1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

رفیعہ منظور الامین

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏21 دسمبر 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    رفیعہ منظور الامین اپنے بے شمار افسانوں، ناولوں انفرادی لب و لہجہ اور طرز ادا کی بناء پر ادب کی جانی پہچانی شخصیت ہیں۔

    رفیعہ منظور الامین حیدرآباد میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم کی تکمیل کے بعد عثمانیہ یونیورسٹی سے بی ایس سی کی ڈگری لی۔ بی ایس سی پاس کرنے کے بعد منظور الامین صاحب سے ان کی شادی ہو گئی۔ جو خود بھی ایک اچھے شاعر اور مصنف ہیں۔ ریڈیو اور ٹی وی سے کئی سال منسلک رہنے کے بعد ٹی وی کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے سے سبکدوش ہوئے ہیں۔

    رفیعہ منظور الامین کو بچپن سے ہی کہانیاں لکھنے کا شوق ہے۔ پہلی کہانی دہلی سے شائع ہونے والے رسالہ ’’پیام تعلیم‘‘ میں شائع ہوئی۔

    کالج میں بھی وہ ادبی سرگرمیوں میں بے حد مصروف رہتی تھیں۔ کالج میگزین ’’کاسماس‘‘ کی ادارت کے فرائض بھی انہوں نے انجام دیئے۔

    رفیعہ صاحبہ کو اردو ادب سے بڑی دلچسپی ہے۔ علاوہ ازیں مجسمہ سازی، باغبانی، مصوری، فوٹو گرافی اور سیاحت ان کے محبوب مشاغل ہیں۔ منظور صاحب کی ملازمت کے سلسلے میں مختلف مقامات پر تبادلوں سے آدھی دنیا کی سیاحت کر چکی ہیں۔

    رفیعہ منظور الامین بحیثیت ناول نگار، افسانہ نگار، ڈرامہ نگار اور انشائیہ نگار کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ سائنس سے گریجوئیٹ ہونے کی وجہ سے سائنس سے بھی دلچسپی رکھتی ہیں۔ سائینسی مضامین کا مجموعہ ’’سائینسی زاوئیے ‘‘ تصنیف کیا۔ اس کے علاوہ سائینس کے تعلق سے مضمون اور افسانے اخبارات اور رسائل کے زینت بنے ہیں۔

    رفیعہ منظور الامین کے افسانوں کا مجموعہ جو بہت مشہور ہے ’’دستک سی دردِ دل پر ‘‘ ۱۹۸۹ء میں سیمانت پر کاش نئی دہلی کی جانب سے شائع ہوا۔ جو حسب ذیل چوبیس (۲۴) نمائندہ افسانوں پر مشتمل ہے۔

    ۱۔ تنگامنی، ۲۔ مات، ۳۔ ایک نگاہ کا زیاں، ۴۔ رشتے، ۵۔ کون، ۶۔ کھوئی راہوں کے ہمسفر، ۷۔ اپنی اپنی صلیب، ۸۔ ناگ پھنی کا کھیت، ۹۔ حرف آگہی، ۱۰۔ چپ، ۱۱۔ ٹینی بار پر، ۱۲۔ بچھو بوئی، ۱۳۔ ستمگر، ۱۴۔ سوئمبر، ۱۵۔ ریت کی گھڑی، ۱۴۔ بے وفا، ۱۷۔ تیسرا دیس، ۱۸۔ شو رسلا سل، ۱۹۔ جونک، ۲۰۔ باسنگ شو، ۲۱۔ گھن، ۲۲۔ چھینے ہوئے لمحے، ۲۳۔ قمیص، ۲۴۔ دستک سی دردِ دل پر۔

    مجموعہ ’’دستک سی دردِ دل پر‘‘ اس میں مشمولہ افسانے ’’رشتے ‘‘ ’’بے وفا‘‘ ’’بچھو بوائی ‘‘ ’’ناگ پھنی کا کھیت‘‘ اور ’’دستک سی دردِ دل پر ‘‘ بے مثال افسانے ہیں۔

    افسانہ ’’رشتے ‘‘ میں آج کے ہندوستانی سماج میں بڑھتی ہوئی مغربیت اور اسکے ساتھ ہماری معاشرتی اقدار کی بہت عکاسی کی گئی ہے۔

    افسانہ ’’دستک سی دردِ دل پر ‘‘ میں کشمیر کے حسین مناظر کو پیش کرتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ آج کا انسان اتنا خود غرض ہو گیا ہے کہ اپنے مفاد کی خاطر دو سروں کی زندگی تباہ کرنے سے بھی عار نہیں کرتا۔ ہمارے معاشرے میں بے زبان ہو کر لہولہان زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنی تحریر کے ذریعہ سماج کی خدمت کرنے کو انہوں نے اپنی زندگی کا مشن بنا رکھا ہے۔

    رفیعہ صاحبہ کو افسانہ نگاری ناول نگاری ڈرامہ نگاری اور سائینس پر اپنی بے شمار تحریروں سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ ہر صنف پر کافی عبور رکھتی ہیں۔ انہوں نے ہندوستان کے مختلف علاقوں سے اور بیرون ہند سے کردار لئے ہیں۔ منظور صاحب کا ماس میڈیا سے تعلق رفیعہ صاحبہ کے لیے قابل نیک ثابت ہوا۔ مختلف علاقوں کے تبادلے نے وہاں کے مختلف سماجی پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔

    رفیعہ منظور الامین کے افسانے موجودہ سماج کے لیے ایک آئینہ کی طرح کام کرتے ہیں، زبان سادہ سہل عام فہم لکھتی ہیں۔ انہوں نے اپنے افسانوں کے موضوعات کو مختلف زاویوں سے دیکھا ہے اور اپنی ذاتی کالمس عطا کیا ہے۔ وہ موضوع کے مرکزی نقطے کو پکڑ کر نہیں بیٹھ جاتیں بلکہ وہاں سے اپنے اطراف میں آزاد روی سے دیکھتی ہیں اور منفی حقائق کا پتہ لگاتی ہیں۔ ان کا مقصد ہوتا ہے کہ ہر معیار کے ذہن تک رسائی ہو۔ ان کے افسانے قاری کے ذہن پر ایسا تاثر چھوڑتے ہیں کہ دل اور دماغ ایک ہو کر سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

    رفیعہ منظور الامین کے دیگر افسانے ’’ڈیر فادر‘‘ ’’پرائی ‘‘ بازگشت‘‘ ’’ نیل کنٹھ‘‘ ’’رشتے ‘‘ ’’حرف آگہی‘‘ ’’ بچھو بواٹئ‘‘ ’’ بے وفا ‘‘ ’’ بلا عنوان ‘‘ وغیرہ۔

    افسانہ ’’ڈیر فادر ‘‘ میں ان کے مشاہدے میں گہرائی بھی ہے اور گیرائی بھی ہے۔ دیر فادر کی کہانی کچھ اس طرح ہے۔

    اس افسانے کا ہیرو ضعیف شخصی ہے جو بیوی کے انتقال کے بعد لندن میں رہتا ہے۔ کبھی تنہائی کا گلہ نہیں کرتا ہمیشہ اپنے دوستوں کے ساتھ ہنسی خوشی وقت گزارتا اور اپنے دوستوں سے ذکر کر تا ہے کہ میرے بچے میرا بہت خیال رکھتے ہیں اور میرا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ ایک دفعہ اس ضعیف شخص کادوست ملنے کے لیے گھر آ گیا۔ یہ ضعیف شخص ہسکی پی رہا تھا اور کہنے لگا کہ یہ وہسکی میری بیٹی لیزا اور اس کے شوہر دے کر گئے ہیں، اور میں مائیکل کے بیٹے کی سالگرہ میں جانے آیا ہوں۔ اس ضعیف شخص کے دوست اس کی زندگی پر رشک کرتے رہتے کہ اس زمانے میں کتنی فرمانبردار اولاد ہیں وہی دوست پھر ملنے کے لیے گھر آیا تو اس ضعیف شخص کا انتقال ہو چکا ہے اور وہاں ایک خط لکھا ہوا تھا۔ ڈیر فادر، آپ کو نیا رین کوٹ پسند آیا ہو گا۔ دوست خط لے کر اس کے بیٹے مائیکل کی تلاش میں نکلا تو پتہ چلا کہ مائیکل تو پانچ سال کا بچہ تھا تب ہی مرگیا تھا وہ اب تک اپنے بیٹے مائیکل کو زندہ تصور کر کے خط لکھ کر اپنے آپ کو تسلی دے لیتا، کہ میرا بیٹا ہے میری بیٹی ہے مجھے اس طرح چاہتے ہیں میرا خیال رکھتے ہیں۔ یہ ایک سبق آموز کہانی ہے کہ اولاد کاسہارا والدین کے جینے کا سہارا ہوتا ہے۔

    اس افسانے میں شروع سے لے کر آخر تک تسلسل رہتا ہے اور قاری کو تجسس رہتا ہے کہ آگے کیا ہوا۔ کہانی ختم ہونے کے بعد قاری سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ سماج میں ایسا بھی ہوتا ہے مگر اس کے آگے انسان بے بس و لاچار رہتا ہے۔

    افسانہ ’’بلا عنوان ‘‘ کو شمع کے قارئین نے بہت سراہا ہے۔ اس افسانے کا ہیرو ایک امریکن شخص ٹام ہے جو بہت کروڑ پتی ہے۔ شادی کے بارے میں اس شخص کے خیالات ہندوستانی تھے کہ وہ ایک ایسی لڑکی سے شادی کرے گا جس کا ماضی میں کوئی چاہنے والا نہ ہو۔ بہت کوشش کے بعد اس کی ملاقات مارگریٹ سے ہوتی ہے۔ جو اس کے خیالات پر پوری اتر تی ہے، شرمیلی، کم سخن، سنجیدہ و مشرقی تہذیب کا نمونہ تھی۔ ان خوبیوں کی وجہ سے ٹام سے شادی ہو جاتی ہے۔ کچھ دن بعد مارگریٹ کے گردے خراب ہو جاتے ہیں۔ ٹام بہت پریشان رہتا ہے جب کہ مغربی دنیا میں رشتے بہت جلد بدلتے رہتے ہیں۔ شادی کے بہ نسبت طلاق کا فیصلہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ٹام اپنی بیوی مارگریٹ سے بے انتہا محبت کرتا ہے اور اپنی بیوی کو کھونا نہیں چاہتا۔ اپنی فیکٹری میں کام کرنے والے لڑکے فریڈی کو ایک لاکھ ملین کے عوض گردے کی فروخت کے لیے راضی کر لیتا ہے۔ فریڈی انجانے میں گردے دے کر ماں کی جان بچا تا ہے۔ مارگریٹ اپنے لڑکے کو جانتی تھی، مگر فریڈی اسے نہیں جانتا تھا۔ اس طرح سے فریڈی نے اولاد کا فرض ادا کر دیا تھا۔

    ٹام اچھے خوبیوں کا مالک تھا مگر اس کے پاس برائیاں بھی تھی وہ بے ایمانی اور وعدہ خلافی، ٹام فریڈی کو رقم دینے سے انکار کرتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ اعضا کی فروخت کو قانوناً جرم کہتا ہے۔ ٹان سے مارگریٹ اصرار کرتی ہے کہ وعدہ خلافی نہ کرے تو ٹام کہتا ہے کہ کونسا وعدہ کیسا دستاویزی ثبوت ہے۔ ٹام کی بات پر مارگریٹ کو بہت غصہ آتا ہے اور وہ بتاتی ہے کہ فریڈی اس کا اپنا بیٹا ہے۔ یہ سن کر ٹام پیسے دینے راضی ہو جاتا ہے۔ ٹام کے ہدایت کے مطابق فریڈی کو روپیوں کا تھیلا وہیں رکھ کر مارگریٹ کو کار میں چیک اپ کے لیے لے جانا ہوتا ہے، راستے میں ٹائم بم پھٹ پڑتا ہے اس طرح سے سب کے پرخچے اڑ جاتے ہیں، اور ٹام کا انتقام پورا ہوتا ہے۔ کیوں ٹائم مشرقی طریقے سے اپنی بیوی سے محبت کرتا ہے مگر جب اسے معلوم ہوتا ہے مارگریٹ کی زندگی میں پہلے کوئی مرد آ چکا ہے نفرت کی آگ میں جھلستا رہتا ہے مارگریٹ اور فریڈی کے خاتمہ کے بعد اس کے بدلے کی آگ ٹھنڈی ہوتی ہے۔

    رفیعہ صاحب کہ ڈھیروں افسانے مختلف رسائل میں چھپتے رہتے ہیں۔ مجموعی اعتبار سے اردو ادب میں ان کی حیثیت بلند اور مستحکم ہے۔

    ٭٭٭
     

اس صفحے کو مشتہر کریں