1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سرمد سلطان نے بتایا

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از ساتواں انسان, ‏14 اگست 2019۔

  1. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ہم برصغیر کے اس حصے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں جذبات کی اہمیت عقلی بات کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ فہم و شعور کے چراغ ہمیں گستاخ ، زبان دراز ، کافر ، مشرک اور غدار لگتے ہیں ۔ وقت گزرتا ہے تو یہی کافر اور غدار سچائی کے علمبردار نظر آتے ہیں ۔ کاش ان کی باتیں پہلے مان لی جائیں تو حادثات سے نجات ممکن ہو ۔
    مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ابتدائی مذاکرات اکتوبر 1948 کو لندن اور پیرس میں شروع ہوئے ۔ پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم اپنے وفود کے ساتھ اجلاس میں شرکت کیلئے آئے ۔ دوسری طرف برطانیہ اور امریکہ بھی مسئلے کے حل کیلئے کوشاں تھے ۔ یہ مذاکرات مختلف مقامات پر ہوتے رہے ۔
    مذاکرات کے حتمی دور میں نہرو نے لیاقت علی خان کے سامنے دو تجاویز رکھیں ۔ اول یہ کہ پاکستان حق خود ارادیت کی شرط مان لے ۔ اسکی کوشش کرے ۔ دوسری یہ ہے کہ موجود علاقے پر موجود قبضے کو مانتے ہوئے کشمیر تقسم کر دیا جائے ۔ یہی شرط ستر سال بعد مان لی گئی ۔ سو نہرو کا ستر سال پہلے کا موقف جیت گیا ۔
     
  2. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    14 نومبر 1948 کو وزیر اعظم لیاقت علی خان نے بھارتی مبصر سری پرکاش کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان کشمیر پر استصواب رائے کیلئے تیار ہے ۔ نہرو نے اس کو تسلیم کیا ۔ ان کے بقول یہ مسئلہ اب پاکستان اور بھارت حل نہیں کر سکتے ۔
    13اگست 1948 کو اقوام متحدہ نے ایک قرارداد پاس کی ۔ اس کی روشنی میں استصواب رائے ہونا تھا ۔ جس کا اعلان لیاقت علی خان نے کیا ۔ اس قرارداد کا پہلا نکتہ یہ تھا کہ پاکستان آزاد کشمیر سے اپنی فوج پہلے نکالے گا ۔ کیونکہ پاکستان نے کشمیر پر پہلے حملہ کیا ۔ جسے تسلیم بھی کیا گیا ۔
    دوسری شرط یہ رکھی گئی پاکستان ان قبائلی لوگوں اور غیر مقامی لوگوں کا وادی سے انخلا ممکن بنایا جائے گا ۔ اس شرط کی وجہ یہی تھی کہ 1948 کی لشکر کشی میں قبائليوں کو وہاں بسایا گیا ۔ یا انہوں نے مال غنیمت کے طور پر ہندوؤں اور سکھوں کے گھروں پر قبضہ کر لیا ۔ اور بسنے لگے ۔
     
  3. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    تیسری تجویز یہ تھی کہ پاکستان کے خالی کردہ علاقوں پر مقامی انتظامیہ اور اقوام متحدہ کا کمیشن مل کر نگرانی کرینگے ۔ اب مقامی انتظامیہ سے کیا مراد تھی ۔ اس کی تشریح ادھوری ہے ۔ آیا سری نگر حکومت نگرانی کرے گی یا آزاد کشمیر حکومت ۔ ۔دونوں اطراف انتظامیہ کتنی بااختیار ہے سب جانتے ہیں ۔
    پاکستان ، بھارت کے لئے اقوام متحدہ کا کمیشن حکومت بھارت کو پہلی دونوں شرائط کی تکمیل کے بعد اطلاع دیگا ۔ اس کے بعد بھارت اپنی فوج مقبوضہ علاقے سے نکالے گا ۔ مگر یہ بات طے تھی کہ اس کوشش کا آغاز پاکستان کو کرنا تھا۔جسے تسلیم بھی کیا گیا ۔
    پانچویں تجویز یہ تھی کہ مقامی انتظامیہ کی مدد کے لئے قلیل تعداد میں فوج کشمیر میں موجود رہے گی ۔ یہ حق بھارت کو دیا گیا تھا۔مگر ساتھ میں یہ بھی کہا گا کہ کمیشن اس بات کو یقینی بنائے گا کہ فوج کی تعداد کم ہو ۔ اس کام کیلئے مبصر تعینات کئے جائیں گے ۔
     
  4. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    چھٹی اور آخری تجویز یہ تھی کہ حکومت بھارت اس بات کی یقین دھانی کروائی گی کہ حکومت کشمیر ہر لحاظ سے بااختیار ہے اور وہ امن و اماں ، سیاسی اور مذہبی حقوق کا تحفظ کرے گی ۔ ان شرائط کو مان کر استصواب رائے ہونا تھا ۔ پاکستانی اداروں نے ہمیشہ ان سے دامن بچایا اور عوام کو گمراہ کیا ۔
    فوجی حکمرانوں کو مسئلہ کشمیرہمیشہ سے بار لگا ہے ۔ سب سے پہلےایوب خان نے شیخ عبداللہ کومشورہ دیا کہ وہ اپنی مرضی سے بھارت کیساتھ سمجھوتہ کرلیں ۔ پاکستان کو چھوڑیں ۔ مگر شیخ عبداللہ جوحالات سےواقف تھے ، انہوں نے انکارکیا ۔ ایسی ہی ایک کوشش ضیاالحق نے کی تھی ۔ اورمشرف صاحب تو کل کی بات ہیں ۔
    پاکستان کی سویلین قیادت ہمیشہ سے اقوام متحدہ کی قرارداد کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کا حل چاہتی ہے ۔ مگر مقتدر ادارہ ہمیشہ ہی سے دوسرے حل کی طرف گامزن رہا ہے ۔ ایوب سے مشرف تک سب ہی کشمیر کی علاقائی تقسیم کے قائل رہے ہیں ۔ اب یہ بات واضح ہوتی ہے کشمیر کا موجود مقدمہ کس نے لڑا ہے ۔
     
  5. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ( 2 )
    ہم نے انگریزوں سے طرز حکومت کی بابت کچھ سیکھا یا نہیں سیکھا ۔ مگر ایک کام ضرور سیکھا ۔وہ ہے مخالفین کو لاپتہ کرنا ۔ غائب کرنا ۔ عقوبت خانوں میں طویل قید اور پھر ظلم ۔ انگریزوں نے یہ جبر اہل ہند پر کیا ۔ افریقہ کے سیاہ فارم پر کیا ۔ ہمارا کمال یہ ہے کہ ہم نے اپنے ہی لوگوں پر یہ حربہ آزمایا ہے ۔
    12اگست 1948 کوخدائی خدمتگاروں کے احتجاجی جلوس پر فائرنگ کی گئی ۔ 600 افراد شھید ہوئے ۔ خدائی خدمتگاروں کا صدر دفتر حکومت نے مسمار کیا ۔ خدائی خدمتگار کارکنان گرفتار ہوئے ۔ خان قیوم نے قائداعظم کوقتل کرنے کے جھوٹے الزام میں بےشمار کارکنان کو قتل کیا ۔ آغاز ہی قتل و غارت سے ہوتا ہے ۔
    مارچ 1951 کو پنڈی سازش کا انکشاف ہوا . سازش میں فوجی افسران ملوث تھے ۔ جو لیاقت علی خان کو قتل کرنا چاہتے تھے ۔ سازش کی تفتیش کا فریضہ جنرل ایوب کو سونپا گیا ۔ جنہوں نے کیمونسٹ پارٹی کے ہزاروں کارکنان کو اس سازش کا الزام عائد کرکے عقوبت خانوں کی نذر کیا ۔ پارٹی پر پابندی لگادی گئی ۔ کیا بدلا ؟
     
  6. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    1958 میں ایوب خان نےمارشل لا لگایا ۔ حکومت پرقبضہ کیا ۔ طلبہ اور مزدورں نے احتجاج شروع کیا ۔ حسن ناصرمزاحمت کی علامت بن کر ابھرے ۔ 1960 میں گرفتار کرکے شاہی قلعے کے تہہ خانے میں موت کی نیند سلا دیا گیا ۔ ان کی لاش آج تک نہیں مل سکی ۔ ان کی والدہ جو وقار الملک کی بیٹی تھیں ۔ عدالتوں کےچکرلگاتی رہیں ۔
    مارچ 1971 کومغربی پاکستان میں عوامی لیگ کو کچلنے کیلئے آپریشن کیا گیا ۔ اس میں سرکاری زرائع کے مطابق 34 ہزار افراد قتل ہوئے ۔ جن میں ایک ہزار اساتذہ بھی شامل تھے ۔ اس آپریشن میں بھی کئی افراد لاپتہ ہوئے ۔ جنکی آج تک کوئی خبر نہیں مل سکی ۔ جن میں دانشور اور وکلاء شامل تھے ۔ حادثہ بے سبب نہیں ہوتا ۔ !
    فروری 1973 میں بلوچستان آپریشن کاآغاز ہوا ۔ وجہ عراقی سفارتخانے سےاسلحہ ملنا جسے بلوچوں میں تقسیم ہونا تھا ۔ جنرل ٹکا نےآپریشن کی کمانڈ کی ۔ کئی افراد لاپتہ ہوئے ۔ مشہورکیس اسد مینگل کا ہے ۔ جواختر مینگل کےچھوٹے بھائی تھے ۔ آج تک اسکی تحقیقات نہیں ہوئیں ۔
     
  7. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    بھٹو کی پھانسی کے بعد فروری 1981 میں تحریک بحالی جمہوریت شروع ہوئی ۔ تحریک کےنمایاں راہنماؤں میں بےنظیر ، ولی خان ، فضل الرحمان شامل تھے ۔ تحریک نے سندھ میں زور پکڑا ۔ سندھ میں فوجی آپریشن شروع ہوا ۔ جس میں کئی سیاسی کارکنان کوملک دشمن قرار دیکر اٹھایا گیا ۔ ضیا کے بقول تحریک کوبھارت کی حمایت حاصل تھی ۔
    جون 1992 کو کراچی میں بدامنی ختم کرنے کیلئے فوجی آپریشن ہوا ۔ ایم کیو ایم پر بھارتی حمایت کاالزام لگا ۔ جناح پور کے نقشے برآمد ہونے کا دعوی کیا گیا ۔ بعد میں خود اس کی تردید کی گئی ۔ ہم الطاف حسین اورمتحدہ کو دہشت گرد مان لیتے ہیں ۔ مگرجنہوں نے 25 ہزار لوگوں کو قتل کیا ۔ وہ کیا ہیں ؟ ۔ اس آپریشن میں کئی افراد لاپتہ ہوئے ۔
    اگست 2006 میں اکبربگٹی کی شھادت کے بعد حالات کشیدہ ہوئے ۔ اسی دوران بلوچوں کی جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہوا ۔ ماما قدیر بلوچ نے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے پیدل لانگ مارچ کیا ۔ اس دوران جاوید اقبال کی سربراہی میں لاپتہ افراد کمیشن تشکیل پایا ۔ جس کی رپورٹ جاری نہ ہوسکی ۔ سفر جاری ہے پیدل پاؤں ۔ !
     
  8. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ( 3 )
    جب بھی مسئلہ کشمیر پر بات ہو تو ہمارے کچھ دوست کہتے ہیں کہ اگر نواز شریف کارگل میں فوج کو نہ روکتے تو کشمیر فتح ہو چکا تھا ۔ اس بات کیلئے بطور دلیل برکھا دت کی کتاب کا حوالہ دیا جاتا ہے ۔ جس میں ایسی کوئی بات نہیں لکھی ہے ۔ مگر کچھ صحافی حضرات سنی سنائی بات کرتے ہیں اور پھر چل سوچل ۔ ۔
    کارگل آپریشن پر کئی کتب لکھی گئیں ہیں ۔ مگر کارگل معاملے پر جس کتاب نے بھرپور زکر کیا گیا وہ جنرل مجید ملک کی کتاب " ۔ہم بھی وہاں موجود تھے " ہے ۔ یہ کتاب 2015 میں شائع ہوئی تھی ۔ اس میں ایک پورا باب کارگل آپریشن پر تحریر کیا گیا ہے ۔ جنرل صاحب 1999 میں شمالی علاقہ جات کے وفاقی وزیر تھے ۔
    جنرل مجید ملک کے بقول جب واجپائی صاحب پاکستان کے دورے پر آئے تو امن کی فضا بحال ہوئی ۔ اور یہ لگ رہا تھا کہ شاید اب خطے میں نئے دور کا آغاز ہوا ۔ مگر فوج نے واجپائی کی آمد اور اور اس سے جڑی پیش رفت کو اچھا خیال نہیں کیا ۔ اسکی وجہ شاید ماضی کے واقعات تھے ۔ یعنی مارشل لا کی عادت ۔ ۔
     
  9. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    کارگل پر حملے کا منصوبہ صرف پاک بھارت تعلقات کو خراب کرنے کا منصوبہ تھا ۔ ایسی ہی بات سابق سفیر امجد نون نے لکھی ہے ۔ ان کے بقول اس منصوبے کی بابت پاک فضائیہ اور نیول چیف دونوں بے خبر تھے ۔ اس منصوبے کی بابت بقول وزیراعظم کسی کو خبر نہیں تھی ۔ اب زمہ دار کون ہے ؟
    نواز شریف نے کارگل سے پاکستانی فوج کو واپس بلایا ۔ مگر سوال یہ ہے کہ کارگل بھارت کے پاس گیا کیسے ؟
    کارگل پہلے پاکستان کا حصہ تھا ۔ 1971 میں پاکستان نے کارگل میں بھی ہتھیار ڈالے ۔ یہ علاقہ بھارت کے پاس چلا گیا ۔ جہاں بھارت نے اپنی چوکیاں بنا لیں ۔ 1971 میں وزیراعظم نواز شریف تو نہیں تھے . !
    بھارتی منصف سی این آنند کے بقول پرویز مشرف خود کو چنگیز خان سمجھتے تھے ۔ اور اس کی طرح بے رحم ہونا چاہتے ۔ کارگل کا منصوبہ پرویز مشرف ، جنرل محمود ، جنرل جاوید حسن ، جنرل عزیز اور توقیر ضیا کی مشترکہ پیش کش تھا ۔ جس کا ملبہ بعد میں سویلین حکومت پرڈالا گیا ۔ یہ آپریشن فروری 1999 میں شروع ہوا ۔
     
  10. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    کارگل میں جب فوجی کاروائی شروع ہوئی اس وقت پاکستانی حکومت اورفوج دونوں نے اس کی زمہ داری نہیں لی ۔ بلکہ کہا گیا یہ مجاہدین کی کاروائی ہے ۔ جبکہ نادرن لائٹ کے دستے وہاں لڑ رہے تھے ۔ اسی وجہ سے شہدائے کارگل کی میتوں کو ابتدا میں وصول کرنے سے انکار کیا گیا ۔ کیپٹن شیر خان کا قصہ زبان زد عام ہوچکا ہے ۔ ۔
    فروری 1999 میں ہونے والے کارگل آپریشن کی پہلی سرکاری بریفنگ 17 مئی 1999 کو دی گئی ۔ یعنی چار ماہ بعد ۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ بھارت فوج نے بھاری توپ خانے کا استعمال کیا ۔ جس کی وجہ سے پاک فوج کو بھاری نقصان ہوا ۔ اسکے بعد حکومت کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا گیا ۔ اب زمہ دار کون ہے ۔ ؟
    اس بریفنگ میں شریک افراد نے اس آپریشن کی مخالفت کی ۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ اس کا عالمی سطح پر دفاع مشکل ہوگا ۔ جنرل افتخار کے بقول جنگ پھیل گئی تو ہمارے فوجی وسائل اس کو سنبھال نہیں سکیں گے ۔ مگر اسکے باوجود کاروائی جاری رکھی گئی ۔
     
  11. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    جنرل مجید ملک کے بقول انہوں نے اس آپریشن کی مخالفت کی ۔ ان کے بقول لائن آف کنٹرول کی غلاف ورزی پاکستان کے لئے مسائل پیدا کرسکتی ہے ۔ دوسرا اس آپریشن میں کامیابی شاید اتنی زیادہ نہ ہو ۔
    جنرل مشرف 17 مئی کو بریفنگ کے بعد چین کے دورے پر روانہ ہوئے ۔ معاملے کی حساسیت جانے بغیر انہوں نے ہوٹل کے کمرے سے جنرل عزیز کو فون کیا ۔ طویل گفتگو فرمائی ۔ مشرف کا یہ اقدام ملکی سکیورٹی کے خلاف تھا ۔ مگر انکے خلاف کوئی کاروائی ہوتی ۔ انہوں نے مارشل لا لگا دیا ۔ یہ روایت جاری ہے ۔ ۔
    ایسی ہی بات امجدنون نے اپنی کتاب میں لکھی ہے ۔ ان کےبقول اسی ٹیپ گفتگو میں جنرل مشرف نےاقرار کیا کہ کارگل میں پاکستانی فوج لڑ رہی ہے ۔ اس دوران بھارت نے فضائیہ کی مدد سے پاک آرمی کو بھاری نقصان پہنچایا ۔ مجید ملک نے یہی بات کہی تھی کہ ہم اپنے فوجیوں کو اسلحہ اور خوراک نہیں پہنچا سکیں گے ۔
     
  12. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    اس دوران جنرل زینی جو سنٹرل فورس کے کمانڈر تھے ۔ پرویز مشرف کے دوست تھے ۔ انہوں نے پاکستان کا دورہ کیا ۔ اور دھمکی دی کہ فوج کو واپس بلائیں ورنہ تمام اہم مقامات ہمارے نشانے پر ہونگے ۔ اس دھمکی کا مشرف پر عجیب اثر ہوا ۔ نواز شریف چين گئے ۔ وہاں بھی یہی کہا گیا کہ فوج کو واپس بلانا ہوگا ۔
    مشرف کے بقول نواز شریف امریکہ اپنی مرضی سے گئے ۔ مجید ملک کے بقول دونوں کا مشترکہ فیصلہ تھا کہ امریکہ سے مدد لی جائے ۔ اور جنگ ختم کی جائے ۔ یاد رہے کارگل میں پاک فوج کا جانی و مالی نقصان تمام جنگوں سے بہت زیادہ تھا ۔ فوج کا مورال بری طرح گرا تھا ۔ مگر کبھی کسی نے کمیشن نہیں بننے دیا ۔
    امریکہ کے دورے میں نواز شریف ان کے وفد کی بھرپور کوشش تھی کہ پاکستان کا وقار قائم رہے ۔ ایسی ہی ایک کوشش بھٹو نے شملہ میں کی تھی ۔ بعد ازاں ایسی پریس ریلیز ہی سامنے آئی ۔ مگر نواز شریف کو ان سب کوششوں کے باوجود غدار کہا گیا ۔ جنہوں نےاپنے جوانوں کی میت تک وصول نہیں کی ۔ وہ محب الوطن ہیں ۔
     
  13. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    امریکہ کےدورے سے واپس آگر نوازشریف نے پہلا حکم یہی دیا کہ فوج انکوائری کرکے بتائے کارگل کی ناکام مہم کے منصوبہ سازکون ہیں ؟
    مشرف کوخطرہ محسوس ہوا شاید سزا ملے ۔ اس سے پہلےانکوائری حتمی نتیجے پر پہنچتی مشرف نےجنرل محمود ، جنرل عزیز کی مدد سے مارشل لا لگا دیا ۔ کارگل کے شہداء انکوائری کے انتظار میں ہیں ۔
     
  14. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ( 4 )
    غالب نےعالم وجد میں کہا تھا اسکی آبرو اسی وجہ سے ہے کہ وہ شاہ کا مصائب ہے ۔ ورنہ وہ کب سر اٹھا کر چلنے کے لائق تھا ۔ ایسا ہی کچھ حال ہمارے اہل سیاست کا ہے ۔ یہی کردار ان کے آبا و جد کا تھا ۔ کسی سیاستدان کی سیاست اس وقت تک مکمل سمجھ نہیں آتی جب تک اسکے خاندان کی تاریخ نہ معلوم ہو ۔ تاریخ جو ہم بھول جاتے ہیں !
    راولپنڈی کا ایک قصبہ ہے چکری ۔ جہاں الپیال راجپوت بستے ہیں ۔ ان کے سربراہ چودھری شیرخان نے کھل کر انگریزوں کا ساتھ دیا ۔ 21 فروری 1849 کی سکھ فرنگی جنگ میں انہوں نے انگریزوں کا ساتھ دیا ۔ 1853 میں نادرخان گگھڑ کی بغاوت ختم کرنے میں مدد کی ۔ 250 روپے کی پنشن اور 492 روپے مالیت کی جائیداد بطور انعام وصول کی ۔
    1957 کی جنگ میں چودھری شیرخان نے انگریزوں کیلئے مخبر کا کام کیا ۔ مری تک باغیوں کی سرکوبی میں کمشنرکا ساتھ دیا ۔ ان کا سالانہ وظیفہ 492 سے بڑھا کر 750 روپے کردیا گیا ۔ 500 روپے کی خلعت سےنوازا گیا ۔ 500 روپے کارگزاری کا انعام ملا ۔ ان کے پوتے فتح خان اور حیات خان نے عراق میں انگریز فوج کیساتھ کام کیا ۔
     
  15. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    جنگ عظیم اؤل میں چودھری فتح خان نے 600 سے زائد افراد کو انگریزی فوج میں بھرتی کروایا ۔ چھوٹے بھائی حیات خان کو وزیرستان فورس میڈل سےنوازا گیا ۔ فتح خان کے بڑے بیٹے سلطان خان کوفوج میں جمعدار بھرتی کیا گیا ۔ دوسرے بیٹے چودھری تاج سیاست میں رہے ۔ چودھری تاج کی سیاست پر چودھری نثارعلی خان نے قبضہ کیا ۔
    1848-49 میں ہند میں مغل حکومت زوال پذیرتھی ۔ اٹک کےعلاقہ شمس آباد کے نواب فیروز الدین نے انگریزوں کی اطاعت قبول کی ۔ ان کو رام نگر ، مارگلہ ، پنڈدادن خان اور دیگرعلاقوں سےبھاری مالیانہ وصول کر کے دیا ۔ 1857 میں فیروز نے پیادہ و سواردونوں طرح سے انگریزوں کی مدد کی ۔ دريائےسندھ میں انگریز کشتیوں کی حفاظت کی ۔
    1857 کی بغاوت میں انگریزوں کا ساتھ دینے پر فیروز کو تحصیلدار کا منصب عطا ہوا ۔ 500 روپے کی خلعت اور 400 روپے کی جاگیر سے نوازا گیا ۔ ان کے پوتے محمد امین نے مسند سنبھالی ۔ خدمات کےعوض 6 مربعوں سےنوازا گیا ۔ 1920 میں تحریک ترک موالات اور 1931 کوسرخ پوش تحریک کے خلاف انگریزوں کا ساتھ دیا ۔ آپ کو خان بہادر کا خطاب ملا ۔
     
  16. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    پہلی جنگ عظیم میں محمد امین نےاپنے مزارعوں کوفوج میں بھرتی کروایا ۔ اس خدمت کےعوض آپ کو اعزازی شمشیر ، سر کا خطاب اور دس مربعے زمین عطا ہوئی ۔ آپ نے جنگی فنڈ میں پیسے بھی دیئے ۔ آپ کے فرزند ملک اکرم اٹک میں ایوب خان کی صدارتی مہم کے انچارج تھے ۔ آپ کے پڑپوتے وزیر ماحولیات ملک امین اسلم ہیں ۔
    مخدوم شیخ کبیرالدین کے فرزند شاہ محمودقریشی اؤل نے سکھوں اورانگریزوں کیلئے خدمات سرانجام دیں ۔ انگریزوں کی فتح کیلئےسب سے پہلی دعا درگاہ بہاؤالدین میں ہوئی ۔ شاہ محمود نےانگریزوں کوغیرمشروط مدد کی یقین دھانی کروائی ۔ آپ نےانگریز کمشنر کو اس کا یقین دلایا کہ باغیوں کوعلاقےمیں آنے نہیں دیا جائے گا ۔
    شاہ محمود اؤل نےغلام مصطفی خان کے رسالے کیلئے بیس گھڑ سواروں کا انتظام کیا ۔ کرنل ہملٹن کو باغیوں کےخلاف 25 گھڑ سواروں کی مدد فراہم کی ۔ اس دوران وہ کرنل صاحب کےکیمپ میں خود بھی کام کرتے رہے ۔ وجہ یہی تھی لوگ جانیں کہ روحانی قوت ہملٹن کے ساتھ ہے ۔ گوگیرہ بغاوت کو کچلنے کیلئے وہ خود انگریز فوج کے ساتھ گئے ۔
     
  17. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    1857 کی بغاوت کو کچلنے میں انگریزوں کا ساتھ دینے پر شاہ محمود کو 3000 روپے کے تحائف سےنوازا گیا ۔ بہاوالدین کے مزار کا خرچ بڑھا کر 1780 روپے کردیا گیا ۔ اس کے ساتھ ہی ان کو 550 روپے مالیت کے آٹھ کنوئیں بھی دیئے گئے ۔ 1860 میں وائسرائے کے لاہور دورے کے موقع پر ان کو بھنگی والہ باغ جس کی مالیت 150 روپے تھی عطا کیا گیا ۔
    شاہ محمود اؤل کے وارث سجاد حسین قریشی نے سنبھالی ۔ یونینسٹ پارٹی کے سرگرم راہنما رہے ۔ اگست 1947 میں مسلم لیگ میں شامل ہوئے ۔ 1955 میں سکندرمرزا کی ریپبلکن پارٹی میں شامل ہوئے ۔ 1962 میں ایوب خان کی کنویشن لیگ میں شامل ہوئے ۔ ملتان میں صدارتی مہم کےاہم رکن تھے ۔ 1970 میں کونسل مسلم لیگ میں شامل ہوئے ۔
    سجاد قریشی 1970 کے انتخاب کے بعد پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے ۔ 1977 میں ضیاء کی مجلس شوری میں شامل ہوئے ۔ 1985 میں سنیٹر بنے ۔ پھر گورنر پنجاب مقرر ہوئے ۔ 1988 میں چند ماہ کیلئے جونیجو لیگ میں شامل رہے ۔ ان کے سیاسی وارث شاہ محمود قریشی ہیں ۔ جومسلم لیگ جونیجو سے تحریک انصاف تک چار جماعتیں بدل چکے ہیں ۔
     
  18. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    خوشاب کے ٹوانہ انگریزوں کے پرانے حلیف تھے ۔ وجہ سکھوں سے بچاؤ کرنا تھا ۔ محمد خان ٹوانہ کو ہری سنگھ نلوہ نے شکست دی ۔ مٹھاٹوانہ ، شاھپور کا علاقہ چھین لیا ۔ شاھپورمیں ان کے سربراہ رائے اودر تھے ۔ 1857 کی جنگ میں فتح خان نےانگریزوں کا ساتھ دیا ۔ چیلیانوالہ کی جنگ میں انہوں نے رام سنگھ کو اپنے ہاتھوں سےقتل کیا ۔
    ٹوانہ قبیلے کے صاحب خان نے 14 انفنٹری میں خدمات سرانجام دیں ۔ باغیوں کی سرکوبی کی ۔ ان کے بیٹے فتح شیر کو خان بہادرکےخطاب سےنوازاگیا ۔ شیرمحمد ٹوانہ کو 5000 روپے اور فتح شیر کو 3240 روپے مالیت کی جائیداد ملی ۔ صاحب خان کو 480 روپے سالانہ پنشن ۔ ٹوانہ خاندان کو 30 ہزار ایکڑ زمین خوشاب میں اور 1500 ایکڑ جہلم میں دی گئی ۔
    نواب احمدعلی خان منڈل جو کرنال کے نواب تھے ۔ انگریزوں کے بڑے حامی تھے ۔ مظفرنگرکی بغاوت کو کچلنےمیں انہوں نے اہم کردار ادا کیا ۔ مظفرنگر سہارن پور اور میرٹھ کے بیچ واقع تھا ۔ خدمات کے صلے میں ان کو 5000 روپے انعام اور دس ہزار روپے کی خلعت سے نوازا گیا ۔ ان کے بیٹے عظمت علی خان کو بھی نواب بہادرکےخطاب دیا گیا ۔
    منڈل کے نواب کےجانشین ان کے بھائی رستم علی خان قرار پائے ۔ ان کی تعریف انگریز وائسرائے نے بھی کی ۔ پہلی جنگ عظیم کےموقع پر آپ نے جنگی فنڈ میں بےپناہ حصہ ڈالا ۔ آپ کے فرزند لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم بنے ۔ وہ پہلے نواب چھتاری کی جماعت میں شامل ہوئے ۔ اس کے بعد مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری بنے ۔
     
  19. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ( 5 )
    مقدس کتاب زبورمیں حضرت داؤد (ع) فرماتے ہیں " میری زبان ماہر کاتب کا قلم ہے " ۔ انجیل کےنئےعہد نامے میں شامل یوحنا (ع)کے تیسرے خط میں ارشاد ہے " مجھے لکھنا تو تجھے بہت کچھ تھا مگر سیاہی اور قلم سے تجھے لکھنا نہیں چاہتا " ۔ یہ ایک جملہ ہمارے کتنے المیوں کو بیان کرتا ہے ۔ یہی صحافت کا المیہ ہے ۔
    برصغیر کا پہلا اخبار ہکی گزٹ یا بنگال گزٹ تھا ۔ اسے آگسٹن ہکی نے جاری کیا ۔ اخبار 29 جنوری 1778 میں جاری ہوا ۔ گزٹ برصغیرمیں ایسٹ انڈیا کمپنی کیخلاف پہلی صحافتی آوازتھا ۔ ہکی نے اس دور جبرمیں سچ سامنے لانےکا طریقہ یہ نکالا کہ اس نے مخالفین کے ناموں سے ملتے جلتے فرضی نام تخلیق کرکے خبر لگانی شروع کی ۔
    ہکی نے لارڈ وارن ہیٹنگز سے لیکر پادری جان زکریا کرنینڈر اور کمپنی کےتمام اعلی افسران کے سکینڈل شائع کرکے ان کی اصلیت آشکار کی ۔ یہاں تک کہ اس کو اسی ہزار روپے جرمانے اور ایک سال قید کی سزا سنائی گئی ۔ ہکی کے جواب میں کمپنی سرکار نے انڈیا گزٹ نکالا جو پہلا خوشامدی اخبارتھا ۔ اب تو ماشاللہ بےشمار ہیں ۔
    لارڈ ولزلی جس کے دور میں ٹیپو سلطان کوشکست ہوئی ۔ مگر بہت کم لوگ جانتے ہیں اخبارات پرسنسرشپ کا پہلا قانون ولزلی نے ہی جاری کیا ۔ جس کے تحت اخبارچھاپنے والے کو اخبار کے آخرمیں اپنا نام و پتہ لکھنا تھا ۔ کوئی اخبار اس وقت تک شائع نہیں ہوسکتا تھا جب تک حکومتی نمائندہ اسکو دیکھ نہ لے اوراس کی منظوری نہ دے ۔
     
  20. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    جنوری 1823 کو جان ایڈم عارضی طور پر گورنرجنرل مقرر ہوئے ۔ 18 دسمبر 1823 کو پریس آرڈینس جاری کیا ۔ جس نے اخبارات کی آزادی ختم کردی ۔ اخبارات کوسرکاری چھاپہ خانوں سےشائع کرنے کا حکم سامنے آیا ۔ اس قانون کو راجہ موہن رائے نے سپریم کورٹ میں چیلج کیا ۔ اپیل رد ہوئی ۔ راجہ نےبطوراحتجاج اپنا اخباربند کردیا ۔
    جنگ آزادی 1857 کے بعد آزادی کے حامی اخبار نویسوں کو سزائیں ملیں ۔ دہلی اردو اخبار کے مدیرمولوی محمد باقر کودہلی کالج کے پرنسپل ٹیلر کے قتل کے الزام میں گولی مار دی گئی ۔ صادق الاخبار کے مدیرجمال الدین کوتین سال سخت قید کی سزا ملی ۔ جنگ کے بعد اردو کے اخبارات بند کردیئے گئے ۔ یہ بھی جبر کا بدترین دور تھا ۔
    جون 1903 میں لاہور سے ہفت روزہ زمیندار کا آغاز ہوا ۔ مدیر تھے مولوی سراج الدین ۔ 1907 میں جب نہری زمینداروں پر پابندی لگی تو اخبار نے زمینداروں کا ساتھ دیا ۔ چودھری شھاب الدین کا " ہاڑا ۔ ۔ پگڑی سنبھال اوئے جٹا " اسی میں شائع ہوا ۔ اسی تحریک میں لالہ لاجپت رائے کو جلاوطن ہونا پڑا زمیندار کچھ عرصے کیلئے بند ہوگیا ۔
    پھر حسرت موہانی کا اخبار اردوئے معلی نے کھل کر انگریزوں کی مخالفت کی ۔ 1907 میں ایک سخت کالم لکھنے کی بدولت قید کی سزا پائی ۔ رہا ہوکر آئے تو اس سے بڑھ کر سخت کالم لکھا ۔ پھر قید ہوئے ۔ مشق سخن چکی کی مشقت کے ساتھ جاری رہی ۔ وہ پہلے سیاسی اسیر تھے جن کو پریس لاء کے تحت سزا سنائی گئی ۔
     
  21. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    1911 میں مولانا محمد علی جوہر نے کامريڈ جاری کیا ۔ 1913 میں ہمدرد جاری ہوا ۔ 1915 میں جوہر کو نظربند کردیا ۔ دونوں اخبارات بند کردیئے گئے ۔ 1921 میں تحریک خلافت میں نمایاں کردار کی وجہ سے ڈھائی سال قید کی سزا پائی ۔ آپ پر پچیس کے قریب مقدمات درج کئے گئے ۔ مگرآپ نےضمیر کا سودا نہیں کیا ۔ لفافہ بھی نہیں لیا ۔
    پاکستان بننے کے بعد سب سے پہلے امروز اخبار جاری ہوا ۔ اس کو میاں افتخارالدین کی سرپرستی حاصل تھی ۔ جو اپوزیشن کے راہنما تھے ۔ ایوب مارشل لا کے فوری بعد اس اخبار پررات چار بجے کامیاب آپریشن کرکے قبضہ کیا گیا ۔ قصور فقط مارشل لا کی مخالفت تھی ۔ 1960 میں پریس اینڈ پبلیکشن کا کالا قانون جاری ہوا ۔
    1959 میں رائٹر گلڈ کی بنیاد رکھی گئی ۔ مقاصد بظاہر ادیبوں ، اہل قلم کی فلاح تھی ۔ مگر اصل کام حکومت کی تعریفیں بیان کرنا تھیں ۔ اس گلڈ سے وابستہ کئی اہل قلم نے فرضی ناموں سےبرئگیڈیر ایف ۔ آر۔ خان کی ہدایت پر ایوب حکومت کیلئے مضامین اور پمفلٹ لکھے ۔ لفافہ صحافت کا پاکستانی دور شروع ہوتا ہے ۔
    1964-65 کے صدارتی الیکشن میں معروف اخبارات نے فاطمہ جناح کو کم کوریج دی ۔ جس کا شکوہ انہوں نے اپنی ایک تقریر میں بھی کیا ۔ کراچی ٹائمز کے زیڈ - اے - سلہری نے مس جناح کو غداری کی سندجاری کی ۔ ایوب نےاس مضامین کو اپنی تقاریر کا حصہ بنایا ۔ سلہری صاحب بعد میں آئی - ایس- پی - آر کے ڈرائکٹرجنرل بھی رہے ۔
     
  22. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    1968 میں جب ایوب کے غلاف تحریک چلی ۔ طلبہ اورسیاسی جماعتوں نے کالے قوانین ختم کرنے کا مطالبہ کیا ۔ ایسے میں صحافیوں نے بھی آزادی صحافت کا نعرہ بلند کیا ۔ اخبارات نےعوامی تحریک کو کامیاب کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ مگرجنرل یحیی کے دور میں بنگالی صجافیوں کا جینا مشکل ہوا تو کسی نے آواز نہیں اٹھائی ۔
    1977میں جنرل ضیاء کا مارشل لا صحافت کیلئے بدترین عہد تھا ۔ جنرل ضیاء نے صحافت کے ناپسندیدہ عناصر کو الٹا لٹکانے کا اعلان کیا ۔ عناصر جمہوریت کی بات کرتے تھے ۔ اس عرصے میں 120 صحافتی کارکنان کو گرفتار کیا گیا ۔ ملٹری کورٹ نے چھ ماہ سے ایک سال تک کی سخت سزاسنائی ۔ اس دوران شاہی قلعے کی عقوبت الگ ۔ یہ دور بھی تھا !
    ضیا دور میں ناصر زیدی ، خاور نعیم اور اقبال جعفری کو سرعام کوڑے مارے گئے ۔ جبکہ مسعود اللہ خان کو صحت کی خرابی کی وجہ سے چھوڑ دیا گیا ۔ مگرشاہی قلعے کا عذاب ان پر برابر رہا ۔ نجم سیٹھی بھی ان احباب میں شامل ہیں جن کوضیاء دور میں سخت سزا ملی ۔ مگر اس وقت بولنے والے موجود تھے ۔ صحافت زندہ تھی ۔
    مشرف دور میں صحافیوں پر کڑی پابندی رہی ۔ عدلیہ تحریک کے دوران میڈیا کو سخت دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ۔ مگر لوگ ڈٹے رہے ۔ آج کا المیہ یہ ہے کہ پابندیاں کڑی ہیں ۔ مگر بات کرنے کو بھی کوئی تیار نہیں ۔ چند اہل قلم برل رہے باقی خود کو تول رہے ہیں ۔ صجافت شاید آج مکمل طور پر غلام ہے ۔
    سلیم شہزاد قتل کمیشن ہو یا حامد میر حملہ کمیشن ،عمر چیمہ تشدد کیس ۔ احمد نوارنی پر تشدد کا واقعہ ہو یا گل بخاری کی گم شدگی ۔ صحافیوں نے اپنے ہی ساتھیوں کے خلاف کام کیا ۔ اس وقت اگر بولا جاتا تو شاید آج کوئی صحافی یوں قلم چھوڑنے پر مجبور نہ ہوتا ۔ آج کل سے بہت زیادہ مختلف اور تاریک ہے ۔
     
  23. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    آج کل ٹی وی چینل پرموجود صحافیوں کودیکھ شورش شدت سے یاد آتے ہیں ۔ فرماتےہیں :
    اوصاف سے عاری ہیں
    نوری ہیں نہ ناری ہیں
    طاقت کے پجاری ہیں
    لفظوں کے مداری ہیں
    الفاظ کا جھگڑا ہیں
    بےجوڑ سراپا ہیں
    بجتا ہوا ڈنکا ہیں
    ہر دیگ کا چمچا ہیں

    واقعی اب دیگ ایک ہے اور چمچے بہت ۔ آئیں چمچوں کو پہچانیں ۔ !
     
  24. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ( 6 )
    برطانیہ کی رائل کورٹ آف جسٹس نے نظام حیدرآباد کے اثاثوں کی بابت دائر مقدمے میں آج فیصلہ سنایا ۔ فیصلے کے مطابق نظام کی جائیداد کے وارث ان کے پوتے قرار پائے ۔ جبکہ پاکستان کا دعوی مسترد کر دیا گیا ۔ پاکستان کی طرف سے مقدمے کی پیروی خاور قریشی صاحب نے کی ۔ تاریخ کا ایک باب بند ہوگیا ۔
    برطانیہ میں دائرمقدمے کا پاکستان سےگہرا تعلق ہے ۔ بلکہ مقدمہ کرنےکی وجہ بھی ہمارے حکمرانوں کا رویہ تھا ۔ قصہ 13 ستمبر 1948 سے شروع ہوتا ہے جب بھارت نے ریاست حیدرآباد پر قبضے کیلئے آپریشن پولو شروع کیا ۔ اسی دوران نظام حیدرآباد نے لندن اور پاکستان میں تعینات اپنے ایجنٹ جنرل کو خاص ہدایات دیں ۔
    13 ستمبر 1948 کو ریاست حیدرآباد پرحملہ ہوا ۔ اسی دوران نظام میر عثمان نے لندن میں موجود ایجنٹ جنرل کو ہدایت دی وہ دو لاکھ پاؤنڈ شہزادی درشہوار اور پچاس ہزار پاؤنڈ شہزادی نیلوفر کےنام منتقل کردے ۔ شہزادی درشہوار کو حیدرآباد ہاؤس کا قبضہ دیا جائے ۔ شہزادی نیلوفر اور درشہوار نظام کی بہوئیں تھیں ۔
     
  25. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    1948 آپریشن کے دوران جب ناکہ بندی ہوئی تو فیصلے پرعمل نہ ہوسکا ۔ اس وقت حیدرآباد کے وزیرخزانہ نے ایک ملین پاؤنڈ ضبط ہونے سے بـچانے کیلئے لندن میں پاکستانی ہائی کمشنر کےاکاؤنٹ میں منتقل کئے ۔ آپریشن کے بعد حیدرآباد ہاؤس کا قبضہ بھارت نے شہزادی درشہوار کو دیدیا ۔ جوآخری وقت تک ان کے پاس رہا ۔
    پاکستان میں موجود ریاست حیدرآباد کےایجنٹ جنرل کو نظام نےحکم دیا وہ تمام اثاثے اپنےنام کرلیں ۔ انہوں نےایجنسی سے دو کروڑ کی رقم نقد صورت میں بینک سے نکلوائی ۔ تاکہ منجمند ہونے کی صورت میں وہ کام کرسکیں ۔ اگلے دن انہوں نے وزیراعظم لیاقت علی خان سے رقم کوسرکاری تحویل میں لینےکی درخواست کی ۔
    9 ستمبر 1948 کو ریاست حیدرآباد کی رقم حکومت پاکستان نے اپنی تحویل میں لی ۔ اس کے ساتھ جہازوں پر لدا سامان بھی ۔ ایجنٹ جنرل کے ساتھ معاہدہ ہوا کہ رقم کا تعین کرکے پانچ سالوں میں ان کے حوالے کی جائے گی ۔ یہ رقم اقساط میں ادا کی جانی تھی ۔ رقم نکالنے کے لئے ان کی منظوری لی جائے گی ۔
     
  26. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ابتداء میں یہ رقم حیدرآباد کے ملازمین اور دیگر کاموں پر خرچ ہوتی رہی ۔ پھر اچانک 1950 کے لگ بھگ حیدرآباد ٹرسٹ کا منصوبہ بنایا گیا ۔ ٹرسٹ کا مقصد پیسے کو صنعتوں اور دیگر جگہ استعمال کرکے منافع کمایا جائے ۔ اس بات پر ایجنٹ جنرل مشتاق احمد خان نے شدید احتجاج کیا ۔ مگر لیاقت علی خان یہ کام کر گزرے ۔
    23 جنوری 1953 کو خط لکھا کہ وہ تمام اثاثے اپنی تحویل میں لیں ۔ جہاں بہتر سمجھیں استعمال کریں ۔ اس خط کا مقصد اپنے اثاثوں کی بحفاظت واپسی تھی ۔ ایجنٹ جنرل مشتاق احمد خان نے جب ان کی واپسی کا مطالبہ کیا تو گورنر جنرل غلام محمد نے اس دعوے کو رد کیا ۔ مشتاق احمد کو کراچی سے شہر بدر کر دیا گیا ۔
    4 فروری 1952 کو ایجنٹ جنرل مشتاق احمد نے وزیراعظم میرلائق علی کوخط لکھا ۔ اس میں حیدرآباد ٹرسٹ پاکستان کے ٹرسٹیوں کی من مانی اور ان کو ٹرسٹ کے معاملات سے بےخبر رکھنے کے بارے میں آگاہ کیا ۔ نظام کا خط ان معاملات کے بعد سامنے آیا ۔ یہ روپیہ آج تک نظام کے ورثاء کو نہیں ملا ۔ کیا یہ المیہ نہیں ؟ ۔
     
  27. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ایجنٹ جنرل مشتاق احمد کی کراچی بدری اورلاہور روانگی کی خبر حیدرآباد پہنچ چکی تھی ۔ 18 نومبر 1953 کوحیدرآباد کے وزیراعظم میرلائق علی نے ایجنٹ جنرل اور حکومت پاکستان کے درمیان ہوئے معاہدے پرتشویش کا اظہار کیا ۔ ریاست نے پاکستان کوابتداء میں مالی مدد فراہم کی تھی ۔ مگر اس کے باوجود ان کو دھوکہ دیا گیا ۔
    حیدرآباد کے ساتھ کئے گئے اس دھوکے نے اس مقدمے کا راستہ کھولا جس کا فیصلہ آج نظام کے ورثاء کے حق میں ہوا ۔ ایک ملین پاؤنڈ اسی لئے بچ گئے کہ وہ لندن کے بنک میں محفوظ تھے ۔ اگر اہل وطن کے پاس ہوتے تو اب تک کسی خفیہ کاروائی کی نذر ہوچکے ہوتے ۔ ویسے وقت حادثوں کی پرورش برسوں ہی کرتا ہے ۔۔ !
     
  28. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ( 7 )
    پاکستان ميں مفروضہ ہے جسے میڈیا نے بھرپور پذیرائی بخشی کہ سیاستدان لٹیرے ہیں ، کرپٹ ہیں اوربدعنوان ہیں ۔ مگرسالوں قید ، بےشمار ریفرنسز کے باوجود یہ بات کہیں بھی مستند طریقے سے ثابت نہیں ہوئی ۔ ان کے خلاف اخبارات کے صفحات کالے ہوتے مگر کسی اور ادارے کے خلاف ایک خبر بھی شائع ہو تو اخبار/ رسالہ غائب ہوجاتا ہے ۔
    13 جنوری 1994 کوایک خبرشائع ہوئی ۔ جس میں POF کے سربراہ جنرل صبیح قمرالزمان کی کرپشن کو بےنقاب کیا گیا ۔ یہ واقعات 1990 میں ہونے والے ایک معاہدہ کے گرد گھومتے تھے ۔ معاملہ بلغاریہ سے راکٹ لانچر خریدنے کا تھا ۔ یہ رپورٹ ایک ہفتہ روزہ رسالےنےشائع کی ۔ مگر یہ شمارہ کہیں نہ مل سکا ۔ اس کی ایک جھلک ۔۔
    ۔
    ۔
    ۔ ۔ ۔
    [​IMG]
     
  29. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    1990 میں فوج کو پی جی 9 راکٹ داغنے والے ایس پی جی 9 ماڈل کے راکٹ لانچرز کی ضرورت تھی ۔ جنرل صبیح نے GH سے رابطہ کرکے پیشکش کی وہ کم قیمت اور کم وقت میں راکٹ دلا سکتے ہیں ۔ ان کی بات کو منظور کرلیا گیا ۔ 25 ملین روپے کی رقم ادا کی گئی ۔ جنرل صبیح نے POF کے ڈرائکٹرعبدالقدیر کو راکٹوں کی خریداری پرمامور کیا ۔
    15 مارچ 1990 کو جنرل بخیری نے دس ہزار ڈالر کا ڈرافٹ عبدالقدیر کے نام بھیجا ۔ جو کوالالمپور میں BCCI کی شاخ نہ ہونے کی وجہ سے کیش نہ ہوا ۔ قدیر پاکستان آئے ۔ درخواست دی کہ رقم کے وصول کنندہ میں ان کی جگہ فصیح الزماں کا نام لکھا جائے ۔ جو قمرزماں کے بھائی تھے ۔ یہ رقم جنرل بخیری نے POF کےاکاؤنٹ میں نہیں بھیجی تھی ۔
    ۔
    ۔
    ۔ ۔ ۔
    [​IMG]
     
  30. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    بلغاریہ نے بغیر اینڈیوزر سرٹیفکیٹ لانچر بیچنے سے انکار کیا ۔ اس کام کے لئے جنرل بخیری نے الگ سے سرٹیفکیٹ دینے کا وعدہ کیا جس کے عوض وہ POF سے 50 ہزار ڈالر اضافی چارج کرے گا ۔ قدیر نے بخیری کو ہدایت کی وہ یہ رقم لانچرز کی قیمت میں شامل کردے ۔ لانچرز کی قیمت قدیر نے خود تجویزکی ۔ یہ قیمت 62 ہزار ڈالر تھی ۔ اسی لئے معاہدہ مشکوک ہوا ۔
    8 مئی 1990 کو جنرل بخیری نے POF کو راکٹوں کی نئی قیمتوں کے ساتھ پیشکش کی ۔ یہ وہی قیمت تھی جو قدیر پہلے ہی طے کر چکا تھا ۔ اس وقت راکٹوں کی عالمی مارکیٹ میں قیمت اس کے نصف سے بھی کم تھی ۔ مگرحیرت کی بات یہ ہے پیسے ادا کرنے کے باوجود راکٹ نہیں خریدے گئے ۔ بلکہ CIG جو بلیک لسٹ کمپنی تھی ، سے راکٹ خریدے جو ناکارہ تھے ۔
    ۔
    ۔
    ۔ ۔ ۔
    [​IMG]
    ۔
    ۔
    ۔ ۔ ۔
    [​IMG]
     

اس صفحے کو مشتہر کریں