1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

رفاہِ عامہ کے ادارے۔۔۔

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از عنایت عادل, ‏6 جون 2013۔

  1. عنایت عادل
    آف لائن

    عنایت عادل ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اپریل 2013
    پیغامات:
    121
    موصول پسندیدگیاں:
    114
    ملک کا جھنڈا:
    بلدیہ ڈیرہ۔۔۔۔
    کون کون سی کل، کیسے سیدھی ہو پائے گی؟

    عنایت عادل
    ڈیرہ اسماعیل خان، اس شہر کا نام ذہن میں آتے ہی کچھ اور ذہن میں آئے یا نہ آئے، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، اونچی اونچی مسندوں پر براجمان نا اہل اہلکاروں کی اہلیت کا پردہ چاک کرتی اونچی نیچی بے ہنگم گلیاں، گندگی سے اٹے کوچہ و بازار، تعفن پھیلاتے نالے نالیاں اور پینے کے صاف پانی کی بوند بوند کو ترستی اس شہر کی محروم ومحکوم و مجبور عوام ضرور ذہن میں آتی ہے۔ اس سارے ماحول نے اس عوام کو شعوری لحاظ سے اس قدر بے حس کر دیا ہے کہ اب انکو آکسیجن بھی گویا اسی تعفن ذدہ ماحول ہی میں میسر آتی ہے۔ اسی بے حسی اور اس ماحول میں رچ بس جانے کا ہی اثر ہے کہ اس شہر کا غیر تعلیم یافتہ طبقہ تو ایک طرف، پڑھے لکھے عوام بھی خود اپنے ہاتھوں سے اس شہر کی گندگی میں اضافہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ آپ تجربہ کر کے دیکھ لیجئے، اگر آپ سڑک ، یا کسی بازار میں کھڑے ہوں اور کوئی کوڑا کرکٹ کے پھینکنے کے لئے ڈسٹ بن یا کسی مناسب مقام کا پوچھ بیٹھے تو آس پاس کھڑے لوگ اس شخص کی جانب صرف حیرت سے ہی نہیں دیکھتے، با قائدہ طور پر طنزیہ فقروں اور یہاں تک کہ ٹھٹھہ اڑانے تک کی نوبت کو پہنچ جاتے ہیں۔جیسا دیس ویسا بھیس کا مقولہ ایجاد کرنے والی شخصیت، اگر ڈیرہ والوں کی اس حالت کو دیکھ لے تو اپنا مقولہ تاریخ کے اوراق سے کھرچ ڈالے کہ اس کا مطلب یہ تو نہیں تھا کہ متعلقہ محکموں کی نا اہلی کی بدولت غلاظت کا ڈھیر بن جانے والا پھلاں دا سہرہ ، اپنے باسیوں کو بھی غلیظ رہنے کی عادت پر مجبور کر ڈالے۔
    ایک زمانہ تھا کہ صبح سویرے، اس شہر کے گلی کوچوں اور سڑکوں پر چمڑے کی مشک کمر پر لادے ماشکی، ہاتھ کے اشاروں سے پانی کی چھینٹوں کو اس شہر کی گرد کو اڑنے سے باز رکھنے کی جستجو کرتے نظر آتے تھے، ان ماشکیوں کی جانب سے چھڑکائو سے پیشتر اور یا پھر چھڑکائو کئے جانے کے بعد، بلدیہ کے اہلکار ہاتھ میں لمبے لمبے جھاڑو لئے گندگی کے ذرے ذرے کو ایک کونے میں جمع کرتے دکھائی دیتے اور یا پھر گلیوں میں کنکریٹ یا اینٹوں سے بنے با قائدہ کوڑا دانوں میں ڈال دیتے اور پھر اس کے کچھ ہی دیر بعد، بلدیہ کے ٹریکٹر کی آمد ہو جاتی، جو جمع شدہ اس گندگی کو لاد کر شہر اور شہریوں سے دور جا پھینکتے۔اسی طرز عمل کو دیکھتے ہوئے، ان علاقوں کے مکین بھی اپنے گھروں کا کوڑا کرکٹ ان کوڑا دانوں ہی مین ڈالتے اور جن گھروں کے مکین ان کوڑا دانوں تک رسائی نہ رکھتے، وہ اپنے گھر کی ڈیوڑھی اور یا پھر گھر کے باہر ایک کنستر میں کوڑا کرکٹ روزانہ کی بنیاد پر رکھ دیتے جسے بلدیہ کے جمعدار نا صرف اٹھا کر کوڑا دان میں جا کر خالی کرتے بلکہ اٹھائے گئے کنستر کو دوبارہ متعلقہ مکان کے دروازے پر بھی چھوڑ جاتے ۔اس عملہ کے ذمہ جہاں صفائی ستھرائی ہوا کرتا، وہیں شہر میں آوارہ کتوں کی تلفی تک کا خیال رکھنا اس عملہ اور اس کے متعلقہ محکمہ کی ذمہ داری ہوتی اور جسے نہایت ذمہ داری ہی سے سرانجام دیا جاتا۔ باقائدہ عوامی شکایات درج کی جاتیں جن پر عمل کرتے ہوئے شکایت کنندہ کے علاقے میں آوارہ کتوں کو تلاش کر کر کے تلف کیا جاتا۔
    اسی طرح، شہر کی شامیں بہت روشن ہوتیں۔ ہر گلی میں ایک نہیں کئی کئی بتیاں جلتیں، بڑی چوکوں پر گلوب اور ٹیوب لائٹیں اپنی دھودھیا روشنیاں بکھیرتیں۔ علاقے کے مکین اپنے نوجوانوں کی ڈیوٹیاں لگاتے کہ شام کے وقت سٹریٹ لائٹ کہلائی جانے والی اس عوامی سہولت کو روشن کرنے کے لئے بٹن کون دبائے گا اور صبح، نماز کے فوراََ بعد، قومی توانائی کو زیاں سے بچانے کی خاطر بروقت ان لائٹوں کو کون بجھائے گا۔ اور ان ڈیوٹیوں کو نبھانے کے لئے کبھی اہل علاقہ کو پریشانی کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑتا تھا۔ یاد پڑتا ہے کہ اگر کبھی کسی نے صبح ان لائٹوں کو بجھانے میں غفلت یا تساہل کا مظاہرہ کیا تو مسجد کے صحن اور یا پھر کسی چوک بیٹھک میں ذمہ دار نوجوان کی کلاس لگ گئی۔اور یہ بھی یاد پڑتا ہے کہ بزرگوں کی جانب سے کی گئی اس ڈانٹ کے جواب میں نا صرف گبھرو جوان ، نظریں نیچی کئے خاموش رہتے بلکہ انکے خوبصورت جوان گالوں پر ندامت کی سرخی بھی دور ہی سے نظر آ جاتی کہ انکی غفلت کی وجہ سے قوم کی بجلی ضائع ہوتی رہی۔
    )جاری ہے)
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. عنایت عادل
    آف لائن

    عنایت عادل ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اپریل 2013
    پیغامات:
    121
    موصول پسندیدگیاں:
    114
    ملک کا جھنڈا:
    انہی دنوں میں ہمیں شہر کی گلیوں میں پینے کے پانی کے پائپوں کا ایک نظام نظر آتا، جن میں سے نا صرف گھروں میں پانی کے نل لگائے جاتے بلکہ مخصوص فاصلے پر اور خاص طور پر چوکوں پر اس ٹھنڈے میٹھے پانیوں کے نل لگائے جاتے، جنہیں کہ مقامی اصطلاح میں ''کمیٹی کی ٹونٹیاں'' کہا جا تھا۔ یہ کمیٹی کی ٹونٹیاں شہر کے چاروں بازاروں میں بھی جا بجا نظر آتی تھیں اور آج کے دور کے پروردہ نوجوانوں کے لئے شاید حیرت کا مقام ہو کہ گلیوں بازاروں میں لگی ان ٹونٹیوں کے ساتھ اوائل میں جستی اور بعد میں پلاسٹک کے گلاس بھی لٹکتے دکھائی دیتے۔ اس سے بھی بڑھ کر مقام حیرت یہ ہونا چاہئے کہ ان گلاسوں کے ساتھ کسی زنجیر یا رسی کے باندھے جانے کا بھی کوئی انتظام نہ ہوتا تھا بلکہ پینے والے پانی پی کر، اس گلاس کو ٹونٹی کے اوپر ہی الٹا پھنسا دیتے۔یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب انسانیت زندہ تھی، احساس زمہ داری سانس لینے کی قدرت رکھتا تھا اور جوابدہی کا قانون لاگو تھااور حرام کھانے کا رواج ابھی پائوں پائوں چل رہا تھا۔
    پھر اس کے بعد ماحول بدل گیا، بدلا کیا بلکہ بد سے بد تر بنتا چلاگیا۔
    سب سے پہلے بلدیہ میں سیاسی بھرتیاں شروع ہوئیں، خاکروب کی ملازمت کا فارم بھرنے والا عملہ، جھاڑو اور مشک کو اپنے لئے تذلیل سمجھنے لگا۔ ان سے انکی ملازمت کے مطابق کام لینے والے افسران، انکی خدمات گلی محلوں کے بجائے اپنے دولت کدوں تک ہی محدود کرنے کی لت کا شکار ہو گئے۔جو اس پر بھی راضی نہ ہوئے، اپنے نا خدائوں کی پشت پناہی کی بنیاد پر صرف تنخواہ لینے کے لئے متعلقہ دفتر آنے کو ہی اپنی خدمات کو محدود کرنے لگے۔اس محکمے کی نوکریوں کے ساتھ اسکو ملنے والے نل، پائپ، بلب، ٹیوب لائٹیں، تاریں، اور سب سے بڑھ کر ضمیر بِکنے لگے اور شہر گندگی میں خود کفیل اور بوند بوند پانی کو ترسنے کے ساتھ ساتھ اندھیر نگری کا شاہکار بن کر اندھیروں میں ڈوبتا چلا گیا۔اور یہی ہے وہ شہر جو ہم نے اپنی اس نئی نسل کو دیا۔
    مشرف دور میں بلدیاتی نظام، ناظمین او ر کونسلروں کے ہاتھ میں چلا گیا۔بنیادی جمہوریت کہلایا جانے والا یہ نظام، بنایا تو بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لیے گیا تھا لیکن، ڈیرہ اسماعیل خان میں اس نظام کا ثمر، کچھ خاص تاثیر نہ دکھا سکا۔ مرحوم میجر(ر) لطیف اللہ علیزئی نے بطو ر ناظم اعلیٰ کسی حد تک ڈیرہ اسماعیل خان کی عوام کے بنیادی مسائل کی کوشش ضرور کی مگر سیاسی چالوں سے لیس کونسلروں اور انکی پشت پناہی کرتی سیاسی شخصیات نے ذاتی مفاد ہی کو اس شہر کے مفاد پر مقدم رکھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بلدیاتی نظام، انتظامی امور کو یونین کونسلوں اور یہاں تک کہ گلی محلوں کی سطح پر لاتے ہوئے، عوام کے مسائل کو حل کرنے کا ایک سہل اور قابل گرفت نظام سمجھا جاتا ہے او ریہ حقیقت بھی ہے کہ عوام، کسی ایم این اے یا ایم پی تک اپنی رسائی کو ناممکن ہی حد تک مشکل جبکہ ایک کونسلر نائب ناظم اور ناظم تک اپنی آواز کو پہنچانے کو زیادہ آسان سمجھنے کے ساتھ ساتھ انکے حل کی امیدبھی کافی حد تک رکھ سکتے ہیں۔ لیکن ڈیرہ اسماعیل خان مین یہ امیدیں کچھ اس طرح بر نہ آ سکیں کہ جیسا ان کا حق تھا۔ اس کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹی ایم کا قیام عمل میں لایا گیا اور پہلے سے بد حال اس محکمے کی بدحالی دو چند ہو گئی۔ محکمے کے افسران ، سابقہ جمہوری دور کے پانچ سال میں صوبائی حکومت کے لئے نوٹ چھاپنے کی مشین بن کر رہ گئے جبکہ اہلکار ، اپنے افسران کی پیروی کرنے کے ساتھ ساتھ، روزمرہ کی ذمہ داریوں سے کچھ اس طرح منہ موڑ گئے کہ ان سے باز پرس پر فائز اکابرین نے انہیں شتر بے مہار کا درجہ دے دیا۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے محکمہ بلدیہ کا اصل زوال ، دراصل شروع ہی اسی دور سے ہوا۔ کرپشن کے ریکارڈ بنانے والی صوبہ خیبر پختونخواہ حکومت نے ڈیرہ اسماعیل خان کے دیگر محکموں کو جہاں قلاش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی وہیں، ٹی ایم اے کو دیوالیہ کرنے میں اس کا کردار خاص طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ لوٹ کھسوٹ کے اس دور ابتلاء میں، محسوس کچھ اس طرح ہونے لگا کہ گویا ڈیرہ اسماعیل خان میں بلدیہ نام کا کوئی محکمہ سرے سے موجود ہی نہیں۔کہیں وجود نظر آیا تو صرف ٹیکس وصولیوں کی حد تک۔ اور ا س سلسلے میں ایک طرف جہاں محکمے کے زیر انتظام ٹھیکہ جات کوڑیوں کے مول من پسند افراد کو دیتے ہوئے اس محکمے کی معاشی حالت پر شب خون مارا جانے لگا، وہیںان ٹھیکیداروں کی جانب سے ڈیرہ اسماعیل خان کی عوام سے ٹیکس کی مد میں کئی گنا زیادہ رقم بٹورتے ہوئے ، اس شہر کے باسیوں کا خون نچوڑا جاتا رہا ۔محکمہ میں موجود مختلف شاخوں کے سرکردہ افراد، دن دوگنی رات چوگنی سے بھی بڑھ کر اپنی ذاتی املاک میں اضافہ کرتے رہے تو سرکاری املاک استعمال میں نہ آنے کی بدولت زنگ آلود ہوتے ہوتے قصہ پارینہ بنائی جاتی رہی۔حمام میں سب ننگے اکھٹے ہو جائیں تو کوئی شرم، کوئی لحاظ باقی نہیں رہا کرتا اور اسکی زندہ مثال ڈیرہ اسماعیل خان کا محکمہ بلدیہ بن کر سامنے آیا۔پینے کے صاف پانی کے لئے بنائی جانے والی ٹینکیاں، خود پانی کی آمد کو ترستی رہیں تو ان ٹینکیوں اور صارفین کے درمیان آبی وسیلہ بنتے پائپ، زمین میں دب کر خاک میں ملتے رہے اور یہ سلسلہ ، جو کہ اب تک جاری ہے، اس حد تک پہنچ گیا کہ شہر کے گلی گلی، کوچہ کوچہ بچھائی جانے والی کروڑوں روپے کی پائپ لائنیں، صفحہ ہستی سے مٹ جانے پر مجبور ہوکر، اہلیان ڈیرہ کو پانی کے گیلن خرید کرنے پر مجبور کر گئیں۔مختلف واٹر سکیموں کے نام پر تختیاں سجانے ، تالیاں پٹوانے اور اخباروں میں تصویریں کچھوانے کے شائقین زعمائ، اس بات سے قطعی لا پرواہ رہے کہ کئی کئی بار مختلف ہاتھوں سے فیتہ کٹواتے بلدیہ کے حکام، ان واٹر سکیموں سے اس شہر کے کسی فرد واحد کو بھی ایک قطرہ پانی مہیا کرنے میں ناکام رہے۔ٹائون ہال میں لگی ٹینکی ہو یا کہ اس کی جڑوں میں لگایا جانے والا ٹیوب ویل( جس کا خشک کھاڑا، ڈیرہ اسماعیل خان کے سیاسی و انتظامی کرتا دھرتائوں کی اہلیت کا منہ چڑھا رہا ہے) محض سرکاری خزانے ، بلکہ یوں کہئے کہ بلدیہ کے خزانے پر بوجھ بننے سے زیادہ کوئی کردار ادا نہیں کر سکا۔وہ خزانہ کہ جو اپنے اہلکاروں کو کئی کئی ماہ تک تنخواہیں دینے سے معذور ی دکھائے رکھتا ہے
    (جاری ہے)
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. عنایت عادل
    آف لائن

    عنایت عادل ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اپریل 2013
    پیغامات:
    121
    موصول پسندیدگیاں:
    114
    ملک کا جھنڈا:
    اب اس تمام تر صورتحال کی وجوہات تو وہی ہیں کہ جو مندرجہ بالا سطور میں لکھی جا چکی ہیں۔ سیاسی دوکانیں چمکانے والے عوامی نمائندوں کی جانب سے زبردستی تھونپا جانے والا عملہ، جہاں اسی سیاسی پشت پناہی کی بنا پر مفت کی تنخواہیں بٹورنے میں لگا رہتا ہے وہیں اس عملے کی ہڈ حرامی کی بدولت، شہر کوڑے کا ڈھیر بن چکا ہے۔جبکہ اس اضافی عملے کی تنخواہیں بھی محکمے کی پہلے سے مخدوش مالی حالت کو مذید سنگین صورتحال سے دوچار کرنے کا موجب بن چکی ہیں۔مثال صرف اس محکمے کے سنیٹری کے شعبہ کی ہی کافی ہے کہ جہاںدفتری ریکارڈ کے مطابق، 260اہلکار اس شہر کی صفائی کے لئے بھرتی ہو چکے ہیں۔ان میں سے چوتھائی حصہ سے بھی کم ایسے افراد ہیں جو بوقت ضرورت، صفائی کا عمل انجام دیتے ہیں۔انتظامی لحاظ سے اس عملہ کے ذمہ شہر کے چار وارڈز لگائے گئے ہیں جن میںماشکی، سویپر، سنیٹری ورکرز، بیلدار، گاریبان، ڈرائیور،جمعدار، داروغہ کہلائے جانے والے اہلکار شامل ہیں۔جبکہ ہر وارڈ کا علیحدہ علیحدہ انچار ج یا سنیٹری انسپکٹر بھی تعینات ہے۔ان تمام اہلکاروں کی ذمہ داریوں کے لحاظ سے کیا تقسیم ہوتی ہے ، یہ ایک علیحدہ موضوع ہے، لیکن اس تمام فہرست میں ایک لفظ سنیٹری ورکر خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ 260مجموئی سنیٹری اہلکاروں میں سے49یہ سنیٹری ورکرز ہیں۔ اب چاہئے تو یہ تھا کہ 4مختلف وارڈوں میں یا تو یکساں طور پر یہ سنیٹری ورکرز تعینات کئے جاتے یا پھر وارڈ کے علاقے اور آبادی کے لحاظ سے ان کی تقسیم ہوتی، لیکن، صورتحال یہ ہے کہ 49میں سے 4ورکرز وارڈ نمبر ایک میں، 32ورکرز وارڈ نمبر 2میں، 7وارڈ نمبر3میں، جبکہ6سنیٹری ورکرزوارڈ نمبر 4میں تعینات ہیں۔ان ''سفید پوش'' سنیٹری ورکرز کے کیا فرائض ہیں، اور ایک خاص وارڈ میں ان سنیٹری ورکرز کی اکثریتی تعداد کیوں تعینات کی گئی ہے، یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔اسی طرح اس سٹاف میں13حضرات ہیں، جبکہ حالیہ خبروں کے مطابق، سنیٹری کے شعبہ کے پاس ٹوٹل 12ٹریکٹروں میں سے محض 3قابل استعمال ہیں اور ان کا استعمال بھی گزشتہ چند ہی دنوں سے دیکھنے میں آرہا ہے۔ جبکہ شہر کی ضرورت کے پیش نظر، حالیہ دنوں میں سٹی ایم پی اے کی جانب سے شروع کی جانے والی صفائی مہم کے لئے خود علی امین گنڈہ پور کو کرائے کے ٹریکٹر استعمال کرنا پڑے۔قارئین شاید یہ سن کر حیران ہونگے کہ ڈیرہ میونسپل کمیٹی میں50خواتین خاکروب بھی تعینات ہیں ۔اسی طرح، ایک حیران کن بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ اس فہرست میں مسلمان افراد بھی شامل ہیں جبکہ ہمارے ہاں اس شعبہ میں عموماََ غیر مسلم شہری تعینات ہوتے ہیں۔
    اسی طرح اگربلدیہ کے تحت ٹیوب ویلوں کی بات کی جائے تو انکی تعداد 12بتائی گئی ہے جبکہ ان پر تعنیات آپریٹرز کی تعداد 25کے لگ بھگ ہے۔ ان ٹیوب ویل آپریٹروں کو 25ہی پلمبروں کی معاونت حاصل رہتی ہے جبکہ ان ٹیوب ویلوں کی حفاظت کے لئے 12چوکیدار بھی تعینات ہیں۔چند ایک چھوڑ کر، ان ٹیوب ویلوں کی کارکردگی کیا ہے، قارئین خوب جانتے ہیں۔
    (جاری ہے)
     
  4. عنایت عادل
    آف لائن

    عنایت عادل ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اپریل 2013
    پیغامات:
    121
    موصول پسندیدگیاں:
    114
    ملک کا جھنڈا:
    یہی حال محکمہ میں موجود شعبہ برقیات کا ہے، جہاں درجنوں اہلکار تعینات ہیں لیکن انکو مصروف عمل صرف مخصوص ایام ہی میں دیکھا جاتا ہے۔ دہشت گردی کی گزشتہ لہر کی بدولت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہدایت پر اگر چہ اس شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد نے کافی حد تک ذمہ داریاں پورای کرنا شروع ضرور کر دی ہیں تاہم یہ ذمہ داری صرف چند مخصوص اہلکاروں تک ہی محدود کر دی گئی ہے جبکہ ''سفید پوش'' اہلکار اب بھی نظروں سے اوجھل پائے جاتے ہیں۔نقشہ جات کا شعبہ، اکثر اوقات خبروں کا محور رہتا ہے۔ ان خبروں میں بیان کی جانے والی بد عنوانی سے قطعہ نظر، اس شعبہ کی کارکردگی ان رہائشی علاقوں کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے کہ جو اس محکمہ کے زیر انتظام آتے ہیں۔ٹیکسیشن کا شعبہ، جیسے کے اوپر بیان ہو چکا، محکمہ کے سرکردہ افراد اور ماضی کی سیاسی پشت پناہی کی بنیاد پر ، محکمہ کو مالی فوائد فراہم کرنے کے بجائے، الٹا نقصان کا باعث بن رہا ہے جو کچھ مخصوص افراد کے درمیان ہی گھومتا رہتا ہے۔ جبکہ اس کا تمام تر خمیازہ،کسی اور کو نہیں، ڈیرہ اسماعیل خان کی عوام ہی کو بھگتنا پڑتا ہے اور یا پھر اسی محکمہ کے اہلکاران کو۔
    بات اگر شہر میں موجود پاکوں کی جائے تو مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ جلسہ گاہ کے طور پر استعمال ہونے والے مقام کو حق نواز پارک کا نام دینے سے آگے ، ڈیرہ اسماعیل خان میں پارکوں کی کہانی چل نہیں پاتی اور بلدی کے پاس مالیوں کے ضمن میں ایک فوج بھرتی ہے۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ میونسپل کمیٹی کے دائرہ اختیار میں اتنے پودے نہیں ہونگے کہ جتنے مالی بھرتی کر دئے گئے ہیں۔لیاقت پارک کہلایا جانے والا قطعہ، کسی بے آب و گیاہ پلاٹ سے بڑھ کر کچھ اور نظر نہیں آتا۔ تب ہی تو اسے اٹھا کر نجی تاجروں کو کرائے پر چڑھا دیا جاتا ہے۔انٹی کرپشن دفتر کے پاس چوک پر تکونی سبزہ زارمیں سبزہ اپنی موت آپ مر چکا ہے اور اسی محکمہ اور اس کے تحت مالیوں کی لا پرواہی کی بدولت کوڑا کرکٹ کا آماجگاہ بن چکا ہے ۔
    مندرجہ بالا صورتحال ، کسی ایک فرد، یا کسی ایک شعبے یا محکمے تک محدود نہیں بلکہ اکثر سرکاری ادارے اسی قسم کی کہانیوں سے بھرے ملتے ہیں۔ یہ صورتحال کیوں سامنے آ تی ہے، اس کے پیچھے کون سے عوامل ہوتے ہیں اور اس کا فائدہ کس کو ہوتا ہے یہ ایک ایسا راز ہے کہ جسے ہر باشعور اور ذی عقل شہری خوب جانتا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ یہ با شعور اور ذی عقل شہری، اپنے حقوق سے آگاہ ہوتے ہوئے بھی بے حسی کی چادر اوڑھے، غفلت کی نیند سو رہے ہیں۔نئی حکومتیں بن گئی ہیں، ڈیرہ میں نئی انتظامیہ بھی آچکی ہے اور نئے دعووں کے ساتھ ساتھ ، نت نئے عملی اقدامات بھی دیکھنے کو ملنا شروع ہو چکے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ اقدامات، ڈیرہ کی عوام کو جگانے کا موجب بن جائیں۔
    (ختم شد)
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں