1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سرسید احمد خان کی علمی خدمات

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏26 ستمبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    سرسید احمد خان کی علمی خدمات
    [​IMG]
    خلیق احمد نظامی

    سرسید احمد خان اپنی ذات میں ایک انجمن تو تھے ہی، علمی اعتبار سے بھی ان کی حیثیت ایک ادارہ سے کم نہ تھی۔ انشا و ادب، تحقیق و تنقید، فلسفہ و مذہب، تاریخ و عمرانیات، غرض جس میدان میں دیکھیے ان کی شخصیت ممتاز اور منفرد نظر آتی ہے۔ انہوں نے نہ صرف خود شاندار علمی و ادبی کارنامے انجام دیے بلکہ جو بھی ان کے قریب آ گیا اس کی شخصیت کو ایک جلا مل گئی اور کام کرنے کے لیے ایسے جذبات اس میں بیدار ہو گئے کہ پھر عمر بھر اسی میں منہمک اور سرگرداں رہا۔ ان کے فیض صحبت سے کتنے ہی سنگ ریزے افق علم پر آفتاب بن کر چمک اٹھے۔ ان میں ’’آدم گری‘‘ کا حوصلہ بھی تھا اور ’’شیشہ گری‘‘ کی صلاحیت بھی۔ شبلی نعمانی نے 1898ء میں دعویٰ کیا تھا: ’’ملک میں آج بڑے بڑے انشا پرداز موجود ہیں جو اپنے اپنے مخصوص دائرہ مضمون کے حکمراں ہیں لیکن ان میں سے ایک شخص بھی نہیں جو سرسید کے بار احسان سے گردن اٹھا سکتا ہو۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ انیسویں صدی میں مسلمانوں کی علمی اور ادبی زندگی کا سب سے بڑا مرکز سرسید کا علی گڑھ تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے سرسید کے وسیع اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ایک بار کہا تھا: ’’مرحوم سرسید اور ان کے ساتھیوں نے علی گڑھ میں صرف ایک کالج ہی قائم نہیں کیا تھا بلکہ وقت کی تمام علمی اور ادبی سرگرمیوں کے لیے ایک ترقی پسند حلقہ پیدا کر دیا تھا۔ اس حلقہ کی مرکزی شخصیت خود ان کا وجود تھا اور ان کے گرد ملک کے بہترین دماغ جمع ہو گئے تھے۔ ہندوستان کے کسی موقت الشیوع رسالے نے شاید ہی ایسے گہرے اثرات وقت کی دماغی رفتار پر ڈالے ہوں جیسے کہ تہذیب الاخلاق سے مرتب ہوئے… فی الحقیقت جدید اردو علم و ادب کی بنیادیں اسی رسالے نے استوار کیں اور اس قابل بنا دیا کہ آج ہر طرح کے علمی اور ادبی مطالبے ادا کرنے کی اس میں صلاحیت پیدا ہو گئی ہے۔ اس عہد کا شاید ہی کوئی قابلِ ذکر اہل قلم ایسا ہو گا جو اس مرکزی حلقے کے اثرات سے متاثر نہ ہوا ہو۔ جدید ہندوستان کے بہترین مسلمان مصنف اسی حلقہ کے زیراثر پیدا ہوئے اور یہیں نئے قسم کی اسلامی تحقیق و تصنیف کی راہیں پہلے پہلی کھولی گئیں۔ اردو کی نئی شاعری کی بنیاد اگرچہ لاہور میں پڑی تھی مگر اس کی نشوونما یہیں کی آب و ہوا میں ملی اور محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے سالانہ جلسوں میں نئی قسم کی نظمیں پڑھی جانے لگیں۔ اردو خطابت کی پہلی درسگاہ یہی تھی۔ اس دور کے تمام مشہور مقرروں کو اسی حلقہ نے پیدا کیا تھا اور اگر پیدا نہیں کیا تھا تو ان کے لیے پلیٹ فارم یہیں مہیا کیا تھا۔‘‘ سرسید نے نہ صرف اردو کے نئے، سادہ، پُرزور اور پُراسلوب بیان کی بنیاد ڈالی بلکہ تلاش و تحقیق کی نئی راہیں بھی دکھائیں اور فکرونظر کی دنیا میں ایک اجالا کر دیا۔ معاصرین ہی نہیں بلکہ بعد کو آنے والی نسلوں نے بھی ان کی قائم کی ہوئی روایات سے زندگی کے ہر میدان میں روشنی اور رہبری حاصل کی۔ سرسید نے تقریباً ہر اہم موضوع پر قلم اٹھایا اور اس کا حق ادا کر دیا۔ شاید ہی کوئی ایسا فن ہو جس میں انہوں نے گرانقدر اضافہ نہ کیا ہو۔ بقول شبلی ’’سرسید کی انشا پردازی کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ ہر قسم کے مختلف مضامین پر کچھ نہ کچھ بلکہ بہت کچھ لکھا ہے اور جس مضمون کو لکھا ہے اس درجہ پر پہنچا دیا ہے کہ اس سے بڑھ کر ناممکن ہے۔ فارسی اور اردو میں بڑے بڑے شعرا اور نثار گزرے ہیں لیکن ان میں ایک بھی ایسا نہ تھا جو تمام قسم کے مضامین کا حق ادا کر سکتا ہے۔‘‘ سرسید کو شبلی نے بجا طور پر اردو انشا پردازی کا ’’مجدد‘‘ اور ’’امام‘‘ کہا ہے۔ انہوں نے اردو ادب کو نیا روپ نیا آہنگ اور نیا عزمِ سفر بخشا۔ اردو نثر ایک مدت سے دور ازکار تشبیہات، لایعنی استعارات اور شاعرانہ مبالغہ آرائی کے پیچ و خم میں گم تھی اور الفاظ کے گورکھ دھندوں نے اس کی فکری توانائی کو مضمحل کر دیا تھا۔ سرسید نے اس کو افکار کی نئی دنیا دکھائی اور اس میں سفر کرنا سکھایا۔ سرسید کا یہ کارنامہ اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رہے گا کہ انہوں نے اردو زبان کو ایسی توانائی بخشی کہ وہ ملکی، سیاسی، اخلاقی، تاریخی اور فلسفیانہ غرض ہر قسم کے افکار اور مضامین کو صفائی، سادگی اور پُرتاثیر انداز میں ادا کرنے کے قابل بن گئی۔ انہوں نے اپنے مضامین کے ذریعہ مغرب کے افکار، نظریات اور شخصیات سے معاصرین کو روشناس کرایا۔ تہذیب الاخلاق نے نہ صرف اردو میں صحافت کی بنیاد ڈالی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آئندہ صدی میں جو سرگرمی اس میدان میں نظر آئی وہ تہذیب الاخلاق ہی کی رہینِ منت تھی۔ سرسید کہا کرتے تھے کہ ’’تہذیب الاخلاق کا پرچہ ابتدا میں اسی واسطہ جاری کیا گیا تھا کہ ہندوستانیوں کے دل جو مردہ ہو گئے ہیں ان میں کچھ تحریک لائی جاوے۔‘‘ سرسید نے اردو شاعری کا رخ بدل دیا اور اس کو قومی اور اصلاحی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ وہ ’’ادب برائے ادب‘‘ کے قائل نہیں تھے۔ وہ شاعری کے ذریعہ قوم کے افکار و نظریات میں تبدیلی لانا چاہتے تھے۔ مولانا حالیؔ نے نیچرل شاعری کے متعلق جو بحث کی ہے اور اردو شاعری کو جس طرح سوسائٹی کے تابع بتایا ہے، وہ حقیقت میں سرسید کے ہی خیالات کی صدائے بازگشت ہے۔ 29 اکتوبر 1884ء کے ایک خط میں مولانا محمد حسین آزاد کو لکھتے ہیں: ’’میری نہایت قدیم تمنا اس مجلسِ مشاعرہ سے بر آئی ہے۔ میں مدت سے چاہتا تھا کہ ہمارے شعرا نیچر کے حالات کے بیان پر متوجہ ہوں۔ آپ کی مثنوی ’’خوابِ امن‘‘ پہنچی۔ بہت دل خوش ہوا۔ درحقیقت شاعری زور سخن وری کی وادی ہے۔ اب بھی اس میں خیالی باتیں بہت ہیں۔ اپنے کلام کو اور زیادہ نیچر کی طرف مائل کرو۔ جس قدر کلام نیچر کی طرف مائل ہوگا اتنا ہی مزہ دے گا۔ اب لوگوں کے طعنوں سے مت ڈرو۔‘‘ حالیؔ کو اسلام کے مدوجزر کے متعلق مسدس لکھنے پر انہوں نے ہی راغب کیا تھا۔ اور یہ مسدس نہ صرف اردو ادب میں ایک گراں بہا اضافہ ثابت ہوئی بلکہ اس کے ذریعہ قوم کو ماضی کا نقشہ دکھا کر اصلاح حال پر آمادہ کیا گیا۔ اردو شاعری میں ’’شہر آشوب‘‘ تو لکھے گئے تھے لیکن قوم کی اصلاح و تربیت کا کام اس سے بالکل نہیں لیا گیا تھا۔ مسدس نے شاعری کے ایک نئے استعمال کی راہ دکھائی اور یہ ثابت کر دیا کہ اس سے قوم کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کا کام لیا جا سکتا ہے۔ ان کی ’’نواہائے جگر سوز‘‘ نے خود اردو شاعری کا مقام بلند کر دیا۔ حالیؔ ہر اول تھے اس قافلے کے جو اقبالؔ کی سرکردگی میں آگے بڑھا۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں