1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب فصیح بخاری کی تقرری کالعدم قرار دیدی

'خبریں' میں موضوعات آغاز کردہ از تانیہ, ‏29 مئی 2013۔

  1. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]

    سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب ایڈمرل (ر) فصیح بخاری کی تقرری کالعدم قرار دے دی ہے۔ عدالت نے وفاقی حکومت کو جلد نئی تقرری کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین نیب کی تقرری میں مشاورت کا عمل مکمل نہیں کیا گیا حالانکہ اپوزیشن لیڈر سے بامقصد مشاورت ضروری ہے۔ مختصر فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین نیب کی تقرری غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔ نیب کے آرڈیننس 6 کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ چیئرمین نیب کو ہٹانا ہی ہے تو آئینی طریقہ اپنایا جائے۔ آئین میں چیئرمین نیب کو سپریم کورٹ کے جج کی طرح ہٹانے کا طریقہ کار ہے۔ قبل ازیں چیئرمین نیب کی تقرری کے خلاف چودھری نثار کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ جسٹس تصدق جیلانی کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ نیب چیئرمین کے وکیل ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ نے کہا چودھری نثار نے فصیح بخاری کی تقرری کے خلاف ایک لفظ بھی اعتراض نہیں لگایا، وقت کم تھا قائد حزب اختلاف کے خط سے اخذ کیا گیا کہ مشاورت ہو گئی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا بامعنی مشاورت نہ ہونا آپ کے م¶کل کے حق میں نہیں جاتا۔ اتفاق رائے کی حقیقی کوشش کی جا سکتی تھی۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ نواز دور میں پی پی دور کے مقرر کردہ ججز کو اٹھا کر پھینک دیا گیا تھا۔ جسٹس آصف نے کہا آئین میں قائد حزب اختلاف سے مشاورت کا لفظ ہے۔ قائد حزب اختلاف نے ایک پینل کے لئے لکھا ہے اس کیس سے آپ کا کیا تعلق ہے۔ جسٹس انور نے کہا کہ 1995ءمیں جن ججز کو نکالا گیا تھا آپ کو علم ہے کہ وہ کون تھے۔ جسٹس تصدق نے کہا قانون کی تشریح کرنا عدالتوں کا کام ہے۔ جسٹس آصف نے کہا آئین کے لفظ خالی برتن ہوتے ہیں ججز ان میں معنی ڈالتے ہیں۔ لطیف کھوسہ نے کہا ایسی صورت حال بھی آ سکتی ہے کہ قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف متفق نہ ہوں۔ قائد حزب اختلاف کسی بات کو مانتے ہوئے بھی نہ مانے تو کیا کیا جائے۔ جسٹس آصف نے کہا یہ ایک لیگل کیس ہے سیاسی رنگ دینے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ عدالت اور تفتیشی ادارے میں تصادم کا تاثر نہیں ملنا چاہئے۔ 9 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جسٹس تصدق حسین جیلانی نے جاری کیا۔ تحریری حکم میں کہا گیا کہ چیئرمین نیب کی تقرری نیب آرڈیننس کے سیکشن 6 کے تحت نہیں۔ چیئرمین کی تقرری غیر قانونی ہے۔ چیئرمین نیب کی تقرری فوری طور پر کالعدم قرار دی جاتی ہے۔ وفاقی حکومت کو ہدایت کی جاتی ہے کہ فوری طور پر نئی تقرری کرے۔ واضح رہے اس سے قبل سپریم کورٹ نے جسٹس دیدار حسین شاہ کی تقرری کو بھی کالعدم قرار دے دیا تھا۔ سردار لطیف کھوسہ نے کہا سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے ایڈمرل ریٹائرڈ فصیح بخاری کو بحریہ کا سربراہ مقرر کیا تھا جس پر بنچ میں موجود جسٹس اطہر سعید کا کہنا تھا کہ نوازشریف نے تو جنرل پرویز مشرف کو بھی آرمی چیف مقرر کیا تھا۔ سردار لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ جب پرویز مشرف کو آرمی چیف بنایا گےا تو ان کے م¶کل نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ آئینی ماہر ایس ایم ظفر کا کہنا ہے کہ چیئرمین نیب کی تقرری کی شق میں ترمیم کرنی چاہئے اور اس کو اتفاق رائے کی بجائے کثرت رائے کو ترجیح دینی چاہئے۔


    نوائے وقت
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں