1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

رمضان کے ٹی وی پروگرام اور سیاسی بیانات

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از آصف احمد بھٹی, ‏1 اگست 2013۔

  1. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    آجکل سیاستدانوں کے بیانات اور لطیفوں میں فرق مٹتا جا رہا ہے مگر پہلے یہ بات کہ ٹی وی چینلز کے حوالے سے پاکستان سے محبت کرنے والے لوگوں کو بہت تحفظات ہیں۔بہرحال یہ تحفظات مولانا فضل الرحمن والے نہیں ہیں۔ ہزاروں لوگوں نے مجھ سے رابطہ کیا کہ ٹی وی چینلز پر ایسی عورتیں اور مرد بٹھا دیئے گئے ہیں جو دین و دنیا کے معاملات اور مسائل سے غافل ہیں بلکہ غیر سنجیدہ ہیں۔ ناکام اداکارائیں رمضان کے پروگراموں میں میزبان بن کر بیٹھ جاتی ہیں انہیں زندگی میں مہمان بننا بھی نہیں آیا۔ میں نے بھی یہ پروگرام دیکھے ہیں۔ غصہ آتا ہے اور ہنسی بھی آتی ہے۔ اداکارائیں اور فنکارائیں قابل قدر ہیں۔ وہ اپنے میدان میں فتوحات کے جھنڈے گاڑیں۔ ہم ان کے مداح ہیں ان کی تصویریں اور خبریں اخبارات کے فلمی صفحوں پر شائع ہوتی ہیں۔ اگر اخبارات ان کی روزانہ مصروفیات کو ہیڈ لائن بنائیں تو پڑھنے والے اخبار خریدنا بند کر دیں گے۔ کبھی اخباری انتظامیہ اس کی اجازت ہی نہیں دے گی مگر ٹی وی چینل پر کوئی نہ کوئی اداکارہ اپنے میک اپ، اپنے کپڑوں اور زلفوں وغیرہ کے بناﺅ سنگھار کا مظاہرہ کر رہی ہوتی ہیں تو لوگ کہاں جائیں، کونسا ٹی وی چینل لگائیں۔صرف وقت نیوز پر احتیاط کی جاتی ہے شائستگی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ یہ پروگرام بھی دیکھے جاتے ہیں بلکہ پسند کئے جاتے ہیں۔ اور پروگرام کرنے کے لئے کہتے ہیں۔ انہیں اداکارہ میزبان کہتی ہے کہ جاﺅ اپنا کام کرو۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا کام آپ نے کرنا شروع کر دیا ہے تو ہم کیا کریں۔ اب مسلم لیگ کا زمانہ ہے۔ پی ٹی وی پہلے بھی لوگوں کے جذبات کا خیال کرتا ہے یہاں بھی رمضان پروگراموں میں اپنے مستقل میزبانوں کو لایا گیا ہے مگر یہ لوگ کچھ نہ کچھ تیاری کرکے آتے ہیں۔ ایسے لوگ لائے جا سکتے ہیں جو علمی لوگ ہوں دین کا بھی وژن رکھتے ہوں۔ روایتی مولوی ہونا ضروری نہیں جبکہ مولوی صاحبان، میزبان مقررین سے گفتگو کرکے بہت خوش ہوتے ہیں۔ ایک ایس ایم ایس چل رہا ہے دو مولوی صاحبان ٹی وی میزبان خاتون کے پاس جاتے ہیں۔ نعت خوانی نے عشق رسول کو فروغ دینے میں بہت کردار ادا کیا ہے مگر کچھ لوگ جو باقاعدہ گلوکاری کی طرف نہ جا سکے۔ اب یہاں قسمت آزمانے آ گئے ہیں گھر کا ایک نہ ایک فرد (عورت یا مرد) نعت خوانی کے شعبے میں نکل آیا ہے۔ نعت خوانی کے لئے باقاعدہ گلوکاری کی طرح اور موسیقی کے قواعد کے مطابق باقاعدہ پریکٹس کی جاتی ہے۔ اس کے لئے سامعین ثواب کی خاطر روپے پیسے کی بارش کر دیتے ہیں۔ یہ اب ایک پروفیشن کی صورت بنتی جا رہی ہے۔ نعت خوانی ایک اچھا عمل ہے مگر اسے نیکی سمجھ کے کرنا چاہیے۔ اسے صرف رمضان کے مہینے کے لئے مخصوص کر دینا بھی ٹھیک نہیں ہے۔ممنون حسین نے صدر منتخب ہوتے ہی مسلم لیگ ن کے پارٹی عہدے اور پارٹی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ وہ مسلم لیگ ن کے ہی صدر ہیں۔ پارٹی نے انہیں صدر بنایا ہے مگر یہ ایک ایسا اچھا اقدام ہے جسے صدارتی وقار کی علامت کہنا چاہیے۔ اس میں صدر زرداری کے لئے بھی ایک پیغام ہے مگر وہ اس پیغام کو وصول کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ہوں گے۔ انہوں نے اس آئینی عہدے کا غیر آئینی استعمال کیا جو افسوس ناک ہے۔ ایک خبر کے مطابق ممنون حسین کے صدر بنتے ہی ان کے بھارتی دوستوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ نواز شریف کے دوستوں میں خوشی کا سیلاب آ گیا ہو گا۔ حیرت ہے کہ بھارتی اپنے صدر کے لئے اتنے خوش کبھی نہیں ہوئے۔ مصنوعی خوشی کسی مصیبت کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ اللہ خیر کرے۔ صدر ممنون حسین بلکہ ممنون صدر کو کراچی میں محبت سے لوگ ننھے بھائی کہتے ہیں۔ مسلم لیگ ن میں ایک سرگرم وزیر کو ننھے منھے بھائی کہتے ہیں۔ میں اس کا نام نہیں لوں گا مگر آپ کو پتہ چل گیا ہو گا۔وزیر اطلاعات پرویز رشید ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر پہنچ کر اتنے جذباتی ہو ئے کہ انہوں نے ایم کیو ایم کے حیدر عباس رضوی سے لپٹ کر انہیں گردن پر بوسہ دیا جو پاکیزہ پیار کی نشانی ہے۔ بھارتی فلموں میں جمناسٹک کے نام پر رقص کرتے ہوئے ہیرو اور ہیروئن بے قابو بھی ہو جاتے ہیں رقص کو جوش ملیح آبادی نے اعضاءکی شاعری کہا تھا۔ بھارتی فلموں میں رقص کو اعضاءکی بے وزن شاعری کہا جا سکتا ہے۔ یہ سب کچھ ردھم میں ہوتا ہے مگر دیکھنے والے جذباتی ہو جاتے ہیں۔ ارادوں میں طوفان مچ جاتا ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ آرزو بہرحال ارادے سے اچھی ہوتی ہے۔ ارادے پورے کئے جاتے ہیں۔ آرزوئیں پوری ہو جاتی ہیں۔ ہیروئن اپنے ہیرو کی درازدستیوں سے تنگ آ کر اس کے ماتھے پر بوسہ دیتی ہیں تو اسے کچھ شرم آ جاتی ہے۔ پرویز رشید بھی ماتھے پر بوسہ دینا چاہتے تھے سامنے گردن آ گئی۔ عمران خان کو تحریک انصاف کے صدارتی امیدوار کے جیتنے کا بھی یقین ہوتا تو بھی وہ کسی سے ووٹ کے لئے نہ کہتا۔ میں نے کہا کہ وہ اپوزیشن میں بھی اپنی پوزیشن کا خیال رکھتا ہے۔ اس طرح کے انداز سیاست کو کیا کہنا چاہیے۔ خیبر پختوں خوا میں تحریک انصاف کے اتحادی آفتاب شیرپاﺅ نے ممنون حسین کے گھر آنے کے بعد ووٹ ان کو دے دیا ہے۔ انہیں رنج ہے کہ عمران نے براہ راست رابطہ نہیں کیا۔ آفتاب شیرپاﺅ کے لئے اطلاعاً عرض ہے کہ پھر بھی کبھی عمران ان سے رابطہ نہیں کرے گا۔ وہ سوچ لیں؟فرینڈلی اپوزیشن وغیرہ کا تو سنا ہے اور یہ بھی ثابت ہے کہ عمران خان کی اپوزیشن زیادہ فرینڈلی ہو گی مگر یہ کیا اپوزیشن سے کے ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر فاروق ستار نے کہا ہے کہ ہم اپوزیشن میں بیٹھ کے حکومت کی حمایت کریں گے۔ میرا خیال ہے کہ اس جملے پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اپوزیشن کے صدارتی امیدوار وجیہہ الدین احمد نے 77ووٹ لینے کے بعد نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ان کے مقابلے میں ممنون حسین کو 432ووٹ ملے ہیں۔ انہیں شاید شک ہے کہ ہمیں 77ووٹ کیسے مل گئے ہیں؟ بہرحال ان 77لوگوں کو سلام ہو کہ انہوں نے وفا کا حیا کا بھرم رکھا ہے۔ تحریک انصاف کے باغی لیڈر جاوید ہاشمی کے کریڈٹ انداز دیکھیں۔ کہتے ہیں ممنون حسین میرے لگائے ہوئے پودے ہیں مگر افسوس کہ یہ پورا گھنا پیڑ بنا ہے تو اس کی صدارتی چھاﺅں میں بیٹھنا جاوید ہاشمی کو نصیب نہیں ہوا۔ اب انہیں مسلم لیگ ن چھوڑنے کا افسوس تو ہو گا؟،​
     
    محبوب خان اور نعیم .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں