1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

رمضان المبارک' حصول تقویٰ' اصلاح نفس

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از ذوالقرنین کاش, ‏16 ستمبر 2008۔

  1. ذوالقرنین کاش
    آف لائن

    ذوالقرنین کاش ممبر

    شمولیت:
    ‏25 اپریل 2008
    پیغامات:
    383
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    روزہ اسلامی عبادت کا دوسرا اہم رکن ہے ۔روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں نفس کی تہذیب اور اس کی اصلاح اور قوت برداشت کی تربیت مد نظر ہوتی ہے ۔ صو م ( رو ز ہ ) کے لغوی معنی رکنے اور کوئی کام نہ کرنے کے ہیں۔شرعی اصطلاح میںطلوع فجر (صبح صادق ) سے غروب آفتاب تک عبادت کی نیّت سے کھانے پینے اور جماع سے رُکے رہنے کا نام صوم یا روزہ ہے ۔ اور روزہ کی عبادت جس کا وجو د قدیم سے قدیم مذاہب میں بھی ملتا ہے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ ترجمہ اے مسلمانو! تم پر روزہ رکھنا اس طرح فرض کیا گیا ہے جس طرح ان لوگوں پر فرض کیا گیا تھا جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں۔ تاکہ تم روحانی اخلاقی کمزوریوں سے بچ سکو۔ (سورة بقرہ آیت ١٨٤ ) اور اس آیت کے آخر میں لعلکم تتقون یعنی روزہ کی غرض تقوی ٰکا حصول اور تہذیب نفس بتائی گئی ہے۔یعنی روزہ کے مجاھدہ اور اس کی عبادات کے ذریعہ جب انسانی نفس کا تزکیہ یعنی اصلاح نفس ہوتی ہے تو اس سے نفس طاقت پکڑتا ہے انسان کو اپنے نفس پر اختیار ملتا ہے تو انسان کو اپنے نفس کی کمزوریاں محسوس ہوتی ہیں اور روزہ دار کو اسکے نفس کی کمزوریاں دکھائی جاتی ہیں ۔ اور جب انسان ان کمزوریوں سے بچنے کیلئے خدا کی طرف توجہ کرے گا نیکی کی طرف حرکت اور بدیوں سے بچنے کی اس کے نفس میں جو ایسی قوت پیدا ہوگی اس دلی کیفیت کو اسلامی اصطلاح تقویٰ کہا جائے گا ۔ پس رمضان مسلمان کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف ایک اصلاح نفس کا ریفریشر کورس ہے ۔بعض دنیادار عام لوگوں میں یہ غلط خیال پھیلا ہوا ہے کہ انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ کہ دین پر عمل درآمد کرنا انسان کی مقدرت سے باہر ہے اور'' یہ شریعت کہنے کی ہے کرنے کی نہیں''۔اس پر عمل نہیں ہو سکتا ۔اس مایوسی کی وجہ سے یہ بد خیال عام پھیلا ہوا ہے ۔اس خیال نے بہت ساحصہ مخلوق کا تباہ کرکے رکھ دیا ہے ۔پس دین سے غافل دنیا کی محبت میں منہمک مسلمانوں نے ( کہ دین پر عمل درآمد ممکن نہیں ) اس قسم کے حیلے اپنی بدیوں کو چھپانے کے لئے تراشے ہوئے ہیں۔

    قرآن کریم میںماہ رمضان میں روزہ یعنی روزہ کی عبادات کو اصلاح نفس حصول تقوی ٰ کاذریعہ بیان کیا گیاہے۔ گویا ہررمضان میں اصلاح نفس یعنی حصول تقویٰ کے سبق کو ذہن نشین کروایا جاتا ہے ۔دنیا پرستی کی وجہ سے انسان کا اصلاح نفس تزکیہ نفس کی مساعی کو ترک کرنا اور کسل غفلت میں مبتلا ہونا انسان کے نفس کے شرور ہیںگویا شیطان نہیں چاہتا کہ انسان اصلاح نفس کے مجاھدہ سے نفس کے شرور سے محفوظ ہو جائے۔پس حصول تقویٰ ( جو روزہ کی اصل غرض قرآن کریم نے بتائی ہے )اس کے لئے ضروری انسان نفس کے شروراور کسل غفلت کی کمزوری اور اس بُرے نتائج سے محفوظ رہنے کے لئے خدا کی پناہ میں آنے کے سامان پیداکرے ۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ دعا سکھائی ۔ کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَیِّاٰتِ اَعْمَالِنَا۔کہ اللہ اتعالیٰ کی پناہ میں آجائیں۔ کیونکہ بڑی پناہ اور معاذ اللہ تعالیٰ ہی کی پناہ ہے جو ساری قدرتوں اور قوتوں کا مالک اور مولیٰ ہے اور ہر نقص سے پاک ،ہر کامل صفت سے موصوف۔پہلے ضروری ہے کہ شُرُوْرِ اَنْفُسِنا( یعنی نفس کے شر) سے پناہ مانگیں ۔انسان کی اندرونی بدیاں اور شرارتیں اکثر اس کو ہلاک کر دیتی ہیں ۔مثلاً شہوت کے مقابلہ میں زیر ہو جاتا اور عفت کو ترک کرتا ہے بد نظری اور زنا کا ارتکاب کرتا ہے حلم کو چھوڑ تا ہے اور غضب کو اختیار کرتا ہے اور کبھی قناعت کو جو سچی خوشحالی کا ایک بڑا ذریعہ ہے چھوڑ کر حرص و طمع کا پابند ہو جاتا اور کبھی ہمت بلند اور استقلال نہیں رہتا،بلکہ پست ہمتی اور غیر مستقل مزاجی میں پھنس جاتا ہے۔سعی اور مجاہدہ کو ترک کرتا اور کسل میں مبتلا ہوتا ہے ۔یہ نفسانی شرور ہیں۔اس لئے ان تمام شراتوں اور ان کے برے نتائج سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ ہی کی پناہ لینی چا ہئے اور پھر بد اعمال کے بد نتائج ہیں ۔ان سے بھی محفوظ نہیں رہ سکتا جب تک اللہ تعالیٰ کی پناہ میں نہ ہو۔

    پس انسان جب تقویٰ خدا خوفی صدق اور سچائی اور پاکیزگی کے رستہ کو اختیار کرتا ہے تو تقویٰ انسان کے لئے ایک تعویز بن جاتا ہے ۔ پس تقوی ٰہی ہر نیکی جڑ ہے اور اس جڑ سے نیکیاں نشو نما پاتی ہیں ۔اورروزہ کی خاص عبادت جو حصول تقوی کے لئے مخصوص کی گئی ہے ۔ جسکے متعلق خدا تعا لیٰ فرما تا ہے کہ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزاء ہوں ۔ پس روزہ رکھنے والے کے لئے لازم ہے کہ اپنا وقت خصوصیت سے نیکی اور تقوی طہارت اور صداقت عمل میں گزار ے اور ہرقسم کی بدی اور بہودگی سے اجتنا ب کرے ۔مگر اس نیت سے نہیں کہ رمضان کی قید کے ایام کے بعد پھر سُستی اور بدی کی مادر پدر آزادی کی طرف لوٹ جا ئے گا ۔بلکہ وہ اس تربیتی ریفریشر کورس کے نتیجہ میں ہمیشہ متقی رہنے کی کوشش کرے گا ۔اور خشیت اللہ کو اپنا شعار بنائے گا ۔روزوں کے ایام میں نمازوں کی پابندی اور تلاوتِ قران مجید اور دعائوں اور ذکر الہٰی کا شغف خاص طور پر ضروری ہے ۔اور روزوں کی راتوں میں تہجد کی نماز کی بڑی تاکید آئی ہے ۔تہجد کی نماز مومنوں کو ان کے مخصوص انفرادی مقامِ محمود تک پہنچانے اور انسان کی مخفی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے میں بے حد مئوثر ہے تہجد کی عبادت کی اہمیت اور افادیت کا اشارہ سورة بنی اسرائیل میں ملتا ہے ۔قران کریم میں روزہ کو اصلاح نفس کا ذر یعہ بتایا گیا کیونکہ جہاں ا نسان خدا کی خاطر لذات کو ترک کر دیتا ہے وہاں اپنے نفس کو زیادہ نیکی پر قائم کرنے اور ہر قسم کی حرام اور نجس چیزوں سے پرہیز کی کوشش کرنے کا سبق اسے ملتا ہے ۔ جو شخص روزہ میں اپنی ہر چیز خدا کے لئے چھوڑتا ہے جن کا ستعمال کرنا اس کا قانونی اور اخلاقی جرم نہیں تو اس سے اسے عادت ہو تی ہے کہ غیروں کی چیز وں کو نا جائیز طریق سے استعمال نہ کرے انکی طرف نہ دیکھے اورجب وہ خدا کے لئے جائیز چیزوں کو چھوڑتا ہے تو اس کی نظر نا جائیز چیزوں پر پڑ نہیں سکتی ۔لیکن اللہ تعالیٰ نے روزہ کا مقصد کو محض بھو ک پیاس کی برداشت تک محدود نہیں رکھا۔ کیونکہ آنحضرت ۖ فرماتے ہیں بعض روزہ دار ایسے ہوتے ہیں کہ سوائے بھوک پیاس کے ان کو روزہ سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔'' کیونکہ ایسے لوگ روزہ کے اعلیٰ مقصد تقویٰ طہارت سے آنکھیں بند کر کے فقط بھوک پیاس سے منہ بند کر کے روزہ رکھتے ہیں ۔۔۔گویا وہ فقط بھوک پیاس کی برداشت دوران یعنی وہ آنکھ کان ہاتھ پائوں سب کو برابر کا روزہ دار بناناکر اس عمل کے ذریعہ اپنی توجہ خدا تعالیٰ کی طرف رکھنا ضروری نہیں سمجھتے۔مگربھوک و پیاس کی براشت کے ساتھ اگر روزہ دار کو اس کے اصل مقصد کے حصول پر توجہ ہوگی ۔تو اسے بڑی و چھوٹی ہر قسم کی لغویات سے خود کو بچانا غص البصررکھنا یعنی غیر محرم کو بے محابا دیکھنے سے اجتناب کرنا ہوگا گانا بجانا فضول و لغویات باتیں نہ کرنا یعنی روزہ دار کو عبادات میں انہماک پیدا کرکے ہر لغو کام کرنے سے اجتناب کرنا اوراگر کوئی لڑائی کرے تو خاموش رہنا ہے کہ اسے کہنا کہ میرا روزہ ہے ۔اور اگر یہ سب کچھ کیا جائے تو روزہ دار کیلئے خدا کے رحمت کے دروازے کھو لے جاتے ہیں ۔

    لیکن کچھ روزے دار ایسے ہوتے ہیں جنہوں نے روزہ بھی رکھا جھوٹ بھی بولتے رہے اور بد دیانتی بھی کرتے رہے تو ایسا روزہ دار جس نے فقط بھوک پیاس سے منہ بند کئے رکھا اسے آنحضرت ۖ کے ارشاد کے مطابق روزہ کچھ نفع یا فائدہ نہ دے سکا ۔ پس آنحضرت ۖ کے ارشاد کا مطلب ہی ہے کہ روزہ کے ظاہر پر مطمئن ہونے کی بجائے روز ے کی روح یعنی تم تقویٰ کی ڈھال کے ذریعہ نفس کے شر سے بچو ۔پس روزہ دار مومن نے ترک طعام اور ترک شہوات کے پیچھے جو روزہ کی روح ہے اس کے تقاضوں کو پورا کرنا ہے ۔ روزے کی غر ض لعلکم تتقون میں فرمایا کہ روزہ کے ذریعہ جس نے تقویٰ پرہیزگاری اختیار کی ( خداتعالیٰ نے ) روزہ تمہارے لئے ڈھال بنایا اور تاکہ تم بدیوں برائیوں سے بچ سکو گویاروزہ بدیوں برائیو ں بد اعمالیوں سے بچنے کے لئے مومن کے لئے ایک ڈھال کا کام دیتا ہے۔

    پس روزہ فقط کھانے پینے سے ہی پرہیز کا نام نہیں بلکہ روزہ کے اخلاقی روحانی فوائد بھی ہیں اور اس کے ساتھ جسمانی فائدہ بھی ہے اور وہ یہ کہ انسانی جسم تکالیف اور شدائد بردا شت کرنے کا عادی ہو جاتا اور اس میںقوت برداشت اور صبر کا مادہ پیدا ہوجاتا ہے علاوہ ازیں صحت کے برقرار رکھنے میں فاقہ کی طبی اہمیت مسّلم ہے ۔ اگر اعتدال پیش نظر رہے تو صحت میں نمایاں فرق پڑتا ہے یعنی معدہ درست کام کرتا ہے موٹاپا کم ہوتا ہے ۔ گویا روزہ جسم کی صحت کا بھی ضامن ہے اور روحانی لحاظ سے تقوی کا منبع اور سر چشمہ ہے قرآن کریم میں روزہ کو متقی بننے کے لئے ایک مجرب نسخہ بتایا ہے ۔متقی جب تقوی پر قائم ہو جاتا ہے تو اس کے اخلاق میں نمایاں ترقی نظر آتی ہے ۔روزہ کی اس ترقی یافتہ حالت میں انسا ن میں خوش خلقی نظر آتی ہے ' وہ محبت و اخوت کے رشتو ں پر خاص توجہ دے کر انہیں استوار کرتا ہے اور روزہ دار میں جو نیک تبدیلی پیدا ہوتی ہے اس کی بدولت تقوی اختیار کرنے والے متقی کو عفت ' دیانت' نیک چلنی اور تزکیہ نفس کی توفیق ملتی ہے ۔ صبر و جرائت کی قوتوں کی نشو نما ہوتی ہے ۔غرباء کی تکلیف کا احساس ہوتا ہے اور ان کی مدد کرنے کا جذبہ بڑھتا ہے۔اور اس طرح اقتصادی اور طبقاتی مساوا ت کے رحجانا ت کو فروغ ملتا ہے ۔اور اس کے ساتھ صحت بھی برقرار رہتی ہے ۔

    مگر مسلمانوں کی غالب اکثریت روزہ کی حقیقت سے بے خبر ہے ا ور بعض طبقوں کے خیال میں روزہ اتنا ہی ہے کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتا ہے ۔لیکن روزہ بھوک پیاس کی برداشت تک محدود نہیں ۔ بلکہ جب انسان بھوک پیاس کی برداشت کے ذریعہ اپنے نفس پر قابو پانے کی کوشش میں اللہ تعالیٰ کی پرستش عبادات میں خاص انہماک پیدا کر تا ہے ۔ تو ایسے روزہ دار کو نفس کی باریک شرائط کو پورا کرنا پڑتا ہے ۔ تو گویا اس کا روزہ تزکیہ نفس کاذریعہ ہے ۔تزکیہ نفس سے مراد ہے یہ ہے کہ نفس امارہ ( بدیوں کی ترغیب دینے والا نفس ) شہوا ت نفس سے بُعد دوری حاصل ہو جائے ۔ صلٰوة یعنی نماز عبادات میں انہماک کی بدو لت اگر تزکیہ نفس ہوتا ہے تو روزہ تجلی قلب کا ذریعہ ہے ۔تجلی قلب سے مراد یہ کہ اس پر کشف کے دروازے کھل جاتے ہیں ۔

    پس روزہ میں بھوک پیاس بے مقصد نہیں کیونکہ ا نسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اوراسی قدر تزکیہ نفس ہو تا ہے خدا تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تاکہ تبتل اور انقطاع حاصل ہو ۔ روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کی تسلی اور سیری کا باعث ہے اور جو لوگ محض خدا کے لئے روزے رکھتے ہیں اور نرے رسم کے طور پر نہیں رکھتے انہیں چاہیے کہ اللہ تعالی کی حمد اور تسبیح میں لگے رہیں جس سے دوسری غذا انہیں مل جاوے ۔ پس روزہ دار کو اپنی اخلاقی روحانی غذا پر خاص توجہ دینی چاہئے کیونکہ روحا نی غذا سے ہی انسان کے اخلاقی روحانی قویٰ کو تقویت ملتی ہے اور انسان جو اخلاق کی تعمیر اور روحانیت کے سفر میں سرگرمی دکھاتا ہے ۔ تو ایسا متقی روزہ دار غیر معمولی نیک تغیر و تبدیلی کی بدولت اللہ کی خوشنودگی اور اس کی قرب و وصال کی راہوں کو دیکھتا ہے گویا متقی رمضان کے اصل غرض یعنی تقویٰ کی اعلیٰ منازل کے سفر پر گامزن ہو کر اپنے مقصد حیات میںکامیاب ہوجاتا ہے۔
     
  2. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ کاش صاحب۔ایمان پرور مضمون ہے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں