1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سکولوں میں عربی کی ضرورت۔ ارشاد حقانی کو جواب

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏24 جولائی 2009۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    عربی زبان کے خاتمہ کی تجویز پر
    محترم حقانی صاحب کی خدمت میں

    محمد بلال ​

    محترم ارشاد احمد حقانی صاحب کا کالم ”عربی کی لازمی تعلیم فی الفور ختم کی جائے“ پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں آپ نے کافی شدت کے ساتھ عربی زبان کی لازمی تعلیم کی نہ صرف مخالفت کی بلکہ اس کو موجودہ نسل پر ایک بڑا بوجھ بھی قرار دیا۔ آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ”میں نے اپنے گھر میں بچوں اور بچیوں کو دیکھا ہے کہ سخت محنت کرنے اور مغز ماری کے باوجود عربی زبان کو سمجھنے کے حوالے سے کچھ ان کے پلّے نہیں پڑتا۔
    وہ اپنے ماں باپ سے کہتے ہیں کہ یہ کیا مصیبت ہم پر مسلط کردی گئی ہے۔“ تو جناب عالی بتایئے کہ ہمارے ہاں کتنے بچے ہیں جو اسکول جانے سے کتراتے ہیں لیکن ان کے والدین انہیں زبردستی اسکول چھوڑ آتے ہیں اور کتنے ہی بچے ایسے بھی ہیں جو کھانے سے دور بھاگتے ہیں لیکن ایسے بچوں کے والدین انہیں کسی نہ کسی طریقے سے کھانا کھانے پر مجبور کرتے ہیں تو کیا اسکول نہ جانے کیلئے حیلے بہانے کرنے والے بچوں اور بچیوں کے والدین کو یہ کہا جائے کہ ان بچوں کو زبردستی اسکول نہ بھیجا جائے اور بعد میں یہ کہا جائے کہ اسکول بڑی مصیبت ہیں لہٰذا اسکولوں کو ختم کردیا جائے۔ آپ کے ارشادات میں ایک ارشاد یہ بھی تھا کہ ”دنیا چاند تک پہنچ گئی ہے اور ہم اپنے بچوں کو عربی پڑھا رہے ہیں۔ پورے مغرب میں سائنس کا دور دورہ ہے انہوں نے یہ کام عربی پڑھ کر تو نہیں کیا۔“ آپ کا یہ یہ ارشاد تاریخ سے ناآشنائی کی غمازی کرتا ہے۔ تاریخ کے اوراق پر یہ بات سنہری حرف سے رقم ہے کہ ہر سائنس کی بنیاد مسلمانوں نے رکھی، ہر علم و فن کا سراغ مسلمانوں نے لگایا، چوھدویں صدی عیسوی تک مسلمانوں نے سارے علوم و فنون میں عربی زبان میں کتابیں لکھ کر دنیا کی رہنمائی کی۔ اس بات کی تصدیق خود غیر مسلم مورخین نے بھی کی۔ فرانسیسی مورخ گستاؤ لیبان کہتا ہے۔ ”قرون وسطیٰ میں یونان و روم کے تمدن کا علم (یورپ میں) عربوں ہی کے ذریعے سے پھیلا تھا اور ممالک یورپ کے مدارس پانچ سو برس تک عربوں کی تصنیفات پر جیا کئے اور کیا بہ لحاظ ترقی دولت اور کیا بہ لحاظ ترقی علمی و عملی وہ عرب ہی تھے جنہوں نے یورپ کو مہذب بنایا“ مزید جرجی زیدان جیسے متعصب کو بھی اس اعتراف کے بغیر کوئی چارہ نظر نہ آیا جرجی زیدان کہتا ہے ”یورپ کے مدارس و جامعات کا سہارا پانچ صدی سے زائد عرصہ تک اپنے علمی مواد اور تعلیمی سامان کے لئے عربی کتابوں پر ہی رہا۔“ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ مغربی زبانوں میں اب بھی بے شمار اجرام سماوی کے نام عربی زبان کے ہیں اس ضمن میں آپ کا یہ کہنا کہ ”بلاشبہ عربی ایک انتہائی فصیح و بلیغ زبان ہے اور اچھی خاصی مشکل بھی، اس کے گرامر سمجھنا عربوں کا کام ہے ہمارے نوجوان بچوں اور بچیوں کا نہیں وہ لاکھ مغز کھپائیں یہ کام نہیں کرسکتے۔“ محض ایک خام خیالی ہے۔ مجھے بتایئے کہ تنظیم المدارس، وفاق المدارس اور دوسرے بورڈ کے تحت چلنے والے دارالعلوم اور جامعات کے طلباء کی کثیر تعداد ہر سال فارغ التحصیل کیونکر ہوتی ہے۔ وہ عربی کتب کی بدولت وہ اپنے اپنے شعبوں میں مہارت حاصل کرتے ہیں۔حقانی صاحب کے نقل کردہ مقولے کے مطابق جس کا کام اسی کو ساجے خود محترم حقانی صاحب بھی اس مقولے کا عملی نمونہ بننے کی سعی کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔


    بشکریہ جنگ ادارتی صفحہ ۔
     
  2. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    مجھے ارشاد حقانی کی سمجھ نہیں‌آتی
    کبھی اداکار سہیل احمد کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کو وزیراعظم کی طرف سے دی گئی گھڑی 30 لاکھ کی ہے اور بعد میں‌ثابت ہوتا ہے کہ وہ گھڑی بیس پچیس ہزار کی ہے۔
    کبھی کہتے ہیں کہ ایٹمی دھماکے پاکستان کی غلطی ہے اور بعد میں انہیں دوسرے صحافیوں سے کالم کے ذریعے بے عزتی کروانی پڑتی ہے۔
    اور اب عربی زبان پر تنقید

    عربی زبان سیکھنا تو ویسے ہی ثواب کا کام ہے۔ قرآن پاک عربی میں ہے۔ جنت کی زبان عربی میں ہے اور ہمارے نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زبان عربی تھی۔ اگر بندہ عربی سیکھ جائے تو قرآن پاک آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔

    ویسے بھی میں یہاں‌بتادوں کہ عربی لازمی مضمون کہیں نہیں ہے یہ اختیاری مضمون ہے جو ارشاد حقانی کے پوتے یا نواسے نے رکھ لیا ہوگا اور عربی میں کمزور ہونے کی وجہ سے پریشان ہوتا ہوگا۔ کل کلاں ارشاد حقانی کہہ سکتے ہیں کہ اردو کو بھی ختم کریں یہ بھی فضول ہے۔
     
  3. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    جس عرصہ میں مسلمان ترقی کی راہوں پہ گامزن تھے انگریز اس دور کو Dark Ages. کے نام سے یاد کرتے ہیں
     
  4. وقاص علی قریشی
    آف لائن

    وقاص علی قریشی ممبر

    شمولیت:
    ‏15 فروری 2009
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جناب کبھی انگلش کے بارے میں‌ بھی لکھ دیا کریں حقانی جی اس نے ہمارے ذہنوں کو مفلوج کر دیا ہے جو ترقی ہم اردو زبان سے کر سکتے ہیں کسی غیر زبان سے نہیں مثال چین اور جاپان
     
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔ راشد محمود بھائی ۔
    آپ نے ہمیشہ کی طرح بہت نپے تلے الفاظ میں اپنی رائے دی ۔ جس سے میں متفق ہوں۔
    کسی زبان یا چیز کے مشکل ہونے سے اسکی مقصدیت ناپید یا کم نہیں ہوجاتی ۔ اور ارشاد حقانی صاحب جیسے فلاسفر کو اس امر کی بخوبی سمجھ ہونی چاہیے۔
    ماضٰی قریب میں انہوں نے جس طرح کے متنازعہ موضوعات پر قلم کشائی کی ہے۔ اور قومی اتفاق رائے کے معاملات کو بھی جس انداز میں الجھانے کی کوشش کی ہے۔ مجھے اس سے دو ہی باتیں سمجھ آتی ہیں۔ یا تو وہ نئے کالم نویسوں کی مقبولیت سے خوفزدہ ہیں اور اخبارات و کالمز میں " ان " رہنے کے لیے ایسا اوٹ پٹانگ لکھ دیتے ہیں۔
    یا پھر عمر کے اس حصے میں‌پہنچ چکے ہیں جس کے بعد بچپنا شروع ہوجاتا ہے۔
     
  6. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    جنگ میں‌نئے لکھنے والوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ اب لوگ نذیر ناجی، ڈاکٹر صفدر محمود، ارشاد حقانی، منوبھائی کو پڑھنے کی بجائےانصارعباسی، ڈاکٹر عامر لیاقت حسین، یاسر پیرزادہ، اشتیاق بیگ، شاہد مسعود، حامد میر کے کالم پڑھنا پسند کرتے ہیں۔

    ارشاد حقانی اپنے کالموں میں اکثر ایسی باتیں کرتے ہیں۔
    میرے گھر کے بل میں تین گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ ایک میٹر کا بل 14000 اور دوسرے کا بل 7500 آگیا ہے۔
    میرے گھر کا جنریٹر ٹھیک کام نہیں کررہا تھا اس لئے کالم نہیں لکھ سکا۔
    میرا بیٹا امریکہ میں ہے اور اس کا کاروبار تباہ ہوکر رہ گیا ہے۔
    میرے دوست کے بیٹے کی شادی تھی اچانک لوڈشیڈنگ ہوگئی
     
  7. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    ارشاد حقانی کا لکھا گیا کالم حسب ذیل ہے

    محترم قارئین! ادھر کچھ عرصہ سے بوجہ علالت طبع میرے لئے کالم لکھنا ممکن نہیں ہوا۔ اچھا ہوا کہ آپ ایک ناگوارزحمت سے بچ گئے۔ اگرچہ میں اب بھی علیل ہوں لیکن آج ایک ایسا مسئلہ میرے سامنے ہے کہ میں اپنی علالت کے باوجود اس پر لکھنے پر مجبو ر ہوں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ادھر کچھ عرصے سے بعض محب وطن لیکن نادان لوگوں نے سکولوں کے بچوں اور بچیوں کے لئے عربی زبان کی تعلیم لازمی کر دی ہے۔ ہمارے بچوں اور بچیوں کے لئے پہلے ہی اردو، انگریزی یا کوئی ایک مادری زبان پڑھنا لازمی ہے۔ پوری دنیا کے ماہرین تعلیم تسلیم کرتے ہیں کہ بچوں اور بچیوں کے لئے بہترین ذریعہ تعلیم ان کی مادری زبان ہی ہوسکتی ہے لیکن جیسا کہ عرض کیا گیا بعض محب وطن لیکن نادان لوگوں نے سکولوں کے بچوں بچیوں کے لئے عربی زبان کی تعلیم حاصل کرنا لازمی قرار دے دیا ہے۔ ہمارے پاس عربی پڑھا سکنے والے اساتذہ تو شاید موجود ہوں لیکن عربی کی تعلیم حاصل کرنا بچوں کیلئے کار دارد کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کیلئے گویا یہ جوئے شیر لانے کے ہم معنٰی ہے، غالب کہتا ہے کہ:
    میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد
    سنگ اٹھایا تھا کہ گھر یاد آیا
    بچوں اور بچیوں کو عربی کی لازمی تعلیم دینا گویا بچوں اور بچیوں کو بقول غالب سنگ اٹھانے پر مجبور کرنا ہے۔ میں نے اپنے گھر میں بچوں اور بچیوں کو دیکھا ہے کہ سخت محنت کرنے اور مغز ماری کے باوجود عربی زبان کو سمجھنے کے حوالے سے کچھ ان کے پلے نہیں پڑتا۔ وہ اپنے ماں باپ سے کہتے ہیں کہ یہ کیا مصیبت ہم پر مسلط کر دی گئی ہے لیکن نام نہادماہرین تعلیم ہیں کہ بچوں کو ان کے کچھ نہ سمجھنے کے باوجودعربی پڑھانے پر تلے ہوئے ہیں گویا ان کی کیفیت یہ ہے کہ :
    زبان یار من ترکی ومن ترکی نمے دانم
    عین ممکن ہے کہ کچھ بچوں اور بچیوں کو عربی زبان کی کچھ شد بد بھی آجاتی ہو لیکن ایسی شد بد کا کیا فائدہ جو انہیں کوئی بھی کام کرنے کے قابل نہ بنا سکے۔ عربی زبان کی تعلیم حاصل کرکے وہ نہ تو دنیا کا کوئی کام کرسکتے ہیں نہ دین کا۔ میرا خیال ہے کہ عربی کو بچوں بچیوں کے لئے لازم قرار دینے کافیصلہ غالباً جنرل شیر علی خاں مرحوم کے زمانے میں ہوا تھا۔ وہ نظریہ پاکستان کے بہت بڑے علمبردار بنتے تھے۔ انہوں نے جنرل یحییٰ خان سے اس کے لئے بڑے فنڈز لئے اور انہیں عربی پڑھانے پر صرف کیا۔ میرے لئے یہ سمجھنا آسان نہیں کہ انہوں نے یہ کام کیوں کیا اور کس کے کہنے پر کیا ۔ دنیا چاند تک پہنچ گئی ہے اور ہم اپنے بچوں کو عربی پڑھا رہے ہیں۔ پورے مغرب میں سائنس کا دور دورہ ہے انہوں نے یہ کام عربی پڑھ کر تو نہیں کیا۔ عربی پڑھنا سعودی عرب، مصر، شام، اردن اور دوسرے عرب ممالک کے لئے تو قابل فہم ہے اور وہ اس میں کمالات بھی دکھا سکتے ہیں اور انہوں نے کمالات دکھائے ہیں۔عرب دنیا کاتمام نقشہ تیزی سے بدل رہا ہے سعودی عرب نے بڑے پیمانے پر گندم اگانا شروع کر دی ہے حالانکہ بقول قرآن اس وادی غیر ذی زرعِِ میں اس سے پہلے کچھ بھی نہ تھا۔ پہاڑ ہی پہاڑ تھے۔ بڑے بڑے صحراً تھے جس کا حال جرمن نو مسلم علامہ محمد اسد نے اپنی کتاب ”دی روڈ ٹو مکہ“ میں بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب ہم صحراؤں میں سفر کرتے تھے تو ریت کے بڑے بڑے ٹیلے (Drones)بن جاتے تھے جن میں مسافر کے لئے راہ تلاش کرنا قریب قریب ناممکن ہو جاتا تھا۔ ہر وقت انہیں اپنے پاس پانی کا ذخیرہ رکھنا پڑتا تھا۔ اپنی اسی کتاب میں انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ تازہ کافی کی خوشبو اتنی مسحورکن ہوتی تھی جیسے ایک نوجوان خاتون سے بغل گیر ہونا۔ تو یہ تھی اس وقت جزیر ہ عرب کی حالت۔ مولانا الطاف حسین حالی# نے اس کا نقشہ یوں کھینچاہے:
    بہائم کی اور ان کی حالت ہے یکساں
    کہ جس حال میں ہیں اسی میں ہیں شاداں
    نہ ذلت سے نفرت نہ عزت کا ارماں
    نہ دوزخ سے ترساں نہ جنت کے خواہاں
    لیا عقل و دیں سے نہ کچھ کام انہوں نے
    کیا دین برحق کو بدنام انہوں نے
    تو عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ عربی عربوں کی زبان ہے۔ بلاشبہ عربی ایک انتہائی فصیح و بلیغ زبان ہے اور اچھی خاصی مشکل بھی۔ اس کی گرامر کو سمجھناعربوں کا کام ہے ہمارے نوجوان بچوں اور بچیوں کا نہیں۔ وہ لاکھ مغز کھپائیں یہ کام نہیں کرسکتے اردو کا ایک مقولہ ہے جس کا کام اسی کو ساجے۔دوسرا کرے تو ٹھینگا بھاجے۔ معلوم نہیں ہم کیوں تلے ہوئے ہیں کہ ہمارا بھی ٹھینگا بھاجے۔ ہمیں ان لوگوں سے جان چھڑانی چاہئے جو ہم پر عربی ایک لازمی مضمون کے طور پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک عجمی پودا عجمی زمین میں پھل پھول نہیں سکتا، برگ و بار نہیں لاسکتا۔ دنیا میں عقل عام (Common Sense)بھی کوئی چیز ہے اگرچہ کہتے ہیں کہ:
    Common Sense is the most uncommon Phenomenon۔
    ترجمہ:عقل عام سب سے نایاب چیز ہے“
    عقل عام کے ادنیٰ ترین تقاضوں کو سمجھنا چاہئے اور عربی زبان کو ایک لازمی مضمون کے طور پر ختم کر دینا چاہئے ایسا ہوا تو بچوں اور بچیوں کے سر سے ایک بہت بڑا بوجھ اتر جائے گا اور ان کے والدین حکومت کو دعائیں دیں گے۔ ہاں عربی زبان کو ایک آپشنل (اختیاری بمقابلہ) لازمی زبان کے طور پر رکھ لیا جانا ایک مستحسن فیصلہ قرار پائے گا۔
     
  8. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    افسوس صد افسوس ایسے "نام نہاد" قومی دانشوروں پر۔
    یہ لوگ قوم کا ذہن بنانے والے لوگ ہیں۔ لوگ انہیں‌پڑھتے اور انکے الفاظ سے اثر قبول کرتے ہیں۔
    جب یہی لوگ ایسی سیکولر اور لادینی سوچ کے حامل ہوں گے تو اپنی بےتکی منطق سے ہمیں دین اسلام کی بنیادوں سے دور کرنے کی کوشش کریں گے تو قوم کی حالت کیا ہوگی ؟

    اگر محمد بلال نے جواب نہ دیا ہوتا تو میں یقینا بہت ہی کچھ کہہ ڈالتا لیکن بلال بھائی کا شکریہ کہ انہوں نے کافی حد تک قومی جذبات کی ترجمانی کر دی ہے۔
     
  9. ARHAM
    آف لائن

    ARHAM ممبر

    شمولیت:
    ‏2 اپریل 2009
    پیغامات:
    82
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    چلیں ۔۔۔۔۔ ماہرین تعلیم کی بات ہی مان لیں ۔۔۔ کیوں کہ حقانی صاحب جیسے لوگوں کے لیے ۔۔ مغرب سے آئی ہوئی ہر بات ۔۔۔ پتھر کی لکیر ہوتی ہے ۔۔
    اور پاکستان میں ذریعہ تعلیم ان کی مادری زبان اردو کر لیں ۔۔
    کیوں بچوں پر انگریزی کا بوجھ ڈالا جا رہا ہے ۔۔
    انگریزی پڑھ کر کون سا ہم نے ۔۔۔ دنیا میں ترقی کر لی ہے ؟
     
  10. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    درست کہا۔
    پھر تو ارشاد َحقانی صاحب کو عربی زبان کی لازمیت پر تنقید کرنے سے کہیں پہلے اور کہیں زیادہ شد و مد کے ساتھ انگریزی زبان کے خلاف کالم لکھنے چاہیئں تھے۔
     
  11. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    آپ سب دوستوں نے انتہائی مناسب رائے دی ، ہمارے سروں پر ایسے ہی جاہل بندوں کو بٹھایا جاتا ہے کہ جو خود بے غیرت ، اور بے ضمیر ہوتے ہیں ، اس کی اصل وجہ ہمارے حکمران خود ایسے ہوتے ہیں ، گذشتہ دور میں ہمارے ملک کے وزیر تعلیم کو یہ تک علم نہ تھا کہ قرآن پاک کے تیس سیپارے ہوتے ہیں ، اور وزیر موصوف چالیس سیپاروں کا ذکر کر رہے تھے ،
    نظام تعلیم میں ہم آج تک ایک بھی پختہ فیصلہ نہ کر سکے ، کہ ہمارا ذریعہ تعلیم کیا ہونا چاھیے ، ہمارے سکولوں میں نوٰیں اور دسویں کے علیحدہ علیحدہ امتحان ہونے چاہیے ، گیارویں اور بارویں کے امتحان اکٹھے ہونے چاہیے، کس زبان میں تعلیم دی جانی چاہیے ، ہر دو تین سال میں ہمارے بچے اسی الجھن میں ہوتے ہیں کہ امتحان اکٹھے ہوں گے یا علیحدہ علیحدہ ،پھر وہ بچے جو پچھلے سال نویں کا علیحدہ امتحان دے چکے ، اگلے سال معلوم ہوتا ہے کہ ان کے امتحانات اس سال مشترکہ ہوں گے ، بےکار نظام تعلیم کے بعد ایسا ہی ہو گا ، ایسی ہی مخلوق ہمارے سروں پر بیٹھے گی ، ان کو ہی ہمارے ملکوں میں نوازا جاتا ہے ، اور ان کے ہی کالم اس قابل ہوتے ہیں کہ ان کو چھاپا جائے ، ہمارے ملکوں میں بکاؤ مال بہت زیادہ ہے ، یہ ساری زندگی کوڑھ کی کاشت کرتے رہتے ہیں ، اور پھر پھولوں کی توقع رکھتے ہیں ،
     
  12. راسخ کشمیری
    آف لائن

    راسخ کشمیری ممبر

    شمولیت:
    ‏13 اگست 2009
    پیغامات:
    9
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    نیٹ پر اردو کے‌حوالے‌سے‌سرچنک کر رہا تھا۔‌تو یہ صفحہ سامنے‌آیا۔ اور میں نے‌ہماری اردو میں‌اسی لئے‌نام رجسٹر کیا۔‌کہ یہاں‌جواب لکھ سکوں۔ حقانی صاحب نے یہاں‌غیر حقانی بات کی ہے۔‌ان کے‌جواب میں‌کافی لوگوں نے‌جواب دئے جو یہاں‌گوگل میں‌دیکھ‌سکتے‌ہیں۔ جوابات۔ اور مجھ‌سے‌بھی نہیں‌رہا گیا۔

    عربی کو جو بیچاری آگے‌ہی ہمارے‌ملک میں لنگڑی لنگڑی چل رہی ہے اسے ختم کرنے‌کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ حقانی صاحب معلوم نہیں عمر کے‌کس مرحلے‌میں ہیں۔ لیکن یہ بات جہل مطلق بلکہ جہل مرکب پر دلالت کرتی ہے۔‌ہماری قوم کے‌لئے‌عربی کتنی فائدہ مند ہوسکتی ہے‌یہ وہی جانتا ہے جو عربی اور اردو کے‌رشتے کو جانتا ہے۔

    عربی کے‌الفاظ کو اردو سے‌نکال دو تو اردو کا حسن ماند پڑ جائے گا۔‌یار پتہ نہیں کہ ارباب قلم بھی کب اس طرح کی لا یعنی باتوں سے‌نکل کر کچھ‌اچھا کرنے‌کی سوچیں گے۔
     
  13. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بےباک بھائی اور راسخ کشمیری بھائی ۔
    آپ کے خیالات و جذبات سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ بدقسمتی سے ہم سب اپنی اپنی ذات کی اکائیوں میں محدود بھی ہیں اور خود کو ہی عقل کل بھی تسلیم کرتے ہیں۔ عدم برداشت کا رویہ ہمارے جمہوری دعوؤں کے باوجود ہمارے کردار کا خاصہ ہے۔

    ابھی گذشتہ دنوں‌، پوری قوم کے متفقہ موقف " ایٹمی دھماکوں" کے خلاف بھی موصوف (حقانی صاحب) نے کچھ ایسا ہی مضحکہ خیز موقف پیش بھی کیا تھا اور پھر کافی عرصہ اس پر اصرار بھی فرماتے رہے۔ اس سے انکی دانشوری کا گراف تو بلند نہ ہوا البتہ انکا نام کچھ دن لوگوں کے نوک قلم پر ضرور آگیا۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں