1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سائنسی ایجادات کا صحیح استعمال

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از ابو تیمور, ‏12 جولائی 2013۔

  1. ابو تیمور
    آف لائن

    ابو تیمور ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مارچ 2012
    پیغامات:
    61,873
    موصول پسندیدگیاں:
    6,599
    ملک کا جھنڈا:
    آنحضرت ﷺنے فرمایا:’’آدمی کے دین کا حسن اس بات میں مضمر ہے کہ وہ تمام لغو باتوں اور غیر متعلق معاملات کو ترک کردے۔‘‘(ترمذی ابوابالزھد) عالم کی تخلیق خالقِ کل نے کی ۔اس میں بے شمار مخلوقات پیدا کیں۔ اور عالم کو خو بصورت بنانے کے لئے اور طرح طرح کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے انسان کے ذریعے ایجادات تخلیق کیں۔ ان میں ریڈیو ،ٹیلی ویژن ،موبائل ،کمپیوٹر ،ٹیلی فون،وغیرہ شامل ہیں۔
    چودھویں صدی میں سائنس کے زریعے ایسی ایسی ایجادات ہوئی ہیں کہ اگرپندرھویں صدی کا انسان آج زندہ ہوجائے تو دنیا کو پہچان نہیں سکے گا اس نے اپنے زمانے میں بیل گاڑی دیکھی تھی اور اب ہوائی جہاز ایجاد ہو چکے ہیں۔سائینسی ترقی نے آج کے انسان کی زندگی کو بہت سہل پسند بنا دیا ہے طول و عرض کے فاصلوں کو مٹا کو انسان کو ایک دوسرے کے قریب لا کھڑا کیا ہے ۔ایک طرف سائینسی ایجادات کے بہت سے فوائد ہیں تو دوسری طرف ہمارے معاشرے میں بے شمار جنم لینے والی برائیوں کی جڑ بھی یہی ایجادات ہیں بہت سے لوگ ان کا صحیح استعمال کرنے کی بجائے غلط استعمال زیادہ کر رہے ہیں جن کی وجہ سے وہ اپنا آپ کھو رہے ہیں ۔کام کرنے کو دل نہ چاہنا ،آنکھوں اورکانوں کا کمزور ہوجانا، گھنٹوں ٹی وی ،کمپیوٹر کے آگے بیٹھے رہنا۔ یہ وہ چند وجوہات ہیں جن کی وجہ سے انسان کی ذہنی و جسمانی صحت و نشونما میں منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
    ایک دوسرے کے بظاہر قریب آنے کے باوجود ہم معاشرے اور ارد گرد کے ماحول سے لا تعلق ہوتے جارہے ہیں اس لئے کہ ہمارا زیادہ وقت میسج کرنے میں صرف ہو رہا ہے ہمیں اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ ہمارے ارد گرد کے لوگ کن مسائل کا شکار ہیں، شاید انھیں ہماری مدد کی ضرورت ہو لیکن ہم اپنی ذات میں اتنا مگن ہو جاتے ہیں کہ دوسروں کے بارہ میں نہیں سوچتے ،سینکڑوں میل دور بیٹھے انسان سے تو ہم بات کر لیتے ہیں لیکن اپنے ساتھ رہنے والے لوگوں سے بات کرنے کا ہمارے پاس وقت نہیں ہوتاہم ذہنی طور پر ایک دوسرے سے دور ہوتے جارہے ہیں ،جسے دیکھووہ چلتے پھرتے ،کام کرتے ،یہاں تک کہ محفل میں بیٹھے ارد گرد کے لوگوں سے بے نیاز اپنے سیل فون پر چیٹنگ کرنے میں مصروف ہوتا ہے ۔ہماری نئی نسل تو نشے کی حد تک اس کی عادی ہوتی جا رہی ہے،کھانا کھائے بغیر تو گزارا کرسکتے ہیں لیکن سیل فون کے بغیر زندگی ادھوری ہے ،فارغ وقت میں بچے جسمانی ورزش یا کھیلوں میں حصہ لینے کی بجائے موبائل فون یا کمپیوٹر پر گیمز یا چیٹنگ میں وقت ضائع کر دیتے ہیں ۔اور پھر شارٹ میسجز زبان کے بگاڑ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔موبائل فون ایک خطرناک ایجاد ہے جس کا لوگ ناجائز فائدہ اٹھارہے ہیں ۔اگر اس کے مثبت پہلو ہیں تو منفی پہلو سب سے زیادہ ہیں،موبائل فون پر ایس ایم ایس کا رواج عام ہو چکا ہے ،خصوصا دس سے چودہ سال کی عمر کے بچوں نے فون لئے ہوئے ہیں ایم ایم ایس کے زریعے لوگ ایک دوسرے کو اپنی تصویریں بنا کر بھیجتے ہیں ،جس کی وجہ سے بہت سی برائیاں پیدا ہوتی ہیں باغی ہوکر اپنے ماں باپ سے لڑائیاں کرتے ہیں حالانکہ ہمارا مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا ہمارا معاشرہ تو ان سب باتوں سے پاک ہونا چاہیے اور دوسرے غیر اسلامی معاشرے سے الگ تھلگ نظر آنا چاہیے۔جہاں تک مذہبی نقصانات کا تعلق ہے،اس کی موجودگی بعض اوقات انسان کو عبادت سے دور لے جاتی ہے ،ہر وقت موبائل پر انسان کی توجہ اسے اپنے اندر الجھائے رکھتی ہے اور نماز کی ادائیگی میں خلل انداز ہوتی ہے بلخصوص نماز کی حالت میں جب سب اﷲ تعالی کے حضور حاضر ہوتے ہوں اور ایک میوزک نما گھنٹی اس خاموشی کو تار تار کرتے ہوئے سب کی توجہ اپنی طرف پھیر لیتی ہے تو کس قدر تکلیف دہ بات ہوتی ہے۔
    ایس ایم ایس بھی عجیب و غریب طرح سے کئے جاتے ہیں کہ اس ایس یم ایس کو دس لوگوں کو فلاں ایس ایم ایس بھیجیں آپ کی دلی مراد پوری ہو گی ،یا آپ کو خوش خبری ملے گی ۔۔اس قسم کے میسج شرک پھلانے اور خدا سے دور لے جانے والے ہوتے ہیں ،اگر مرادیں اس طرح پوری ہونے لگیں تو عبادت و ریاضت کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے ،اس لئے اس قسم کے میسج بھجنے اور بنانے والوں کو عقل اور سمجھ سے کام لینا چاہیے۔
    اسی طرح کی سائنسی ایجادات میں سے ایک کمپیوٹر بھی ہے ۔کمپیوٹر دورِحاضر کی بہت بڑی ضرورت بن گئی ہے ،لوگ میلوں دور بیٹھ کر ایک دوسرے سے آمنے سامنے بات کر سکتے ہیں جو پروگرام ہم ٹی وی پر نہیں دیکھ سکتے یا دیکھنے سے رہ جاتے ہیں وہ بھی ہم فرصت کے اوقات میں باآسانی دیکھ سکتے ہیں۔آجکل ہر سکول ،کالجز،آفیسز،یونیورسٹی میں کمپیوٹر ہیں،نئی ٹکنا لوجی کے علم سے روشناس کروانا اچھی بات ہے ۔لیکن اس کا غلط استعمال ٹھیک نہیں لوگ ساری ساری رات انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں جنھیں موقع نہ ملے وہ کلب چلا جاتا ہے جگہ جگہ انٹرنیٹ کلب کھلے ہوئے ہیں ۔لڑکے لڑکیاں ساری ساری رات بیٹھ کر اس کا استعمال کرتے ہیں اپنے غلط کوائف دے کردھوکہ دیتے ہیں ،اور یو ں ایک دوسرے کے جزبات سے کھیلتے ہیں،فحش گوئی کرتے ہیں،بیہودہ اور گھٹیاپروگرام دیکھتے ہیں ۔جو گناہ کا مرتکب بن جاتا ہے۔
    ہمارے معاشرے میں انٹرنیٹ کا بہت غلط استعمال ہو رہا ہے ۔اگر اس کا صحیح استعمال نہ کیا جائے تو یہ ایک ایسی غار ہے جو بظاہر روشن نظر آتی ہے مگر اندر سے گھپ اندھیر نگری ہے ،اور ان گنت شاخوں میں تبدیل ہوتی جاتی ہے اور انسان کو ایسے موڑ پر لا کھڑا کرتی ہے کہ جہاں سے واپسی نا ممکن سی دکھائی دیتی ہے اس لئے اس کے استعمال میں نہایت درجہ احتیاط کی ضرورت ہے ،شروع میں شغل کے طور پر کام ہو رہا ہوتا ہے پھر بعد میں یہی عادت بن جاتی ہے،اور گلے کا ہار بن جاتا ہے چھوڑنا مشکل ہوجاتا ہے ،کیونکہ یہ ایک قسم کا نشہ ہے اور نشہ بھی لغویات میں سے ہے ۔علم میں اضافہ کے لئے انٹرنیٹ کو استعمال کریں ۔
    فیس بک کا بھی بعض دفعہ بہت غلط استعمال ہوتا ہے ۔۔ایسے سوالات کئے جاتے ہیں کہ جن کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔صرف like کروانے کے لئے یہ پوچھنا کہ کیا آپ بیت اﷲ کی زیارت کرنا چاہتے ہیں ۔۔پھر ظلم یہ کہ ہاں یا نہیں میں جواب مانگا جاتا ہے ،ان عقل کے اندھوں کو کون سمجھائے کہ ایسا کون سے مسلمان ہو گا کہ جو بیت اﷲ کی زیارت نہیں کرنا چاہتا،پھر سوال ہوتا ہے کیا آپ کو اسلام سے محبت ہے ۔۔اس قسم کے سوالات کا کیا مقصد ہے کہ جو سراسر کوفت کا باعث ہیں جن کے کرنے کو کوئی بھی جواز نہیں ہے ۔
    اسی طرح مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کو بھی خوب ہوا دی جاتی ہے فرضی پوسٹیں بنا کر جزبات کو ابھارا جاتا ہے ،ساتھ ہی دینی غیرت کو للکارا جاتا ہے ، پھر کیا ہوتا ہے گالیوں فحش گوئی اور گندی سے گندی زبان کا استعمال کر کے دین و مذہب سے اپنی دلی وابستگی اور جزبات کا استعمال کھلم کھلا کیا جاتا ہے ،کیا یہ اسلام کی تعلیم اور اسوہ حسنہ کا طرزِ عمل ہے ۔ہرگز نہیں پیارے آقا ﷺکی تو یہ تعلیم تھی کہ گالیاں سن کہ دعا دو۔۔پاکے دکھ آرام دو ۔۔۔پھر کیوں پیارے آقا محسن انسانیت کی بظاہر محبت میں ان سے آگے قدم بڑھاتے ہیں ،جبکہ ہم ان کے قد موں کی خاک کے برابر بھی نہیں ہیں ۔
    اور پھر ایک اور ایجاد ٹی وی بھی ہے۔ایک وقت تھا کہ جب اس پر اصلاحی تعمیری اور معلومات سے بھر پور پروگرام پیش کئے جاتے تھے ۔مگر بدلتے زمانے کے ساتھ نام نہاد ترقی اورغیر قوموں سے مقابلے کی دھن نے اپنی اقدار ،ہی جیسے بھلا دی ہیں،اخلاق کا دامن ہاتھوں سے چھوٹ چکا ہے ،ڈراموں میں دکھائے جانے والے مناظر حیا سوز اور شرمناک ہوتے جا رہے ہیں،رشتوں کا تقدس جس قدر پامال ہو سکتا ہے کیا جارہا ہے ، لباس ،زبان ،رہن سہن ،رکھ رکھاؤ ،سب کچھ جیسے بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے ،اب جنازہ نہیں اٹھایا جاتا ارتھی کو کندھا دیا جاتا ،سلام کی جگہ ہیلو ہائے کی ترویج ہے،کھیلوں کے نام پر لڑکیوں کی اچھل کود کو نمایاں کر کے دکھا یا جاتا ہے ۔سیاسی ٹاک شوز کم اور کسی پہلوان کا اکھاڑہ زیادہ معلوم ہوتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ آجکل کی نسل زیادہ سے زیادہ آزاد خیال چرب زبان اور اپنی من مانی کرنے والی ہوتی جا رہی ہے حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق یہ بات منظر عام پہ آئی ہے کہ نئی ٹیکنالوجی خاص طور سے لڑکیوں پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہے ،یہی وجہ ہے کہ ان کی شخصیت سدھار کے بجائے بگاڑ پیدا کر رہی ہے ان کی سماجی زندگی بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے ۔
    محققین کا کہنا ہے کہ نئی ٹیکنالوجی کی بدولت لڑکیوں کے رویوں میں منفی رحجانات بڑھ گئے ہیں وہ فیشن کی زیادہ دلدادہ ہو گئی ہیں اس کے ساتھ ساتھ ان کی روز مرہ زندگی میں سستی اور کاہلی کا عنصر نمایاں ہو گیا ہے ۔تحققاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نئی نسل کو نئی ٹیکنالوجی کی بدولت بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے جس میں سب سے بڑھ کرچیلنج اپنی شناخت قائم رکھنا ہے کیونکہ اب ہمارے ہاں مغربی تہذیب کے اثرات نئی نسل کو متاثر کر رہے ہیں اور وہ بھی ان رویات کی اثیر ہو رہی ہیں ،ٹی وی ڈرامے دیکھنے کی وجہ سے لڑکیاں اس قدرفیشن پرست ہو گئی ہیں کہ ان کے لئے اپنے ملک کی شناخت کو برقرار رکھنامشکل ہوگیا ہے،نہ صرف حلیہ بلکہ زبان پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ان سب نقصانات سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ ہر سطح پروالدین اور بزرگ اپنا فعال کردار ادا کریں ۔نئی نسل کو گمرہ ہونے سے بچائیں اور ان کی راہنمائی کریں کہ کس طرح ٹیکنالوجی سے مستفید ہوا جاسکتا ہے۔لیکن محتاط اور ذمہ دار رویے کے ساتھ.
    اﷲ تعالی ہمیں اور ہماری نسلوں کو ہر قسم کے بد اثرات سے محفوظ رکھے۔آمین

    صائمہ مریم
     

اس صفحے کو مشتہر کریں