1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

رفیعہ منظور الامین

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏21 دسمبر 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    رفیعہ منظور الامین بین الاقوامی شخصیت کی حامل ہیں بحیثیت ناول نگار اور افسانہ نگار کے بے حد مشہور ہیں۔

    رفیعہ منظور الامین ۲۵؍ جولائی کو حیدرآباد کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ آپ نے ابتدائی تعلیم فارمل کاچی گوڑہ حیدرآباد سے حاصل کی اور بی ایس سی ویمنس کالج کوٹھی حیدرآباد سے کیا۔ رفیعہ منظور الامین کے پردادا پیارے صاحب عزیز کا قائم کردہ اسلامیہ اسکول جو لڑکیوں کے لئے ہے اب بھی سکندرآباد میں فعال ہے۔ ان کے دادا حضرت جناب محمد عبدالمجید، حیدرآباد کی سیول سرویس کے پہلے ممبر تھے۔ انہیں انسپکٹر جنرل آف جیلرز کے ساتھ اکاونٹنٹ جنرل حیدرآباد کا عہدہ سونپا گیا تھا۔ ان کے والد محمد عبدالحمید کا تعلق بھی پولیس ڈیپارٹمنٹ سے رہا۔ رفیعہ منظورالامین کہتی ہیں کہ، مجھے فخر ہے کہ علم دوست خاندان سے میرا تعلق رہا‘‘ (حیدرآباد کی طنز و مزاح نگار خواتین از ڈاکٹر حبیب ضیاء ص ۵۱)

    رفیعہ منظور الامین کی شادی منظور الامین سے ہوئی جو خود شاعر و ادیب ہیں، انہوں نے نظمیں، افسانے، مضامین، ڈرامے، اور میوزیکل فیچر لکھے اس کے علاوہ طنز و مزاح پر بھی قلم اٹھا یا۔ آل انڈیا ریڈیو کے مختلف اسٹیٹوں پر بحیثیت ڈائرکٹر فائز رہے پھر ٹیلی ویژن کے شعبہ سے منسلک رہتے ہوئے کئی ترقیاں حاصل کیں اور آخر میں ڈائرکٹر جنرل دور درشن نئی دہلی کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہوئے اس اعلیٰ عہدے سے ریٹائر ڈ ہوئے۔

    رفیعہ منظور الامین نے آٹھ سال کی عمر سے لکھنے کی شروعات کی۔ آج بھی ان کی نگارشات کا سلسلہ جاری ہے۔ جو نگارشات منظر عام پر آئیں وہ حسب ذیل ہیں۔

    (ا)سارے جہاں کا درد [ناول]پہلی بار ۱۹۷۴؁ء دوسری بار ۱۹۸۴؁ء۔

    (۲)عالم پناہ [ناول ] پہلی بار ۱۹۸۳؁ء دوسری بار ۱۹۸۷؁ء

    (۳) یہ راستے [ناول] ۱۹۹۵؁ء

    (۴)دستک سی درد دل پر [افسانوں کا مجموعہ] ۱۹۸۶؁ء

    (۵) آہنگ [افسانوں کا مجموعہ ] ۲۰۰۰؁ء

    (۶)سا ئنسی زاویے [سائنسی مضامین] ۱۹۸۶؁ء

    (۷)نگار خانہ [امریکہ کے شب و روز پر مبنی] ۱۹۹۸؁ء

    (۸)آؤ نا ٹک کھیلیں [کتابچہ] ۱۹۷۱؁ء

    (۹)خبر رسانی کے طریقہ ۱۹۶۷؁ء

    اس کے علاوہ بارہ ٹیلی فلمیں لکھیں جو دور درشن کے نیشنل چینل کے علاوہ سری نگر، جالندھر، لکھنو، دلی اور حیدرآباد کے دور درشن کیندروں سے پیش کی جا چکی ہیں۔ ایک فیچر فلم Romancing the stones :Taj Mahal جو دنیا کی سترہ زبانوں میں اس کا اسکرین ہے اور مکالمے انہوں نے لکھے۔

    فنکشن کی دنیا سے قطع نظر مختلف النوع مضامین پر آرٹیکلز وقتاً فوقتا ملک کے بعض مقتدر رسائل اور اخباروں میں شائع ہوتے رہے۔ ان کی بنائی ہوئی تصویروں کی نمائش انگلستان میں ہوئی۔ لندن، امریکہ، اور کناڈا کے قیام کے دوران ان سے لئے گئے انٹر ویوز BBC اور دوسرے ریڈیو اور ٹی وی چینلز پر براڈ کاسٹ ہوئے۔

    رفیعہ منظور الامین کا چوتھا ناول زیر قلم ہے۔ تصویریں، کہانیوں کا مجموعہ، طویل موج، ٹی وی اور ریڈیائی ڈراموں کا مجموعہ زیر طبع ہیں۔ ناول’سارے جہاں کا درد‘ ۳۴۳ صفحات پر مشتمل ہے اور یہ پہلی بار ۱۹۷۴؁ء میں اور اس کے دس سال بعد ۱۹۸۷۴؁ء میں نظامی پریس لکھنو سے شائع ہوا۔

    ناول،’عالم پناہ‘ کے تین ایڈیشن شائع ہوئے۔ اس ناول کو ہندوستان گیر شہرت حاصل ہوئی ہے۔ ہندی اور کنٹری زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوا۔ اس ناول کا ہندی ترجمہ منظور الامین نے کیا ہے۔ یہ ناول تقریباً ۳۵۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ رفیعہ منظور الامین نے اس ناول کا انتساب اس طرح کیا ہے۔

    منظور الامین کے نام جس کے ساتھ حیات، حیات جاوداں بن گئی، ناول، عالم پناہ، آل انڈیا ریڈیو کے قومی پروگراموں میں ریڈیا ئی سیریل کے طور پر اٹھا رہ قسطوں میں نشر ہو چکا ہے۔ یہ ناول پہلی بار ۱۹۸۳؁ء میں دہلی سے اور دوسری بار ۱۹۸۷؁ء میں حسامی بک ڈپو حیدرآباد سے شائع ہوا۔

    ناول ’عالم پناہ‘ فرمان کے نام سے دور درشن کے چیانل نمبر ا۔ اور ۲۔ پر کم از کم چھ بار پیش ہو چکا ہے۔ اس سیریل کو قومی سطح پر چار ایوارڈز بھی مل چکے ہیں۔

    فرمان، در اصل اس حویلی کا نام ہے جس میں حیدرآباد کے نوابوں کا خاندان رہتا تھا۔ ان کا تیسرا ناول، یہ راستے، ۱۹۹۵؁ء میں انجمن ترقی اردو آندھرا پر دیش۔ اردو ہال، حمایت نگر، حیدرآباد سے چھپ کر منظر عام پر آیا۔ یہ ناول ۳۳۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ رفیعہ منظور الامین نے اس کا انتساب اس طرح کیا ہے۔ ان ساری لڑکیوں کے نام جنہیں اس قابل نہیں بنایا جاتا کہ ان میں خود اعتمادی پیدا ہو۔

    ناول ’یہ راستے‘ کی رسم اجرائی کے موقع پر ڈاکٹر بیگ احساس، ڈاکٹر راج بہادر گوڑ، ڈاکٹر مصطفی کمال نے تاثرات پیش کئے۔ ڈاکٹر بیگ احساس نے کہا کے بیشتر رسم اجراء کے جلسوں میں معروضی سرسری جائزہ ہی پیش کیا جاتا ہے۔ تا ہم یہ راستے تخلیق کار مصنفہ محض ٹی وی سیریل ہی نہیں لکھتیں بلکہ نا ول نویسی کا ہوش مندانہ حق ادا کرتی ہیں۔ ناول کے کردار التمش اور کاکل سے متعلق جو رویہ رفیعہ منظور الامین نے رکھا ہے وہ ہمارے ذہین فنکاروں کے اندار فکر سے جا ملتا ہے۔

    انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ رفیعہ منظور الامین کا ٹی وی سیریل’فرمان‘ جس طرح کامیاب اور مقبول ہو ا ہے اسی طرح ’یہ راستے‘ سیریل بھی عوام سے سند مقبولیت حاصل کرے گا۔

    ڈاکٹر راج بہادر گوڑ نے خاتون ناول نویسوں کی تخلیقات کا تجزیہ کیا۔ اور کہا کہ خاتون ناول نویسوں میں ایک چمکتا اور دمکتا نام رفیعہ منظور الامین بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ راستے، ناول میں نسوانی کردار اور جذبے کی خوبصورت عکاسی ملتی ہے۔ ڈاکٹر گوڑ نے اس توقع کا اظہار کیا کہ رفیعہ منظور الامین کی اس ناول کی پذیرائی ہوئی ہے۔

    ڈاکٹر مصطفی کمال ایڈیٹر شگوفہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ یہ دور ماحولیاتی آلودگی اور ملاوٹ کا دور ہے۔ جس کے اثرات ادب اور شعر پر بھی پڑ رہے ہیں۔ ایسے میں رفیعہ منظور الامین کا ناول، یہ راستے، اشاعت ایک خوش آئند علامت ہے۔ رفیعہ منظور الامین نے اپنی اس تازہ تخلیق کے ذریعے اپنے ایک با شعور ہونے کا ثبوت مہیا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ناول پر تبصرہ آسان نہیں۔

    ڈاکٹر مصطفی کمال نے کہا کہ رفیعہ منظور الامین اپنے ناول کے ذریعہ قاری کو اپنی گرفت میں رکھتی ہیں۔ ڈاکٹر ایس۔ اے منان نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ انہیں ناولیں پڑھنے کا وقت میسر نہیں ہے تا ہم انہوں نے قراۃ العین حیدر اور جیلانی بانو کی ناولیں پڑھی ہیں رفیعہ منظور الامین کی ناولوں کی خوبی یہ ہے کہ وہ آج کی لڑکیوں کو ہمت اور حوصلہ اور خود اعتمادی کے احساس و جذبہ سے ہمکنار کرتی ہیں۔ ایک خاتون ناول نویس کا یہ کارنامہ قابل فخر ہے۔ ڈاکٹر ایس اے منان نے ناول کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے ان کی فنی اور ادبی حیثیت اور اہمیت پر روشنی ڈالی اور اس توقع کا اظہار کیا کہ یہ ناول نئی نسل کی لڑکیوں میں ہمت و حوصلہ پیدا کرنے میں اہم رول ادا کرے گا۔

    نگار خانہ، رفیعہ منظور الامین نے ان کے امریکہ میں قیام کے دوران، وہاں کے شب و روز پر ایک دلچسپ نگارش پیش کی ہے جو ماہنامہ ’ہما‘ ڈائجسٹ میں ستمبر ۱۹۹۸؁ء سے سلسلہ وار شائع ہوئی۔

    قلی قطب شاہ کی سالگرہ کے موقع پر انہیں کا لکھا ہو ایک اسٹیج ، قلی قطب شاہ، پیش ہوا۔ رفیعہ منظور الامین کا پسندیدہ افسانہ نگار کرشن چندر اور پسندیدہ شاعر علامہ اقبال ہیں۔

    رفیعہ منظور الامین کی ہمہ گیر شخصیت ادب میں پیوست ہو گئی ہے اتنا سارا ادبی سرمایہ رہنے کے باوجود وہ کہتی ہیں کہ، میرے نزدیک سب سے اہم تخلیق وہ ہے جو ابھی لکھی ہی نہیں گئی۔

    رفیعہ منظور الامین کی شخصیت ان کے فن پاروں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ انہوں نے اپنے فن پاروں میں فرضی کرداروں سے گریز کرتے ہوئے اور حقیقی واقعات سے متاثر ہو کر اپنی زندگی کے کہرے اور عمیق تجربات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی کہانیوں کا تانا بانا بُنا ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں