1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

رحمت الٰہی ۔۔۔۔۔ امیر محمد اکرم اعوان

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏29 مئی 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    رحمت الٰہی ۔۔۔۔۔ امیر محمد اکرم اعوان

    دنیاوی دولت اور خواہشات کیلئے اگر انسان دامانِ رحمت ِ الٰہی کو چھوڑتا ہے تو کتنی بڑی نادانی ہے
    دنیامیں دو طر ح کے لوگ ہیں۔ ایک وہ ہیں جو دنیا میں اپنی پسند سے رہنا چاہتے ہیں اور ظاہر ہے کہ انسان کی ذاتی پسند اس کی محدود عقل اور اس کے محدودعلم کے مطابق ہوتی ہے۔ وقتی طور پر جو چیز نظر کے سامنے ہے وہ اسے ایک حد تک سمجھ سکتا ہے لیکن اس کے نتائج اس کے سامنے نہیں ہوتے ۔اللہ جو حکم دیتا ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جو حکم دیا، اس کے نتائج دنیا و آخرت میں ہر طرح سے انسان کے لیے مفید اور اس کی ضرورت ہیں ۔لیکن جب آدمی اپنی مرضی کرتا ہے تو وہ ان سب باتوں سے بے نیاز ہو کر ایسا کرتا ہے پھر سب سے برے لوگ وہ ہیں جو اس بات پہ ڈٹ جاتے ہیں کہ ہم ہی حق پر ہیں۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں کہ اللہ کی رضا کیلئے اگر جان بھی جاتی ہے تو وہ پرواہ نہیں کرتے۔ انسانوں کی دوسری قسم وہ ہے جو اس بات پر اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات، چھوٹی چھوٹی خواہشات، تمنائیں اور آرزوئیں ہی نہیں بلکہ اپنا سب کچھ لٹا دینے پہ تیار ہوجاتے ہیں اور لٹا دیتے ہیں کہ اللہ کی رضا حاصل ہو جائے اور اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا دامانِ رحمت ہاتھ سے نہ چھوٹے۔

    اللہ اپنے بندوں پر بہت زیادہ مہربان ہے۔ یہ بندے اللہ کی رضا کیلئے اپنی جان بھی لٹا دیتے ہیں لیکن آپ پر بظاہر جو تکلیف بھی آئے حقیقتاً وہ رحمت ِ الٰہی کا مظہر ہوتی ہے ۔صورتیں 2طرح کی ہوتی ہیں ایک بظاہر تو بہت خوشگوار نظر آتی ہیں بہت خوبصورت لگتی ہیں لیکن ان میں انسان بڑی تکلیف میں ہوتا ہے، اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔ بظاہرہمیں ایک شخص دولت مند نظرآتا ہے لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ شاید وہ دولت استعمال بھی کرسکتا ہے یا نہیں۔ اسے کوئی ایسا مرض ہو جاتا ہے کہ وہ کھانا صحیح طرح نہیں کھا سکتا ، آرام نہیں کرسکتا،اسے نیند نہیں آتی، دکھ ہوتا ہے ، تکلیف ہوتی ہے اوربے شمار طریقے ہیں جن سے اسے ایذاء پہنچتی رہتی ہے۔ صرف دولت کووہ کیا کرے گا۔

    اسی طرح بعض لوگوں کے پاس اقتدار ہوتاہے اورہم سمجھتے ہیں کہ یہ بڑے خوشحال ہیں لیکن در حقیقت وہ بڑے پریشان حال ہوتے ہیں بعض لوگ بظاہر مصیبت میں ہوتے ہیں لیکن اگر وہ مقبولانِ بارگاہ ہیں تو مصیبت کے اندر بھی ان کیلئے راحت ہوتی ہے۔ انہیں ایک خاص سکون نصیب ہوتا ہے ، ایک خاص قرب نصیب ہوتا ہے اللہ کی رحمت نصیب ہوتی ہے۔جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایاکہ’’ قیامت کے روز اللہ کریم شہداء سے پوچھیں گے کہ بتائو تمہیں کیا چاہیے۔ ‘‘ اب شہید ہونا بظاہر بڑا تکلیف دہ عمل ہے۔ کوئی تلوار سے قتل ہوتا ہے، تیر سے ہوتا ہے،گولی سے ہوتا ہے، توپ سے ہوتا ہے، آگ سے ہوتا ہے،جسم پھٹ جاتا ہے بظاہر یہ بہت تکلیف دہ کام ہے۔ جان بھی جاتی ہے،جسم کے پرخچے اڑ جاتے ہیں لیکن چونکہ وہ اللہ کی رضا کیلئے ایسا کررہا ہوتا ہے تو اس تکلیف میں جو بظاہر ہمیں تکلیف نظر آتی ہے،شہید کو وہ لذت نصیب ہوتی ہے کہ جب اللہ کریم شہداء سے میدانِ حشر میں پوچھے گا کہ بتائو تمہاری کوئی خواہش ، تم کیا چاہتے ہو؟ تو وہ کہیں گے ،اللہ ایک دفعہ پھر دنیا آباد کر،ہمیں وہیں بھیج دے ایک دفعہ پھر سے تیری راہ میں جان دینے کا مزا آئے اور وہی موت وہی شہادت نصیب ہواسی طرح جسم کے پرخچے اڑیں،اسی طر ح خون بہے اور اسی طرح سر تن سے جدا ہو۔ جو لذت اس مرنے میں ہے وہ ہم نے زندگی میں نہیں پائی۔

    تو چیزیں یا اعمال و افعال بظاہر جو نظر آتے ہیں کچھ اور ہوتے ہیں اور بندے پر جو حقیقتاً وارد ہو رہا ہے وہ اور ہوتا ہے۔

    جولوگ اللہ کی رضا کیلئے اپنی خواہشات قربان کردیتے ہیں، اپنی آرزوئیں قربان کر دیتے ہیں حتیٰ کہ ایسا موقع آجائے کہ وہ سمجھیں کہ اللہ کی رضا کیلئے اب جان بھی جاتی ہے تو وہ جان بھی دے دیتے ہیں لیکن اللہ کی رضا کو ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔

    یاد رکھو! ایسے لوگوں کے ساتھ اللہ کا خاص کرم ہوتا ہے،خاص مہربانی ہوتی ہے،ایک خاص رحمت ہوتی ہے جو بظاہر نظر آنے والی تکلیف کو بھی ان کیلئے راحت بنا دیتی ہے۔

    انسان عجیب مخلوق ہے اپنی اَنا سے نکلنا اس کے لیے دشوار ترین کام ہے۔ صوفیاء بھی کہتے ہیں کہ اللہ ا للہ کرنے سے انسان کی حالت بدلتی ہے اللہ کی اطاعت نصیب ہوتی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے نسبت محبت ہوجاتی ہے لیکن سب سے آخر میں انسان کے اندر سے جو چیز نکلتی ہے وہ اس کی اپنی اَنا ہوتی ہے۔انسان اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھتا ہے درحقیقت اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔اس کا علم محدود ہے طاقت کے اعتبار سے اس کی طاقت بڑی تھوڑی اور بڑی محدود ہے،کسی بھی پہلو سے سوچا جائے تو وہ محتاج و بے بس ہے ۔

    کسی دانا نے ہارون رشید سے کہا کہ آپ کہیں جنگل میں ہوں، بھٹک جائیں، فوج سے الگ ہوجائیں اور آپ کو پیاس ستائے، پانی قریب نہ ہو،جاں بلب ہو جائیں، کوئی ایسا آدمی جس کے پاس پانی ہو اور وہ آپ کو مفت نہ دے تو آپ پانی کے ایک گلاس یا چند گھونٹ کی قیمت کہاں تک دیں گے؟ وہ کہنے لگے کہ آدھی سلطنت دیدوں گا۔ دانا نے پھر کہا کہ پینے کے بعد اگر وہ پانی خارج نہ ہو،پیٹ میں رک جائے، کوئی ایسا مرض بن جائے تو ؟ ہارون رشید نے جواب دیا جان بچانے کیلئے ساری ہی دیدوں گا۔ تو دانا نے فرمایا پھر اس سلطنت یا اس ریاست پہ اکڑنا کیسا جس کی قیمت گھونٹ پانی اور چند قطرے پیشاب ہے۔

    انسان جتنی بھی دولت جمع کرلے،جتنا بھی مال اکٹھا کر لے یا اپنی حیثیت بنا لے لیکن تھوڑی سی تکلیف بھی آجائے تو وہ ساری بے حیثیت ہو جاتی ہے ۔موت سارا نقشہ ہی بدل دیتی ہے،سب کچھ مٹا دیتی ہے ،جو کچھ اس کے پاس ہے وہ کسی اور کا ہو جاتا ہے۔ اس کی بیویاں بھی اس کی نہیں رہتیں ان پر بھی اس کا حق نہیں رہتا ،دولت بھی وارثوں کی ہوجاتی ہے۔تو ایسی چیز کیلئے جسے بہرحال ضائع ہونا ہے، انسان کے ہاتھ سے نکل جانا ہے، اس دولت، اس مال یا ان آرزوئوں کیلئے اگر انسان دامانِ رحمت ِ الٰہی کو چھوڑتا ہے تو کتنی بڑی نادانی ہے۔اللہ کریم فرماتا ہے جس کا مفہوم ہے کہ میرے بندے ایسے بھی ہیں جو کسی بھی حال میں میری رضا کو نہیں چھوڑتے،حتیٰ کہ اگر جان دینی پڑے تو وہ جان بھی دیتے ہیں۔ اللہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے، اگر ہم جان بھی دیدیں زندگی میں ہزار کوتاہیاں، ہزار کمزوریاں رہ جائیں ،وہ اپنی رحمت سے سب پوری فرما دیتا ہے بس ہمیں صبر کرنا چاہیے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں