1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

زمین کا مرکز گرینچ یا مکۃ المکرمہ

'جنرل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از ملک بلال, ‏26 اگست 2010۔

  1. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:

    زمین کا مرکز گرینچ یا مکۃ المکرمہ

    اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

    بلاشبہ سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لیے تعمیر کیا گیا وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے ۔ا س گھر کو برکت دی گئی اور تمام جہان والوں کے لیے مرکز ہدایت بنایا گیا۔ (آل عمران : 96)

    مولانا مفتی محمد شفیع ؒ اس آیت شریفہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ’’آیت کے الفاظ کا خلاصہ یہ ہے کہ سب سے پہلا گھر جو منجانب اللہ لوگوں کے لیے مقر ر کیا گیا ہے وہ ہے جو مکہ میں ہے ،اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں سب سے پہلا عبادت خانہ کعبہ ہے ،اس کی یہ صورت بھی ہوسکتی ہے کہ دنیا کے سب گھروں میں پہلا گھر عبادت ہی کے لیے بنایا گیا ہو ،اس سے پہلے نہ کوئی عبادت خانہ ہو نہ دولت خانہ ،حضرت آدم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں ،ان کی شان سے کچھ بعید نہیں کہ انھوں نے زمین پر آنے کے بعد اپناگھر بنانے سے پہلے اللہ کا گھر یعنی عبادت کی جگہ بنائی ہو،اسی لیے حضرت عبداللہ بن عمر ،مجاہد ،قتادہ،سدی وغیرہ صحابہ وتابعین اسی کے قائل ہیں کہ کعبہ دنیا کا سب سے پہلا گھر ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ لوگوں کے ر ہنے سہنے کے مکانات پہلے بھی بن چکے ہوں مگر عبادت کے لیے یہ پہلا گھر بنا ہو،حضرت علی ؓ سے یہی منقول ہے۔بعض روایات میں ہے کہ آدم علیہ السلام کی یہ تعمیر کعبہ نوح علیہ السلام کے زمانے تک باقی تھی ،طوفان ِنوح ؑ میں منہدم ہوئی اور اس کے نشانات مٹ گئے ،اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انہی بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کیا ‘‘۔(تفسیر معارف القرآن، سورۃ آل عمران 96)
    سائنسی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ مکہ جسے قرآن میں بکہ بھی کہا گیا ہے اور جہاں مسلمان عمرہ وحج ادا کرتے ہیں ،زمین پر معرض وجود میں آنے والا خشکی کا پہلا ٹکڑا تھا ۔سائنسی طور پر ثابت شدہ حقیقت یہی ہے کہ زمین کی پیدائش کے ابتدائی ایام میں تمام کرہ زمین پانی میں ڈوباہوا تھا یعنی ایک بہت بڑا سمندر تھا ۔بعدازاں اس کی تہہ سے آتش فشاں پھٹے اورانہوں نے زمینی پرت کے نیچے پگھلے ہوئے چٹانی مواد اور لاوے کو بڑی مقدار میں اوپر دھکیل دیا جس سے ایک پہاڑی معرض وجود میں آئی اوریہی وہ پہاڑی تھی کہ جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنا گھر (قبلہ)بنانے کا حکم دیا ۔مکہ کی سیاہ بسالٹ چٹانوں پر کی گئی سائنسی تحقیق سے یہ ثابت ہوچکاہے کہ یہ ہماری زمین کے قدیم ترین پتھر ہیں۔
    اگر یہ بات ایسے ہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اسی مکہ سے ہی پھر بقیہ زمین کو پھیلایا گیا اور دنیا کے دوسرے خطے معرض وجود میں آئے۔سوال پیدا ہوتاہے کہ ہمارے اس دعوٰ ی کی تائید میں کوئی حدیث مصطفٰے ؐ بھی موجود ہے ۔اس کا جواب ہاں میں ہے ۔ڈاکٹر ذغلول النجار نے درج ذیل دواحادیث کو پیش کیا ہے۔جن کو میں انہی کے حوالے سے نقل کررہا ہوں ۔کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ کعبہ پانی کے اوپر زمین کا ایک ٹکڑا تھا اسی سے ہی بقیہ زمین کو پھیلایا گیا ۔(الفائق فی غریب الحدیث للز مخشری: 1/371)۔اسی طرح الطبرانی اور البیہقی نے شعب الایمان میں ابن عمرؓ سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ جب زمین وآسمان بنائے جارہے تھے تو پانی کی سطح میں سے سب سے پہلا نکلنے والا خشکی کا ٹکڑا یہی تھاکہ جس پر یہ (متبرک گھر) واقع ہے ،پھر اسی کے نیچے سے ہی بقیہ زمین کو پھیلا یا گیا۔علاوہ ازیں درج ذیل احادیث سے بھی مندرجہ بالااحادیث کوتقویت ملتی ہے ۔ امام بخاری ؒ نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے ایک حدیث روایت کی ہے ۔اس لمبی حدیث میں سے ایک ٹکڑا میں یہاں نقل کرتاہوں ۔نبی ؐ فرماتے ہیں کہ ’’ (مکہ) وہ شہر ہے کہ جس دن سے اللہ نے آسمانوں او رزمین کو پید اکیا ۔اسی دن سے اس کو حرمت دی اور اللہ کی یہ حرمت قیامت تک قائم رہے گی ‘‘۔(بخاری ابواب العمرہ ،باب لایحل القتال بمکۃ)۔ اس کے علاوہ امام ابن کثیر ؒ نے بھی ایک حدیث مسنداحمد ،ترمذی اور نسائی سے نقل کی ہے ،اس کو امام ترمذی نے حسن صحیح کہا ہے کہ نبی ؐ نے مکہ کے بازار حرورہ میں کھڑے ہوکر فرمایا کہ ’’ اے مکہ تو اللہ تعالی کو ساری زمین سے بہتر اور پیا را ہے ۔اگر میں زبردستی تجھ سے نہ نکالا جاتا توہرگز تجھے نہ چھوڑتا‘‘۔(تفسیر ابن کثیر ، آل عمران ، آیت 96)۔
    چناچہ رسول اللہ ؐ کا فرما ن جہاں مندرجہ بالا تحقیق کی حمایت کرتاہے وہاں آپ ؐ کی صداقت کو بھی عیاں کرتاہے ۔حضور ؐ کو کس نے بتایا کہ زمانہ قدیم میں پوری زمین پانی میں ڈوبی ہوئی تھی اور پھر اسی خشکی کے ٹکڑے پر اللہ کا گھر بنایا گیا تھا ،جیسا کہ مکہ کی بسالٹ چٹانو ں پر کی گئی تحقیق سے یہ امر ثابت ہوچکاہے کہ یہ قدیم ترین چٹانیں ہیں۔
    پروفیسرحسین کمال الدین ریاض یونیورسیٹی میں شعبہ انجنیئرنگ میں پروفیسر تھے۔ انہوں نے اپنی بے مثال تحقیق کے بعد اس امر کا انکشاف کیاتھا کہ مکہ زمین کا مرکز ہے ۔انہیں اس حقیقت کا علم اس وقت ہوا جب وہ دنیا کے بڑے شہروں سے قبلہ (مکہ )کی سمت معلوم کرنے کے کام پر مامور تھے
    ۔ا س مقصد کو حاصل کرنے کے لیے انہوں نے ایک چارٹ بنایا ۔ا س چارٹ میں ساتوں براعظموں کو مکہ المکرمہ سے فاصلے او رمحل وقوع کی بنیاد پر ترتیب دیا ۔پھراپنے کام کو مزید آسان بنانے کے لیے انہوں نے اس چارٹ کو طول بلد اور عرض بلد کے حساب سے تقسیم کرنے کے لیے یکساں خطوط کھینچے ۔پھر ان فاصلوں ،مقداروں اور دوسری کئی ضروری چیزوں کو معلوم کرنے کے لیے انہو ں نے انتہائی جدید اور پیچیدہ کمپیوٹر سافٹ وئیرز کو استعمال کیا اور آخرکار دوسالہ انتھک محنت کے بعد اپنی نئی دریافت کا انتہائی خوشی سے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’’مکہ ‘‘ہی زمین کامرکز ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک ایسا دائرہ بنایا جائے کہ اگر اس کا مرکز مکہ ہوتواس دائرے کے بارڈرز تما م براعظموں سے باہر واقع ہوںگے اور اسی طرح اس دائرے کا محیط تما م براعظموں کے محیطوں کا احاطہ کر رہا ہوگا۔(المجلہ العربی ۔نمبر 237،اگست 1978ء)۔
    بعدازاں 20صدی کی آخری دہائی میں زمین اور زمین کی تہوں کی جغرافیائی خصوصیات کو جاننے اور نقشہ نویسی کی غرض سے حاصل کی گئیں سیٹلائٹ تصاویر سے بھی اس تحقیق کوتقویت ملتی ہے کہ مکہ زمین کے مرکز میں واقع ہے ۔سائنسی طور پریہ امر ثابت شدہ ہے کہ زمین کی پلیٹیں (Tectonics Plates) اپنی لمبی جغرافیائی عمر کے وقت سے باقاعدگی کے ساتھ عربین پلیٹ کے گرد گھوم رہی ہیں۔یہ پلیٹیں باقاعدگی کے ساتھ عربین پلیٹ کی طرف اس طر ح مرتکزہورہی ہیں کہ گویا یہ ان کا مرکز ہدف ہے ۔اس سائنسی تحقیق کا مقصد ہرگز یہ معلوم کرنا نہیں تھاکہ زمین کا مرکز مکہ ہے یانہیں بلکہ کچھ اور مقاصد تھے ۔تاہم اس کے باوجود یہ تحقیق مغرب کے کئی سائنسی میگزینوں میں شائع ہوئی مگر اس طورپر کہ اس سے کوئی نتیجہ اخذنہ کیا جاسکے۔
    سید ڈاکٹر عبدالباسط مصر کے نیشنل ریسرچ سنٹر کے ممتاز رکن ہیں ۔انہوں نے 16جنوری 2005ء میں سعودی عرب میں المجد ٹی وی چینل کو انٹرویو دیا تھا ۔ اس میں مکۃ المکرمہ کے متعلق کئی حیرت انگیز سائنسی انکشافات کیے تھے ۔(
    یہ انٹرویویوٹیوب پر دستیاب ہے
    یہ انٹرویویوٹیوب پر دستیاب ہے
    )۔انہوں نے کہا کہ سائنسی بنیادوں پر مکہ دنیا کا مرکز اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ جب نیل آرم سٹرانگ زمین سے اوپر خلا کی طرف جا رہے تھے تو انہوں نے زمین کی تصویریں کھینچیں ۔انہوں نے دیکھاکہ زمین خلامیں معلق ایک کالا کُرّہ ہے ۔نیل آرم سٹرانگ نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ اسے کس نے لٹکا یاہے ؟پھر خود ہی جواب دیاکہ ! اسے خدانے ہی معلق کرکے تھاما ہوا ہے ۔علاوہ ازیں انہوں نے مشاہدہ کیاکہ زمین کے کسی خاص مقام سے کچھ خاص قسم کی شعاعیں نکل رہی ہیں جو کم طول موج کی تھیں ۔ا نہوں نے اس چیزکو معلوم کرنے کے لیے اپنے کیمروں کو اس مقام پر فوکس کرنا شروع کیا کہ جہاں سے یہ شعاعیں نکل رہی تھیں ۔ آخر کار وہ اپنی اس کوشش میں کامیا ب ہوئے اور انہو ں نے یہ معلوم کرلیا کہ وہ مقام کہ جہاں سے شعاعیں خارج ہورہی ہیں وہ مکہ ہے ۔بلکہ بالکل اگر صحیح طور پر کہا جائے تو وہ کعبہ ہے ۔جب نیل آرم سٹرانگ نے یہ منظر دیکھا تو اس کے منہ سے نکلا ۔اوہ !میرے خدا!جب وہ مریخ کے قریب پہنچے تو دوبارہ انہوں نے زمین کی تصویریں کھینچیں تو انہیں معلوم ہواکہ مکہ سے نکلنے والی یہ شعاعیں مسلسل آگے جارہی تھیں۔ ناسا نے یہ تمام معلومات اپنی ویب سائٹ پر پیش کردی تھیں مگر صرف 21دن کے بعد ان کو ویب سائٹ سے ہٹا دیاگیا تھا ۔شاید اس لیے کہ یہ معلومات بڑی اہم اور حساس تھیں ۔ ڈاکٹر عبدالباسط نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ یہ شعاعیں جو کعبہ سے خارج ہورہی ہیں لا محدود ہیں۔زیادہ طول موج یا کم طول موج والی شعاعوں کی خصوصیات سے بالکل برعکس،میرے خیال میں اس کی وجہ فقط یہ ہے کہ ان کامنبع اور مأخد زمین کا کعبہ ہے جو آسمانی کعبہ سے وابستہ ہے اورمجھے یقین ہے کہ یہ شعائیں زمینی کعبۃ اللہ سے بیت المعمور(آسمانی کعبۃ اللہ)تک جاتی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ کعبہ زمین کے اس مقام پر ہے کہ جہاں زمینی مقناطیسی قوتوں کا اثر صفر ہے ۔یہ زمینی مقناطیس کے شمالی اورجنوبی قطبوں کے بالکل درمیان میں ہے ،اگریہاں قطب نمارکھ دیا جائے تو اس کی سوئی حرکت نہیں کرے گی ۔ اس لیے کہ اس مقام پر شمالی قطب اور جنوبی قطب کی کششیں ایک دوسرے کے اثر کو زائل کردیتی ہیں۔چناچہ یہی وجہ ہے کہ مکۃ المکرمہ اس زمینی مقناطیسی قوت کے اثر سے باہر ہے اور مکہ کے رہنے والوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا ،نتیجتاً جو کوئی مکہ کی طرف سفر کرتاہے یا اس میں رہتاہے وہ صحت مند اورلمبی عمر پاتاہے۔اسی طرح جب آپ کعبہ کا طواف کرتے ہیں تو آپ اپنے اندر ایک توانائی داخل ہوتے ہوئے محسوس کرتے ہیں ایسا اس لیے ہوتاہے کہ آپ زمین کے مقناطیسی میدان کی قوت کے اثر سے باہر ہوتے ہیں اورسائنسی بنیادوں پر یہ بات ثابت شدہ ہے۔علاوہ ازیں مکہ کی کالی بسالٹ چٹانوں کے ٹکڑو ں کو لیبارٹری میں لے جاکر چیک کیاگیا ہے اور یہ بات معلوم کر لی گئی ہے کہ یہ زمین کی سب سے قدیم ترین چٹانیں ہیں۔
    مصر کے ڈاکٹر عبدالباسط کی گفتگو سے ثابت ہوتا ہے کہ کعبہ نا صرف زمین کا مرکز ہے بلکہ یہ پوری کائنات کا مرکز بھی ہے کیونکہ اس کی سیدھ میں بالکل اوپر آسمانی کعبہ یعنی بیت المعمور ہے ۔مختلف روایات و احادیث سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بیت المعمور ،زمینی کعبہ کی سیدھ میں بالکل اوپر ہے۔اگر وہ اوندھے منہ گرے تو سیدھا اس کے اوپر گرے ۔ہر روز 70ہزار فرشتے اس میں آتے ہیں جب وہ وہاں سے جاتے ہیں تو پھر ان کی باری نہیں آتی۔علاوہ ازیں قرآن مجید میں بھی مکہ کو ’’ام القری‘‘کہا گیاہے جس کا مطلب ہے کہ مکہ ان شہروں کی ماں ہے جو سب اس کے اردگرد ہیں۔اس آیت سے بھی یہ معلوم ہوتاہے کہ مکہ تمام شہروں کے درمیان میں ہے۔اسلامی معاشرے میں ماں کے لفظ کی ایک خا ص اہمیت ہے ۔آل واولاد کا سلسلہ ماں سے ہی چلتاہے ۔چناچہ مکہ کو شہروں کی ماں کانام دینے سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ زمین کے بقیہ حصے بھی اسی سے پھیلے یا اس کے بعد وجود میں آئے اوریہی بات سائنسی طور پر بھی ثابت ہوچکی ہے۔
    مکہ ایک محفوظ اور پر امن شہر ہے ۔قرآن میں اس کو ’’بلد الامین‘‘ بھی کہا گیا ہے۔یہاں کسی چرند پرند کوبھی نقصان پہنچانا ممنوع ہے۔ یہ تمام اطراف سے اونچے پہاڑوں میں گھراہوا ہے ،یہی وجہ ہے کہ یہاں کبھی کبھار کم درجے کے زلزلے ہی آتے ہیں۔مزید برآں چونکہ اس شہر کا درجہ حرارت عموماً زیادہ رہتاہے اسی وجہ سے یہاں زمینی پرت (Crust)کے نیچے چٹانیں چپکنے والی اور لیس دار ہیں ،اس وجہ سے بھی مستقبل میں اگر کبھی یہاں زلزلہ آیا تو اس کی شدت کم ہی رہے گی ۔
    کعبہ کی ایک اور اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ مسلمان اس کے گرد طواف کرتے ہیں۔ طواف کا آغاز حجر اسو د والی جگہ سے کیا جاتاہے ۔حاجی یہ طواف اینٹی کلاک وائز (مخالف گھڑی وار)کرتاہے اوریہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کائنات میں ایٹم سے لے کر کہکشاؤں تک ہر چیز اینٹی کلاک وائز حرکت کررہی ہے۔ایٹم کے اندر الیکٹرونز ،نیوکلئس کے گرد اینٹی کلاک وائز گردش کرتے ہیں۔زمین کی تمام پلیٹیں عربین پلیٹ کے گرد اینٹی کلاک وائز حرکت کرتی ہیں۔انسانی جسم کے اندر سائیٹوپلازم ،سیل کے نیوکلئس کے گرد اینٹی کلاک وائز حرکت کرتاہے۔پروٹین مالیکیولز بھی بائیں سے دائیں طرف اینٹی کلاک وائز ہی حرکت کرتے ہوئے ترتیب پاتے ہیں۔ماں کے رحم کے اندر بیضیٰ انثیٰ بھی اپنے ہی گرد حرکت اینٹی کلاک وائز ہی کرتاہے۔ مرد کی منی کے اندرجرثومہ بھی اپنے ہی گرد اینٹی کلاک وائز حرکت کرتے ہوئے بیضیٰ انثی تک پہنچتاہے۔انسانی خون کی گردش بھی اینٹی کلاک وائز ہی شروع ہوتی ہے۔زمین اپنے گرد اور سورج کے گرد بھی انیٹی کلاک وائز ہی حرکت کرتی ہے ۔سورج اپنے ہی گرد اینٹی کلاک وائز حرکت کرتاہے ۔سورج اپنے تما م نظام شمسی سمیت ملکی وے کہکشاںکے مرکز کے گرد اینٹی کلاک وائز گردش کرتاہے۔کہکشاں خود اپنے ہی گرد اینٹی کلاک وائز گردش کرتی ہے۔چناچہ ان تفصیلات سے معلوم ہوتاہے کہ ایک مسلمان جب کعبہ کا طواف کرتاہے تووہ اسی طرح اپنے رب کی طرف سے عائد کی گئی ڈیوٹی کو نبھاتاہے کہ جس طرح ایٹم سے لے کر کہکشاؤں تک ،سب اپنے رب کے حکم کے آگے سر اطاعت خم کیے ہوئے ایک ہی سمت میں محو گردش ہیں۔اس سے اسلام کا امیتاز او ربرتری دوسرے مذاہب کی نسبت نکھر کر سامنے آجاتی ہے۔
    بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے مطابق پچھلے سال قطر میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی تھی ،جس کا عنوان ’’مکہ مرکز عالم ،علم وعمل ‘‘ تھا۔اس میں کچھ مسلمان علمائے دین او ر سائنسدانوں نے مطالبہ کیا تھا کہ گرینچ کے معیاری وقت کے بجائے مکہ مکرمہ کے وقت کومعیار کے طورپر اپنانا چاہیے کیونکہ بقول ان کے مکہ مکرمہ ہی دنیا کا مرکز ہے ۔ اس کانفرنس میں شریک ایک ماہر ارضیات کا کہنا تھا کہ جغرافیائی لحاظ سے مکہ مکرمہ قطب شمالی سے دیگر طول بلد کے مقابلے میں بہترین مطابقت رکھتا ہے ۔شرکاء کانفرنس کا کہنا تھا کہ انگریزوں نے برطانوی راج کے دور میں دیگر ممالک پر قبضہ کرکے ،باقی دنیا پر زبردستی گرنیچ کا وقت مسلط کردیاتھا ۔اب اس صورت حال کو بدلنے کا وقت آگیا ہے۔معروف عالم دین شیخ یوسف القرضاوی نے اس کانفرنس میں کہا کہ جدید سائنسی طریقوں سے اب یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ مکہ مکرمہ کرہ ارض کا اصل مرکز ہے۔جس سے قبلے کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے ۔ اس کانفرنس میں مکہ واچ ،نامی منصوبے کا بھی جائزہ لیا گیا ۔یہ ایک فرانسیسی سائنسدان کی ایجاد کردہ گھڑی ہے جو الٹی طرف چلتی ہے اور اس سے دنیا میں کہیں بھی موجود مسلمانوں کو قبلے کے رخ کا پتہ چل سکتا ہے۔(بی بی سی اردو ڈاٹ کام،2اپریل ،200
    اب جب کہ سائنسی تحقیقات اور سیٹلائٹ تصاویر نے بھی اس تحقیق کی حمایت کردی ہے کہ مکہ ہی زمین کا مرکز ہے تو کئی دہائیوں سے جاری اس تنازعہ اور بحث و مباحثہ کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بین الاقوامی طور پر وقت کے معیار کے لیے گرینچ کی بجائے ’’مکہ ‘‘ ہی کو مرکزقراردیاجائے ۔اب اگر مکہ کے وقت کو بین الاقوامی طورپر نافذ کردیاجائے تو ہر ایک کے لیے نمازوں کے اوقات کا معلوم کرنابالکل آسان ہوجائے گا۔لہذا مکۃ المکرمہ جو کہ ایک مبارک شہر ہے ،کو دنیا کے دیگر شہر وں پر فضیلت کا حق ملنا چاہیے ۔


    بشکریہ : طارق اقبال سوہدروی
     
  2. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جواب: زمین کا مرکز گرینچ یا مکۃ المکرمہ

    شکریہ بلال اس شئیرنگ کے لئے

    بہت خوب بہت عمدہ
     
  3. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: زمین کا مرکز گرینچ یا مکۃ المکرمہ

    بہت بہت شکریہ بلال بھائی مگر یہ باتیں کرکے ہم اپنے دل کو تسلی دے لیتے ہیں عملی اقدامات کوئی نہیں کرتا
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: زمین کا مرکز گرینچ یا مکۃ المکرمہ

    ملک بلال بھائی ۔ بہترین مراسلے کے لیے شکریہ قبول کریں۔ جزاک اللہ
     
  5. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    جواب: زمین کا مرکز گرینچ یا مکۃ المکرمہ

    محترم بلال صاحب کی بات سچ ہو گئی ،
    سعودی عرب میں مکہ ٹاور جسے برج البیت کہتے ہیں ، اس پر جو کلاک لگایا ہے اسے دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے اونچا گھڑیال یعنی کلاک کہتے ہیں ، اس سے پہلے گرینچ کا سب سے بڑا کلاک تھا ،
    یہ دیکھیے تصویر ،
    [​IMG]
    بگ مین لندن و امریکہ اور پولینڈ کے کلاک سے بھی بڑی گھڑی لگائی ہے،جسے اس مرتبہ رمضان میں مکمل ہونے پر افتتاح کر دیا ہے ،
    اس کی خوبیاں دیکھیے
    جن سے یہ نمایاں معلوم ھوتی ہے
    دیار المقدس مکۃ المکرمۃ میں کعبۃ اللہ کے قریب ہے حجاج کی سہولت کے لیے یہ کلاک لگایا گیا ہے ،عمارت کی لمبائی ،45 میٹر اور چوڑائی 43 میٹر اور اونچائی 817 میٹر ہے، آسمان کو چھوتی یہ عمارت برج الخلیفہ دبئی سے 11 میٹر چھوٹی ہے ، ایک رسد گاہ فلکی بھی بنائی ہے ،
    یہ گھڑی رات کو سبز اور سفید روشنیوں سے مزین 17 کلومیٹر دور سے نظر آتی ہے ، اور دن کو 12 کلو میٹر سے نظر آتی ہے ، یہ بلڈنگ جس کا شمار ایک اعلی معماری عمارتوں میں ہوتا ہے اس میں رہائشی اور تجارتی حصے موجود ہیں اور، بیت اللہ کے لیے اس کی آمدنی وقف کر دی گئی ہے ،
    [​IMG]
    اس کی خاص بات یہ ہے کہ اسے مکہ کے وقت کے مطابق استعمال کرنے کے لیے لگایا گیا ہے ، اب عربی چینلوں پر اس وقت کا تعین کیا جائے گا ، اس گھڑی کے چاروں طرف "اللہ جل الجلالۃ "کا لفظ لکھا ہوا ہے۔ اس گھڑی کو موسمی تاثرات سے محفوظ بنایا گیا ہے ،
    عالم اسلامی اب اسی گھڑی کا وقت بتایا کرے گا ۔"حسب توقیت المکۃ المکرمۃ" یعنی مکۃ المکرمۃ کے وقت کے مطابق ۔سیمنٹ سے بنائی ہوءی اس عمارت کے ساتھ سات بڑی ہم آھنگ بلڈنگیں ہیں ۔اس کام کو شرکۃ مجموعۃ بن لادن نے انجام دیا۔ 662 میٹر سیمنٹ کی بنی ہوئی بلڈنگ ہے اور 155 میٹر حدید سے بنائی گئی ہے اس طرح کل اونچائی 817 میٹر بنتی ہے ،
    اس میں تین ھزار کمرے ہوٹل کے ہیں ، اور ایک عالمی ہوٹل نے اسے کرائے پر لیا ہے ،اور مین برج کی عمارت میں ایک اسلامی عجائب گھر بنایا ہے ، جسے متحف الاسلامی کہتے ہیں ، اور فلکیات کی رصد گاہ علمی مقاصد کے لیے بھی بنائی گئی ہے ،
    اس پر کل خرچ تین بلین ڈالر ہوا ہے ،
     
  6. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جواب: زمین کا مرکز گرینچ یا مکۃ المکرمہ

    بہت شکریہ بے باک جی اس خوبصورت شئیرنگ کے لئے
     
  7. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: زمین کا مرکز گرینچ یا مکۃ المکرمہ

    بہت ہی خوبصورت معلومات پہنچانے کے لیے بہت بہت شکریہ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں