تاکہ اس کو یہ محسوس ہو کہ ہم بھی کھانے میں شریک ہیں۔‘‘

    اس طرح مہمان نے پیٹ بھر کرکھانا کھایا اور گھر والوں نے ساری رات فاقے سے گزاری۔ صبح جب صحابیؓ نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپﷺ نے دیکھتے ہی فرمایا: ’’تم دونوں نے رات مہمان کے ساتھ جو حسن سلوک کیا، وہ خدا کو بہت ہی پسند آیا۔‘‘

    آپﷺ کو حوضِ کوثر عطا ہوئی۔ یہ ایک خاص انعام ہے جو اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیبﷺ کو عطا کیا ہے۔ ایک بہت بڑا حوض جو کہ دنیا کی نہروں سے کہیں بڑا ہے، اس کا دودھ نہایت سفید اور شفاف ہے، پینے میں بے حد لذیذ ہے، اس کے برتن آسمان کے ستاروں کی طرح لاتعداد ہیں۔ حضورﷺ اس سے اپنی امت کے خوش نصیبوں کو پلائیں گے۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے: ’’جس رات مجھے معراج کرائی گئی، میرا گزر ایسی نہر سے ہوا جس کے کنارے موتیوں کے خول سے بنے ہوئے تھے، میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا: یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: یہ کوثر ہے۔‘‘

    جوامع الکلم کا عطا ہونا: رسول کریمﷺ کو اللہ تعالیٰ نے ایسے کلمات سے نوازا ہے جو بظاہر بہت چھوٹے اور مختصر ہیں لیکن معانی کا سمندر ان میں موجود ہوتا ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ کو خیر کے جامع کلمات، جن کے آغاز اور اختتام میں بھی خیر ہے، عطا فرمائے گئے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’مجھے جامع ترین کلمات سے نوازا گیا ہے۔‘‘

    آپ ﷺ کی شخصیت میں خاص رعب کی کیفیت تھی۔ آپﷺ کا ایک خاص وصف تھا کہ باہر سے آنے والے کئی دشمن آپ ﷺکو دیکھ کر ہی مرعوب ہو جاتے اور ان کے ناپاک عزائم خاک میں مل جاتے۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا، مجھے کئی چیزیں ایسی دی گئی ہیں، جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔ مجھے ایک مہینہ کی مسافت سے رعب کے ذریعہ مدد دی گئی۔ پوری روئے زمین میرے لیے مسجد اور پاک بنا دی گئی، لہٰذا میری امت میں سے جس شخص پر جہاں کہیں نماز کا وقت آجائے، وہیں نماز پڑھ لے۔ میرے لیے مالِ غنیمت حلال کر دیا گیا حالانکہ مجھ سے پہلے کسی (نبی) کے لیے حلال نہیں تھا۔ مجھے شفاعت کی اجازت دی گئی۔ ہر نبی خاص اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا، اور میں (قیامت تک کے) تمام انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ آپﷺ پہلے سفارشی ہوں گے۔ امت کے گنہگاروں کے لیے سب سے پہلے شفاعت کا جو حق دیا جائے گا وہ اللہ کے آخری رسول حضرت محمدﷺ کو دیا جائے گا۔حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ’’سارے لوگوں میں سے سب سے پہلے میں جنت کے لیے شفاعت کروں گا اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام سے زیادہ میرے تابعدار ہوں گے۔ سب سے زیادہ پیروکار آپﷺ کے ہیں۔ کائنات میں جتنے بھی نبی اور رسول آئے ہیں ان سب میں بڑا درجہ نبی آخر الزماں حضرت محمدﷺ کا ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے، ترجمہ :سیّدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ سارے لوگوں میں سے سب سے پہلے میں جنت کی شفاعت کروں گا اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام سے زیادہ میرے تابعدار ہوں گے۔ آپﷺ خاتم الانبیاء ہیں۔ بلاشبہ آپﷺ تمام انبیا میں سے آخری ہیں۔ آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ ہاں کئی جھوٹے لوگ دعویٰ نبوت ضرور کریں گے۔

    حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا بنی اسرائیل میں انبیاء حکومت کیا کرتے تھے جب ایک نبی کا وصال ہوتا تو دوسرا اس کا جانشین ہو جاتا اور میرے بعد تو کوئی نبی نہیں ہوگا البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے، صحابہؓ نے عرض کیا پھر آپﷺ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا یکے بعد دیگرے ہر ایک کی بیعت پوری کرنا اور انہیں ان کا (وہ حق جو تم پر ہے) دیتے رہنا اور اللہ نے انہیں جن پر حکمران بنایا ہے ان کے بارے میں وہی ان سے بازپرس کرے گا۔ حضورپاکﷺ نے فرمایا، ترجمہ : ’’میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی (نیا) نبی نہیں آئے گا‘‘۔ حضرت ابو قتیلہؓ فرماتے ہیں رسول اللہﷺ نے اپنے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا: نہ میرے بعد کوئی نبی آئے گا نہ تمہارے بعد کوئی امت آئے گی۔ آپﷺ قیامت تک کے لوگوں کیلئے مبعوث ہوئے۔ پہلے نبی صرف اپنی قوم کیلئے آتے تھے اور اپنے زمانے کیلئے مبعوث ہوتے تھے۔ یہ رسول اللہ ﷺ کا خاص وصف ہے کہ آپ ﷺ کو قیامت تک کی ساری قوموں کیلئے اور سارے زمانوں کیلئے مبعوث فرمایا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔

    ترجمہ :’’اور ہم نے آپ کو تمام انسانوں کیلئے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے۔‘‘(سباء ۳۴: ۲۸)

    حضور نبی اکرمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ہر نبی خاص اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا، اور میں (قیامت تک کے) تمام انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ آپﷺ کی آل پر زکوٰۃ حرام کی گئی۔ رسول اللہ ﷺ کی ذات پر اور آپﷺ کی آل پر، ان کی شرافت و عزت کی خاطر اللہ تعالیٰ نے اموالِ زکوٰۃ کو روک دیا ہے۔ علماء و محققین نے لکھا ہے کہ اگر کوئی صحیح النسب سیّد غریب ونادار ہو تو لوگوں پر لازم ہے کہ ہدیہ وعطیات سے اس کی اعانت کرتے رہیں کیونکہ مالِ زکوٰۃ ان کیلئے ممنوع ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کھجور کے کٹنے کے وقت کھجور کا پھل لایا جاتا، کبھی ایک شخص اپنی کھجور لے کر آتا اور کبھی دوسرا شخص اپنی کھجور لے آتا، یہاں تک کہ کھجور کا ڈھیر لگ جاتا۔ سیّدنا حسنؓ اور سیّدنا حسینؓان کھجوروں سے کھیلنے لگے اور ان میں سے ایک نے کھجور لی اور اپنے منہ میں ڈال لی۔ رسول اللہﷺ نے دیکھا تو کھجور ان کے منہ سے نکال لی اور فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ آلِ محمدﷺ صدقہ نہیں کھاتے۔

    آپﷺ کے ذاتی نام احمد (اللہ تعالیٰ کی بہت زیادہ تعریف کرنے والے) اور محمدﷺ (جن کی سب سے زیادہ تعریف کی گئی) ہیں۔ آپﷺ کی امت حمادون ہے یعنی بہت زیادہ تعریف کرنے والے، خوشی اور رنج میں یعنی ہر حال میں۔ آپﷺ کا خطبہ بھی اللہ کی حمد سے شروع ہوتا ہے۔ آپﷺ پر نازل ہونے والی کتاب بھی الحمد سے شروع ہوتی ہے۔ آپﷺ کھانے پینے میں اور دعا میں بھی الحمد کا تذکرہ بکثرت فرماتے تھے۔ آپﷺ کے ہاتھ میں روزِ قیامت لواء الحمد (حمد والا پرچم) ہوگا۔ آپﷺ روزِ محشر عرش الٰہی کے سامنے سجدے میں اللہ کی بے حد حمد بیان کریں گے۔ آپ ﷺکو مقامِ محمود عطا کیا جائے گا۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں