1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ذبح عظیم

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از پیاجی, ‏13 جنوری 2007۔

  1. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    ذبح عظیم
    ذبح اسماعیل علیہ السلام سے ذبح حسین رضی اللہ عنہ تک

    تمام تر اختیارات کو اپنی ذات میں مرتکز کر کے خدا بننے کا جنون تاریخ انسانی کے ہر دور اور ہر عہد میں مسند اقتدار پر براجمان مطلق العنان بادشاہوں کے ذہنوں میں فتور برپا کرتا رہا ہے۔ جو آج کی نام نہاد مہذب اور جمہوری دنیا میں ظلم، بربریت، درندگی اور وحشت کی انتہاؤں کو چھوتے ہوئے نہ صرف زندہ ہے بلکہ پوری قوت اور شدت کے ساتھ متحرک بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی تمام تر روشن خیالی، سائنسی اور فنی ارتقاء کے باوجود انسانی معاشرے حیوانی معاشروں کے قریب تر ہو رہے ہیں، اب جسمانی غلامی کی جگہ سیاسی اور معاشی غلامی کے نئے نئے انداز متعارف ہو رہے ہیں۔ ریاستی دہشت گردی نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، آتش نمرود سے میدان کربلا میں خاندان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خیموں کو آگ لگائے جانے تک ریاستی دہشت گردی کی ان گنت مثالیں بکھری ہوئی ہیں، کہنے کو تو نسلی تعصبات کا خاتمہ ہوچکا ہے لیکن مغرب سمیت امریکہ جیسے نام نہاد مہذب اور جمہوری معاشروں میں گورے اور کالے کے خون میں عملاً آج بھی تمیز روا رکھی جاتی ہے۔ تاریخ عالم شاہد ہے کہ حاکم اور محکوم طبقات کے درمیان صدیوں پر محیط سیاسی اور طبقاتی کشمکش دراصل انسان کے بنیادی حقوق کی پامالی کا نتیجہ ہے اور یہ کشمکش اس وقت تک جاری رہے گی جب تک دنیا ابن آدم کو قانون اور حقوق دینے والے پیغمبر امن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دہلیز سے اپنی غلامی کا رشتہ استوار کر کے افق عالم پر دائمی امن کی بشارتوں کے نزول کو یقینی نہیں بناتی۔

    سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آتش نمرود میں بے خطر کود کر کلمہء حق کہنے کی جس پیغمبرانہ روایت کو آگے بڑھایا تھا وہ عظیم روایت ذبح اسماعیل سے ذبح حسین رضی اللہ عنہ تک تسلیم و رضا اور ایثار و قربانی کی ان کائناتی سچائیوں کی امین ہے جن کے بغیر تہذیب انسانی کے اجتماعی رویوں کی ہر تفہیم اور توجیہہ بے معنی اور غیر مؤثر ہوکر رہ جاتی ہے۔ تاریخ اسلام حریت فکر کے امین انہی لمحات جاوداں کی عینی شاہد ہے، اقبال نے کیا خوب کہا ہے :

    غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
    نہایت اس کی حسین رض) ابتدا ہے اسماعیل (ع)​
    اللہ تبارک تعالیٰ اپنے بندوں کی دعائیں بھی قبول کرتا ہے اور انہیں آزمائش میں بھی ڈالتا ہے۔ ان کی قوت ایمانی کا امتحان بھی لیتا ہے اور انہیں ارفع و اعلی مقامات پر فائز بھی کرتا ہے۔ انبیائے کرام کو اللہ تعالیٰ نے جس طرح کائنات میں سب سے بلند مراتب پر فائز فرمایا اور اپنے قرب و وصال کی نعمتوں سے نوازا اسی طرح انہیں بڑی کٹھن منزلوں سے بھی گزرنا پڑا۔ انہیں بڑی سے بڑی قربانی کا حکم ہوا لیکن ان کے مقام بندگی کا یہ اعجاز تھا کہ سر مو حکم ربی سے انحراف یا تساہل نہیں برتا، ان کی اطاعت، خشیت اور محبت کا یہی معیار تھا کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی اور اس میں موجود جملہ نعمتوں کو اپنے مولا کی رضا کیلئے وقف کیے رکھا، حتی کہ اولاد جیسی عزیز ترین متاع کے قربان کرنے کا حکم بھی ملا تو ثابت کردیا کہ یہ بھی اس کی راہ پر قربان کی جاسکتی ہے۔ جملہ انبیائے کرام اپنی شان بندگی میں یکتا اور بے مثال تھے لیکن سلسلہ انبیاء میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی داستان عزیمت بہت دلچسپ اور قابل رشک ہے۔ آپ علیہ السلام ا للہ رب العزت کے جلیل القدر پیغمبر تھے۔ ہمارے آقا و مولا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جد امجد، ابتلا و آزمائش کے ان گنت مراحل سے گزرے، سفر ہجرت اختیار کیا، اپنی اہلیہ حضرت ہاجرہ اور ننھے فرزند ارجمند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بے آب و گیاہ صحرا میں چھوڑا۔ تبلیغ دین کا ہر راستہ دراصل انقلاب کا راستہ ہے اور شاہراہ انقلاب پھولوں کی سیج نہیں ہوتی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی اسی انقلابی جدوجہد سے عبارت ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام بارگاہ خداوندی میں التجا کرتے ہیں کہ باری تعالیٰ مجھے ایک نیک، صالح اور پاکباز بیٹے سے نواز، اللہ پاک دعا ئے ابراہیمی کو شرف قبولیت عطا فرماتے ہیں، بارگاہ خداوندی سے انہیں اطاعت گزار بیٹا عطا ہوتا ہے جن کا نام اسماعیل علیہ السلام رکھا جاتا ہے۔ باپ کی آنکھوں کا نور، اور اس کی دیرینہ محبتوں اور چاہتوں کا مرکز، حضرت اسماعیل علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آخری عمر کا سہارا بھی تھے۔ باپ اور بیٹے کے درمیان اس بے پناہ محبت کو دیکھ کر اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ ابراہیم! اپنے لخت جگر اسماعیل علیہ السلام کو ہماری راہ میں قربان کر۔ غور کیا جائے تو یہ مقام حیرت و استعجاب ہے۔ اللہ کا پیغمبر یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ آج تک کسی انسان کی قربانی کا حکم نہیں دیا گیا، وہ اس پر لیت و لعل سے بھی کام لے سکتے تھے اور اس کا قرینہ بھی تھا کیونکہ یہ حکم آپ کو خواب میں دیا گیا تھا لیکن دیکھیے پیغمبر کے ایمان و عمل کی رفعتیں! انہوں نے ایک لمحہ توقف کیے بغیر سارا ماجرا اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو سنایا لیکن انہیں حکم نہیں دیا بلکہ ان سے رائے پوچھی۔ قربان جائیں اس پیغمبرزادے کی ایمانی عظمتوں پر بھی جنہوں نے باپ کے خواب کو اللہ کا حکم سمجھتے ہوئے سر تسلیم خم کر کے تاریخ انسانیت میں ذبیح اللہ کا منفرد اعزازحاصل کیا۔ قرآن بتاتا ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے اوندھے منہ لٹا دیتے ہیں اور اپنے لاڈلے بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے چھری ہاتھ میں لیتے ہیں۔ غیب سے آواز آتی ہے ’’ابراہیم! تو نے اپنا خواب اور اللہ کا امر سچا کر دکھایا، ہم اسی طرح نیکوکاروں کو جزاء دیتے ہیں، اپنے بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا حکم اللہ کے نبی کی بہت بڑی آزمائش اور ایک بہت بڑا امتحان تھا، حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام اس بڑے نازک امتحان میں کامیاب و کامران رہے۔ آسمان سے ایک مینڈا آتا ہے اور حضرت ابراہیم، حضرت اسماعیل علیھا السلام کی جگہ اس مینڈے کو ذبح کرتے ہیں، ارشاد ہوتا ہے ابراہیم! تمہاری قربانی قبول ہوگئی۔ ہم نے اسماعیل کی ذبح کو ’’ایک عظیم ذبح،، کے ساتھ فدیہ کردیا۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قربانی بھی بارگاہ خداوندی میں مقبول و منظور ہوگئی اور ان کے فرزند ارجمند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی زندگی بھی بچ گئی۔

    اب ذہن انسانی میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حضرت اسمعیل علیہ السلام کو بچانا ہی مقصود تھا تو پھر ان کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا حکم کیوں ہوا؟ اور اگر حکم ہوا تھا تو ان کی زندگی کو تحفظ کیوں دیا گیا۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ حکم اس لئے ہوا کہ سراپائے ایثار و قربانی پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لخت جگر سے ذبح کی تاریخ کی ابتدا ہوجائے کہ راہ حق میں قربانیاں دینے کا آغاز انبیاء کی سنت ہے اور بچا اس لئے گیا کہ اس عظیم پیغمبر کی نسل پاک میں نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت ہونا تھی۔ اولاد ابراہیم علیہ السلام میں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تشریف لانا تھا اس لئے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ذبح کو جنت سے لائے گئے مینڈے کی قربانی کی صورت میں’’عظیم ذبح،، کے ساتھ بدل دیا گیا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام محفوظ و مامون رہے۔ دعائے خلیل کو خلعت قبولیت عطا ہوئی، کونین کی دولت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے دامن طلب میں ڈال دی گئی دعا تو فقط یہ تھی کہ مولا! اپنا وہ پیغمبر، رسول آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری آل میں میری نسل میں مبعوث فرما۔ یہ دعا پہلے پارے کے آخر میں آئی ہے’’اللہ رب العزت نے جواب میں فرمایا کہ دو چیزیں عطا کرتا ہوں ایک نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت اور پھر شہادت،، دوسرے پارے کے شروع میں اس کا جواب بھی آگیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہیں میں سے (اپنا ) رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفساً و قلباً) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (اسرار معرفت و حقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔ ’ آگے اس سے متعلق فرمایا اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ مدد مانگنا ’جو اللہ کی راہ میں شہید ہوں انہیں مردہ نہ کہو ’’وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں،، (البقرہ، 2 : 151 ۔ 157)

    حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ سے قوموں کی امامت کا سوال کیا، امامت کی دو شکلیں کردی گئیں۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نبوت کو ختم ہونا تھا اور تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر اقدس پر ختم نبوت کا تاج سجایا جانا مقصود تھا اس لئے امامت کے دو جزو کردیئے گئے۔ ایک امامت سے نبوت اور دوسری امامت سے ولایت۔ حکمت یہ تھی کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نبوت کا سلسلہ ختم ہوجائے تو پھر فیض نبوت بشکل امامت میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو ملنا شروع ہوجائے۔

    بعثت محمدی اور شہادت کا باہمی ربط مذکورہ بالا آیات میں بڑے اہم نکات کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ دعائے ابراہیم علیہ السلام کے جواب میں ایک طرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت بیان کی جارہی ہے تو دوسری طرف شہادت کا ذکر ہے۔ اس وجدانی اور عرفانی نکتے کی وضاحت آگے چل کر کی جائے گی، تاہم یہاں صرف اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان ختم نبوت کے ساتھ آپ کو مرتبہ شہادت پر بھی فائز کرنا مقصود تھا جس کا مظہر نواسہء رسول سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ قرار پائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کو ہی ذبح عظیم کا مصداق سمجھتے ہیں۔

    حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی حیات مقدسہ میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا واقعہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کی وجہ سے انہیں بارگاہ خداوندی سے شرف امامت بھی عطا کیا گیا۔ انہوں نے خود بھی اور سعادت مند بیٹے نے بھی حکم خداوندی کے آگے سر تسلیم خم کردیا تھا۔ باپ بیٹے نے تسلیم جاں کا یہ اظہار زبانی کلامی نہیں کیا بلکہ عملاً حکم کی بجا آوری کے لئے بیٹے کی قربانی کی غرض سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے ہاتھ میں چھری بھی لے لی تھی، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی زندگی محفوظ رہی کہ ان کی نسل پاک سے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہونا تھی، خدائے بزرگ و برتر نے وفدیناہ بذبح عظیم کہہ کر اسماعیل علیہ السلام کے ذبح کو ذبح عظیم کا فدیہ قرار دیا۔ فرزند پیغمبر کی قربانی ہونا بعثت مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر موقوف ہوئی۔ حکمت خداوندی یہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد چونکہ کوئی نبی نہیں آئے گا اس لئے شہادت کے لئے اس کے لخت جگر کا انتخاب عمل میں آئے گا اور ذبح اسماعیل علیہ السلام کو مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لخت جگر سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے ذبح عظیم بنادیں گے۔

    اگر شہادت حسین رضی اللہ عنہ کا تعلق ذبح اسماعیل علیہ السلام سے جوڑا نہ جائے تو بات مکمل نہیں ہوتی، شہادت کا عمل ادھورا رہ جاتا ہے اور بات مکمل طور پرسمجھ میں نہیں آتی۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کو صرف ’’ذبح،، کے لفظ سے ذکر کیا گیا۔ ان کی جگہ مینڈ ھے کی قربانی ہوئی تو اسے ’’ذبح عظیم،، کہا گیا۔ اب یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ مینڈھے کی قربانی کو ذبح عظیم اور پیغمبر کے بیٹے کی قربانی کو محض ذبح کہا جائے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ذبح عظیم سے مراد کونسی قربانی ہے۔ ذبح عظیم یقیناً وہی قربانی ہوگی جو ذبح اسمٰعیل سے بڑی قربانی کی صورت میں ادا ہوگی۔

    حضرت اسماعیل علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فرزند تھے جبکہ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لخت جگر اور نور نظر تھے۔ قطع نظر اس کے کہ نبی اور صحابی کے مرتبے میں بہت فرق ہوتا ہے لیکن نسبت ابراہیمی سے نسبت مصطفوی یقیناً ارفع و اعلیٰ ہے علاوہ ازیں سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو سبط پیغمبر اور پسر بتول و حیدر ہونے کے ساتھ ساتھ نسبت ابراہیمی بھی حاصل ہے۔ نیز شہادت امام حسین علیہ السلام چونکہ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہی باب ہے اس لئے کائنات کی اسی منفرد اور یکتا قربانی کو ہی ذبح عظیم ہونے کا شرف حاصل ہے۔ لہذا بڑی صداقت کے ساتھ یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کے ضمن میں جس ذبح عظیم کا فدیہ دیا گیا وہ ایک مینڈھا نہ تھا بلکہ وہ لخت جگر مصطفٰے حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کی قربانی تھی۔

    اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ذبح عظیم کا مصداق اگر امام حسین رضی اللہ عنہ ہیں تو آپ کا تعلق حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وہ نہیں جو سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ تھا۔ یعنی وہ باپ بیٹا تھے اور یہاں بیٹا نہیں بلکہ نواسہ رسول کا انتخاب ہورہا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ذبح عظیم کا اعزاز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حقیقی بیٹے کے حصے میں آتا۔ اس ممکنہ سوال کے کئی جوابات ہوسکتے ہیں سب سے پہلا جواب تو یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی بیٹا جوانی یا بلوغت کی عمر کو پہنچا ہی نہیں ایسا کیوں ہوا؟ یہ اللہ تعالی کی حکمت تھی جسکی طرف قرآن نے یوں رہنمائی فرمائی۔ محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں (یعنی سلسلہ نبوت کو ختم کرنے والے) اور اللہ تعالیٰ سب چیزوں کو جاننے والا ہے (اسے علم ہے کہ ختم رسالت اور ختم نبوت کا وقت آگیا ہے۔) (احزاب، 33 : 40) یعنی اب وحی الہٰی کا دروازہ بند ہوتا ہے، حضور تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اب قیامت تک کوئی نبی نہیں۔ قرآن آسمانی ہدایت پر مشتمل آخری صحیفہ ہے جو قیامت تک اللہ کے بندوں کی رہنمائی کے لئے کافی ہے۔

    جس طرح اس سورہ مبارکہ میں بیان کئے جانے والے مضامین کا خلاصہ یہی ہے کہ اللہ تعالٰی وحدہ لاشریک ہے، وہ بے نیاز ہے، اس کا کوئی بیٹا نہیں، اگر اس کا کوئی بیٹا ہوتا تو وہ بھی خدا ہوتا اور یہ شرک ہوتا اور اس کی وحدانیت پر حرف آتا۔ توحید، توحید نہ رہتی۔ جس طرح توحید الوہیت نے رب کو بیٹے سے پاک رکھا اسی طرح شان ختم نبوت نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جوان بیٹے سے علیحدہ رکھا۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی جوان بیٹا ہوتا تو وہ بھی پیغمبر ہوتا اور اگر پیغمبر نہ ہوتا تو (نعوذ باللہ) شان رسالت میں کمی آتی اور پیغمبرہوتا تو ختم نبوت کی شان ختم ہوجاتی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبین نہ رہتے، حدیث پاک میں آتا ہے، حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صاحبزادے تھے بچپن ہی میں وفات پاگئے لیکن ان کی عمر باقی صاحبزادگان حضرات سے نسبتاً زیادہ تھی۔ ان کی وفات پر آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب ابراہیم بن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وفات پاگئے توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا جنازہ پڑھایا اور فرمایا ان کے لئے جنت میں دودھ پلانے والی ہے اور اگر زندہ رہتے تو سچے نبی ہوتے۔ (سنن ابن ماجہ : 108) صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن ابی اوفی انہی کے بارے میں کہتے ہیں۔ آپ (حضرت ابراہیم) صغر سنی میں وصال فرماگئے اور اگر یہ فیصلہ قدرت کا ہوتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی ہو تو آپ کے یہ صاحبزادے زندہ ہوتے مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں۔ (صحیح البخاری، 2 : 914)

    اسی طرح مسند احمد میں روایت ہے : حضرت سدی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ زندہ رہتے تو وہ اللہ کے سچے نبی ہوتے۔ (مسند احمد بن حنبل، 3 : 133) اس لئے اللہ رب العزت نے انہیں بچپن ہی میں اپنے پاس بلالیا، انہوں نے موت کو قبول کر کے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان ختم نبوت کو زندہ رکھا۔ صحیح بخاری اور دیگر کتب صحاح کی روایات سے معلوم ہوا کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی ہوسکتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیٹے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کو زندہ رکھا جاتا۔ انہیں بچپن ہی میں موت کی آغوش میں اس لئے دے دیا گیا کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی نبی کو نہیں آنا تھا۔

    حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دو دعائیں مانگی تھیں ایک یہ کہ باری تعالیٰ میری ذریت سے خاتم الانبیاء پیدا فرما۔ دوسرے میری ذریت کو منصب امامت عطا کر چنانچہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شکل میں نبی آخر الزماں تشریف لے آئے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نبوت ختم ہو جانے کے بعد اب یہ لازمی تقاضا تھا کہ حضور رحمت کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا فیض اب امامت و ولایت کی شکل میں آگے چلے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذریت میں ولایت بھی آ گئی، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنا صلبی بیٹا نہ تھا۔ سو اب نبوت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض اور امامت و ولایت مصطفوی کا مظہر تھا اسلئے ضروری تھا کہ یہ کسی مقدس اور محترم خاندان سے چلے۔ ایسے افراد سے چلے جو حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صلبی بیٹا تو نہ ہو مگر ہو بھی جگر گوشہء رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، چنانچہ اس منصب عظیم کے لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لاڈلی بیٹی خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا پرقدرت کی نگاہ انتخاب پڑی۔

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہیں مجھے بے چین کر دیتی ہے ہر وہ چیز جو اسے بے چین کرتی ہے اور مجھے خوش کرتی ہے ہر وہ چیز جو اسے خوش کرتی ہے قیامت کے روز تمام نسبی رشتے منقطع ہو جائیں گے ما سوا میرے نسبی، قرابت داری اور سسرالی رشتے کے،، ۔ (مسند احمد بن حنبل، المستدرک) تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ علی رضی اللہ عنہ اور فاطمہ رضی اللہ عنہ کی شادی کا فیصلہ آسمانوں پر ہو چکا تھا۔ یہ شادی امر الٰہی سے سرانجام پائی اس لئے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ولایت مصطفیٰ کے سلسلے کو قائم ہونا تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تکمیل دعائے ابراہیم علیہ السلام کا ذریعہ بنانا تھا اسی مقصد کے لئے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے ذریعہ ایک اور مضبوط اور پاکیزہ نسبت بھی قائم ہوئی۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی رضا اور مشیت سے یہ مقدس ہستیاں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔

    تحریر : شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری​
     
  2. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    محرم الحرام کی آمد آمد ہے اور ایسے میں ایسا ایمان افروز مضمون سبحان اللہ
     
  3. حماد
    آف لائن

    حماد منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    402
    موصول پسندیدگیاں:
    95
    ملک کا جھنڈا:
    ہم پیاجی کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں کہ وہ موقع کی مناسبت سے ہماری اردو کے صارفین کے لئے اپنی روایت کو جاری رکھتے ہوئے اسلامی مواد فراہم کرتے رہتے ہیں۔
     
  4. نادیہ خان
    آف لائن

    نادیہ خان ممبر

    شمولیت:
    ‏26 جون 2006
    پیغامات:
    827
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    پیا جی زندہ باد آپ خوش رہیں اللہ آپ کو جزا عطا فرمائے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں