1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سیاسی بحران میں شدت ...... خاور گھمن

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏2 نومبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    سیاسی بحران میں شدت ...... خاور گھمن

    پی ڈی ایم اپنا تیسرا جلسہ کوئٹہ میں کر چکی جمعیت علمائے اسلام اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی وجہ سے جلسہ حاضری کے تناسب سے اچھا رہا۔ کراچی میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت کی وجہ سے بڑی تعداد مو جود تھی۔ پی ڈی ایم کے لیڈرز دھواں دھار تقاریر کر رہے ہیں لیکن اس سب کے باوجود اس تحریک کی کوئی واضح سمت ابھی تک متعین نہیں ہو سکی۔
    بلاول بھٹو زرداری چاہتے ہیں کہ ایک قومی حکومت بنائی جائے جس کے بعد نئے انتخابات کی طرف جایا جائے۔ اس قومی حکومت میں کون کون ہوگا اس حوالے سے وہ تاحال خاموش ہیں کیا تحریک انصاف اس قومی حکومت کا حصہ ہو گی، اس حکومت کو لیڈ کون کرے گا کچھ پتا نہیں؟کیونکہ آئین میں ایسا کوئی آپشن نہیں ؟ بلاول سلیکٹیڈ اور سلیکٹرز کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن زیادہ تر تنقید حکومت پر ہی کرتے ہیں ۔ مولانا فضل الرحمن اپنی تقریروں میں ایک ہی بات دہراتے ہیں کہ حکومت جعلی ہے عوامی مینڈیٹ چرایا گیا لہٰذا نئے انتخابات کرائے جائیں ۔

    یوں اگر مولانا یا اپوزیشن کی خواہش پر نئے انتخابات ہوتے بھی ہیں تو اتنے شفاف ہونے چاہئیں کہ سب جماعتوں کیلئے قابل قبول ہوں لیکن اس بارے میں مولانا کچھ خاص بات نہیں کرتے۔ لگتا ہے انہیں اس بات کی ضرورت سے زیادہ تسلی ہے کہ نئے انتخابات میں اتحادیوں سے مل کر آرام سے حکومت بنا لیں گے۔ (ن) لیگ کی صورتحال سب سے دلچسپ ہے پارٹی کے تا حیات قائد نواز شریف لندن سے اپنی تقریروں کے ذریعے عدلیہ مقتدرہ، حکومت، نیب اور موجودہ سسٹم کے حمایتیوں سب کو رگید رہے ہیں۔ گوجرانوالہ کے بعد کوئٹہ میں ان کی دوسری تقریر تھی، کراچی میں وہ نامعلوم وجوہات کی وجہ سے تقریر نہ کر پائے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے، سینیٹ میں وہ اکثریتی جماعت کے طور پر موجود ہیں۔ اگلے سال مارچ میں ہونیوالے سینیٹ الیکشن میں بھی انہیں اپنا حصہ مل جائے گا اس لیے پیپلز پارٹی موجودہ حالات میں پھونک پھونک کے قدم رکھ رہی ہے۔3 کامیاب جلسوں کے باوجود ابھی تک ہر طرف سے ایک ہی سوال پوچھا جا رہا ہے۔ کیا اس تحریک کے سربراہ ایک دوسرے کا ساتھ دینے میں پوری طرح مخلص ہیں یا پھر ہر کوئی اپنا اپنا مفاد دیکھ رہا ہے؟تحریک تو ایک ہی صورت میں کامیاب ہو سکتی ہے جب یہ سب لوگ کسی ایک نکتے پر متفق ہو جائیں گے۔ (ن )لیگ کے چند باخبر لوگوں سے بات ہوئی وہ بھی پارٹی قائد نواز شریف کے انتہا پسندانہ بیانیے کو لے کر پریشان ہیں۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ عمران خان ملک کے وزیر اعظم ہیں ، جس قومی ادارے کی قیادت جن کا نواز شریف نام لے رہے ہیں وہ بھی حاضر سروس ہیں اور تمام ملکی ادارے اپنا اپنا کام بخوبی کر رہے ہیں۔ ان تمام حقائق کی موجودگی میں انکا بیانیہ زیادہ مضبوط نظر نہیں آتا ۔ ایک اورلیگی رہنما کے مطابق نواز شریف اور مریم نواز ز پارٹی معاملات کو اپنے چند قریبی با اعتماد لوگوں تک ہی رکھ رہے ہیں،حتیٰ کہ گوجرانوالہ کی تقریر بھی پارٹی کے چند اہم رہنمائوں کیلئے حیران کن تھی۔ ان کاکہناتھاکہ نواز شریف تو لندن میں بیٹھے ہیں، اس بیانیے کا ہم ملک میں رہتے ہوئے کسی فورم پر دفاع نہیں کر سکتے۔

    اس صورتحال میں سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ جہاں لیڈر شپ اور کارکن بھی قیادت کے بیانیے کا دل سے ساتھ دینے میں ہچکچاہٹ کا شکارہوں ، (ن) لیگ اس لڑائی سے حاصل کیا کرنا چاہتی ہے؟زیادہ تر مبصرین اور بعض واقفانِ حال کے مطابق نواز شریف کے تمام تر دبائو بڑھانے کا مقصد اپنی بیٹی مریم کیلئے سیاسی راہ ہموار کرنا ہے۔ وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ایسا لگا تار کرنے سے آئندہ انتخابات تک مریم کیلئے کچھ ریلیف حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن موجودہ حالات میں ایسا ہوتا ممکن نہیں لگ رہا۔ ویسے تو سیاست میں نہ کوئی آخری حرف ہوتا ہے اور نہ کوئی آخری حریف لیکن میری رائے میں لگ ایسا رہاہے کہ پیپلزپارٹی ایسے بیانیے کیساتھ زیادہ دیر کھڑی نہیں رہ سکے گی جس سے نقصان صرف اور صرف ملک کا ہو گا۔

    آپ پیپلز پارٹی کی سیاست سے لاکھ اختلاف کر سکتے ہیں لیکن بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بھی پیپلز پارٹی کی قیادت نے جن حالات میں ’’پاکستان کھپے ‘‘کا نعرہ لگاکر بھڑکتے عوامی جذبات کو کنٹرول رکھا تھا ایسی نظیربھی قومی سیاست میں کم ہی ملتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ 11سیاسی جماعتوں کا اتحاد پی ڈی ایم جو کہ نہ صرف مختلف الخیال ہے بلکہ تمام جماعتیں نظریاتی طور پر بھی ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر کھڑی نظری آتی ہیں۔ کل کو جب انتخابات ہوں گے ان کے آجکل دئیے گئے بیانات اور کی گئی تقریریں ایک دوسرے کیخلاف استعمال ہوں گی، اور ان سب کا فائدہ عمران خان اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ فی الوقت صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ سیاسی بحران دن بدن شدید ہو تا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان جو کہ سیاست میں کپتان کے نام سے جانے جاتے ہیں، ہمیشہ کہا کرتے ہیں کہ لیڈر کے کردار کا پتہ دبائو میں معلوم ہوتا ہے۔ مشرقی اور مغربی سرحدوں پر محاذ گرم ہیں۔ مشرق وسطیٰ سے لیکر فیٹیف کے معاملات ہوں یا پھر اندرونی سیاسی چپقلش، وزیر اعظم کیلئے میدان پوری طرح تیار ہے اب دیکھتے ہیں کپتان ان حالات کا مقابلہ کیسے کرتے ہیں ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں