1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سخی سرور رحمتہ اللہ علیہ کا عرس، ڈھول و دھمال پر پابندی

'خبریں' میں موضوعات آغاز کردہ از پاکستانی55, ‏6 اپریل 2015۔

  1. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    [​IMG]
    سخی سرورؒ کے مزار پر آنے والے عقیدت مندوں کا کہنا ہے کہ ڈھول بجانے اور دھمال ڈالنے پر پابندی سے عرس کی رونق گم ہوگئی ہے۔ —. فوٹو اوپن سورس میڈیا
    -----------------------------------------------------------------------------
    ڈیرہ غازی خان: پولیس نے سید سلطان احمد المعروف حضرت سخی سرورؒ کے مزار پر عرس کی تقریبات کےدوران سیکیورٹی کے خطرے کے پیش نظر ڈھول اور موسیقی کے روایتی آلات کی بڑی تعداد کو اپنے قبضے میں لے لیا۔
    تاہم ڈھول اور صوفی رقص دھمال کی روایت شہر کے شمالی حصے (قبائلی علاقے) میں اب بھی اجازت ہے، جس کی نگرانی سرحدی ملٹری پولیس کی جانب سے کی جارہی ہے۔
    اس مزار پر تین اپریل 2011ء کو ایک خودکش حملے میں تقریباً پچاس افراد ہلاک ہوگئے تھے، اس کے بعد سے صدیوں سے جاری عرس کی روایت پر ڈھول بجانے اور دھمال ڈالنے (صوفی رقص) کی روایت پر بندوبستی علاقے کی انتظامیہ (ضلعی حکومت) نے سیکیورٹی کے نام پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
    2011ء کے خودکش حملے سے قبل انتظامیہ کو انتہاپسندوں کی جانب سے دھمکیاں موصول ہوئی تھی، جو ڈھول بجانے اور دھمال ڈالنے کی روایت کو غیراسلامی قرار دیتے ہیں۔
    اگرچہ ڈھول ڈھول بجانے اور سرائیکی، بلوچی اور کھیترانی جھومر (لوک رقص) کرکے روحانی بزرگ کو خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ اس سے پہلےجھول (کڑھائی کی ہوئی خوبصورت چادر) ان کی قبر پر چڑھائی جاتی ہے۔
    اس روایت کو پورے برصغیر میں بزرگوں کے عرس کی تقریبات میں مرکزی اہمیت حاصل ہے۔
    یہاں مزار پر منائے جانے والے عرس کی مرکزی رسم کی غیرموجودگی میں عرس کی روایتی رونق گم ہوگئی ہے۔

     
  2. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    [​IMG]
    ڈیرہ غازی خان میں حضرت سخی سرورؒ کے مزار کا ایک طائرانہ منظر۔ —. فوٹو اوپن سورس میڈیا
    ---------------------------------------------------------------------------------
    جھنگ سے آئے ہوئے ایک ضعیف عقیدت مند غلام رسول کہتے ہیں کہ یہ پابندی عجیب سی لگتی ہے، اس لیے کہ یہ عرس کی تقریبات کا ایک حصہ تھی اور اس روایت کی خواجہ غلام فرید سمیت کسی بھی بزرگ کی جانب سے کبھی مخالفت نہیں کی گئی، جو ایک روایت کے مطابق اس مزار پر تشریف لائے تھے۔
    ان کا کہنا تھا کہ ڈھول بجانے اور دھمال ڈالنے پر پابندی سے مزید انتہاپسندی پیدا ہوگی، مزید یہ کہ پولیس نے اس طرح کی پابندیاں لگاکر مزار کو قلعہ بند کردیا ہے۔
    انہوں نے کہا کہ ڈھول بجانے اور صوفی رقص پر پابندی کا مطلب ہے کہ ضلعی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مزار پر خودکش حملے سے پیدا ہونے والے خوف کو دور کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔
    ذرائع کا کہنا ہے کہ عقیدت مند ڈھول بجانے اور دھمال ڈالنے کی روایت کو عرس کی تقریبات کا مرکزی حصے سمجھتے ہیں، چنانچہ ان میں سے کچھ کو جب دھمال ڈالنے اور ڈھول بجانے سے روکا گیا تو وہ مزار پر حاضری کے بغیر ہی واپس لوٹ گئے۔
    سیکیورٹی اقدامات کے حصے کے تحت سخی سرور پولیس نے روزانہ تلاشی کے دوران ڈھول کی بڑی تعداد ضبط کرلی ہے۔
    سخی سرور پولیس اسٹیشن کے انچارج واجد حسین کھوسہ کا کہنا ہے کہ پولیس نے صرف خودکش حملے کے بعد مزار پر نئے ضابطہ اخلاق کا نفاذ کیا ہے۔
    تاہم قبائلی علاقوں سے شہر میں داخل ہونے والے عقیدت مند اس رسم کی ادائیگی کرسکتے ہیں، اس لیے کہ سرحدی ملٹری پولیس اسے مزار کی سیکیورٹی کے لیے خطرہ نہیں سمجھتی ہے۔
    سرحدی ملٹری پولیس کے آفیسر حاجی زمان سمیلانی نے 2011ء میں ایک دوسرے خودکش بمبار کو زندہ پکڑ لیا تھا، وہ اس مزار پر دوسرا دھماکہ کرنے جارہا تھا۔ انہوں نے ڈان کو بتایا کہ شہر کے قبائلی حصے میں ڈھول بجانے اور دھمال ڈالنے کی رسم پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
    انہوں نے کہا کہ سرحدی ملٹری پولیس نے رسومات پر پابندیاں لگانے کے بجائے سیکیورٹی انتظامات کو بہتر بنایا ہے، یہ رسومات عرس کی تقریبات کا لازمی حصہ ہیں۔
    شہر دو انتظامی حصہ میں تقسیم ہے، ایک قبائلی علاقہ ہے، جس کی دیکھ بھال سرحدی ملٹری پولیس کی جانب سے کی جاتی ہے، اور بندوبستی علاقہ پنجاب پولیس کے تحت آتا ہے۔
    دلچسپ بات یہ ہے کہ مزار کی شمالی سیڑھیاں سرحدی ملٹری پولیس کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، جبکہ مزار کے باقی احاطہ بندوبستی علاقے کی انتظامیہ کے تحت ہے۔
    http://www.dawnnews.tv/news/1019408/
     

اس صفحے کو مشتہر کریں