1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

دھواں جو کچھ گھروں سے اُٹھ رہا ہے .... طارق حبیب

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏12 اکتوبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    دھواں جو کچھ گھروں سے اُٹھ رہا ہے .... طارق حبیب

    جب سے ہوش سنبھالا ہے یہی سنتے آرہے ہیں کہ پاکستان اپنے نازک ترین دور سے گزررہا ہے۔ ماضی میں ہوسکتا ہے کہ یہ صرف ایک سیاسی بیانیہ ہی ہو‘ مگرمیرے خیال میں آج پاکستان واقعی اپنے نازک ترین دور سے گزررہا ہے۔اگر جذئیات پر غور کیا جائے تو اس کی وجہ قومی سطح پر پیش آنے والے معاملات میں عوام کی جانب سے ''لاتعلقی ‘‘ کا رویہ ہے جس کا مشاہدہ کرنے کے لیے بہت زیادہ تگ و دو کی ضرورت نہیں۔ کسی بازار میں چلے جائیں‘ گلی محلے کی بیٹھک میں ہونے والی گفتگو سن لیں‘ کسی چوراہے پر کھڑے نوجوانوں کے خیالات جان لیں یا کسی بھی عوامی مقام پر کسی عام فرد سے بات کرکے دیکھ لیں‘ واضح ہوجائے گا کہ عوام کی اکثریت ملکی معاملات سے لاتعلق ہوتی جارہی ہے۔اب اگر کھوجنے کی کوشش کی جائے تو پتا چلے گا کہ یہ لاتعلقی اچانک نہیں‘ اس کے پیچھے دہائیوں پر مشتمل محرومیوں کی ایک پوری تاریخ ہے۔مرشد کہتے ہیں کہ جب حکمران کسی قوم کے شعور کو موت کے گھاٹ اتاردیں تو رویوں میں لاتعلقی پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ لاتعلقی انفرادی سطح پر ہو تو شخصیت مسخ کردیتی ہے اور اجتماعی سطح پر ہو تو معاشرے میں بگاڑ کا باعث بنتی ہے۔اس شعوری بحران کے اثرات کسی قدرتی آفت کی طرح اچانک سامنے نہیں آتے ‘ یہ گھاس میں پانی کی طرح پھیلتے ہیں اور دیمک کی طرح معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیتے ہیں۔ موجودہ وقت کو اس لیے پاکستان کا نازک ترین دور کہا جاسکتا ہے کہ لاتعلقی کا یہ رویہ من حیث القوم ہمارے اندر سرایت کرچکا ہے ۔ قومی معاملات سے عدم دلچسپی‘ ریاستی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے گریز اور اجتماعی معاملات سے بے رخی ہمارا عمومی رویہ بن چکا ہے۔ اجتماعی کے بجائے انفرادی مفاد مقدم ہوگئے ہیں اور فکرِ امنِ عالم کی جگہ اپنی ذات کے غم نے لے لی ہے۔یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے یا کی گئی ہے‘ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔؎
    کہانی آپ الجھی ہے یا الجھائی گئی ہے
    یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہوگا
    عالمی معلمینِ سیاست اس بات پر متفق ہے کہ کسی قوم کی ترقی و خوشحالی کے لیے اس قوم میں انفرادی و اجتماعی یقین اور اپنے حاکموں پر اعتماد کا ہونا ضروری ہے۔ادھر صورتحال یہ ہے کہ ہم انفرادی و اجتماعی یقین سے خالی ہوچکے ہیں۔ نظام پر بھروسہ ہے نہ نظام چلانے والوں پر۔دیکھا جائے تو یہ بداعتمادی ماضی میں بھی موجود تھی‘ مگر جس تیزی سے یہ موجودہ دور میں پھیلی اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ روایتی حکمرانوں سے تنگ عوام کو موجودہ حکمرانوں کی صورت میں امید کی کرن نظر آئی تھی ۔ حکمرانوں نے بھی انتخابی سرگرمیوں میں عوامی محرومیوں کے خاتمے کو اپنا منشور قرار دیتے ہوئے تبدیلی کا نعرہ لگایا اور نئے پاکستان کا خواب دکھایا تھا‘ مگر وقت گزرنے پر عوام کو صورتحال بد سے بدتر ہوتی محسوئی ہوئی اور یہ ظاہر ہونے لگا کہ موجودہ اور سابقہ حکمرانوں کی طرزِ حکمرانی میں کوئی بڑا فرق نہیں‘ چہرے بدلے نظر آئے مگر نظام وہی کہنہ اور بوسیدہ ہے۔غرض جو چارہ گر بن کر آئے تھے انہوں نے مرض بڑھا دیا۔
    حالات بگڑتے چلے گئے ‘وہ جو عوام کو بنیادی سہولیات دینے کے وعدے کے ساتھ آئے تھے‘ ان کے دورِ حکومت میں یہ سہولیات ناپید ہوگئیں۔ اشیائے خورونوش دیہاڑی دار مزدور ہی کی قوتِ خرید سے دور نہیں ہوئیں بلکہ اب تو متوسط طبقے کے افراد کے لیے بھی اپنی آمدنی میں گزر بسر مشکل ہو چکی ہے۔ مہنگائی کے اشاریے انتہائی بلندی پر پہنچ چکے ہیں اور قومی خودداری و عزتِ نفس کے اشاریے پستی کی جانب گامزن ہیں۔ شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے دعوے ہوا ہوگئے ہیں‘ شاہراہوں پر نہ تو مال و اسباب محفوظ ہے اور نہ ہی عصمتیں۔ بچوں سے زیادتی اور قتل کے واقعات میں خوفناک اضافہ ہو چکا ہے اور ناقص استغاثہ پر جب مجرمان رہا ہوتے ہیں لوگ خوف کے مارے گھروں میں قید ہوجاتے ہیں۔ اگرکسی بیماری کی صورت میں ہسپتال کا رخ کرنا پڑے تو علاج معالجے کی سہولیات ملنے کا یقین نہیں ہوتا‘ بچوں کی تعلیم کے حوالے سے والدین شش و پنج میں مبتلا رہتے ہیں کہ یہی شعبہ ہے جس کے لیے بجٹ سب سے کم رکھا جاتا ہے۔ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد نوجوان روزگار ملنے یا نہ ملنے کے حوالے سے فکرمند تو برسرروزگار افراد روزگار کے چھن جانے کے خوف میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ عوام کی تبدیلی کی امیدیں دم توڑتی ہوئی اور نئے پاکستان کا خواب ٹوٹتا نظر آتا ہے۔
    بطور صحافی جب مختلف عوامی فورمز‘ محافل اور اجتماعات میں جانے کا اتفاق ہوتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ اب عوامی سوچ اور فکر بھی گھر کی چار دیواری تک محدود ہوگئی ہے۔ اس قدر مہنگائی میں گھر کیسے چلانا ہے‘ بچے کیسے پالنے ہیں‘ روزگار کیسے حاصل کرنا ہے یاکیسے روزگار کو بچانا ہے‘ ایک عام آدمی کے یہی اہداف بن چکے ہیں ۔ شخصی سوچ کی حدود سمٹ کر اس کے اپنے گھر اور اہل خانہ تک محدود ہوچکی ہے اور قومی معاملات سے تیزی سے لاتعلقی پیدا ہوتی جارہی ہے۔ملک کن حالات سے گزر رہا ہے ‘ قومی اور عالمی سطح پر کن چیلنجز کا سامنا ہے اور ان چیلنجز سے من حیث القوم کیسے نمٹنا ہے‘ یہ اب عوامی تو کیا ہمارے ادبی فورمز کے موضوعات بھی نہیں رہے۔ اپوزیشن کے جلسے کامیاب ہوتے ہیں یا حکومت اپوزیشن رہنمائوں کو گرفتار کرتی ہے ‘یہ اب عوامی دلچسپی کے موضوعات ہی نہیں رہے۔ اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو کہ اب تو عوام کو اس سے بھی غرض نہیں رہی کہ ان پر حکمرانی کون کررہا ہے یا مستقبل میں کون کرے گا۔لاتعلقی کا زہر تیزی سے پھیلتا جارہا ہے۔؎
    دھواں جو کچھ گھروں سے اُٹھ رہا ہے
    نہ پورے شہر پر چھائے تو کہنا
    یہ لاتعلقی حکومت اور عوام کے کمزور تعلق کا شاخسانہ ہوتی ہے ‘جس سے ریاستی امور بھی متاثر ہوتے ہیں۔عوام اور ریاست کا تعلق مضبوط ہو تو ایک قوم سامنے آتی ہے‘اس تعلق کی تشریح بہتر طور پر عمرانی معاہدے کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔ ویسے تو عمرانی معاہدے کو سمجھنا ہو تو فرانسیسی فلاسفر ژوک روسو کی کتاب'' سوشل کنٹریکٹ‘‘ سے رجوع کیا جاتا ہے‘ البتہ سادہ الفاظ میں یہ معاہدہ ریاست اور عوام کے درمیان ہوتا ہے‘ عوام اپنے کچھ اختیارات سے دستبردار ہوکر ایک اجتماعی نظام کو قبول کرتے ہیں اور بدلے میں ریاست عوام کو جان و مال و عزت کے تحفظ ‘ صحت و تعلیم و دیگر اشیائے ضروریہ کی فراہمی ‘ تنازعات کی صورت میں سستے و فوری انصاف کی دستیابی کے ساتھ ساتھ آزادیٔ اظہار جیسے بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کی یقین دہانی کراتی ہے۔ریاست کی جانب سے شہریوں کو حقوق فراہم کرنا حکمرانوں کی ذمہ داری ہوتی ہے تاکہ عوام اور ریاست کاتعلق مضبوط ترین بنایا جاسکے۔ جب ایسے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں جن سے عوام کے بنیادی حقوق پر چوٹ لگتی ہے تو حکمران ریاستی نمائندے ہونے کی دلیل کھو بیٹھتے ہیں۔پھر اگر کوئی حکومت روسو کے عمرانی معاہدے کی جگہ اپنے کسی نئے ''عمرانی معاہدے‘‘ سے حکومت چلانا چاہے اور اس میں عوامی حقوق کو نظر انداز کرکے حکومت کرنا چاہے تو پھر عوام یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ؎
    نئے کردار آتے جارہے ہیں
    مگرناٹک پرانا چل رہا ہے

     

اس صفحے کو مشتہر کریں