1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سڑکوںکا ناجائز استعمال

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از مفتی ناصرمظاہری, ‏6 فروری 2013۔

  1. مفتی ناصرمظاہری
    آف لائن

    مفتی ناصرمظاہری ممبر

    شمولیت:
    ‏5 فروری 2013
    پیغامات:
    9
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    سڑکوںکا ناجائز استعمال
    حضرت مولانامفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ
    دھیان نہ ہو تو انسان یہ جانے بغیر غلطیاں کرتا چلا جاتا ہے کہ اس سے کوئی غلط کام سرزد ہورہا ہے ،اسی خیال کے پیش نظرمیں نے پچھلے مضمون میں یہ بات شروع کی تھی کہ کسی دوسرے کی چیز کا ایسااستعمال جو اس کی خوشدلانہ مرضی کے خلاف ہو ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادکے مطابق حرام ہے ،اس کی کچھ ایسی مثالیںعرض کی گئی تھیں جن کی طرف عام طورسے دھیان نہیں ہوتا ،بعض دوستوں نے بتایاکہ واقعی پہلے اس پہلوکی طرف توجہ نہیں تھی کہ یہ کام دینی اعتبار سے کوئی گناہ بھی ہے ،میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس خامہ فرسائی کے نتیجے میں کسی ایک فرد کے دل میں بھی غلط کام کے غلط ہونے کا احساس پیدا ہوجائے یا کسی ایک کا ضمیر بھی جاگ جائے تو ان مضامین کی قیمت وصول ہے ۔
    اب اسی سلسلے میں ایک اورپہلو مزید توجہ کا طالب ہے ،جو چیزیں کسی شخص کی ذاتی ملکیت میں ہوتی ہیں ان کے بارے میں تو تھوڑابہت احساس لوگوں کوہو بھی جاتا ہے لیکن جو چیزیں’’سرکاری املاک‘‘کہلاتی ہیں ان کے بارے میں واقعی ’’مال مفت دل بے رحم ‘‘کی مثل صادق آتی ہے،ان پرقبضہ کرلینا ان کو خلاف قانون استعمال کرنا یا بے دردی سے استعمال کرناایسی عام بات ہوگئی ہے جس پر انگلیاںبھی نہیں اٹھتیں،حالانکہ سرکاری اشیاء بر سراقتدارافرادکی ملکیت نہیں ہوتیں،پوری قوم کی ملکیت ہوتی ہیں اوران کا ناجائز استعمال صرف کسی ایک شخص کی نہیں سارے عوام کی حق تلفی ہے اوریہ حقوق العبادکا اتنا خطرناک شعبہ ہے کہ اس میں کوئی حق تلفی ہوجائے تو اس گناہ کی معافی انتہائی مشکل ہے ،اس لئے کہ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں،حقوق العبادکے گناہ صرف توبہ اوراستغفارسے معاف نہیں ہوتے ،بلکہ ان کی معافی کے لئے اس شخص کا معاف کرنا ضروری ہے جس کا حق پامال کیا ،اب اگر وہ شخص ایک ہو اورمعلوم ہو تو اس سے معافی مانگی جاسکتی ہے ،لیکن سرکاری املاک کے حق دار چونکہ سارے عوام ہیں اس لئے اگر کبھی ندامت اورتوبہ کی توفیق ہو تو آدمی کس کس سے معافی مانگتا پھرے گا ،یہ بات مد نظر رکھتے ہوئے ان چند تصرفات پر غور فرمائیے جو ہمارے معاشرے میں بری طرح پھیلے ہوئے ہیں۔
    (۱)سرکاری زمینوںپر تجاوزات اسی قسم کی غاصبانہ کارروائی ہے جس کا تعلق حقوق العبادکے اس سنگین شعبے سے ہے ،ہمارے علماء نے فقہ کی کتابوں میں اس مسئلے پر بحث کی ہے کہ جس شخص کا مکان سڑک کے کنارے واقع ہووہ اپنی کھڑکی پر سائبان لگاسکتا ہے یا نہیں ؟اوراگر لگاسکتا ہے تو زیادہ سے زیادہ کتنا لمباچوڑا؟حالانکہ سائبان لگانے سے زمین کے کسی حصہ پرقبضہ نہیں ہوتا بلکہ فضا کا بہت تھوڑا سا حصہ استعمال ہوتا ہے نیز یہ مسئلہ بھی فقہاء کے یہاں زیر بحث آیا ہے کہ جس شخص نے عام لوگوںکی گذرگاہ پر راستہ روک کر دکان لگالی ہو اس سے کوئی چیزخریدنا جائز ہے یا نہیں ؟بعض فقہاء کہتے ہیں کہ اس شخص نے چونکہ عوام کا حق غصب کررکھا ہے لہٰذااس سے سودا خریدنااس کی غاصبانہ کارروائی میں تعاون ہے ،اس لئے کوئی چیزخریدناجائز نہیں ،بعض دوسرے فقہاء اگر چہ اس حد تک نہیں گئے ،لیکن انہوں نے یہ کہا ہے کہ اگر یہ امید ہوکہ سودا نہ خریدنے سے اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوگا اوروہ اپنی اس حرکت سے باز آجائے گا تو اس سے واقعی سودا نہ خریدنا چاہیے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلامی قانون تجاوزات کے بارے میں کتنا حساس ہے ۔
    ہمارے معاشرے میں تجاوزات کوئی قابل ذکر عیب ہی نہیں رہے جس کا جی چاہتا ہے وہ اپنے مکان یا دکان کے گرد یا پوری کی پوری سرکاری زمین پر قبضہ جماکر بیٹھ جاتا ہے بلکہ ہمارے گرد وپیش میں جس طرح یہ تجاوزات پھیلے ہوئے ہیں ان میں ایک نہیں کئی کئی گناہ بیک وقت جمع ہیں ،اول تو عوامی زمین پر نا جائز قبضہ ہی بڑا سنگین گناہ ہے ،دوسرے عموماً ان تجاوزات سے راستہ چلنے والوں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے اورراہ گیروں کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرنا ایک مستقل گناہ ہے جس پر حدیث میں سخت وعید آئی ہے ،تیسرے ہمارے ماحول میں یہ تجاوزات رشوت خوری کے فروغ کا بہت بڑا ذریعہ بنی ہوئی ہیں کیونکہ انہیں باقی رکھنے کے لئے متعلقہ اہلکارکو ’’بھتہ ‘‘دینا پڑتا ہے اوریہ بھتہ ایک مرتبہ دینا کافی نہیں ہوتا ،بلکہ ہفتہ وار یا ماہانہ تنخواہ کی طرح اس کی ادائیگی ضروری ہوتی ہے جس کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس قسم کے اہل کار دل سے یہی چاہتے ہیں اوراس کی پوری کوشش بھی کرتے ہیں کہ یہ تجاوزات ختم نہ ہو ں تاکہ ان کی ’’آمدنی ‘‘کا یہ ذریعہ بند نہ ہونے پائے ،لہٰذا ان کو اپنے فرائض سے غافل کرنے بلکہ فرائض کے برعکس کا م کرنے کا گناہ بھی اس میں شامل ہوتو بعید نہیں ۔
    (۲)اس طرح ہمارے ملک میں یہ بھی عام رواج ہوگیا ہے کہ جلسوں اورتقریبات کیلئے چلتی ہوئی سڑک روک کر شامیانے اورقناتیںلگالی جاتی ہیں اوراس کے نتیجے میں آنے جانے والی گاڑیوںکو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اورٹریفک کے نظام میں بعض اوقات شدید خلل واقع ہوجاتا ہے ،یہ بات ہر مسلمان جانتا ہے کہ اگر کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو تو اس کے سامنے سے گذر نا جائز نہیں اوراحادیث میں اس بات کی سخت تاکید کی گئی ہے کہ کوئی بھی شخص کسی نمازی کے سامنے سے نہ گذرے ،لیکن ساتھ ہی شریعت نے نماز پڑھنے والے کویہ بھی ہدایت کی ہے کہ وہ ایسی جگہ نماز پڑھنا شروع نہ کرے جہاں لوگوں کو گذرنے میں دشواری ہومثلاً مسجد کا صحن اگر کھلا ہوا ہے تو صحن کے بیچوں بیچ یا اس کے آخری سرے پر نماز کیلئے کھڑے ہوجانا اس صورت میں جائز نہیں جب سامنے لوگوںکے گذرنے کی جگہ ہو اورنماز شروع کرنے کیوجہ سے انہیں لمبا چکر کاٹ کر جانا پڑتا ہو،لہٰذاحکم یہ دیا گیا ہے کہ ایسی جگہ نماز پڑھو جہاںیا تو سامنے کوئی ستون وغیرہ ہو جسکے پیچھے سے لوگ گذر سکیںیا سامنے نمازیوںہی کی صفیں ہوں،اگر کوئی شخص اس ہدایت کا خیال نہ رکھے اورصحن کے بیچوں بیچ نماز پڑھنے کھڑا ہوجائے تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ ایسی صورت میں کوئی شخص نمازی کے سامنے سے گذرنے پر مجبور ہوجائے تو اسکے گذرنے کا گناہ نماز پڑھنے والے پر ہوگا سامنے سے گذرنے والے پر نہیں ۔
    غور فرمائیے کہ مسجدیں عموماً بہت بڑی نہیں ہوتیںاوراگر کسی شخص کو چکر کاٹ کر نکلنا پڑے تو اس کے ایک دو منٹ سے زیادہ خرچ نہیں ہوتے ،لیکن شریعت نے اس ایک دو منٹ کی تکلیف یا تاخیرکوبھی گوارانہیں کیا اورنمازی کو تاکید فرمائی ہے کہ وہ لوگوںکو اس معمولی تکلیف سے بھی بچائے ورنہ گناہ گاروہ خود ہوگا ۔
    جب شریعت کویہ بھی گوارا نہیں کہ کوئی شخص ہماری وجہ سے اس معمولی تکلیف میں مبتلا ہو تو سڑک کو بالکل بند کرکے لوگوںکو دور کا راستہ اختیار کر نے پر مجبور کرنا کس طرح جائز ہوسکتا ہے ؟بالخصوص آج کی مصروف زندگی میں اگر کسی شخص کو اپنی منزل مقصود تک پہنچنے میںچند منٹ کی بھی تاخیر ہوجائے تو بعض اوقات اس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ جاتا ہے ،کسی بیمار کو اسپتال پہنچانا ہو یا کسی بیمار کے لئے دوالے جانی ہو یا کوئی مسافر ریلوے اسٹیشن یا ہوائی اڈے پہنچنا چاہتا ہواورہمارے جلسے یا تقریب کی وجہ سے اسے پانچ یا دس منٹ کی تاخیر ہوجائے تو کہنے کو یہ تاخیر پانچ دس منٹ کی ہے لیکن اس تاخیر کے نتیجے میں بیمار رخصت بھی ہوسکتا ہے مسافراپنے سفرسے بالکلیہ محروم بھی ہوسکتا ہے اورجن جن لوگوں کو اس طرح کا نقصان پہنچاہو ہمیں نہ ان کا نام معلوم ہے نہ پتہ اورنہ نقصان کی نوعیت ،لہٰذااگر اس گناہ کی تلافی کرنا بھی چاہیں تو اس کا کوئی راستہ اختیار میں نہیں ،ذاتی طورپرمجھے تو ان جلوسوںکا شرعی جواز بھی مشکوک معلوم ہوتا ہے جو گھنٹوںکے لئے آمد ورفت کا نظام درہم برہم کرکے عام لوگوںکو ناقابل بیان اذیتوںمیں مبتلا کردیتے ہیں کیونکہ یہ ساری خرابیاںان میںبھی بدر جہ اتم موجود ہیں۔
    (۳)یہ مناظر بھی بکثرت دیکھنے میں آتے ہیں کہ سڑکوںکو کرکٹ کا میدان بنالیا جاتا ہے اورسڑک کے بیچوں بیچ وکٹ یا وکٹ نما کوئی چیز نصب کرکے باقاعدہ کھیل شروع ہوجاتا ہے ،آس پاس کی ہر کھڑی یا چلتی ہوئی گاڑی بیٹسمین کے چوکوںکی زد میںہوتی ہے اورگیند کے پیچھے دوڑتے ہوئے فیلڈرآنے جانے والی گاڑی کی زد میںآجاتے ہیںیہ منظر گلیوں اورچھوٹی سڑکوںپر تو نظر آتا ہی رہتا ہے لیکن کچھ عرصہ پہلے دیکھا کہ ایک ایسے مین روڈ پر باقاعدہ میچ ہورہا تھا جہاں عام طورسے گاڑیاں ۶۰۔۷۰کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑتی ہیں یہ عوامی سڑک کا سراسر ناجائز استعمال تو ہے ہی ، خود کھیلنے والوں کے لحاظ سے اقدام خود کشی سے کم نہیں ،گیند کے پیچھے دوڑنے والے کے تمام تر ہو ش وحواس گیندپر مرکوز ہوتے ہیںاوروہ یکایک پیش آجانے والی کسی صورت حال کی وجہ سے اپنے جسم کو کنٹرول کرنے پر قادر نہیں ہوتا لہٰذا اچانک کوئی گاڑی سامنے آجائے تو کوئی بھی حادثہ پیش آسکتا ہے اوراس قسم کے حادثات پیش آبھی چکے ہیں اورجب اس کھیل کے نتیجہ میں جانیں تک چلی گئی ہیں تو گاڑیاں اوران کے شیشے ٹوٹنے کا کیا شمار ؟
    اس صورت حال کی ذمہ داری ان نو عمر کھیلنے والوں سے زیادہ ان کے والدین ،سرپرستوںاوران سرکاری کارندوں پر عائد ہوتی ہے جو انہیں اس خطرناک کھیل میںمصروف دیکھتے ہیں اوراس سے باز رکھنے کی کوشش نہیں کرتے ،دوسری طرف بڑے شہرو ں میں کھیل کے میدانوں کی کمی بھی اس صورت حال کا سبب ہے جس کی طرف حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
    (۴)سڑکوں پربے جگہ گاڑیوں کی پارکنگ بھی ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں ہم انتہائی بے حسی کا شکا ر ہیں چھوٹی گاڑیاںتو ایک طرف رہیں بڑی بڑی ویگنیںاوربسیںبھی ایسی جگہ کھڑی کردی جاتی ہیں کہ آنے جانے والوں کا راستہ بند ہوجاتا ہے یا گذرنے والوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے چونکہ ہم نے دین کو صرف نماز روزے ہی کی حدتک محدود کررکھا ہے اس لئے یہ عمل کرتے وقت کسی کو یہ دھیان نہیں آتا کہ وہ محض بے قاعدگی کا نہیں بلکہ ایک ایسے بڑے گناہ کا مرتکب ہورہا ہے ،جس کا تعلق حقوق العباد سے ہے ،اول تو جس جگہ پارکنگ ممنوع ہے اس جگہ گاڑی کھڑی کردینے کا ناجائز استعمال ہے جو غصب کے گناہ میں داخل ہے دوسرے حاکم کے ایک جائز حکم کی خلاف ورزی ہے تیسرے اس بے قاعدگی کے نتیجہ میں جس جس شخص کو تکلیف پہنچے گی اسے تکلیف پہنچانے کا گناہ الگ ہے اس طرح یہ عمل جو غفلت اوربے دھیانی کے عالم میں روز مرہ ہوتا ہے بیک وقت کئی گناہوں کا مجموعہ ہے جن پر دنیا میں چالان ہو یا نہ ہو آخرت میں ضرورباز پرس ہوگی ۔
    اسی طر ح بعض جگہ پارکنگ قانوناً ممنوع نہیں ہوتی لیکن گاڑی اس انداز سے کھڑ ی کردی جاتی ہے کہ آگے پیچھے کی گاڑیاںسرک نہیں سکتیں یا گذرنے والوںکو کوئی اورتکلیف پیش آتی ہے یہ عمل بھی دینی اعتبار سے سراسر ناجائز اورگناہ ہے ۔
    ہماری فقہ کی قدیم کتابیں اس زمانہ میں لکھی گئی ہیں جب خود کار گاڑیوں (آٹوموبائلز)کارواج نہیں تھا اورسفر کیلئے عموماً جانوراستعمال ہوتے تھے اس لئے ٹریفک کا نظام اتنا پیچیدہ نہیں تھا ،جتنا آج ہے،اس کے باوجود ہمارے فقہاء کرام نے سڑکو ں پر چلنے اورگاڑیوںکے ٹھہرانے کے بارے میںشرعی احکام کی تفصیل نہایت شرح وبسط کے ساتھ بیان کی ہے اوراس سے اسلامی تعلیمات کی ہمہ گیری کا بھی اندازہ ہوتا ہے اوراس بات کا بھی کہ اسلام میں نظم وضبط اورحقوق العباد کی کتنی اہمیت ہے ،اس کا تقاضایہ ہے کہ بحیثیت مسلمان ہمارانظم وضبط اورہماری تہذیب وشائستگی مثالی ہولیکن افسوس ہے کہ اپنی غفلت اوربے دھیانی کی وجہ سے ہم اس قسم کے بے شمار گناہ روزانہ اپنے نامہ اعمال میں شامل کرکے اپنی آخرت بھی خراب کررہے ہیں اوردنیا بھر کو اپنے بارے میںوہ تأثربھی دے رہے ہیں جو نہ صرف ہم سے نفرت کا باعث بنتا ہے بلکہ اسلام کی چمکتی ہوئی تعلیمات پرہماری بد عملی کا نقاب ڈالدیتا ہے جس کی وجہ سے وہ دین کاصحیح حسن دیکھنے سے محروم رہ جاتے ہیں ۔
    ٭٭٭
     
  2. امجدبلال احمد
    آف لائن

    امجدبلال احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏8 فروری 2013
    پیغامات:
    4
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سڑکوںکا ناجائز استعمال

    بہت اعلیٰ جناب
     
  3. حبیب اللہ جان
    آف لائن

    حبیب اللہ جان ممبر

    شمولیت:
    ‏24 فروری 2013
    پیغامات:
    1
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سڑکوںکا ناجائز استعمال

    آپ نے بالکل سچ لکھا ھے:a180:
     

اس صفحے کو مشتہر کریں