1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سویرے جو کل آنکھ میری کھلی ۔۔۔ پطرس بخاری

'ادبی طنز و مزاح' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏3 اکتوبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    سویرے جو کل آنکھ میری کھلی ۔۔۔ پطرس بخاری



    گیڈر کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف دوڑتا ہے،ہماری جو شامت آئی تو ایک دن اپنے پڑوسی لالہ کرشن جی برہمچاری سے بر سبیل تذکرہ کہہ بیٹھے کہ لالہ جی امتحان قریب آ رہے ہیں۔ آپ سحر خیز ہیں، ذرا ہمیں بھی صبح جگا دیا کیجئے۔دوسرے دن انہوں نے ہمارے دروازے پر مکا بازی شروع کر دی۔کچھ دیر تو ہم سمجھے کہ عالم خواب ہے،ابھی سے کیا فکر۔لیکن یہ گولہ باری لمحہ لمحہ تیز ہوتی گئی۔ اور صاحب کمرے کی چوبی دیواریں لرزنے لگیں ۔صراحی پر رکھا ہوا گلاس جلترنگ کی طرح بجنے لگا۔ اور دیوار پر لٹکا ہوا کلینڈر پینڈولم کی طرح ہلنے لگاتو بیداری کا قائل ہونا ہی پڑا۔مگر اب دروازہ ہے کہ لگاتارکھٹکھٹایاہی جا رہا ہے۔میں کیا، میرے آباء و اجداد کی روحیں ، اور میری قسمت خوابیدہ تک جاگ اٹھی ہوگی۔ بہت آوازیں دیں۔ اچھا ، اچھا، تھینک یو، جاگ گیا ہوں، بہت اچھا، نوازش ہے،جناب ہیں کہ سنتے ہی نہیں۔ خدایا کس آفت کا سامنا ہے، یہ سوتے کو جگا رہے ہیں یا مردے کو جگا رہے ہیں۔ پیشتر اس کے کہ بستر سے باہر نکلیں، دل کو کس قدر سمجھانا بجھانا پڑتا ہے اس کا اندازہ کچھ اہل ذوق ہی لگا سکتے ہیں۔آخرکار لیمپ جلایا،اورا ن کو باہر روشنی نظر آئی تو طوفان تھما۔

    اب ہم جو کھڑکی میں سے آسمان کو دیکھتے ہیں، تو جناب ستارے ہیں کہ جگمگا رہے ہیں!سوچا،کہ آج پتہ چلائیں گے کہ سورج کس طرف سے نکلتا ہے،جب گھوم گھوم کر کھڑکی اور روشن دان میں سے چاروں طرف دیکھا تو بزرگوں سے صبح کاذب کی نشانیاں سن رکھی تھیں، وہ بھی ان میں سے ایک بھی کہیں نظر نہ آئی تو فکر سی لگ گئی کہ آج کہیں سورج گرہن نہ ہو۔کچھ سمجھ نہ آیا تو پڑوسی کو آواز دی، ''لالہ جی، لالہ جی‘‘۔ جواب آیا، کیا بات ہے؟۔میں نے کہا، آج یہ کیا ماجرا ہے کہ کچھ اندھیرا اندھیرا سا ہے؟ کہنے لگے، تو اور کیا،تین بجے ہی سورج نکل آئے۔ تین بجے کا نام سن کر ہوش گم ہوگئے۔چونک کر پوچھا، '' کیا کہا تم نے،تین بجے ہیں؟۔کہنے لگے ، تین تونہیں کچھ سات، ساڑھے سات منٹ اوپر ہیں‘‘۔

    میں نے کہا: ارے بدتمیز کہیں کے، میں نے تجھ سے کہا تھا کہ صبح جگا دینا۔یا یہ کہا تھا کہ سونے ہی نہ دینا۔تین بجے جگانا بھی کوئی شرافت ہے؟ ہمیں تو نے کوئی ریلوے گارڈ سمجھ رکھا ہے کیا،تین بجے اٹھ سکتے تو آج دادا جان کے منظور نظر نہ ہوتے۔ احمق کہیں کے، تین بجے اٹھ کر ہم زندہ رہ سکتے ہیں ،امیر زادے ہیں، کوئی مذاق ہے۔

    دل تو چاہتا تھا کہ عدم تشدد کو خیر باد کہہ دوں۔ پھر خیال آیا کہ بنی نوع آدم کی اصلاح کا ٹھیکہ ہم نے تھوڑی لے رکھا ہے۔ لیمپ بجھایا اور بڑ بڑاتے ہوئے سو گئے۔ اور پھر نہایت اطمینان کے ساتھ، بھلے آدمیوں کی طرح اپنے دس بجے اٹھے۔بارہ بجے تک منہ دھویا۔اور چار بجے چائے پی کر ٹھنڈی سڑک کی سیر کو نکل گئے۔ شام کو واپس ہوسٹل میں وارد ہوئے۔ جوش شباب تو ہے ہی، پر اس شام کا وقت بھی رومان انگیز تھا، ہم ذرا ترنگ میں گاتے ہوئے کمرے میں د اخل ہوئے،

    بلائیں زلف جاناں کی اگر لیتے توہم لیتے

    اتنے میں پڑوسی کی آواز آئی۔۔۔''مسٹر‘‘۔ہم اس وقت ذرا چٹکی بجانے لگے تھے ، بس انگلیاں رک گئیں۔اور کان آواز کی طرف لگ گئے ۔ارشاد ہوا،'' یہ آپ گا رہے ہیں‘‘۔زور آپ پر ہوا۔میں نے کہا اجی ، میں کس لائق ہوں، لیکن فرمائیے۔ بولے: ''ذرا ۔۔وہ۔۔ میں ڈسٹرب ہوتا ہوں‘‘۔

    بس صاحب ، ہم میں جو موسیقیت کی روح پیدا ہوئی تھی، فوراََ مر گئی۔ ہم نے گڑ گڑا کر دعا مانگی کہ خدایا ہم بھی ا ب مطالعہ شروع کرنے والے ہیں ، ہماری مدد فرما۔ آنسو پونچھ کر اور دل کو مضبوط کرمیز کے سامنے آ بیٹھے۔ دانت بھینچ لئے۔ نکٹائی کھول دی، آستینیں چڑھا لیں، لیکن کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کریں۔سامنے سرخ، سبز اور زرد رنگ کی کتابوں کا ڈھیر لگا تھا۔اب ان میں سے کون سی پڑھیں، فیصلہ ہوا کہ پہلے کتابوں کوترتیب سے میزپر لگا دیں، کہ باقاعدہ مطالعے کی پہلی منزل یہی ہے۔ بڑی کتابوں کو الگ کر دیا، اور چھوٹی کتابوں کو سامنے قطار میں کھڑا کر دیا۔ نوٹ پیپر پر ہر کتاب کے صفحات کی تعداد لکھ کر سب کو جمع کیا۔ پھر 15اپریل تک کے دن گنے گئے۔ صفحوں کی تعداد کو دنوں پر تقسیم کیا، ساڑھے پانچ سو جواب آیا، لیکن اضطراب کی کیا مجال جو چہرے پر ظاہر ہو۔ دل میں تھوڑا سا پچھتائے، پھر سوچا کہ صبح سات بجے اٹھیں گے، صحت بھی ٹھیک رہے گی پھر لمبی تان کر سو گئے!​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں