1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

دیوانِ غالب

Discussion in 'اردو شاعری' started by ثناء, May 15, 2006.

  1. ثناء
    Offline

    ثناء ممبر

    <center>
    نقش فریادی ہے کس کی شوخیٴ تحریر کا؟
    کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

    کاؤ کاوِ سخت جانیہائے تنہائی، نہ پوچھ
    صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئیشِیر کا

    جذبہٴ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے
    سینہٴ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا

    آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
    مدعا عنقا ہے اپنے عالَمِ تقریر کا

    بسکہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیرپا
    موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا

    * * *

    جراحت تحفہ، الماس ارمغاں، داغ جگر ہدیہ
    مبارک باد اسد، غمخوارِ جانِ دردمند آیا
    </center>
     
  2. ثناء
    Offline

    ثناء ممبر

    غزل - 2

    <center>

    جزقیس اور کوئی نہ آیا بہ روے کار

    صحرا مگر بہ تنگیٴ چشمِ حسود تھا

    آشفتگی نے نقش سویدا کیا درست

    ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا

    تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ

    جب آنکھ کھل گئی، نہ زیاں تھا نہ سود تھا

    لیتا ہوں مکتبِ غمِ دل میں سبق ہنوز

    لیکن یہی کہ رفت، گیا اور بود تھا

    ڈھانپا کفن نے داغِ عیوبِ برہنگی

    میں ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا

    تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن، اسد!

    سرگشہٴ خمارِ رسوم و قیود تھا

    * * * * * *


    </center>
     
  3. ثناء
    Offline

    ثناء ممبر

    غزل نمبر 3

    <center>

    کہتے ہو نہ دیں گے ہم، دل اگر پڑا پایا

    دل کہاں کہ گم کیجے، ہم نے مُدّعا پایا

    عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا

    درد کی دوا پائی، دردِ بے دوا پایا

    دوستدارِ دشمن ہے، اعتمادِ دل معلوم!

    آہ بے اثر دیکھی، نالہ نارسا پایا

    سادگی و پرکاری، بیخودی و ہشیاری

    حسن کو تغافل میں جرأت آزما پایا

    غنچہ پھر لگا کِھلنے، آج ہم نے اپنا دل

    خوں کیا ہوا دیکھا، گم کیا ہوا پایا

    حالِ دل نہیں معلوم، لیکن اس قدر یعنی

    ہم نے بارہا ڈھونڈا، تم نے بارہا پایا

    شورِ پندِ ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا

    آپ سے کوئی پوچھے، تم نے کیا مزا پایا؟

    * * * * * *

    </center>
     
  4. ثناء
    Offline

    ثناء ممبر

    غزل نمبر 4

    <center>

    دل مرا سوز نہاں سے بے محابا جل گیا
    آتشِ خاموش کے مانند گویا جل گیا
    دل میں ذوقِ وصل و یادِ یار تک باقی نہیں
    آگ اِس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا
    میں عدم سے بھی پرے ہوں، ورنہ غافل! بارہا
    میری آہِ آتشیں سے بالِ عنقا جل گیا
    عرض کیجے جوہرِ اندیشہ کی گرمی کہاں؟
    کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا
    دل نہیں، تجھ کو دکھاتا ورنہ داغوں کی بہار
    اِس چراغاں کا، کروں کیا، کارفرما جل گیا
    میں ہوں اور افسردگی کی آرزو، غالب! کہ دل
    دیکھ کر طرزِ تپاکِ اہلِ دنیا جل گیا
    * * * * *
    </center>
     
  5. ثناء
    Offline

    ثناء ممبر

    غزل نمبر 5

    <center>

    شوق، ہر رنگ رقیب سروساماں نکلا
    قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا
    زخم نے داد نہ دی تنگیٴ دل کی یارب
    تیر بھی سینہٴ بسمل سے پرافشاں نکلا
    بوئے گل، نالٴہ دل، دودِ چراغِ محفل
    جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا
    دلِ حسرت زدہ تھا مائدہٴ لذتِ درد
    کام یاروں کا بہ قدر لب و دنداں نکلا
    اے نو آموزِ فنا ہمتِِ دشوار پسند!
    سخت مشکل ہے کہ یہ کام بھی آساں نکلا
    دل میں پھر گریے نے اک شور اٹھایا غالب
    آہ جو قطرہ نہ نکلا تھا سو طوفاں نکلا
    * * * * * *

    </center>
     
  6. ثناء
    Offline

    ثناء ممبر

    غزل نمبر 6

    <center>

    دھمکی میں مرگیا جو، نہ بابِ نبرد تھا
    عشقِ نبرد پیشہ طلبگارِ مرد تھا
    تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
    اڑنے سے پیشتر بھی مِرا رنگ زرد تھا
    تالیف نسخہ ہائے وفا کر رہا تھا میں
    مجموعہٴ خیال ابھی فرد فرد تھا
    دل تا جگر کہ ساحل دریائے خوں ہے اب
    اس رہگزر میں جلوہٴ گل آگے گرد تھا
    جاتی ہے کوئی کشمکش اندوہِ عشق کی؟
    دل بھی اگر گیا تو وہی دل کا درد تھا
    احباب چارہ سازیٴ وحشت نہ کرسکے
    زنداں میں بھی خیال بیاباں نورد تھا
    یہ لاشِ بے کفن اسدِ خستہ جاں کی ہے
    حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
    * * * * *

    </center>
     
  7. ثناء
    Offline

    ثناء ممبر

    <center>شمارِ سُبحہ مرغوبِ بتِ مشکل پسند آیا
    تماشائے بہ یک کف بردنِ صد دل، پسند آیا
    بہ فیض بیدلی نومیدیٴ جاوید آساں ہے
    کشایش کو ہمارا عقدہٴ مشکل، پسند آیا
    ہوائے سیرِ گل آيئنہٴ بے مہریٴ قاتل
    کہ اندازِ بہ خوں غلتیدنِ بِسمل پسند آیا
    * * * * * *

    </center>
     
  8. ثناء
    Offline

    ثناء ممبر

    غزل نمبر 8

    <center>.
    دہر میں نقشِ وفا وجہِ تسلی نہ ہوا
    ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندہٴ معنی نہ ہوا
    سبزہٴ خط سے ترا کاکلِ سرکش نہ دبا
    یہ زمّرد بھی حریفِ دمِ افعی نہ ہوا
    میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں
    وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا
    دل گزر گاہِ خیالِ مے و ساغر ہی سہی
    گر نفس جادہٴ سر منزلِ تقویٰ نہ ہوا
    ہوں ترے وعدہ نہ کرنے میں بھی راضی کہ کبھی
    گوش منت کشِ گلبانگِ تسلی نہ ہوا
    کس سے محرومیٴ قسمت کی شکایت کیجے
    ہم نے چاہا تھا کہ مر جائیں، سو وہ بھی نہ ہوا
    مرگیا صدمہٴ یک جنبشِ لب سے غالب
    ناتوانی سے حریفِ دمِ عیسیٰ نہ ہوا
    * * * * * *

    </center>
     
  9. ثناء
    Offline

    ثناء ممبر

    غزل نمبر 9

    <center>

    ستائش گر ہے زاہد اس قدر جس باغِ رضواں کا
    وہ اک گلدستہ ہے ہم بیخودوں کے طاقِ نسیاں کا

    بیاں کیا کیجیئے بیدادِ کاوش ہائے مژگاں کا
    کہ ہر اک قطرہٴ خوں دانہ ہے تسبیحِ مرجاں کا

    نہ آئی سطوتِ قاتل بھی مانع میرے نالوں کو
    لیا دانتوں میں جو تنکا، ہوا ریشہ نیستاں کا

    دکھاؤں گا تماشا، دی اگر فرصت زمانے نے
    مرا ہر داغِ دل اک تخم ہے سروِ چراغاں کا


    کیا آيئنہ خانے کا وہ نقشہ تیرے جلوے نے
    کرے جو پرتوِ خورشید، عالم شبنمستاں کا

    مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
    ہیولیٰ برق خرمنِ کا ہے خونِ گرم دہقاں کا


    اُ گا ہے گھر میں ہر سو سبزہ ، ویرانی تماشاکر!
    مدار اب کھودنے پرگھاس کے ہے میرے درباں کا


    خموشی میں نہاں خوں گشتہ لاکھوں آرزوئیں ہیں
    چراغ مردہ ہوں میں بے زباں، گورِ غریباں کا


    ہنوز اک پرتوِ نقشِ خیالِ یار باقی ہے
    دلِ افسردہ گویا حجرہ ہے یوسف کے زنداں کا


    بغل میں غیر کی آج آپ سوتے ہیں کہیں ورنہ
    سبب کیا، خواب میں آکر، تبسم ہائے پنہاں کا؟


    نہیں معلوم کس کس کا لہو پانی ہوا ہوگا
    قیامت ہے سرشکِ آلودہ ہونا تیری مژگاں کا

    نظر میں ہے ہماری جادہٴ راہِ فنا، غالب
    کہ یہ شیرازہ ہے عالم کے اجزائے پریشاں کا

    * * * * *


    </center>
     
  10. ثناء
    Offline

    ثناء ممبر

    <center>

    نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا

    حبابِ موجہٴ رفتار ہے نقشِ قدم میرا



    محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے

    کہ موجِ بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا

    * * * * * *
    </center>
     
  11. ثناء
    Offline

    ثناء ممبر

    <center>

    سراپا رہنِ عشق و ناگزیرِ الفتِ ہستی

    عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا



    بقدرِ ظرف ہے ساقی! خمارِ تشنہ کامی بھی

    جو تو دریائے مے ہے تو میں خمیازہ ہوں ساحل کا

    * * * * * *
    </center>
     
  12. ثناء
    Offline

    ثناء ممبر

    <center>
    محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
    یاں ورنہ جو حجاب ہے، پردہ ہے ساز کا
    رنگ شکستہ صبحِ بہارِ نظارہ ہے
    یہ وقت ہے شگفتنِ گل ہائے ناز کا
    تو اور سوئے غیر نظر ہائے تیز تیز
    میں اور دُکھ تری مِژہ ہائے دراز کا
    صرفہ ہے ضبطِ آہ میں میرا، وگرنہ میں
    طَعمہ ہوں ایک ہی نفسِ جاں گداز کا
    ہیں بسکہ جوشِ بادہ سے شیشے اچھل رہے
    ہر گوشہٴ بساط ہے سر شیشہ باز کا
    کاوش کا، دل کرے ہے تقاضا کہ ہے ہنوز
    ناخن پہ قرض اس گرہِ نیم باز کا
    تاراجِ کاوشِ غمِ ہجراں ہوا، اسد!
    سینہ، کہ تھا دفینہ گہر ہائے راز کا
    * * * * *

    </center>
     
  13. ثناء
    Offline

    ثناء ممبر

    <center>

    بزمِ شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
    رکھیو یارب یہ درِ گنجینہٴ گوہر کھلا

    شب ہوئی، پھر انجمِ رخشندہ کا منظر کھلا
    اِس تکلف سے کہ گویا بتکدے کا در کھلا

    گرچہ ہوں دیوانہ، پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب
    آستیں میں دشنہ پنہاں، ہاتھ میں نشتر کھلا

    گو نہ سمجھوں اس کی باتیں، گونہ پاؤں اس کا بھید
    پر یہ کیا کم ہے کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا

    ہے خیالِ حُسن میں حُسنِ عمل کا سا خیال
    خلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کھلا

    منہ نہ کھلنے پر وہ عالم ہے کہ دیکھا ہی نہیں
    زلف سے بڑھ کر نقاب اُس شوخ کے منہ پر کھلا

    در پہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیا
    جتنے عرصے میں مِرا لپٹا ہوا بستر کھلا

    کیوں اندھیری ہے شبِ غم، ہے بلاؤں کا نزول
    آج اُدھر ہی کو رہے گا دیدہٴ اختر کھلا

    کیا رہوں غربت میں خوش، جب ہو حوادث کا یہ حال
    نامہ لاتا ہے وطن سے نامہ بر اکثر کھلا

    اس کی امت میں ہوں مَیں، میرے رہیں کیوں کام بند
    واسطے جس شہ کے غالب گنبدِ بے در کھلا

    * * * * * *

    </center>
     
  14. ثناء
    Offline

    ثناء ممبر

    <center>

    شب کہ برقِ سوزِ دل سے زہرہٴ ابر آب تھا

    شعلہٴ جوّالہ ہر اک حلقہٴ گرداب تھا

    واں کرم کو عذرِ بارش تھا عناں گیرِ خرام

    گریے سے یاں پنبہٴ بالش کف سیلاب تھا

    واں خود آرائی کو تھا موتی پرونے کا خیال

    یاں ہجومِ اشک میں تارِ نگہ نایاب تھا

    جلوہٴ گل نے کیا تھا واں چراغاں آبجو

    یاں رواں مژگانِ چشمِ تر سے خونِ ناب تھا

    یاں سرِ پرشور بیخوابی سے تھا دیوار جو

    واں وہ فرقِ ناز محوِ بالشِ کمخواب تھا

    یاں نفس کرتا تھا روشن، شمعِ بزمِ بیخودی

    جلوہٴ گل واں بساطِ صحبتِ احباب تھا

    فرش سے تا عرش واں طوفاں تھا موجِ رنگ کا

    یاں زمیں سے آسماں تک سوختن کا باب تھا

    ناگہاں اس رنگ سے خوننابہ ٹپکانے لگا

    دل کہ ذوقِ کاوشِ ناخن سے لذت یاب تھا

    * * * * * *

    </center>
     
  15. ثناء
    Offline

    ثناء ممبر

    <center>
    ایک ایک قطرے کا مجھے دینا پڑا حساب
    خونِ جگر ودیعتِ مژگانِ یار تھا
    اب میں ہوں اور ماتمِ یک شہرِ آرزو
    توڑا جو تو نے آئينہ، تمثال دار تھا
    گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو، کہ میں
    جاں دادہٴ ہوائے سرِ رہگزار تھا
    موجِ سرابِ دشتِ وفا کا نہ پوچھ حال
    ہر ذرہ، مثلِ جوہرِ تیغ، آب دار تھا
    کم جانتے تھے ہم بھی غمِ عشق کو، پر اب
    دیکھا تو کم ہوئے پہ غمِ روزگار تھا
    * * * * * *
    </center>
     
  16. ثناء
    Offline

    ثناء ممبر

    <center>


    بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
    آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا


    گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کی
    در و دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا

    واے دیوانگیٴ شوق کہ ہر دم مجھ کو
    آپ جانا اُدھر اور آپ ہی حیراں ہونا

    جلوہٴ از بسکہ تقاضائے نگہ کرتا ہے
    جوہرِ آئینہ بھی چاہے ہے مژگاں ہونا

    عشرتِ قتل گہِ اہل تمنا، مت پوچھ
    عیدِ نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا

    لے گئے خاک میں ہم داغِ تمنائے نشاط
    تو ہو اور آپ بہ صد رنگ گلستاں ہونا

    عشرتِ پارہٴ دل، زخمِ تمنا کھانا
    لذت ریشِ جگر، غرقِ نمکداں ہونا

    کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
    ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

    حیف اُس چار گرہ کپڑے کی قسمت غالب!
    جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا


    * * * *

    </center>
     
  17. ثناء
    Offline

    ثناء ممبر

    <center>

    شب خمارِ شوقِ ساقی رستخیز اندازہ تھا
    تا محیطِ بادہ صورت خانہٴ خمیازہ تھا

    یک قدم وحشت سے درسِ دفتر امکاں کھلا
    جادہ، اجزائے دو عالم دشت کا شیرازہ تھا

    مانعِ وحشت خرامیہائے لیلے ٰ کون ہے؟
    خانہٴ مجنونِ صحرا گرد بے دروازہ تھا

    پوچھ مت رسوائیِ اندازِ استغنائے حسن
    دست مرہونِ حنا، رخسار رہنِ غازہ تھا

    نالہٴ دل نے دیئے اوراقِ لختِ دل بہ باد
    یادرگارِ نالہ اک دیوانِ بے شیرازہ تھا

    * * * * *

    </center>
     
  18. ثناء
    Offline

    ثناء ممبر

    <center>
    دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا
    زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا

    بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور، کب تلک
    ہم کہیں گے حالِ دل، اور آپ فرمائیں گے کیا

    حضرتِ ناصح گر آئیں، دیدہ و دل فرشِ راہ
    کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھائیں گے کیا؟

    آج واں تیغ و کفن باندھے ہوئے جاتا ہوں میں
    عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لائیں گے کیا

    گر کیا ناصح نے ہم کو قید، اچھا یوں سہی
    یہ جنونِ عشق کے انداز چھٹ جائیں گے کیا

    خانہ زادِ زلف ہیں، زنجیر سے بھاگیں گے کیوں
    ہیں گرفتارِ وفا، زنداں سے گھبرائیں گے کیا

    ہے اب اس معمورے میں قحطِ غمِ الفت اسد
    ہم نے یہ مانا کہ دلّی میں رہیں، کھائیں گے کیا؟

    * * * *
    </center>
     
  19. ثناء
    Offline

    ثناء ممبر

    <center>

    یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
    اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

    ترے وعدے پر جیے ہم، تو یہ جان جھوٹ جانا
    کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا؟

    تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
    کبھی تو نہ توڑ سکتا، اگر استوار ہوتا

    کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیمکش کو
    یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا


    یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
    کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غمگسار ہوتا

    رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
    جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا

    غم اگرچہ جاںگسل ہے، پہ بچیں کہاں کہ دل ہے!
    غمٕ عشق اگر نہ ہوتا، غمِ روزگار ہوتا


    کہوں کس سے میں کہ کیا ہے، شبِ غم بری بلا ہے
    مجھے کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا

    ہوئے مرکے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا
    نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا

    اُسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
    جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دوچار ہوتا

    یہ مسائلِ تصوّف، یہ ترا بیان غالب
    تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا


    * * * * * *

    </center>
     
  20. ثناء
    Offline

    ثناء ممبر

    <Center>
    ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
    نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا

    تجاہل پیشگی سے مدعا کیا
    کہاں تک اے سراپا ناز کیا کیا؟

    نوازشہائے بے جا دیکھتا ہوں
    شکایتہائے رنگیں کا گلا کیا

    نگاہِ بے محابا چاہتا ہوں
    تغافلہائے تمکیں آزما کیا

    فروغِ شعلہٴ خس یک نفس ہے
    ہوس کو پاسِ ناموسِ وفا کیا

    نفس موجِ محیطِ بیخودی ہے
    تغافلہائے ساقی کا گلا کیا

    دماغِ عطر پیراہن نہیں ہے
    غمِ آوارگیہائے صبا کیا

    دلِ ہر قطرہ ہے سازِ ’انا البحر‘
    ہم اس کے ہیں، ہمارا پوچھنا کیا

    محابا کیا ہے، مَیں ضامن، اِدھر دیکھ
    شہیدانِ نگہ کا خونبہا کیا

    سن اے غارتگرِ جنس وفا، سن
    شکستِ قیمتِ دل کی صدا کیا

    کیا کس نے جگرداری کا دعویٰ؟
    شکیبِ خاطرِ عاشق بھلا کیا

    یہ قاتل وعدہٴ صبر آزما کیوں؟
    یہ کافر فتنہٴ طاقت ربا کیا؟

    بلائے جاں ہے غالب اس کی ہر بات
    عبارت کیا، اشارت کیا، ادا کیا!

    * * * *
    </Center>
     
  21. ثناء
    Offline

    ثناء ممبر

    <center>
    افسوس کہ دنداں کا کیا ر زق فلک نے

    جن لوگوں کی تھی درخور عقدِ گہر انگشت



    کافی ہے نشانی تری، چھلے کا نہ دینا

    خالی مجھے د کھلا کے بہ و قتِ سفر انگشت



    لکھتا ہوں اسد سوزش دل سے سخنِ گرم

    تا رکھ نہ سکے کوئی مرے حرف پر انگشت

    * * * *

    </center>
     
  22. ثناء
    Offline

    ثناء ممبر

    <center>

    تو دوست کسی کا بھی، ستمگر! نہ ہوا تھا
    اوروں پہ ہے وہ ظلم کہ مجھ پر نہ ہوا تھا
    چھوڑا مہٴ نخشب کی طرح دستِ قضا نے
    خورشید ہنوز اس کے برابر نہ ہوا تھا
    توفیق بہ اندازہٴ ہمت ہے ازل سے
    آنکھوں میں ہے وہ قطرہ کہ گوہر نہ ہوا تھا
    جب تک کہ نہ دیکھا تھا قدِ یار کا عالم
    میں معتقدِ فتنہٴ محشر نہ ہوا تھا
    میں سادہ دل، آزردگیِ یار سے خوش ہوں
    یعنی سبقِ شوقِ مکرّر نہ ہوا تھا
    دریائے معاصی ُتنک آبی سے ہوا خشک
    میرا سرِ دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا
    جاری تھی اسد داغِ جگر سے مری تحصیل
    آ تشکدہ جاگیرِ سمندر نہ ہوا تھا
    * * * * *

    </center>
     
  23. ثناء
    Offline

    ثناء ممبر

    <center>
    شب کہ وہ مجلس فروزِ خلوتِ ناموس تھا
    رشتہٴ ہر شمع خارِ کسوتِ فانوس تھا
    مشہد عاشق سے کوسوں تک جو اُگتی ہے حنا
    کس قدر یا رب ہلاکِ حسرتِ پابوس تھا
    حاصلِ الفت نہ دیکھا جز شکستِ آرزو
    دل بہ دل پیوستہ،، گویا، یک لبِ افسوس تھا
    کیا کروں بیماریِ غم کی فراغت کا بیاں
    جو کہ کھایا خونِ دل، بے منتِ کیموس تھا
    * * * *

    </center>
     
  24. ثناء
    Offline

    ثناء ممبر

    <center>
    آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
    صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا
    قاصد کو اپنے ہاتھ سے گردن نہ ماریے
    اس کی خطا نہیں ہے یہ میرا قصور تھا
    * * * * *
    </center>
     
  25. خوشی
    Offline

    خوشی ممبر

    بہت خوب ثنا جی آپ بڑی لگن اور محنت سے دیوان غالب سے لکھ رہی تھیں یہاں جانے کیوں آپ نے اسے ادھورا چھوڑ دیا

    بہت شکریہ مہربانی اس شئیرنگ کی، درمیان سے کچھ غزلیں‌آپ نے چھوڑ دی ھیں ہو سکتا ھے آپکے پاس جو دیوان ہو اس میں یہی ترتیب ہو ، میں‌اب اس سے اگلی غزل لکھتی ہوں اس امید پہ کہ آپ کبھی یہاں تشریف لائیں تو آپ کو اچھا لگے گا، آپ کی چھوڑی ہوئی غزلیں‌آخر میں لکھوں گی اگر میں اتنا لکھ پائی تو
     
  26. خوشی
    Offline

    خوشی ممبر

    عرض نیاز ِعشق کے قابل نہیں رہا
    جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا

    جاتا ہوں داغ حسرت ہستی لئے ہوئے
    ہوں شمع کشتہ درخورِ محفل نہیں رہا

    مرنے کی اے دل اور ہی تدبیر کر کہ میں
    شایانِ دست و بازوئے قاتل نہیں رہا

    برروئے شش جہت دِر آئینہ باز ھے
    یاں امتیازِ ناقص و کامل نہیں رہا

    دا کر دیئے ھیں شوق نے بند ِنقابِ حسن
    غیر از نگاہ اب کوئی حائل نہیں رہا


    گو میں رہا رہینِ ستم ہائے روز گار
    لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا

    دل سے ہوائے کشت مٹ گئی کہ واں
    حاصلِ سوائے حسرت ِحاصل نہیں رہا

    بیدادِ عشق سے نہیں‌ڈرتا مگر اسد
    جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا
     
  27. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    حضرت غالب کے کلام کا سلسلہ آگے بڑھانے کے لیے میری طرف سے شکریہ قبول کیجئے۔

    ثنا جی اگر کبھی ادھر آنکلی تو انکو یقینا اچھا لگےگا۔
     
  28. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    جواب: دیوانِ غالب

    ہے بس کہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور
    کرتے ہیں مَحبّت تو گزرتا ہے گماں اور

    یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
    دے اور دل ان کو، جو نہ دے مجھ کو زباں اور

    ابرو سے ہے کیا اس نگہِ ناز کو پیوند
    ہے تیر مقرّر مگر اس کی ہے کماں اور

    تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم، جب اٹھیں گے
    لے آئیں گے بازار سے جا کر دل و جاں اور

    ہر چند سُبُک دست ہوۓ بت شکنی میں
    ہم ہیں، تو ابھی راہ میں ہیں سنگِ گراں اور

    ہے خوںِ جگر جوش میں دل کھول کے روتا
    ہوتے جو کئی دیدۂ خو نبانہ فشاں اور

    مرتا ہوں اس آواز پہ ہر چند سر اڑ جاۓ
    جلاّد کو لیکن وہ کہے جائیں کہ ’ہاں اور‘

    لوگوں کو ہے خورشیدِ جہاں تاب کا دھوکا
    ہر روز دکھاتا ہوں میں اک داغِ نہاں اور

    لیتا۔ نہ اگر دل تمھیں دیتا، کوئی دم چین
    کرتا۔جو نہ مرتا، کوئی دن آہ و فغاں اور

    پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
    رُکتی ہے مری طبع۔ تو ہوتی ہے رواں اور

    ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھّے
    کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور
     
  29. حسن رضا
    Offline

    حسن رضا ممبر

    جواب: دیوانِ غالب

    بہت زبردست شاعری ارسال کی سب نے :222:
     

Share This Page