1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سکروٹنی

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از عنایت عادل, ‏17 اپریل 2013۔

  1. عنایت عادل
    آف لائن

    عنایت عادل ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اپریل 2013
    پیغامات:
    121
    موصول پسندیدگیاں:
    114
    ملک کا جھنڈا:
    کہا تو یہ بھی تھا۔۔۔۔ بالحق عنایت عادل
    فخرالدین جی ابراہیم،۔۔۔جیسے ہی نام کا علان ہوا، دل کو تسلی ہوئی کہ اب کی بار یہ ملک صاف شفاف انتخابات کا تاریخی کارنامہ ضرور دیکھے گا۔پھر انکی جانب سے آئندہ انتخابات کے لئے لائحہ عمل گاہے بگاہے خبروں کا مرکز بنتا رہا تو آس ، بڑھتی چلی گئی۔اس آس اور تمنا( خاص طور پر تمنا )کو مضبوط کرنے میں آزاد عدلیہ کا عنصر بھی شامل حال تھا۔ پھر خبریں آئیں کہ انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواران کو سکروٹنی کے پل سراط کو عبور کرنا ہوگا، سوچا بہت سی جونکیں مسل دی جائیں گی۔ ضابطہ اخلاق بنائے گئے اور خوب تشہیر ہوئی۔ عمل درآمد کا ضرور خیال رہا ہو گا، اور کوششیں بھی ضرور کی گئی ہونگی۔لیکن ۔۔آج انتخابات میں سے چند ہی روز باقی ہیں۔ سکروٹنی کا حال سب کے سامنے ہے کہ عوامی نمائندوں سے عوام کے ساتھ ماضی میں کئے گئے سلوک کی بات ہوئی اور نا مستقبل میں انکے عوام کے لئے عزائم کو پرکھا گیا۔ سورتوں کلموں اور دیگر بنیادی مذہبی سوالات ایک مسلمان ملک کے قانون ساز ادارے میں براجمان ہونے کے متمنی احباب سے ضرور پوچھے جانے چاہئیں لیکن، ضروری نہیں کہ یہ مذہبی معلومات، کسی رکن اسمبلی کی ان اہلیتوں کی دلیل ہو کہ جو ایک عوامی راہنما ، اور اسمبلی میں عوام کے ترجمان کی اہلیت ہونی چاہئے۔خیر، یہ تو چند دن کی مہلت پر تکمیل پانے والا مرحلہ تھا جو طے پا گیا۔ ٹیلی فون، گیس اور بجلی کے بل''جیسے تیسے'' ادا کر دئے گئے یا کم از کم ادائیگی کی ''سفید پرچیاں'' دکھا کر ریٹرنگ افسران کو مطمئن کر دیا گیا۔جنہوں نے عوام کے ٹھیکیدار بننے والے کسی امیدوار سے یہ تک نہیں پوچھا کہ صاحب آپ بننے تو چلے ہیں عوامی نمائندے، اور ماضی میں بھی آپ عوام ، غریب عوام کے دکھوں پر ٹسوے بہاتے پائے گئے ہیں، لیکن ،گزشتہ کئی سالوں میں عوام کے خزانے میں بجلی وغیرہ کے بل تک جمع کروانے سے کس جزبے نے آپ کو روکے رکھا؟ غریب آدمی کا چند سو روپے کا بل اگر بروقت ادا نہ ہو تو میٹر اتار لیا جاتا ہے، مقدمات بن جاتے ہیں، جیل بھیج دیا جاتا ہے،آپ کے میٹر کے ذمہ سالہا سال پر واپڈا کیوں چپ سادھے رہا؟ الیکشن کی مجبوری کے وقت لاکھوں کا بل، ہزاروں میں کیونکر تبدیل ہو گیا؟مگر کون پوچھے؟۔ لاکھوں، بلکہ کروڑوں کو چھوتے یہ بل اگر ہر ماہ باقائدگی سے جمع کروائے جاتے تو آج واپڈا کو تیل کے پیسوں کے لالے نہ پڑے ہوتے اور نا ہی اس غریب عوام کے چوبیس گھنٹوں میں سے سولہ سولہ اور بیس بیس گھنٹے، بنا بجلی کے گزر رہے ہوتے (جاری ہے)

                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                             
                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                   
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. عنایت عادل
    آف لائن

    عنایت عادل ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اپریل 2013
    پیغامات:
    121
    موصول پسندیدگیاں:
    114
    ملک کا جھنڈا:
    سوال تو ٹیکس پر بھی نہیں اٹھایا جا سکاکہ ملک اور شہر کو پسماندہ قرار دیتے، ایک وقت میں کروڑوں روپے کی درجنوں گاڑیوں کے قافلے میں سفر کرتے بڑے بڑے قومی اور بین الاقوامی لیڈر، چند روپوں کی سلپ کے ساتھ خود کو ٹیکس دہندہ قرار دے کر سکروٹنی میں سرخرو قرار دئے گئے۔خیر۔۔جسے اللہ، بلکہ الیکشن کمیشن رکھے۔۔۔
    مگر بات صرف سکروٹنی تک ہی محدود نہیں، 2013کے انتخابات کے حوالے سے اور بھی کئی رنگین خواب ضابطہ اخلاق میں شامل (تھے)۔ کہا گیا تھا کہ امیدواروں کو پابند بنایا جائے گا کہ وہ ایک خاص سائز سے زیادہ بینر پوسٹر اور پینا فلیکس آویزاں کرنے سے باز رہیں۔ کہا تو یہ بھی گیا تھا کہ سرکاری املاک پر کسی قسم کے اشتہار جھنڈے وغیرہ لگانا منع ہو گا۔کہا تو یہ بھی گیا تھا کہ ان دنوں میں ترقیاتی کاموں پر پابندی ہو گی۔ کہا تو یہ بھی گیا تھا کہ سرکاری اہلکاران کو بطور سیاسی کارندہ استعمال نہیں کیا جائے گا۔کہا تو یہ بھی گیا تھا کہ لائوڈ سپیکر کا استعمال منع ہو گا۔ کہا تو یہ بھی گیا تھا کہ تنگ گلیوں محلوں میں گاڑیوں موٹر سائیکلوں کی ریلیاں گناہ کبیرہ تصور ہونگی۔ کہا تو یہ بھی گیا تھا کہ امیدوار، ایک مخصوص حدسے زیادہ اخراجات کرنے کا پابند ہو گا اور تمام تر اخراجات ایک مخصوص بنک اکائونٹ ہی سے کئے جائیں گے۔مگر۔۔کہنے سے کیا ہوتا ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے متوالے اس ملک میں تحریریں خوبصورت، مگر عمل درآمد'' نا قابل تحریر ''ہوتا ہے۔باقی ملک کا ذکر کرنا نا استعداد میں آتا ہے اور نا ہی اسکی کوئی ضرورت، کہ ایک آدھ چاول ہی دیگ کی لذت و بے لذتی کا ضامن ہوا کرتا ہے۔تو لیجئے، ڈیرہ اسماعیل خان ہی کا ذکر کر کے فخرالدین جی ابراہیم کے احکامات کی دیگ کی لذت کا اندازہ لگاتے ہیں۔ذرا ڈیرہ کے در و دیوار کا نظارہ کیجئے، کون سی ایسی جماعت ہے اور کون سا ایسا امیدوار ہے کہ جس کے پینا فلیکس پر لگی صرف اسکی تصویر ہی الیکشن کمیشن کی مجوزہ سائز سے کم ہے؟
    ذرا سرکاری عمارتوں کی دیواروں پر لگے پوسٹر گننے کی کوشش کیجئے اور پھر بجلی ٹیلی فون کے ''سرکاری'' کھمبوں پر ایک آدھ فٹ ہی ڈھونڈئیے کہ جو لٹکتے پینا فلیکسوں اور اشتہاروں سے بچ پایا ہو۔سرکاری مشینری کی مدد سے لگائے جانے والے یہ جھنڈے، لگائے بھی انہی سرکاری تاروں سے گئے ہیںکہ جنکے لئے ڈیرہ کی عوام کو متعلقہ محکمہ سالہا سال تک ترساتا رہتا ہے اور یا پھر کسی سیاسی ہاتھ سے ہی تقسیم کا انتظار کرتا رہتا ہے۔ذرا ان سیاسی ہرکاروں کی چستیاں دیکھئے کہ پورے پانچ سال جن ٹرانسفارمروں کی مرمت کی خاطر ڈیرہ اسماعیل خان کی عوام ، سخت گرمی اور چلچلاتی دھوپ میں واپڈا دفتر کے چکر اور اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کاٹ کرچندے جمع کرنے سے عاجز آکر سڑکوں پر پائی گئی، اب وہی ٹرانسفارمر، یہ سیاسی پنڈت ہاتھوں میں لئے پھرتے ہیں۔سالوں پہلے منظور کئے گئے فنڈز، اب ان گنتی کے دنوں میں نکلنا شروع ہو گئے ہیں۔ مانگو جو مانگتے ہو، شہنشاہ حاتم طائی کے ریکارڈ توڑنے کو بے چین ہیں۔سرکاری افسران، جن عوام کو منہ تک نہیں لگاتے تھے، اب در در ان سیاسی پنڈتوں کی جی حضوری کی خاطر ووٹ کی بھیک مانگتے پھر رہے ہیں۔بلکہ سرکاری افسران نے تو اپنے اپنے محکمہ کے اہلکاران کی خصوصی میٹنگز بلوا کر انہیں اپنے محبوب قائدین کا بازو بننے کی خصوصی ٹریننگ تک کا اہتمام کر ڈالا ہے۔وہ اہلکار جو سالوں سے گھر بیٹھے تنخواہیں لے رہے تھے، اب ان کرم نوازیوں کا بدلہ چکانے کو چاک و چوبند ہو چکے ہیں
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. عنایت عادل
    آف لائن

    عنایت عادل ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اپریل 2013
    پیغامات:
    121
    موصول پسندیدگیاں:
    114
    ملک کا جھنڈا:
    لائوڈ سپیکر کا استعمال دھڑلے سے جاری ہے، ہو سکتا ہے کہ انتظامیہ کی نظر نہ پڑی ہو، مگر مقامی اخبارات میں لگنے والی تصاویر بھی کیا انتخابی ضابطہ اخلاق کے کچھ الفاظ یاد کروانے میں ناکام ہو چکی ہیں، یا سیاستدانوں کا زور، ریاستی طاقت سے بھی بڑھ چکا ہے؟۔بڑی بڑی گاڑیاں بمع کھلنڈرے موٹرسائیکل سواروں کے ان گلی کوچوں میں دندناتی پھر رہی ہیں کہ جن گلیوں میں ان گاڑیوں کے سوار، اپنے لئے گزرنا بھی توہین سمجھتے تھے۔اخراجات کی حد کا تو سوال ہی مذاق بن گیا ہے۔ نقد رقوم بٹ رہی ہیں۔ چیک تقسیم ہو رہے ہیں، پٹرول ڈیزل کی پرچیاں ادھر سے ادھر ہو رہی ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے مقرر کردہ حد تو ہفتے بھر کی چائے روٹی پر ہی ختم ہو چکی، کہ اگر آپ ماٹھے سے ماٹھے الیکشن آفس کا بھی چکر لگائیں تو ایک وقت میں درجنوں افراد صبح سے لے کر شام تک پائوں پسارے ملتے ہیں، جہاں چائے کی دیگچی مسلسل چڑھی نظر آتی ہے اور مرغ نان کی گویا دکانیں کھول دی گئی ہیں۔اشتہاری مہم ، اور دیگر اخراجات کا تو حساب ہی نہیں۔ کیا، کوئی جان سکتا ہے کہ یہ سب اسی بنک اکائونٹ سے کیا جا رہا ہے کہ جسکے کھولنے کی رسید، کاغذات نامزدگی کے ساتھ نتھی کر کے خود کو محب وطن اور قانون کا پابند ظاہر کیا گیا تھا؟۔ صرف یہی نہیں۔برادریوں کو بیچتے، باجگزار بونے سرداروں وڈیروں کو خریدنے کی ''انتخابی رسم '' بھی تو زوروں سے جاری ہے۔ اس مد میں کس اکائونٹ کو چھانٹا جائے گا؟ اوپر سے دعویٰ کہ تبدیلی آئے گی۔۔۔چہرے بدل بدل کر اور تحریریں بدل کر تبدیلیاں نہیں آیا کرتیں۔ جرات دکھائی جاتی ہے تبدیلی کے انقلابوں کے لئے۔ قوم کے ٹیکسوں پر پلتے ان سیاسی پہلوانوں کو لگام، کم از کم ان انتخابات میں ڈلتی نظر نہیں آتی۔چھوٹی مچھلیوں کو پکڑ کر قوم کو مگر مچھوں کے رحم کرم پر چھوڑنے کا نام تبدیلی ہرگز نہیں ہوسکتا۔اور قوم بھی وہ، کہ جو مگر مچھ کو ہی کنارہ سمجھنے کو اپنا جمہوری حق سمجھتی ہو۔ اللہ رحم کرے بھی تو کیسے، ہم خود اپنے آپ پر رحم کرنے کو تیار نہیں۔
     
    ھارون رشید اور نعیم .نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    درست کہا عنایت عادل بھائی ۔ بجا فرمایا ۔
    سب ڈرامہ ہے۔ ایک دھوکہ ہے۔ جو بہت عرصہ پہلے سے تیار شدہ منصوبہ بندی کے تحت قوم کو دیا جارہا ہے۔
    وکی لیکس کے بعض لیکس کے مطابق پی پی پی ، ن لیگ اور امریکی سفیر کے درمیان زرداری صاحب کو صدر بناتے وقت یہ منصوبہ طے پاگیا تھا کہ اگلی باری کس کی ہے۔
    گویا یہ ملک ایک مردار ہے اور سیاسی جماعتیں گدھ یا کتوں کی طرح باری باری اسے بھنبھوڑ بھنبھوڑ کر کھائے جارہی ہیں۔
    عوام کو جمہوریت کا لالی پاپ دے کر خوش کردیا گیا ۔ ٹی وی پر خوبصورت، امیر کبیر، چمکتے دمکتے چہرے جنہوں نے زندگی میں کبھی ایک فاقہ بھی نہیں دیکھا ۔۔ وہ چلبلی آوازوں میں قوم کو ووٹ ڈالنے کا مشورہ دیتے ہی۔ انکے فرض کی ادائگی کا احساس دلاتے ہیں گویا دنیا و آخرت کی کامیابی کا راز صرف اسی "ووٹ " ڈالنے میں مضمر ہوگیا ہے ۔
    سب ڈرامہ ہے ۔ عوام 65 سال سے اشرافیہ کے ہاتھوں بنتے رہے ہیں اور اب پھر 11 مئی کو بےوقوف بننے والے ہیں۔
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. عنایت عادل
    آف لائن

    عنایت عادل ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اپریل 2013
    پیغامات:
    121
    موصول پسندیدگیاں:
    114
    ملک کا جھنڈا:
    پسند کرنے کا بہت شکریہ نعیم بھائی۔۔۔۔عوام خود بھی تو بے چین رہتی ہے ان ڈراموں پر ایمان لانے کے لئے۔۔۔۔
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    انہی نادانیوں کا تو خمیازہ بھگت رہے ہیں ۔
    اشرافیہ و کرپٹ مافیا کے چند ہزار عیاروں کو خوب معلوم ہے کہ ان 18 کروڑ کو کیسے بےوقوف بنایا جاسکتا ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں